خلافتِ احمدیہ اور افرادِ جماعت مثلِ یک وجود
‘‘جیسا کہ میں نے کہا جو جماعت کو خلافت سے تعلق ہے اور خلیفۂ وقت کو جماعت سے ہے یہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات و نصرت کا ثبوت ہے اور یہ صرف باتیں نہیں ہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں ایسے واقعات ہیں جہاں افرادِ جماعت اس بات کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر ان واقعات کو جمع کیا جائے تو بے شمار ضخیم جلدیں اس کی بن جائیں گی’’(حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ)
مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَمِنۡھمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ (الاحزاب:۲٤)ترجمہ:مومنوں میں ایسے مرد ہیں جنہوں نے جس بات پر اللہ سے عہد کیا تھا اُسے سچا کر دکھایا۔ پس اُن میں سے وہ بھی ہے جس نے اپنی مَنّت کو پورا کر دیا اور ان میں سے وہ بھی ہے جو ابھی انتظار کر رہا ہے۔
ا س آیت میں آنحضرتﷺ کے جاںنثار صحابہؓ کا ذکر ہے کہ جنہوں نے محبتِ رسولﷺ میں جانوں اور مالوں کوقربان کر کے اپنےکیے گئے عہدوں پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔ان صحابہؓ میں زید بن دثِنہ اور خبیب بن عدی رضی اللہ عنہمابھی تھے جنہوں نے زندگی جیسی قیمتی شے کی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے موت کو یہ کہہ کر گلے لگایا کہ خدا کی قسم ہمیں یہ بھی گوارا نہیں کہ ہمارے آقا آنحضرتﷺ کے مبارک پیر میں ایک کانٹا بھی چبھے اورہم اپنے گھر میں بیٹھے رہیں۔ان جاںنثاروں میں طلحہؓ بھی تھے جنہوں نے اُحد کے روز اپنا ہاتھ تو ہمیشہ ہمیش کے لیے گنوانا قبول کر لیا لیکن اس ہاتھ کے عقب میں اپنے محبوب رسولِ خداﷺکےوجودِ مبارک پرگزند نہ آنے دی۔معاذ اور معوذ نامی وہ دو نوعمربچے بھی تھے جوبدر کے روز یہ تہیہ کر کے نکلے کہ آج اُس شخص کا ضرور کام تمام کریں گے جو ہمارے آقا ؐکو گالیا ں دیتا ہے اور پھر اپنے ارادے کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔اِن عشاق میں وہ شیردل انصاری عورت بھی ہے جس کے صبرو ایثار اور محبت و وفا پر اپنے تو کیا غیر بھی انگشت بدنداں ہیں کہ خاوند،بھائی اور باپ تینوں کی شہادت کی کچھ پروا نہیں اگرفکر ہے تو یہ کہ کیا میرے آقا محمدمصطفیﷺ خیریت سے ہیں؟
للّہی محبت وعشق کے یہ قصے محض قرنِ اول تک ہی محدودنہیں بلکہ قرنِ آخر یعنی موجودہ زمانے کے متعلق سردارِ دو جہاں حضرت خاتم النبیین محمد مصطفیٰﷺنےمَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي(سنن ترمذی، كتاب الإيمان، باب مَا جَاءَ فِي افْتِرَاقِ هَذِهِ الأُمَّةِ) کے الفاظ میں یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ اُس آخری زمانے میں فرقہ ناجیہ کی ایک شناخت یہ بھی ہو گی کہ وہ موعود مسیح اور اس کی جماعت میرے اور میرے اصحابؓ کا طرزِ عمل اختیار کیے ہو گی۔یعنی وہی طرزِ عمل جس کے متعلق آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا کہ تمہارے بہترین امام وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کريں۔( مسلم، كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب الصفات التي يعرف بها في الدنيا أهل الجنة وأهل النار)
چنانچہ تاریخ کے اوراق میں محفوظ مسیح موعودؑ کی اپنی جماعت سے محبت اورصحابہ کرامؓ کےمسیح موعودؑ سےعشق کے حیرت انگیز نمونے اس بات پر گوا ہ ہیں کہ آنحضرتﷺ کی آج سے چودہ سو سال قبل مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي کے الفاظ میں بیان فرمودہ پیشگوئی اس زمانے میں بڑی شان سے پوری ہوئی اور ہو رہی ہے اور جماعتِ احمدیہ ہی امّتِ مسلمہ میں فرقہ ناجیہ ہے کیونکہ للّہی محبت کے یہ دوطرفہ نظارے آج صرف جماعتِِ احمدیہ میں ہی پائے جاتے ہیں۔
خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو یہ بشارت دی تھی کہ’’اَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّی‘‘(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد۱صفحہ۲٦۷) یعنی میں تیری محبت لوگوں کے دلوں میں ڈالوں گا۔
سیدناحضرت اقدس مسیح موعودؑ ایسی ہی محبت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی تصنیف لطیف حقیقۃالوحی میں تحریر فرماتے ہیں:’’ ہزار ہا انسان خدا نے ایسے پیدا کئے کہ جن کے دلوں میں اُس نے میری محبت بھر دی بعض نے میرے لئے جان دے دی اور بعض نے اپنی مالی تباہی میرے لئے منظور کی اور بعض میرے لئے اپنے وطنوں سے نکالے گئے اور دُکھ دئیے گئے اور ستائے گئے اور ہزار ہاایسے ہیں کہ وہ اپنے نفس کی حاجات پر مجھے مقدّم رکھ کر اپنے عزیز مال میرے آگے رکھتے ہیں۔ اور میں دیکھتا ہوں کہ اُن کے دل محبت سے پُر ہیں اور بہتیرے ایسے ہیں کہ اگر میں کہوں کہ وہ اپنے مالوں سے بکلّی دست بردارہو جائیں یا اپنی جانوں کو میرے لئے فدا کریں تو وہ تیار ہیں۔‘‘(حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد۲۲صفحہ۲۳۹-۲٤۰)
حضرت مسیح موعودؑ نے جماعت کوخلافت کی خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’میں جب جاؤں گا تو پھر خدااُ س دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔‘‘(الوصیت، روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۳۰٥)
آج خداتعالیٰ کے فضل سے ہم اپنی زندگیوں میں اُس دوسری قدرت کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو اِس رنگ میں بھی ہمیشہ ہمارے ساتھ ہے کہ خلیفۃ المسیح کا وجود ساری جماعت کے لیے ہر وقت دعاگو رہتا ہے۔ جو ہر دکھ درد میں افرادِ جماعت کا سہارا بنتا ہے اور ہر خوشی میں ان کے ساتھ برابر کا شریک ہوتا ہے۔ خلیفۃ المسیح کا وجود احبابِ جماعت کے لیے ایک رؤف و رحیم اور شفیق باپ کی طرح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلفائے کرام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام بارہا فرما چکے ہیں کہ خلافت اور جماعت در اصل ایک ہی چیز کے دونام ہیں۔
ان لاتعداد وفادارانِ خلافت کی ان گنت داستانوں میں سے چند کا ذکر پیش ہے جو اس بات کی غماز ہیں کہ چونکہ محبت کبھی بھی یکطرفہ پروان نہیں چڑھ سکتی اس لیے یقیناً اور یقیناً ان عشاقانِ خلافت کا معشوق آقا یعنی حضرت خلیفۃ المسیح بھی ان محبت کرنے والوں سے نا قابلِ بیان پیار کا تعلق رکھتے ہیں۔
حضرت ام المومنین امّاں جانؓ کے دل میں خلافت کے لیے حد درجہ عقیدت اور ادب و احترام تھا۔ایک مرتبہ آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کو کہلا بھیجا کہ خدا تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے میں چاہتی ہوں کہ آپ کا کوئی کام کروں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓنے ایک طالب علم کی پھٹی پرانی رضائی مرمت کے لیے بھجوادی۔ آپؓ نے نہایت بشاشتِ قلبی سے اس میلی رضائی کی مرمت اپنے ہاتھ سے کی اور اسے درست کرکے واپس بھجوا دیا۔ ( تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد دوم صفحہ ۳۱۲)
۱۹۱۰ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ جب گھوڑے سے گرے تو اس موقع پر مخلصینِ جماعت نے جس فدائیت کا اظہار کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔کچھ ہی دیرمیں دیوانہ وار مرد و خواتین حضورؓ کے گھر پریشانی کے عالم میں پہنچ گئے اور ایک اژدہام ہو گیا۔آپ نے عورتوں کو یہ پیغام دیاکہ ان سے کہہ دو کہ میں اچھا ہوں، گھبراتا نہیں اور نہ میرا دل ڈرتا ہے۔وہ سب اپنے گھروں کو چلی جائیں اپنا نام لکھوا دیں میں ان کے لئے دعاکروں گا۔ (الحکم۲۸؍نومبر۱۹۱۰ء صفحہ۱۸،۱۷)
اُس موقع پرخلوص و محبت کا یہ اظہار دعاؤں میں بھی نظر آیا ایک صحابیؓ نے بارگاہِ الٰہی میں یوں دعا کی کہ ہمارے امام کو نوحؑ کی عمر عطا فرما دے۔ایک اور دوست نےجذبۂعشق میں سرشار بے اختیاری کی کیفیت میں یہ دعا بھی کر دی کہ خدایا حضرت صاحبؓ کی بیماری مجھ کو آ جائے۔(اخبارالبدر۱٦؍فروری ۱۹۱۱ءصفحہ۲کالم۱)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی بیماری کے ان ایام میں خلافت سے محبت کے جذبات کو حضرت قاضی ظہورالدین صاحب اکملؓ نےاپنے ایک شعر میں یوں بیان کیا:
مسیحا جس قدراخلاص ہے تیرے مریدوں میں
یہ پیدا ہوناممکن ہی نہیں ہے زرخریدوں میں
(اخباربدر۲؍مارچ۱۹۱۱ء)
خلافتِ ثانیہ میں حضرت مصلح موعودؓنےجلسہ سالانہ ۱۹۲۷ء کے موقع پر سیرۃ النبیﷺ کے جلسوں کے انعقاد کی تحریک فرمائی۔۱۷جون ۱۹۲۸ء کو ہندوستان بھر میں ان جلسوں کا انعقاد ہوا۔ڈاکٹر سیّد شفیع احمد صاحب محقق دہلوی ان دنوں کسی کام سے کراچی آئے ہوئے تھے اور کراچی کے جلسہ میں شامل ہونا چاہتے تھے لیکن ۱۷؍جون کو ہی واپسی کی سیٹ تھی۔اپنے امام سے لیکچردینے کا وعدہ وفا کرنے کا یہ نرالا طریق اختیارکیا کہ آپ نے ٹرین میں ہی اپنی سیٹ پر کھڑے ہو کر سیرۃ النبیﷺ پرلیکچر دینا شروع کر دیا۔جب بھی اگلا اسٹیشن آتا،ٹرین رکتی توآپ اگلے ڈبے میں سوار ہو کر لیکچر دینا شروع کر دیتے یوں آپ نے سات ڈبوں میں اپنے امام کے حکم کی اطاعت میں یہ لیکچر دیا اور ہر لیکچر کی ابتدا میں بتاتے کہ میرے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے حکم سے ہندوستان بھر میں آج لیکچر ہو رہے ہیں اور چونکہ میں کسی جلسہ میں شرکت نہیں کر سکا اس لیے اپنے گناہ کا کفارہ آپ صاحبان کی خدمت میں پیش کرنے کے واسطے کھڑا ہوا ہوں۔یوں آپ نے آٹھ سو سے زیادہ افراد کو اپنے امام کا پیغام پہنچایا۔ (الفضل ٦؍ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۷)
عشق و اطاعت کے جذبے سے لبریز ایک باپ اور بیٹے کی خلافت سے محبت کا ذکر کچھ اس طرح ہے کہ خلافتِ ثانیہ کا عہد شروع ہونے کے کچھ عرصہ بعد ہی حضرت مصلح موعودؓنے حضرت چودھری نصراللہ خان صاحبؓ سے فرمایا کہ آپ دین کی خدمت کے لیے کب وقف کریں گے ؟تو انہوں نے جواب دیا کہ جب حضور ارشاد فرمائیں میں حاضر ہوں۔چنانچہ آپ نے اپنی کامیاب وکالت کو کلیۃً ترک کر کے۱۹۱۷ء میں مستقل قادیان رہائش اختیار کر لی۔ (اصحابِ احمد جلد۱۱صفحہ۷۳)
خلافت کے اس مطیع و فرمانبردار باپ کا بیٹا بھی عشقِ خلافت میں اپنے باپ سے کچھ کم نہ تھا۔۱۹٥۳ء میں احراریوں کی ملک گیرایجی ٹیشن کی وجہ سے حالات نازک تھے اور خبر گرم تھی کہ ربوہ میں نہ صرف تمام چیدہ چیدہ افرادبلکہ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کو بھی گرفتار کر نے کی مذموم کوشش کی جائے گی۔ اُس زمانے میں حضرت چودھری ظفراللہ خان صا حبؓ وزیرِ خارجہ تھے۔آپؓ نے ایک دوست کے ذریعہ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں زبانی پیغام بھجوایا کہ بعض اوقات صوبائی حکومت از خود ایسا قدم اٹھا لیتی ہےاور مرکزی حکومت کو بعدمیں اطلاع ملتی ہے،اگر خدانخواستہ کوئی ایسا واقعہ ہو گیا تو مَیں ایک منٹ کے لیے بھی اپنے عہدہ پر نہیں رہوں گااور مستعفی ہو کر ربوہ آجاؤں گا۔وہ دوست بتاتے ہیں کہ یہ بات کہتے ہوئے حضرت چودھری صاحبؓ کی آواز اخلاص کی وجہ سے بہت گلوگیر تھی۔نیز یہ بھی فرمایا کہ حضرت اقدس کا خیال ہے کہ مَیں ربوہ کی گرمی میں نہیں رہ سکوں گا۔یہ سب باتیں عام حالات کی ہیں خاص حالات میں انسان ہر طرح کی قربانی کر لیتا ہے۔(تاریخِ احمدیت جلد ۱٥ صفحہ۲٤۹)
خلافت اور افرادِجماعت کے باہمی رشتۂ تودّد و محبت کا اندازہ حضرت مصلح موعودؓکے تحریر فرمودہ ایک خط سے بھی لگایا جا سکتا ہے جو آپؓ نے ۱۹۲٤ء کے سفرِ یورپ کے دوران افرادِ جماعت کے نام تحریرفرمایا۔آپ نے لکھا:’’وہ دل جو اُس محبت سے نا آشنا ہے جو مجھے احمدی جماعت سے ہےاور وہ دل جو اُس محبت سے ناآشنا ہے جو احمدی جماعت کو مجھ سے ہےوہ اس حالت کا اندازہ نہیں کرسکتا۔اور کون ہے جو اِس درد سے آشنا ہو جس میں ہم شریک ہیں کہ وہ اِس کیفیت کوسمجھ سکے۔لوگ کہیں گے کہ جدائی روز ہوتی ہے اور علیحدگی زمانہ کے خواص میں سے ہے۔مگر کون اندھے کو سورج دکھائے اور بہرے کو آواز کی دل کشی سے آگاہ کرے۔اُس نے کب للہ او ر فی اللہ محبت کا مزہ چکھا کہ وہ اِس لطف اور درد کو محسوس کرے۔اُس نے کب اِس پیالہ کو پیا کہ وہ اس کی مست کر دینے والی کیفیت سے آگاہ ہو۔ دنیا میں لیڈر بھی ہیں اور اُن کے پیرو بھی، عاشق بھی ہیں اوراُن کے معشوق بھی، محب بھی ہیں اور ان کے محبوب بھی مگر
ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است
کب ان کو اس ہاتھ نے تاگے میں پِرویا جس نے ہمیں پِرویا۔ آہ! نادان کیا جانیں کہ خدا کے پِروئےہوؤں اور بندوں کے پِروئے ہوؤں میں فرق ہوتے ہیں۔ بندہ لاکھ پروئے پھر بھی سب موتی جدا کے جدا رہتے ہیں۔ مگر خدا کے پروئے ہوئے موتی کبھی جدا نہیں ہوتے۔(الفضل۹؍اگست۱۹۲٤ء صفحہ٤)
۱۹٥٤ء میں جب حضرت مصلح موعودؓپر حملہ ہوا تو اس موقع پر جاںنثارانِ خلافت کی بے قراری کی کیفیت تڑپتے ہوئےمرغِ بسمل کی سی تھی۔ملک کے طول و عرض سے دیوانہ وار ربوہ آنے والوں کا تانتا اُسی روز بندھ گیا۔لیکن دوسری جانب ان محبّین کے محبوب کا ردِّ عمل بھی دیدنی تھا۔اِس شدید حملے کے بعد ناقابلِ بیان تکلیف کے باوجود حضرت مصلح موعودؓنے اگلے ہی روزسے اپنے ان چاہنے والوں کو ملاقات کی اجازت عطا فرمادی تا کہ آپ اور آپ کے ان عشاق کے بے چین دلوں کوایک دوسرے کے دیدار سے قرارو سکون میسرآ سکے اور ان ملاقاتوں میں ایک دن کا بھی توقف نہ آنے دیا۔
اس موقع پر دو لبنانی احمدیوں نے اپنے مقدس امام سے والہانہ عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہوئے ایک درد انگیز قصیدہ کہا جس کے چند اشعار پیش ہیں:
فَدَتكَ الْأَحْمَدِيَّةُ يَا إِمَامًا
وَرُوحِي يَا أَمِيرِ لَكَ الْفِدَاءُ
وَعَافَاكَ الْمُهَيْمِنُ مِنْ جُرُوحِ
جُرُوحًا أَوْدَعَتْ فِي الصَّدْرِ دَاءُ
إِذَا مَا كَانَ مَوْلَانَا بِخَيْرٍ
فَنَحْنُ وَمَا لَكَ الدُّنْيَا سِوَاءُ
یعنی اے امام جماعت احمدیہ!آپ پر قربان اے امیرالمومنین ! میری جان آپ پرنثار ہو۔
اللہ تعالیٰ آپ کو ان زخموں سے جلد شفا بخشے جنہوں نے میرے سینہ میں مستقل زخم ڈال دیے ہیں اورمجھے بیمار کر دیا ہے۔
جب ہمارا آقا خیر و عافیت سے ہو تو ہمیں ساری دنیا کی بادشاہت ملنے کے برابر خوشی ہوتی ہے۔ (الفضل۲۷؍مئی۱۹٥٤ء صفحہ۲)
خلافتِ ثالثہ میں کسی گاؤں میں ایک احمدی گھرانہ کی سربراہ ایک احمدی خاتون تھیں جن کے تین یا چار بچے تھے۔مخالفینِ احمدیت کا جتھہ جب اس گھر پر حملہ آور ہواتو گاؤں والوں نے اس احمدی خاتون کو مشورہ دیا کہ اس حملے کے مقابلے کی ہم میں طاقت نہیں ہے تمہیں جہاں بھی پناہ مل سکتی ہے وہاں چلی جاؤ۔اس اکیلی احمدی خاتون نے اس موقع پر جو جواب دیا وہ اس بات کا اقراری و عملی ثبوت ہے کہ خلافت کی اطاعت ومحبت میں احمدی مستورات بھی مردوں سے کسی لحاظ سے پیچھے نہیں۔اس خاتون نے کہا کہ فرار کیسا!اس جگہ کو چھوڑ کر جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔خدا کے خلیفہ کی آواز میرے کانوں میں پڑی ہے کہ اپنے گھروں میں بیٹھے رہوا ور وہاں سے باہر نہیں جانا۔اگر میرے سارے بچے بھی قربان ہو جائیں تب بھی میں یہاں سے نہیں جاؤں گی۔پھر اُس عورت نے اپنے چاروں بچوں کو بہترین کپڑے پہنائے جو عید یا شادی بیاہ کے موقع پر پہنائے جاتے ہیں اور بچوں کو خوب سجا سنوار کر اچھا کھانا کھلا کر کہا کہ بچو! اب حملہ ہونے والا ہے۔تم میرے چار جوان بچے ہو۔تم میں سے اگر ایک بھی پیٹھ دکھا کر واپس آیا تو مَیں اُس کو کبھی اپنا دودھ نہیں بخشوں گی۔جس طرح مَیں نے تمہاری عیدبنائی ہے،تم میری عیدبنانا۔خدا کی راہ میں ہنستے مسکراتےاور اپنی چھاتیوں پر وار کھاتے ہوئے جانیں دینا،پیٹھ پر وار کھاتے ہوئے نہیں۔لیکن وہ حملہ آور گروہ کسی خوف کے سبب وہاں سے فرار ہو گیا۔ (خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ۱۱؍فروری ۱۹۸۳ء، مطبوعہ خطبات طاہر جلد۲صفحہ۸۲)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ایک مرتبہ بیان فرمایا کہ۱۹٦۷ء میں ڈنمارک میں چند عیسائی پادری مجھ سے ملنے آئے ان میں سے ایک نے مجھے کہا کہ جماعت احمدیہ میں آپ کا کیا مقام ہے(آپؒ فرماتے ہیں) میں نے انہیں جواب دیا کہ میرے نزدیک آپ کا سوال درست نہیں ہے اس لیے کہ جماعت احمدیہ کا امام اور جماعت احمد یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں یعنی خلیفہ وقت اور جماعت دونوں مل کر ایک وجود بنتے ہیں۔ (روزنامہ الفضل۲۱؍مئی ۱۹۷۸ء صفحہ٤)
خلافتِ رابعہ میں ۱۹۸۸ء میں ایک دوست گلاسگو سے جلسہ سالانہ میں شرکت کے لیے اسلام آباد( برطانیہ )پہنچے۔اُن کے ہمراہ گلاسگو کے ہی رہنے والےایک ہندو دوست بھی تھے۔اسلام آباد پہنچنے پر پہلے انگریزواقفِ زندگی مکرم بشیر آرچرڈ صاحب سے ملاقات ہو گئی۔آپ قبولِ احمدیت سے قبل گلاسگو کے ایک کٹر عیسائی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ملاقات کے دوران اُن احمدی دوست نے اپنے ہندو دوست کو مکرم آرچرڈ صاحب کا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ آرچرڈ صاحب بھی گلاسگو سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ سن کر آرچرڈ صاحب نے فوراً نفی میں سر ہلا کر اس کی تردید کی اور کہا کہ وہ گلاسگو سے نہیں ہیں۔وہ احمدی دوست بیان کرتے ہیں کہ اُس ہندو شخص نے مجھے گھورا اور میرا چہرہ تذبذب،خجالت اور حیرانی کے ملے جلے جذبات کامرقع بن گیالیکن اگلے ہی لمحے آرچرڈصاحب کہنے لگے کہ میرا تعلق اسلام آباد ٹلفورڈ سے ہے جہاں میرے امام نے مجھے مستقلاً رہنے کا ارشاد فرمایا ہےاور اب میرا حوالہ گلاسگو نہیں بلکہ اسلام آباد ہے۔چنانچہ یہ سن کرمیرے چہرے کا رنگ تو بحال ہو گیا مگر اب چہرہ اُن ہندو دوست کا دیکھنے والا تھاجو ایک ’’گورے‘‘احمدی کو اپنے امام کی اطاعت میں اتنا ڈوبا دیکھ کر ورطۂ حیرت میں مبتلا اور انتہائی متاثر نظر آرہا تھاکہ اِس کو اِس کے امام نے جس جگہ بٹھادیا وہی اِس کے لیے اِس کا وطن قرار پایا۔ (روزنامہ الفضل ۲۳؍مئی۲۰۱٤ء صفحہ۱۱)
وَقَدِ اقْتَفَاکَ أُولُو النُّہٰی وَبِصِدْقِھِمْ
وَ دَعُوْا تَذَکُّرَ مَعْھَدِ الْاَوْطَانٖ
مولانا عطاءالمجیب راشدصاحب بیان کرتے ہیں کہ کینیڈا کے ایک پروفیسر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے پہلی بار ملنے آئے۔جب ملاقات کے بعد واپس آئے تو انہوں نے اظہار کیاکہ ملاقات کے لیے جاتے وقت مَیں یہ تاثر لے کر گیاتھا احمدی اپنے خلیفہ سے بہت محبت کرتے ہیں۔وہاں جو باتیں ہوئیں ان کے بعد مَیں یہ کہوں گا کہ احمدیوں کی اپنے خلیفہ سے محبت اپنی جگہ لیکن مَیں اس یقین سے واپس لوٹاہوں کہ جماعت کا خلیفہ اپنی جماعت کے افراد سے ان سے بھی زیادہ محبت رکھتاہے۔ (الفضل ۲٤؍مئی ۲۰۰۷ء صفحہ۱۷)
خلافتِ رابعہ کے دَور کا ذکر چل رہا ہے۔ اسی دَور کے حوالے سے ہمارے پیارے امام اور دل و جان سے پیارے آقا کا خلافت سے محبت اور کامل اطاعت کا ایک واقعہ کچھ یوں ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی بیماری کے ایام میں حضورؒ کی طبیعت کی فکر مندی کے باعث حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ خلیفۃ المسیح کی محبت میں بےقرار دل کےساتھ لندن تشریف لے گئے۔جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒسے ملاقات کے لیے گئے تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے دریافت فرمایا کہ’’کیسے آئے ہو۔‘‘آپ نے جواب دیا کہ آپ کی طبیعت کی وجہ سے جماعت فکر مند ہے اس لیے صحت کے بارہ میں پوچھنے کے لیے حاضر ہوا ہوں تو حضورؒنے فرمایا حالات ایسے ہیں کہ فوراً واپس چلے جائیں۔چنانچہ حضورِ انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیزنے یہ ارشاد سنتے ہی فوراً واپسی کی سیٹ بک کروا لی۔ (ماہنامہ تشحیذ الاذہان سیدنا مسرور ایدہ اللہ نمبر ستمبر،اکتوبر ۲۰۰۸ءصفحہ۲۰تا۲۱)
محبت و وارفتگی کے چند واقعات خلافتِ خامسہ کے مسعود دورکے بارے میں پیش ہیں جس دور کی تائید و نصرت کی گواہی خودخداتعالیٰ نے یہ کہہ کر دی کہ اِنِّيْ مَعَكَ يَا مَسْرُوْرُ۔
۲۰۰۸ء میں جلسہ سالانہ گھانا پر برکینا فاسو سے تین سو خدام انتہائی خستہ ہال سائیکلوں پر سولہ سو کلومیٹر کا طویل اور تکلیف دہ اورکٹھن سفر طے کر کے محض اس لیے آئے کہ وہ اپنے محبوب آقا کا دیدار کر سکیں۔ان سائیکل سواروں میں تیرہ سال کی عمر کے دو بچے بھی تھے۔جب انہیں اس سفر پر جانے سے روکا گیا تو یہ رو پڑے اور کہنے لگے کہ ہم نے ضرور جاناہے تا کہ ہم اپنے آقا سے مل سکیں۔گھانا پہنچنے پر جب صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ برکینافاسو سے پوچھا گیاکہ خدام نے اتنا لمبا سفر کیوں اختیار کیا تو وہ کہنے لگے کہ ہم اپنے آقا کو بتانا چاہتے تھے کہ برکینا فاسو کی سرزمین پر آباد آپ کے یہ خدام بھی آپ سے عشق کرتے ہیں اور ہر قربانی کے لیے تیار ہیں۔ (الفضل ۲٥؍مئی ۲۰۱٥صفحہ٦)
بورکینا فاسو کے ان وفا کے پیکروں نے محض پندرہ سال کے اندر دنیا پر واضح کر دیا کہ ۲۰۰۸ء میں کہے گئے یہ الفاظ کہ ’’ہم ہر قربانی کے لئے تیار ہیں‘‘، کسی دیوانے کی بَڑ نہ تھے بلکہ جذبۂ عشق سے مخمور یہ وہ الفاظ تھے جو چودہ سوسال قبل ان عشاق کے آقاو مولیٰ محبِ اعظم محمدِ مصطفیٰﷺ کے جاںنثار اصحاب نے اپنے عمل سے سکھائے تھے۔
چنانچہ ۱۱؍جنوری ۲۰۲۳ء کو چشمِ فلک نے محبت وعشق کا ایسا نظارہ دیکھا جس نے دورِ محمدیؐ کےزیدؓ بن دثِنہ اورخبیبؓ بن عدی جیسے متعدد صحابہ اور دورِ مسیح موعود کے عبداللطیفؓ جیسے بے شمار جاںنثاروں کی یاد تازہ کر دی۔برکینا فاسو کے ان شہداءنے ما انا علیہ واصحابی کی پیشگوئی کو ایک بار پھرسچ ثابت کر دکھایا۔
اُن عشاق میں سے ہر ایک کو شہادت سے قبل پیشکش کی گئی کہ اگر وہ احمدیت کا اور اپنے امام کا انکار کر دیں تو چھوڑ دیا جائے گا لیکن اُن استقامت کے شہزادوں میں سے ہر ایک نے اِس عملی اور زبانی اقرار کے ساتھ اپنی جان خدا کے حضور پیش کر دی کہ ہم اُس زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے جو خدا کے قائم کردہ امام کے انکار کے ساتھ گزاری جائے۔
’’عجب تھا عشق اس دل میں محبت ہو تو ایسی ہو‘‘
لُٹا دی جاں سی شے پل میں شجاعت ہو تو ایسی ہو
نہ دیکھی اور کہیں پائی عقیدت یہ محبّانہ
تعشّق یہ مریدانہ، ارادت ہو تو ایسی ہو
اے وہ جو کہتے ہو کہ احمدیت انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے،اے وہ جو دن رات یہ ڈھول پیٹتے ہو کہ افریقہ کے غریب ممالک میں لالچ کے ذریعہ احمدیت کو فروغ دیاجارہاہے اور اے وہ جو عاشقانِ خلافت کے اخلاص کو نفاق سے تعبیر کرتے ہو،عقل اور شعور کی عینک پہن کر دیکھو تو شاید تمہیں حقیقت نظر آجائے کہ جب زندگی اور موت میں محض ایک لمحے کا فرق ہو،موت سامنے کھڑی ہو،سولی دینے کی تیاری کی جا رہی ہو، زندگی ہر کسی کو پیاری ہے سبھی جان بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔مگر اس موقع پر موت کے پھندے کو چومتے ہوئے وہی گلے لگاتے ہیں جنہیں یہ یقین ہو کہ ان کا محبوب، ان کا معشوق اور ان کا پیارا محض ہمارا ہی نہیں بلکہ خدا کا بھی محبوب، خدا کا بھی معشوق اور خداکابھی پیار اہے۔
افرادِ جماعت کی خلافتِ احمدیہ سے محبت عمر سے مشروط نہیں۔دنیا بھر میں رہنے والے احبابِ جماعت خواہ وہ کسی بھی عمر سے تعلق رکھتے ہوں، اپنے امام کی محبت میں دیوانگی اور وارفتگی میں یکساں حیثیت رکھتے ہیں۔
حضرت مرزا عبدالحق صاحب سے ایک مرتبہ کسی دوست نے پوچھنا چاہاکہ آپ کوچار خلفاء کی رفاقت نصیب ہوئی اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ تو عمر میں آپ سے پچاس سال چھوٹے ہیں۔وہ دوست بتاتے ہیں کہ ابھی سوال بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ وہ کہنے لگے کہ دراصل میں وقف ہوں اور خلافت کا غلام ہوں جو بھی خدمت کا حکم ملے گا کرتارہوں گا۔(ماہنامہ انصاراللہ دسمبر۲۰۱۳ء صفحہ۲۳ کالم۲)
۲۰۱٥ء میں میسیڈونیا سے تعلق رکھنے والے ایک نومبائع نے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ سےپہلی مرتبہ حصولِ شرفِ ملاقات کے بعد بے اختیار کہا کہ ’’آج مجھے احساس ہوا ہے کہ میں کس قدر خوش قسمت ہوں کہ حضورِ انور سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے۔جب میں اس اطمینان اور سکون کو دیکھتا ہوں…تو مجھے احساس ہو تا ہے کہ ایسی ہی طمانیت آنحضرتﷺ کے صحابہ کو حاصل ہوئی ہو گی۔‘‘ (ماخوذ از ڈائری مکرم عابد خان صاحب،الفضل آن لائن۲۹؍اگست ۲۰۲۲ءصفحہ۱۲کالم۳،۲)
۲۰۱٥ء میں ہی جرمنی کے دورہ میں ایک حیرت انگیز محبت کا منظر دیکھنے میں آیا۔جب حضور انور کا گزر ایک تین سال کے بچے کے پاس سے ہوا جو نہ صرف محبت کے مفہوم سے لا علم تھا بلکہ اُس عمر سے تعلق رکھتا تھا جب بناوٹ اورتصنع کا انسانی طبیعت میں شائبہ بھی نہیں ہوتا۔یہ بچہ بے اختیار رو تے ہوئے کہہ رہا تھا کہ’’پلیز حضور ہمیں چھوڑ کر مت جائیں۔‘‘(ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب،الفضل آن لائن۱۲؍ستمبر۲۰۲۲ء صفحہ ۱۰کالم۲)
بتاؤں میں کیسے اُس الفت کی لذت
غلاموں کی آقا سے اپنے محبت
اور آقا کی اپنے غلاموں سے چاہت
نہیں دو، وجود اک جماعت خلافت
اسی طرح ۲۰۱٦ء میں کینیڈا کے دورہ سے واپسی پر الوداع کے موقع پرجب حضورِانورایدہ اللہ تعالیٰ لجنہ ممبرات کے پاس سے گزر رہے تھے تو بے شمار ممبرات لجنہ جذبات سے مغلوب تھیں۔ حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ کے پریس سیکرٹری نے بیان کیا کہ ان مستورات میں ایک سیکیورٹی پر مامور خاتون بھی تھیں جن کو دیکھ کر لگتا تھا کہ غم کے مارے وہ کسی بھی وقت بےہوش ہو کر گر جائیں گی۔ (ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب،الفضل انٹرنیشنل ۱۰؍مئی۲۰۲٤ء صفحہ۸کالم۳)
خلافت سے اس محبت کا ایک اظہار اس موقع پر بھی دیکھنے میں آیا جب ہمارے پیارے امام حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ۲۰۰۷ء میں پتّے کا آپریشن ہوا۔
آپ نے اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا:’’دنیا کے مختلف کونوں کے رہنے والوں نے جس محبت اور پیار کا اظہار کیا اس نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیاری جماعت سے پیار میں کئی گنا بڑھا دیا۔ عجیب عجیب اظہار تھے جو احمدیوں نے کئے تھے۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ اگر پتّے بدلے جا سکتے ہیں تو میرا پِتّہ حاضر ہے۔ کوئی کسی طرح محبت کا اظہار کر رہا تھا، کوئی کسی طرح۔ کبھی یہ خط آ رہے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آنحضرتﷺ کی غلامی میں ایسی جماعت پیدا کر دی ہے جو ایک جسم کی طرح ہے اور خلافت تو اس میں دل کی حیثیت رکھتی ہے…جذبات سے مغلوب خطوط تھے… مشرق سے بھی، مغرب سے بھی، شمال سے بھی، جنوب سے بھی، ہر ملک کے رہنے والے نے اس طرح جذبات کا اظہار کیا ہے کہ بے اختیار اللہ تعالیٰ کی حمد زبان پر جاری ہوتی ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ۲؍نومبر۲۰۰۷ء)
یہ عشق و وفا کا تذکرہ ادھورا رہے گا اگر آج سے قریباً اڑھائی سال قبل خلافت کےوفا شعار ہیرے سید طالع احمد کا ذکر نہ کیا جائے۔وہ ہیرا جس کے دل و دماغ میں خلافت کی محبت اس قدر راسخ ہو چکی تھی کہ جس نے اپنی نوجوانی میں خلافت سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہی ہوئی نظم میں یہ اقرار کیا کہ I love my Caliph more than the others
اُس نے بوقتِ وفات بھی اس عہد کو ثابت کر کے دکھایا۔زندگی کی چند گھڑیاں باقی ہیں، شہادت یقینی نظر آرہی ہے زبان پر الفاظ ہیں تو یہ کہ Tell Huzur that I love him
آغاز میں شباب کے پیمان جو کیا
اُس عہد کو وہ تادمِ آخر نبھا گیا
واقف تھا کیا ہی خوب مرادِ حیات سے
سب واقفوں کو مقصدِ ہستی سکھا گیا
عشق ووفا کی یہ حیران کن داستانیں اُن لاتعدادواقعات میں سے مشتے از خروارےصرف چند واقعات ہیں ۔یہ محیرالعقول واقعات تو اس قدر ہیں کہ صبح سے شام ہوجائے گی اوردن ہفتوں میں تبدیل ہو جائیں گے لیکن ان عاشقانِ خلافت احمدیہ کے قصے کبھی ختم نہ ہوں گے کیونکہ ہر نیا چڑھتا سورج وفا کی ایک نئی کہانی کا آغاز بن رہا ہوتاہے اور ہر رات چاند کی چاندنی محبت کی ایک اچھوتی اور نرالی کتھا پر گواہ ٹھہرتی ہے۔یہ عشق کاحیرت انگیز سمندر صرف اُسی صورت میں بہہ سکتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ خود اس کے بہنے کا حکم دے۔
ان عشق سے معمور واقعات کو پڑھ اور سن کریوں محسوس ہوتا ہے کہ امیر خسرو نے یہ شعر آج سے سات سو برس پیشتر خلافتِ احمدیہ اور افرادِ جماعت کی اس للّہی محبت سے متعلق ہی کہا تھا کہ
من تو شُدم تو من شُدی، من تن شُدم تو جاں شُدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری
خلافت اور افرادِ جماعت کی اس لازوال محبت کے شاہد صرف اپنے ہی نہیں بلکہ اَلفَضْلُ مَا شَھِدَتْ بِہِ الْاَعْدَاءُ کے تحت غیر بھی شہادت پر مجبور ہیں۔
برصغیر پاک و ہند کے مشہور لیڈر، زمیندار رسالہ کے ایڈیٹراور جماعتِ احمدیہ کے مخالف مولوی ظفر علی خان صاحب نے خلافت اور افرادِ جماعت کے مثلِ یک وجود ہونے کا اعتراف ان الفاظ میں کیا کہ ’’کان کھول کر سن لو، تم اور تمہارے لگے بندھے مرزا محمود کا مقابلہ قیامت تک نہیں کرسکتے … مرزا محمود کے پاس ایسی جماعت ہے جو تن من دھن اُس کے اشارے پر اُس کے پاؤں پر نچھاور کرنے کو تیار ہے…‘‘ (ایک خوفناک سازش از مظہر علی اظہرصفحہ ۱۹۵ تا ۱۹۷،تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ ۲۸۸مطبوعہ قادیان ۲۰۰۷ء)
آج ہم محبانِ خلافت احمدیہ، گروہِ مخالفین احمدیت کو مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اگر تمہیں ان عشق کی دو طرفہ داستانوں میں خدائی صداقت کا نشان نظر نہیں آتا اور اگر تمہارا دین للّہی محبت کی بجائے شیطانی نفرت بن چکا ہے تو ہم تمہیں تمہارے لیڈر کی زبان میں ہی مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ ہاں آج تم بھی کان کھول کر سن لو کہ تم اور تمہارے لگے بندھے خلافت اور افرادِجماعت کی باہمی محبت کو قیامت تک کم نہیں کر سکتے کیونکہ خدا کے موعود مسیح کے خلیفہ کے پاس ایسی جماعت ہے جو تن من دھن اُس کے ایک اشارے پر اُس کے پاؤں پہ نچھاور کرنے کو تیار ہے۔
ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:جماعت کی ترقی بھی اِس تعلق سے وابستہ ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا جو جماعت کو خلافت سے تعلق ہے اور خلیفۂ وقت کو جماعت سے ہے یہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات و نصرت کا ثبوت ہے اور یہ صرف باتیں نہیں ہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں ایسے واقعات ہیں جہاں افرادِ جماعت اس بات کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر ان واقعات کو جمع کیا جائے تو بےشمار ضخیم جلدیں اس کی بن جائیں گی۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۹؍ مئی ۲۰۲۰ء، الفضل انٹرنیشنل ۱۹؍ جون ۲۰۲۰ء، صفحہ ۵ تا ۱۰)
اسی طرح ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا:’’جب تک ایسی مائیں پیدا ہوتی رہیں گی جن کی گود میں خلافت سے محبت کرنے والے بچے پروان چڑھیں گے اس وقت تک خلافت احمدیہ کو کوئی خطرہ نہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷؍ مئی ۲۰۰۵ء)آپ نے فرمایا:’’میری تو بہت عرصہ پہلے خدا تعالیٰ نے یہ تسلّی کروائی ہوئی ہے کہ اس دور میں وفاداروں کو خدا تعالیٰ خود اپنی جناب سے تیار کرتا رہے گا۔پس آگے بڑھیں اور اپنے ایمان اور اعمال صالحہ کا محاسبہ کرتے ہوئے آپ میں سے ہر ایک ان بابرکت وجود وں میں شامل ہو جائے جن کو خدا تعالیٰ خلافت کی حفاظت کے لئے خود اپنی جناب سے ننگی تلوار بنا کر کھڑا کرے گا۔‘‘(خطاب برموقع خلافت جوبلی بحوالہ الفضل انٹرنیشنل ۳؍ اگست ۲۰۱۸ء، صفحہ ۱۷)
اَللّٰھُمَّ اَیِّدْ اِمَامَنَا بِرُوْحِ الْقُدُسِ وَ بَارِکْ لَنَا فِیْ عُمرِہٖ وَ اَمْرِہٖ۔
اللّٰھم صل علیٰ محمد و علیٰ اٰل محمد وعلیٰ عبدک المسیح الموعود وعلیٰ خلفاء المسیح الموعود و بارک وسلم انک حمید مجید