حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اپنی جماعت کی عملی حالت کے بارے میں فکر (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۷؍فروری۲۰۱۴ء)
مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اپنی جماعت کی عملی حالت کے بارے میں فکر کے حوالے سے آپ علیہ السلام کے بعض حوالے پیش کروں گا۔ اس سے پہلے کہ میں آپ کی نصائح اور توقعات بیان کروں، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپؑ کی سیرت میں جو ایک واقعہ درج فرمایا ہے، وہ بیان کروں گا۔ اللہ تعالیٰ کا جماعت احمدیہ پر یہ بھی فضل اور احسان ہے کہ جب خلیفۂ وقت کی کسی مضمون کی طرف توجہ ہوتی ہے تو وہ اگر اصلاحی پہلو ہے تو جماعت کا بڑا حصہ اصلاح کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور اس کا اندازہ مجھے خطوط سے بھی ہو رہا ہے اور پھر بعض مددگار جو اللہ تعالیٰ نے خلافت کو عطا فرمائے ہوئے ہیں، وہ بھی اپنی یادداشت کے مطابق بعض حوالے نکال کر بھیج دیتے ہیں۔ چاہے یہ حوالے پہلے پڑھے ہوں لیکن نظر سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ تو سیرت کا جو حوالہ ہے جب مَیں پڑھوں گا تواس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی فکر کا اظہار فرمایا ہے۔ یہ بھی ہمارے ایک مربی صاحب نے مجھے بھیجا کہ آپ خطبات میں عملی اصلاح کی اہمیت کے بارے میں بتا رہے ہیں، تو ایک حوالہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی پیش ہے جو اس فکر کا اظہار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی جزا دے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا یہ حوالہ جو سیرت میں بیان کیا گیا ہے یوں ہے کہ ’’بیان کیا مجھ سے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے کہ ایک دفعہ کسی کام کے متعلق میر صاحب یعنی میر ناصر نواب صاحب کے ساتھ مولوی محمد علی صاحب کا اختلاف ہو گیا۔ میر صاحب نے ناراض ہو کر اندر حضرت صاحب کو جا اطلاع دی (کہ اس طرح اختلاف ہو گیا، غصے کا اظہار کیا۔) مولوی محمد علی صاحب کو اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے حضرت صاحب(یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) سے عرض کیا کہ ہم لوگ یہاں حضور کی خاطر آئے ہیں کہ تا حضور کی خدمت میں رہ کر کوئی خدمتِ دین کا موقع مل سکے۔ لیکن اگر حضور تک ہماری شکایتیں اس طرح پہنچیں گی تو حضور بھی انسان ہیں، ممکن ہے کسی وقت حضور کے دل میں ہماری طرف سے کوئی بات پیدا ہو تو اس صورت میں ہمیں بجائے قادیان آنے کا فائدہ ہونے کے اُلٹا نقصان ہو جائے گا۔ حضرت صاحبؑ نے فرمایا کہ میر صاحب نے مجھ سے کچھ کہا تو تھا مگر مَیں اُس وقت اپنے فکروں میں اتنا محو تھا کہ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے معلوم نہیں کہ میر صاحب نے کیا کہا اور کیا نہیں کہا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ چند دن سے ایک خیال میرے دماغ میں اس زور کے ساتھ پیدا ہو رہا ہے کہ اس نے دوسری باتوں سے مجھے بالکل محو کر دیا ہے۔ (یہ بڑے غور سے سننے والی بات ہے) بس ہر وقت اُٹھتے بیٹھتے وہی خیال میرے سامنے رہتا ہے۔ میں باہر لوگوں میں بیٹھا ہوتا ہوں اور کوئی شخص مجھ سے کوئی بات کرتا ہے تو اُس وقت بھی میرے دماغ میں وہی خیال چکر لگا رہا ہوتا ہے۔ وہ شخص سمجھتا ہو گا کہ میں اُس کی بات سن رہا ہوں مگر میں اپنے اس خیال میں محو ہوتا ہوں۔ جب میں گھر جاتا ہوں تو وہاں بھی وہی خیال میرے ساتھ ہوتا ہے۔ غرض ان دنوں یہ خیال اس زور کے ساتھ میرے دماغ پر غلبہ پائے ہوئے ہے کہ کسی اور خیال کی گنجائش نہیں رہی۔ وہ خیال کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ(میرے آنے کی اصل غرض کیا ہے؟) میرے آنے کی اصل غرض یہ ہے کہ ایک ایسی جماعت تیار ہو جاوے جو سچی مومن ہو اور خدا پر حقیقی ایمان لائے اور اُس کے ساتھ حقیقی تعلق رکھے اور اسلام کو اپنا شعار بنائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ پر کاربند ہو اور اصلاح و تقویٰ کے رستے پر چلے اور اخلاق کا اعلیٰ نمونہ قائم کرے، تا پھر ایسی جماعت کے ذریعہ دنیا ہدایت پاوے اور خدا کا منشاء پورا ہو۔ پس اگر یہ غرض پوری نہیں ہوتی تو اگر دلائل و براہین سے ہم نے دشمن پر غلبہ بھی پا لیا اور اُس کو پوری طرح زیر بھی کر لیا (یعنی فتح کر لیا) تو پھر بھی ہماری فتح کوئی فتح نہیں۔ کیونکہ اگر ہماری بعثت کی اصل غرض پوری نہ ہوئی تو گویا ہمارا سارا کام رائیگاں گیا۔ مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ دلائل اور براہین کی فتح کے تو نمایاں طور پر نشانات ظاہر ہو رہے ہیں اور دشمن بھی اپنی کمزوری محسوس کرنے لگا ہے لیکن جو ہماری بعثت کی اصل غرض ہے، اس کے متعلق ابھی تک جماعت میں بہت کمی ہے اور بڑی توجہ کی ضرورت ہے۔ پس یہ خیال ہے جو مجھے آج کل کھا رہا ہے اور یہ اس قدر غالب ہو رہا ہے کہ کسی وقت بھی مجھے نہیں چھوڑتا۔‘‘ (سیرت المہدی مرتبہ حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ جلد 1 حصہ اول صفحہ 235-236 روایت نمبر 258)
پس یہ درد ہے جس نے آپؑ کو بے چین کر دیا تھا۔ مختلف وقتوں میں آپ نے جماعت کو نصائح فرمائیں کہ احمدی کو کیسا ہونا چاہئے۔ دوسری کتابوں کے علاوہ ملفوظات جو آپ کی مجالس کی مختصراً رپورٹس ہوتی تھیں، تفصیلی نہیں، اُس کی بھی دس جلدیں ہیں۔ اور ان دسوں میں سے کسی جلد کو بھی آپ لے لیں، اس میں آپؑ نے جماعت سے توقعات اور جماعت کو نصائح، عملی حالتوں کی تبدیلی کا یہ مضمون مختلف حوالوں اور مختلف زاویوں سے ہر جگہ، ہر مجلس میں بیان فرمایا ہوا ہے۔ ان میں سے چند ایک اس وقت میں پیش کرتا ہوں۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ’’جماعت کے باہم اتفاق و محبت پر میں پہلے بہت دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تم باہم اتفاق رکھو اور اجتماع کرو۔ خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہی تعلیم دی تھی کہ تم وجودِ و احد رکھوورنہ ہوا نکل جائے گی۔ نماز میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہونے کا حکم اسی لیے ہے کہ باہم اتحاد ہو۔ برقی طاقت کی طرح ایک کی خیر دوسرے میں سرایت کرے گی۔ اگر اختلاف ہو، اتحادنہ ہو تو پھر بے نصیب رہو گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لیے غائبانہ دُعا کرو‘‘۔ (اب ہمیں یہ دیکھنے کی، جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کتنے ہیں جو ایک دوسرے کے لئے غائبانہ دعا کرتے ہیں ) ’’اگر ایک شخص غائبانہ دعا کرے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تیرے لیے بھی ایسا ہی ہو۔ کیسی اعلیٰ درجہ کی بات ہے۔ اگر انسان کی دعا منظور نہ ہوتو فرشتہ کی تو منظور ہوتی ہے۔ مَیں نصیحت کرتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ آپس میں اختلاف نہ ہو۔‘‘
فرمایا: ’’مَیں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں۔ اول خدا کی توحید اختیار کرو۔ دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو۔ وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیروں کے لیے کرامت ہو۔ یہی دلیل تھی جو صحابہ میں پیدا ہوئی تھی۔ کُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ (آل عمران: 104) یاد رکھو! تالیف ایک اعجاز ہے۔ یاد رکھو! جب تک تم میں ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کرے، وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ وہ مصیبت اور بلا میں ہے۔ اس کا انجام اچھا نہیں۔ …‘‘ (ملفوظات جلد ۱ صفحہ۳۳۶۔ ایڈیشن۲۰۰۳ء)
پھر آپؑ فرماتے ہیں:’’…یاد رکھو بُغض کا جدا ہونا مہدی کی علامت ہے اور کیا وہ علامت پوری نہ ہو گی۔ وہ ضرور ہو گی۔ تم کیوں صبر نہیں کرتے۔ جیسے طبّی مسئلہ ہے کہ جب تک بعض امراض میں قلع قمع نہ کیا جاوے، مرض دفع نہیں ہوتا۔ میرے وجود سے انشاء اللہ ایک صالح جماعت پیداہو گی۔ باہمی عداوت کا سبب کیا ہے؟ بخل ہے، رعونت ہے، خود پسندی ہے اور جذبات ہیں۔ …ایسے تمام لوگوں کو جماعت سے الگ کر دوں گا جو اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکتے اور باہم محبت اور اخوت سے نہیں رہ سکتے۔ جو ایسے ہیں وہ یاد رکھیں کہ وہ چند روزہ مہمان ہیں۔ جب تک کہ عمدہ نمونہ نہ دکھائیں۔ میں کسی کے سبب سے اپنے اُوپر اعتراض لینا نہیں چاہتا۔ ایسا شخص جو میری جماعت میں ہو کر میرے منشاء کے موافق نہ ہو، وہ خشک ٹہنی ہے۔ اُس کو اگر باغبان کاٹے نہیں تو کیا کرے۔ خشک ٹہنی دوسری سبز شاخ کے ساتھ رہ کر پانی تو چوستی ہے مگر وہ اُس کو سر سبز نہیں کر سکتا بلکہ وہ شاخ دوسری کو بھی لے بیٹھتی ہے۔ پس ڈرو میرے ساتھ وہ نہ رہے گا جو اپنا علاج نہ کرے گا۔‘‘(ملفوظات جلد 1صفحہ 336۔ ایڈیشن 2003ء)
یہ حوالہ ہم پہلے بھی کئی دفعہ سنتے ہیں، پڑھتے ہیں لیکن اُس حوالے کے ساتھ ملا کر دیکھیں جس میں آپ نے درد کا اظہار کیا ہے کہ کئی دن سے مجھے اور کسی چیز کا ہوش ہی نہیں سوائے اس بات کے کہ جماعت کی عملی اصلاح ہو جائے، تو پھر ایک خاص فکر پیدا ہوتی ہے۔