متفرق مضامین

تکبر…ایک ہلاک کرنے والی بیماری (حصہ اول)

(صفیہ چیمہ۔ جرمنی)

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: وَالَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَاسۡتَکۡبَرُوۡا عَنۡہَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ۔(الاعراف:۳۷)اور وہ لوگ جنہوں نے ہمارے نشانات کو جھٹلا دیا اور ان سے تکبر سے پیش آئے یہی وہ لوگ ہیں جو آگ والے ہیں۔ وہ اس میں لمبا عرصہ رہنے والے ہیں۔

پھر فرمایا: اِنَّ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَاسۡتَکۡبَرُوۡا عَنۡہَا لَا تُفَتَّحُ لَہُمۡ اَبۡوَابُ السَّمَآءِ وَلَا یَدۡخُلُوۡنَ الۡجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الۡجَمَلُ فِیۡ سَمِّ الۡخِیَاطِؕ وَکَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُجۡرِمِیۡنَ۔ (الاعراف:۴۱) یقیناً وہ لوگ جنہوں نے ہمارے نشانات کو جھٹلایا اور ان سے استکبار کیا ان کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہو جائے۔ اور اسی طرح ہم مجرموں کو جزا دیا کرتے ہیں۔

اسی طرح حدیث نبویؐ میں ہے:عَنِ عبداللّٰہ بن مَسْعُوْدٍؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: لَا یَدْخُلُ النَّا رَ اَحَدٌ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ حَبَّۃِ خَرْدَلٍ مِّنْ اِیْمَانٍ وَّلَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ اَحَدٌ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ حَبَّۃِ خَرْدَلٍ مِنْ کِبْرِیَاءَ (رواہ مسلم)ترجمہ: حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: آگ میں وہ شخص داخل نہیں ہوگا جس کے دِل میں رائی کے دانہ کی مانند ایمان ہے اور جنّت میں وہ شخص داخل نہیں ہوگا جس کے دِل میں رائی کے دانہ کی مانند تکبّر ہے۔

عَنِ عبداللّٰہ بن مَسْعُوْدٍؓ عَنِ النبی ﷺ: قال، لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّ ۃٍ مِّنْ کِبْرٍ۔ فَقَالَ رَجُلٌ : اِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ ااَنْ یَّکُوْنَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَنَعْلُہٗ حَسَنَۃً۔ قَالَ : اِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ۔ (رواہ مسلم)ترجمہ :حضرت ابن مسعودؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جنّت میں وہ شخص داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رتی بھر بھی تکبّر ہے۔ ایک آدمی نے کہا: اَے اللہ کے رسولﷺ! ایک شخص اس بات کو پسند رکھتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اس کی جوتی اچھی ہو۔ فرمایا:اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ تکبّر حق کو باطِل کرنا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی صفات عالیہ میں ’’جمیل‘‘ کی جس صفت کا ذکر ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات نے بے انتہا خوبصورت دنیا بنا کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ جمیل ہے اورجمال کو پسند کرتا ہے۔ اچھا پہننا، اوڑھنا،اچھاکھانا پینا، خدا کی عطا کردہ لاکھوںنعمتوں سے لذت اٹھانا، خدا کو پسندہے۔ لیکن ان سب کے ساتھ اگر نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی بجائے ان پر تکبر، شیخی اوربڑائی کا اظہار کرتے ہوئے دوسروں کو کم تر جانا جائے تو یہ خدا کو ناپسند ہے۔

تکبر کیا ہے؟خود کو سب سے بہتر سمجھ لینا،دوسروں کے سامنے اپنے آپ کو بڑا ثابت کرنے کا تکبر، دوسروں کے کام آنے کا تکبر،نیکی کا تکبر، وسائل فراہم کرنے کا تکبر، یہ ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کو کسی قابل نہیں چھوڑتی۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبّر ہمارے خدا وند ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے مگر تم شاید نہیں سمجھو گے کہ تکبّر کیا چیز ہے۔ پس مجھ سے سمجھ لو کہ مَیں خدا کی روح سے بولتا ہوں۔ ہر ایک شخص جو اپنے بھائی کو اس لئے حقیر جانتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ عالم یا زیادہ عقلمند یا زیادہ ہنر مند ہے وہ متکبر ہے کیونکہ وہ خدا کو سرچشمہ عقل اور علم کا نہیں سمجھتا اور اپنے تئیں کچھ چیز قرار دیتا ہے۔ کیا خدا قادر نہیں کہ اُس کو دیوانہ کر دے اور اس کے اس بھائی کو جس کو وہ چھوٹا سمجھتا ہے اس سے بہتر عقل اور علم اور ہنر دے دے۔ ایسا ہی وہ شخص جو اپنے کسی مال یا جاہ و حشمت کا تصوّر کر کے اپنے بھائی کو حقیر سمجھتا ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ وہ اس بات کو بھول گیا کہ یہ جاہ و حشمت خدا نے ہی اس کو دی تھی اور وہ اندھا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ وہ خدا قادر ہے کہ اس پر ایک ایسی گردش نازل کرے کہ وہ ایک دم میں اسفل السّافلین میں جا پڑے اور اس کے اس بھائی کو جس کو وہ حقیر سمجھتا ہے اس سے بہتر مال و دولت عطا کر دے۔ ایسا ہی وہ شخص جو اپنی صحت بدنی پر غرور کرتا ہے یا اپنے حسن اور جمال اور قوت اور طاقت پر نازاں ہے اور اپنے بھائی کا ٹھٹھے اور استہزا سے حقارت آمیز نام رکھتا ہے اور اس کے بدنی عیوب لوگوں کو سناتا ہے وہ بھی متکبر ہے۔ اور وہ اس خدا سے بے خبر ہے کہ ایک دم میں اس پر ایسے بدنی عیوب نازل کرے کہ اس بھائی سے اس کو بد تر کر دے اوروہ جس کی تحقیر کی گئی ہے ایک مدّت دراز تک اس کے قویٰ میں برکت دے کہ وہ کم نہ ہوں اور نہ باطل ہوں کیونکہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ ایسا ہی وہ شخص بھی جو اپنی طاقتوں پر بھروسہ کر کے دعا مانگنے میں سست ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ قوتوں اور قدرتوں کے سرچشمہ کو اس نے شناخت نہیں کیا اور اپنے تئیں کچھ چیز سمجھا ہے۔ سو تم اے عزیزو! ان تمام باتوں کو یادرکھو ایسا نہ ہو کہ تم کسی پہلو سے خدا تعالیٰ کی نظر میں متکبر ٹھہر جاؤ اور تم کو خبر نہ ہو۔ ایک شخص جو اپنے ایک بھائی کے ایک غلط لفظ کی تکبّر کے ساتھ تصحیح کرتا ہے ا س نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔ ایک شخص جو اپنے بھائی کی بات کو تواضع سے سننا نہیں چاہتا اور منہ پھیر لیتا ہے اُس نے بھی تکبّر سے حصہ لیا ہے۔ ایک غریب بھائی جو اس کے پاس بیٹھا ہے اور وہ کراہت کرتا ہے ا س نے بھی تکبّر سے حصہ لیا ہے۔ایک شخص جو دعا کرنے والے کو ٹھٹھے اور ہنسی سے دیکھتا ہے اس نے بھی تکبّر سے حصہ لیا ہے۔ اور وہ جو خدا کے مامور اورمرسل کی پورے طور پر اطاعت کرنا نہیں چاہتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔ اور وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اس نے بھی تکبّر سے ایک حصہ لیا ہے۔ سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبّر کا تم میں نہ ہو تاکہ ہلاک نہ ہو جائو اور تاتم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ۔ خدا کی طرف جھکو اور جس قدر دنیا میں کسی سے محبت ممکن ہے تم اس سے کرو اور جس قدر دنیا میں کسی سے انسان ڈر سکتا ہے تم اپنے خدا سے ڈرو۔ پاک دل ہو جاؤ اور پاک ارادہ اور غریب اور مسکین اور بےشر۔ تا تم پر رحم ہو۔‘‘ (نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ ۴۰۲-۴۰۳)

(باقی آئندہ بدھ کو ان شاءاللہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button