بنیادی مسائل کے جوابات (قسط ۷۸)
٭…کیا امام مہدی حضرت فاطمہؓ کی نسل سے ہوگا؟
٭… تمام انبیاء کے ساتھ ’علیہ السلام ‘آتا ہے لیکن آنحضرتؐ کے ساتھ کیوں’ﷺ‘ آتا ہے؟
٭… Narcissistic Behaviourکی بیماری میں مبتلا فرد کے بارے میں راہنمائی
سوال: انڈونیشیا سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سےاستفسار کیا کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضورﷺ کی نسل میں سے ہیں؟ کیونکہ ایک حدیث میں ہے کہ امام مہدی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی نسل میں سے ہو گا۔اس کا کیا جواب ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۴؍جنوری ۲۰۲۳ء میں اس مسئلے کے بارے میں درج ذیل ارشاد ات فرمائے۔ حضور نے فرمایا:
جواب:اس بارے میں پہلی بات یہ ہے کہ امام مہدی کے متعلق جو روایات کتب احادیث میں بیان ہوئی ہیں، ان میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض احادیث میں مہدی کو حضرت فاطمہؓ کی اولاد میں سے قرار دیا گیا، بعض میں حضرت حسنؓ کی اولاد میں سے، بعض میں حضرت حسینؓ کی اولاد میں سے، بعض میں حضرت عباسؓ کی اولاد میں سے، بعض میں حضرت عمرؓ کی اولاد میں سے اور بعض احادیث میں ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ آنے والا مہدی میری امت کا ایک فرد ہو گا۔
علامہ ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں ان روایات پر جرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ تمام احادیث جنہیں ائمہ نے مہدی اور اس کے آخری زمانہ میں خروج کے متعلق بیان کیا ہے، یہ احادیث جیسا کہ آپ نے دیکھا ہے کہ سوائے بہت کم تعداد کے تنقید سے خالی نہیں ہیں۔ (مقدمہ ابن خلدون الفصل الثاني والخمسون في أمر الفاطمي)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس مسئلہ پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:یہی سنت اللہ ہے کہ جو جو علامتیں پیشگوئیوں میں کسی آنے والے نبی کے بارے میں لکھی جاتی ہیں وہ تمام باتیں اپنے ظاہری الفاظ کے ساتھ ہر گز پوری نہیں ہوتیں بعض جگہ استعارات ہوتے ہیں بعض جگہ خود اپنی سمجھ میں فرق پڑ جاتا ہے اور بعض جگہ پرانی باتوں میں کچھ تحریف ہو جاتی ہے اس لئے تقویٰ کا طریق یہ ہے کہ جو باتیں پوری ہو جائیں اُن سے فائدہ اُٹھائیں اور وقت اور ضرورت کو مد نظر رکھیں اور اگر تمام مقرر کردہ علامتوں کو اپنی سمجھ سے مطابق کرنا ضروری ہوتا تو تمام نبیوں سے دستبردار ہونا پڑتا اور انجام اس کا بجز محرومی اور بے ایمانی کے کچھ نہ ہوتا کیونکہ کوئی بھی ایسا نبی نہیں گزرا جس پر تمام قرارداد ہ علامتیں ظاہری طور پر صادق آگئی ہوں۔ کوئی نہ کوئی کسر رہ گئی ہے۔ یہودی پہلے مسیح کی نسبت یعنی حضرت عیسیٰ کی نسبت کہتے تھے کہ وہ اُس وقت آئے گا کہ جب پہلے اس سے الیاس نبی دوبارہ زمین پر آجائے گا۔ پس کیا الیاس آگیا؟ ایسا ہی یہودیوں کا اِس بات پر اصرار تھا کہ آنے والا خاتم الانبیاء بنی اسرائیل میں سے ہوگا پس کیا وہ بنی اسرائیل میں سے ظاہر ہوا؟ پھر جبکہ یہودیوں کے خیال کے موافق جس پر ان کے تمام نبیوں کا اتفاق تھا خاتم الانبیاء بنی اسرائیل میں سے نہیں آیا۔ پھر اگر مہدی موعود فاطمی یا عباسی خاندان سے ظاہر نہ ہوا تو اس میں کونسی تعجب کی جگہ ہے۔ خدا کی پیشگوئی میں کئی اسرار مخفی ہوتے ہیں اور امتحان بھی منظور ہوتا ہے۔
حدیثوں کو خوب غور کرکے پڑھو وہ مہدی معہود کی نسبت اس قدر اختلاف رکھتی ہیں کہ گویا تناقضات کا مجموعہ ہے بعض حدیثوں میں لکھا ہے کہ مہدی فاطمی ہوگا اور بعض میں لکھا ہے کہ عباسی ہوگا اور بعض میں لکھا ہے کہ رجل من اُمّتی یعنی میری اُمّت سے ایک شخص ہوگا اور ابن ماجہ کی حدیث نے ان سب روایات پر پانی پھیر دیا ہے کیونکہ اس حدیث کے یہ الفاظ ہیں کہ لا مھدی اِلَّا عیسٰی یعنی عیسٰی ہی مہدی ہے اس کے سوا اور کوئی مہدی نہیں۔ پھر مہدی کی حدیثوں کا یہ حال ہے کہ کوئی بھی جرح سے خالی نہیں اور کسی کو صحیح حدیث نہیں کہہ سکتے۔ پس جس رنگ پر پیشگوئی ظہور میں آئی اور جو کچھ حَکم وعود نے فیصلہ کیا وہی صحیح ہے۔(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ 216، 217 و حاشیہ صفحہ 217)
اصل میں ان روایات میں یہ اختلاف سیاسی وجوہ کی بنا پر پیدا ہواہے کیونکہ خلافت راشدہ کے بعد کے زمانے میں جب امت مسلمہ میں کئی گروہ اور فرقے بن گئے تو ہر گروہ نے دوسرے گروہ پر اپنی برتری ظاہر کرنے کے لیے روایات میں تصرف سے کام لیا ہے۔ اس لیے یہ سب روایات جرح سے خالی نہیں ہیں جن میں مہدی کے کسی خاص خاندان میں پیدا ہونے کا ذکر ہے۔ اور صرف وہی روایات قابل قبول رہتی ہیں جن میں امام مہدی کا آنحضرتﷺ کی امت سے ہونا مذکور ہے۔کیونکہ ایسی روایات ہی سیاسی وجوہ کی بنا پر تغیر سے پاک معلوم ہوتی ہیں۔
اسی لیےصحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایتوں میں آخری زمانہ میں اسلام کی تجدید کے لیے مبعوث ہونے والے مسیح و مہدی کے لیے علی الترتیب’’وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ‘‘اور’’فَأَمَّكُمْ مِنْكُمْ‘‘کے الفاظ آئے ہیں۔(صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء بَاب نُزُولِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ)(صحیح مسلم کتاب الایمان بَاب نُزُولِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ حَاكِمًا بِشَرِيعَةِ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍصلی اللّٰہ علیہ وسلم)
باقی جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کا تعلق ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ اس نے ان ظاہری علامتوں کو بھی آپ کے وجود باجود میں پورا فرما دیا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:سادات کی جڑ یہی ہے کہ وہ بنی فاطمہ ہیں۔ سو میں اگرچہ علوی تو نہیں ہوں مگر بنی فاطمہ میں سے ہوں۔ میری بعض دادیاں مشہور اور صحیح النسب سادات میں سے تھیں۔ ہمارے خاندان میں یہ طریق جاری رہا ہے کہ کبھی سادات کی لڑکیاں ہمارے خاندان میں آئیں اور کبھی ہمارے خاندان کی لڑکیاں ان کے گئیں۔ (نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 426،حاشیہ در حاشیہ)
آپؑ مزید فرماتے ہیں: میرے وجود میں ایک حصہ اسرائیلی ہے اور ایک حصہ فاطمی۔ اور میں دونوں مبارک پیوندوں سے مرکب ہوں اور احادیث اور آثار کو دیکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ آنے والے مہدی آخر الزمان کی نسبت یہی لکھا ہے کہ وہ مرکب الوجود ہوگا۔(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17 صفحہ 118)
علاوہ ازیں قرآن کریم اور مستند احادیث میں آنے والے مسیح و مہدی کے متعلق جو سب سے واضح علامت بتائی گئی وہ یہ تھی کہ وہ فارسی الاصل ہو گا۔ یعنی وہ عربی نہیں ہو گا بلکہ عجمی ہو گا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ جب حضورﷺ پر سورہ جمعہ نازل ہوئی تو اس کی آیت وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ(نمبر۴)کے بارے میں حضورﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کیا گیا کہ یہ کون لوگ ہیں جن میں آپؐ دوبارہ تشریف لائیں گے؟ تو آپؐ نے اس کا کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کے تین دفعہ آپؐ سے یہی سوال پوچھا گیا۔حضرت ابو ہریرہؓ جو اس حدیث کے راوی ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس موقع پر حضرت سلمان فارسیؓ بھی ہم میں موجود تھے۔ چنانچہ حضورﷺ نے اپنا ہاتھ حضرت سلمان فارسیؓ پر رکھا اور فرمایا کہ اگر ایمان ثریا ستارہ پر بھی چلا گیا تو ان لوگوں(یعنی اہل فارس ) میں سے کچھ لوگ یا ایک شخص اسے واپس لے آئے گا۔(بخاری کتاب تفسیر القرآن بَاب قَوْلُهُ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک فارسی الاصل خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ بندوبست مال 1865ء میں حضور علیہ السلام کے دعویٰ سے سالہاسال پہلے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد ماجد اور دوسرے بزرگ زندہ موجود تھے قادیان کے مالکان کے شجرہ نسب کے ساتھ فٹ نوٹ میں بعنوان ’’قصبہ قادیان کی آبادی اور وجہ تسمیہ ‘‘لکھا ہے:مورث اعلیٰ ہم مالکان دیہہ کا بعہد شاہان سلف (ملک فارس) سے بطریق نوکری… آ کر… اس جنگل افتادہ میں گاؤں آباد کیا۔
اور اس کے نیچے مرزا غلام مرتضیٰ صاحب و مرزا غلام جیلانی صاحب و مرزا غلام محی الدین وغیرھم کے دستخط ہیں۔
پس یہ سرکاری کاغذات کا اندراج حضرت صاحبؑ کے دعویٰ سے سالہاسال قبل کاحضرت صاحبؑ کے فارسی الاصل ہونے کا یقینی اور ناقابل ردّ ثبوت ہے۔(تبلیغی پاکٹ بک مرتبہ حضرت ملک عبدالرحمٰن صاحب خادم۔ صفحہ ۴۶۲)
علاوہ ازیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معاند مولوی محمد حسین بٹالوی نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں لکھا:مؤلف (براہین احمدیہ) قریشی نہیں فارسی الاصل ہے۔(اشاعۃ السنۃ النبویہ نمبر7 جلد 7 صفحہ193، براہین احمدیہ پر ریویو)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے خاندان کے بارے میں لکھتے ہیں:اس عاجز کا خاندان دراصل فارسی ہے نہ مغلیہ۔ نہ معلوم کس غلطی سے مغلیہ خاندان کے ساتھ مشہور ہو گیا…۔ معلوم ہوتا ہے کہ میرزا اور بیگ کا لفظ کسی زمانہ میں بطور خطاب کے ان کو ملا تھا جس طرح خان کا نام بطور خطاب دیا جاتا ہے۔ بہرحال جو کچھ خدا نے ظاہر فرمایا ہے وہی درست ہے انسان ایک ادنیٰ سی لغزش سے غلطی میں پڑ سکتا ہے مگر خدا سہو اور غلطی سے پاک ہے۔(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 81،حاشیہ )
پس خلاصہ کلام یہ کہ اگرچہ آنے والے مسیح اور مہدی کے بارے میں وارد روایات میں اس کے خاندان کے بارے میں بہت زیادہ اختلافات پائے جاتے ہیں اور ان میں سے اکثر روایات ایسی ہیں جو قابل استناد نہیں۔ البتہ قرآن کریم اورمستند احادیث کی رو سے اس کا امت محمدیہ کا فرد ہونا اور اس کا اہل فارس میں سے ہونا لازمی تھا۔ اور یہ دونوں نشانیاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی ذات اقدس میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔
سوال: جرمنی سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ تمام انبیاء کے ساتھ علیہ السلام اور آنحضرتﷺ کے ساتھﷺ کیوں آتا ہے۔ نیز یہ کہ آپ کادوسرے خلفاء اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کیا رشتہ ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 5؍فروری 2023ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب: علیہ السلام اورﷺ دونوں ہی دعائیہ جملے ہیں جو ہم لوگ ان انبیاء کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اور ان دونوں قسم کے دعائیہ کلمات کی بنیاد قرآن کریم ہی سے ہمیں ملتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف انبیاء کے لیے سلامتی کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ وَ سَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی۔(النمل:60)یعنی تُو کہہ دے ہر تعریف کا اللہ (ہی) مستحق ہے اور اس کے وہ بندے جن کو اس نے چن لیا ہو ان پر ہمیشہ سلامتی نازل ہوتی ہے۔
اسی طرح سورۃ الصافات میں فرمایا: وَ سَلٰمٌ عَلٰی الۡمُرۡسَلِیۡنَ۔(182)یعنی رسولوں پر ہمیشہ سلامتی نازل ہوتی رہے گی۔نیز مختلف انبیاء کا نام لے کر فرمایا: سَلٰمٌ عَلٰی نُوۡحٍ فِی الۡعٰلَمِیۡنَ۔(80) سَلٰمٌ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ۔ (110) سَلٰمٌ عَلٰی مُوْسٰی وَھٰرُوْنَ۔ (121) سَلٰمٌ عَلٰی اِلۡ یَاسِیۡنَ (131)
پس قرآن کریم کی اس تعلیم کی پیروی میں ہم بھی تمام انبیاء کے ساتھ علیہ السلام کا دعائیہ کلمہ پڑھتے ہیں، جس سے ہماری غرض یہ ہوتی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ تو ان بزرگ ہستیوں پر ہمیشہ اپنی سلامتی نازل فرماتا چلا جا۔
آنحضورﷺ کے بابرکت نام کے ساتھ جو ہمﷺ کے الفاظ پڑھتے ہیں تو اس کی وجہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کا فرمان ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا۔(الاحزاب:57)یعنی اللہ یقیناً اس نبی پر اپنی رحمت نازل کر رہا ہے اور اس کے فرشتے بھی (یقیناً اس کے لیے دعائیں کر رہے ہیں) اے مومنو! تم بھی اس نبی پر درود بھیجتے اور ان کے لیے دعائیں کرتے رہا کرو اور (خوب جوش و خروش سے) ان کے لیے سلامتی مانگتے رہا کرو۔
پس اس قرآنی حکم کے تابع ہم آنحضورﷺ کے نام نامی کے ساتھﷺ کے دعائیہ کلمات پڑھتے ہیں۔
بعض صحیح احادیث میں آنحضورﷺ نے سابقہ انبیاء کے ناموں کے ساتھ بھیﷺ کے دعائیہ کلمات استعمال فرمائے ہیں۔ چنانچہ صحیح مسلم کی ایک روایت میں حضورﷺ نے حضرت آدم،حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ علیہم السلام کے ناموں کے ساتھﷺ کے دعائیہ کلمات کہے ہیں۔ (مسلم کتاب الایمان بَاب أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً فِيهَا) اور سنن نسائی کی ایک روایت میں حضورﷺ نے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کے لیےﷺ کے کلمات استعمال فرمائے ہیں۔ (سنن نسائی کتاب المساجد فَضْلُ الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى وَالصَّلَاةِ فِيهِ)
لہٰذا اگر کوئی شخص آنحضورﷺ کے علاوہ کسی اور نبی کے نام کے ساتھﷺ کے دعائیہ کلمات پڑھ لے تو اس میں بھی کوئی ہرج کی بات نہیں۔ لیکن عمومی طریق یہی ہے کہ ہمﷺ کے الفاظ صرف آنحضرتﷺ کے لیے استعمال کرتے ہیں اور باقی انبیاء کے لیے علیہ السلام کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔
باقی آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دیگر خلفاء کے ساتھ میرے نسبی رشتہ کی بابت پوچھا ہے تو نسب کے اعتبار سے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پڑپوتا ہوں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل میری ایک نانی کے والد ماجد تھے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا میں نواسہ ہوں، حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا میں بھانجا ہوں۔
سوال: تیونس سے ایک خاتون نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے Narcissistic Behaviour کی بیماری میں مبتلا فرد کے بارے میں بعض باتیں دریافت کیں۔نیز حدیث کہ’’ایک شخص سفر پر گیا اور بیوی کو گھر سے نکلنے سے منع کر گیا۔ بیوی کا باپ بیمار ہو گیا اورا س نے آنحضرتﷺ سے باپ کی عیادت کی اجازت چاہی تو حضورؐ نے فرمایا کہ خاوند کی نافرمانی نہ کرو۔ پھر اس کا باپ فوت ہو گیا تو اس نے حضورﷺ سے جنازہ میں شامل ہونے کی اجازت مانگی تو حضورؐ نے پھر اسے خاوند کی نافرمانی سے منع فرمایا۔ اس پر خدا تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو وحی کی کہ اس عورت کو اپنے خاوند کی اطاعت کی وجہ سے بخش دیا گیا ہے۔‘‘ کی صحت کے بارے میں دریافت کیا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 14؍فروری 2023ء میں ان سوالات کے بارے میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:
جواب: Narcissistic Behaviourشخصیت کی ذہنی بیماری کو کہتے ہیں۔ جس میں انسان خود کو بہت زیادہ توجہ دیتا ہے، اس کی انا بہت بڑھ جاتی ہے اور وہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کے احساسات کا خیال نہیں کرتا۔
ایسے لوگوں کے ساتھ ایک تو دوسرے لوگوں کو پیار محبت کا سلوک کرنا چاہیے اور اس کے قریبی عزیزوں کو اسے پیار محبت سے سمجھانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ علاوہ ازیں اس بیماری میں مبتلا افراد کا باقاعدہ علاج بھی کروانا چاہیے، جس میں ماہر نفسیات اس بیماری میں مبتلا شخص کے لیے مختلف نفسیاتی علاج تجویز کرتے ہیں، جن سے مریض میں بہتری پیدا ہوتی ہے۔لیکن اس کے ساتھ یہ بات سمجھنی بھی ضروری ہے کہ اس قسم کی بیماری میں مبتلا مریض اگر کسی کو کوئی ایسا نقصان پہنچا دے جو قانون کے اعتبار سے جرم شمار ہو تو مجرم اس بیماری کے بہانہ اس جرم کی سزا سے قانوناً بچ نہیں سکتا۔
ماں باپ میں سے اگر کوئی اس مرض کا شکار ہو تو بچوں کو ادب اور احترام کے دائرہ میں رہتے ہوئے ان سے نرم لہجہ میں بات کرنی چاہیے، انہیں پیارسے سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے اور جیسا کہ میں نے کہا کہ ان کا علاج بھی کروانا چاہیے۔
اسی طرح میاں بیوی میں سے اگر ایک فریق اس مرض میں مبتلا ہو جائے اور دوسرے فریق کا اسے برداشت کرنا مشکل ہو جائے۔ اور دوسرے فریق کے سمجھانے سے بھی بہتری پیدا نہ ہو رہی ہو اور دوسرا فریق یہ سمجھے کہ اب اس کے ساتھ گزارا ناممکن ہے تو پھر ایسے موقعہ پر دعا کر کے علیحدگی کا فیصلہ کرلینا چاہیے۔
باقی جو حدیث کی صحت کی بابت آپ نے دریافت کیا ہے تو اس بارے میں پہلی بات یہ ہے کہ یہ روایت احادیث کی مستند کتب میں سے کسی میں موجود نہیں ہے۔ طبرانی اور مسند عبد بن حمید وغیرہ کتب نے اسے روایت کیا ہے۔ (المعجم الاوسط للطبرانی باب العین، باب الميم من اسمه : محمد، حدیث نمبر7863۔ مسند عبد بن حمید، مسند انس بن مالک، باب أطيعي زوجك، حدیث نمبر 1372) لیکن علمائے حدیث نے اس کے بعض راویوں پر جرح کرتے ہوئے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ (ارواء الغلیل للالبانی جزء7 صفحہ 76)
اس روایت کے بارے میں دوسری اہم بات یہ کہ حضورﷺ جن کی شفقت و رحمت کے بارے میں قرآن کریم واشگاف الفاظ میں فرماتا ہے:لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ۔(سورۃ التوبہ:128)کہ(اے مومنو)!تمہارےپاس تمہاری ہی قوم کا ایک فرد رسول ہو کر آیا ہے تمہارا تکلیف میں پڑنا اس پر شاق گزرتا ہے اور وہ تمہارے لئے خیر کا بہت بھوکا ہے۔ اور مومنوں کے ساتھ محبت کرنے والا (اور) بہت کرم کرنے والا ہے۔اس شفیق و رحیم انسان کامل کے بارے میں یہ تصور کہ اس نے ایک کمزور سی عورت کے جذبات کی تکلیف محسوس ہی نہ کی اور اس عورت کے خاوند کے ایک نامعقول حکم کی اطاعت میں عورت کو اپنے باپ سے ملاقات کرنے اور پھر باپ کی وفات پر اسے افسوس کے لیے جانے کی اجازت نہ دی ہو، محالات میں سے ہے۔
پس یہ حدیث درایت کے اعتبار سے آنحضورﷺ کی سیرت طیبہ اور خصوصاً قرآن کریم کی واضح تعلیم کے برعکس ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہےا ور علمائے حدیث کا اسے ضعیف قرار دینا بالکل درست ہے۔