حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دفاع کے لیے دی گئی تھی

اللہ تعالیٰ نے سورۃ حج میں 41ویں آیت میں طاقتور کافروں کے مقابلہ پر اپنے قوی ہونے کا ذکر کرتے ہوئے مومنوں کو تسلی دی ہے کہ اب کیونکہ ظلم کی انتہا ہو رہی ہے اس لئے باوجود کمزور ہونے کے، باوجود تعداد میں تھوڑے ہونے کے، باوجودبے سرو سامان ہونے کے تم ان کافروں سے جنگ کرو جو نہ صرف شرک میں انتہا کئے بیٹھے ہیں بلکہ ظلم کی بھی انتہا کر رہے ہیں۔ اب مذہب کی بقا کا سوال ہے ورنہ ظلم جو ہیں بڑھتے چلے جائیں گے اور اللہ کے شریک ٹھہرانے والے کسی مذہب کو بھی برداشت نہ کرتے ہوئے ظلم کا نشانہ بناتے چلے جائیں گے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے اَلَّذِیْنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ بِغَیۡرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ؕ وَلَوۡلَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ لَّہُدِّمَتۡ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذۡکَرُ فِیۡہَا اسۡمُ اللّٰہِ کَثِیۡرًا ؕ وَلَیَنۡصُرَنَّ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیۡزٌ ۔(الحج: 41) یعنی وہ لوگ جنہیں ان کے گھروں سے ناحق نکالا گیا، محض اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمار ارب ہے اور اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کا دفاع ان میں سے بعض کو بعض دوسروں سے بھڑا کر (لڑا کر) نہ کیا جاتا تو راہب خانے منہدم کر دئیے جاتے اور گرجے بھی اور یہود کے معابد بھی اور مساجد بھی جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے اور یقیناً اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتا ہے یقیناً اللہ بہت طاقتور اور کامل غلبہ والا ہے۔

پس امن قائم رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ظلم کا جواب سختی سے دینے کی اجازت دی۔ یہ کرو تو اللہ تعالیٰ کی مدد تمہارے شامل حال رہے گی۔ پس یہاں اصولی بات بتا دی کہ مذہب کی جو جنگیں ہیں یاجو جنگ ہے وہ تمہارے پر ٹھونسی جائے تو دفاع کرنا ہے۔ نہ صرف اپنے مذہب کا دفاع کرنا ہے بلکہ غیر مذاہب کا بھی دفاع کرنا ہے کیونکہ مسلمان کا دعویٰ ہے کہ ہم نے کسی مذہب کے پَیرو سے بھی بزورِ بازو مذہب تبدیل نہیں کرانا۔ کیونکہ یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے اور دنیا کا امن برباد کرنے والی بات ہے۔ ہدایت دینا یا نہ دینا خداتعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے۔ ہاں پیار سے، طریقے سے، حکمت سے، تبلیغ کا فریضہ ایک مسلمان کو ادا کرنا چاہئے اور یہ اس کے لئے ضروری ہے۔

(خطبہ جمعہ ۹؍ اکتوبر ۲۰۰۹ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۳۰؍اکتوبر ۲۰۰۹ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button