شیطانی راہوں کو ا ختیار مت کرو کہ شیطان تمہارا دشمن ہے
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً ۪ وَلَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ۔…اے ایمان والو! خدا کی راہ میں اپنی گردن ڈال دو اور شیطانی راہوں کو ا ختیار مت کرو کہ شیطان تمہارا دشمن ہے۔ اس جگہ شیطان سے مراد وہی لوگ ہیں جو بدی کی تعلیم دیتے ہیں۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۴۱۶)
اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰٮہَا (الشمس:۱۰)یعنے جو شخص باطل خیالات اور باطلِ نیّات اور باطل اعمال اور باطل عقائد سے اپنے نفس کو پاک کرلیوے وہ شیطان کے بند سے رہائی پا جائے گا اور آخرت میں عقوبات اخروی سے رستگار ہوگا اور شیطان اس پر غالب نہیں آ سکے گا۔ ایسا ہی ایک دوسری جگہ فرماتا ہے۔ اِنَّ عِبَادِیۡ لَیۡسَ لَکَ عَلَیۡہِمۡ سُلۡطٰنٌ (الحجر:۴۳)یعنے اے شیطان! میرے بندے جو ہیں جنہوں نے میری مرضی کی راہوں پر قدم مارا ہے ان پر تیرا تسلط نہیں ہو سکتا۔ سو جب تک انسان تمام کجیوں اور نالائق خیالات اور بے ہودہ طریقوں کو چھوڑ کر صرف آستانہ الٰہی پر گرا ہوا نہ ہو جائے تب تک وہ شیطان کی کسی عادت سے مناسبت رکھتا ہے اور شیطان مناسبت کی وجہ سے اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس پر دوڑتا ہے۔ اور جب کہ یہ حالت ہے تو میں الٰہی قانون قدرت کے مخالف کون سی تدبیر کر سکتا ہوں کہ کسی سے شیطان اس کے خواب میں دور رہے۔جو شخص ان راہوں پر چلے گا جو رحمانی راہیں ہیں خود شیطان اس سے دُور رہے گا۔
(آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد۵صفحہ ۳۵۴)
جو شخص جس کے قریب ہے اُسی کی آواز سنتا ہے پس جو شیطان کے قریب ہے وہ شیطان کی آواز سنتا ہے اور جو خدا سے قریب ہے وہ خدا کی آواز سنتا ہے اور انتہائی کوشش انسان کی تزکیۂ نفس ہے اور اُس پر تمام سلوک ختم ہو جاتا ہے اور دوسرے لفظوں میں یہ ایک موت ہے جو تمام اندرونی آلائشوں کو جلا دیتی ہے۔ پھر جب انسان اپنا سلوک ختم کر چکتا ہے تو تصرفات الٰہیہ کی نوبت آتی ہے تب خدا اپنے اس بندہ کو جو سلب جذبات نفسانیہ سے فنا کے درجہ تک پہنچ چکا ہے۔ معرفت اور محبت کی زندگی سے دوبارہ زندہ کرتا ہے اور اپنے فوق العادت نشانوں سے عجائبات روحانیہ کی اُس کو سیر کراتا ہے اور محبت ذاتیہ کی وراء الوراء کشش اُس کے دل میں بھر دیتا ہے جس کو دنیا سمجھ نہیں سکتی اِس حالت میں کہا جاتا ہے کہ اُس کو نئی حیات مل گئی جس کے بعد موت نہیں۔
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۵۳۵)