دادی جان کا آنگن

حضرت اسحاق علیہ السلام

گڑیا: دادی جان ابھی حج گزرا۔ ہم نے حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی کہانیاں سن لیں۔ میرے ذہن میں خیال آرہا تھا کہ حضرت اسحاقؑ کا ذکر نہیں آیا؟ وہ بھی تو حضرت ابراہیمؑ کے بیٹے تھے۔

احمد:جی ہاں اور ان کی والدہ کا نام حضرت سارہؑ تھا۔

دادی جان: ہمم۔ چلیں میں ابھی آپ کو حضرت اسحاقؑ کی کہانی سناتی ہوں۔

دادی جان: حضرت اسحاقؑ بھی اللہ تعالیٰ کے مقرّب نبی اور حضرت ابراہیمؑ کے چھوٹے بیٹے تھے۔ حضرت ابراہیمؑ کے ہاں ایک لمبے عرصہ تک اولاد نہ ہوئی۔ تو آپؑ نے درد اور الحاح کے ساتھ خدا تعالیٰ سے نیک اور پاک اولاد کے لیے دعا کی۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو سنتے ہوئے حضرت ابراہیمؑ کو ایک عظیم فرزند کی بشارت دی اور حضرت ہاجرہؑ کے بطن سے حضرت اسماعیلؑ پیدا ہوئے۔ حضرت ہاجرہؑ حضرت ابراہیمؑ کی بیوی تھیں اور آپ مصر کے بادشاہ کے رشتہ داروں میں سے تھیں۔

احمد: جی ہاں۔ کلاس میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ اسماعیل کا مطلب بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دعا سن لی۔

دادی جان: شاباش احمد میاں۔ حضرت ابراہیمؑ کی ایک اور بیوی سارہ بھی تھیں جو آپ کے ماموں کی بیٹی تھیں۔ یہ ایک عجیب بات تھی کہ آپ ایک لمبے عرصہ بےاولاد رہیں لیکن جب حضرت ہاجرہؑ کے ہاں حضرت اسماعیلؑ پیدا ہوئے تو اس کے کچھ سال بعد حضرت سارہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹا عطا فرمایا جن کا نام اسحاقؑ رکھا گیا۔ اسحاق کا مطلب ہے ہنسنے والا، خوش مزاج۔ میں نے آپ کو بتایا تھا ناں کہ حضرت ابراہیم ؑ کو حضرت لوطؑ کی قوم کی خبر دینے کے لیے فرشتے آئے تھے۔ تو حضرت ابراہیم ؑ بہت غم زدہ ہوگئے تھے۔

احمد: جی ہاں دادی جان۔ وہی لوگ پھر حضرت لوطؑ کے پاس بھی گئے تھے۔

دادی جان: جی ہاں۔ جب حضرت ابراہیمؑ دل گرفتہ ہوئے تو ان فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضرت ابراہیمؑ اور حضرت سارہؑ کو ایک بیٹے کی خوشخبری دی تاکہ عذاب کی خبر کے مقابل دل جوئی ہو سکے۔ حضرت سارہ ؑ یہ خبر سن کر ہنس پڑیں۔

احمد:حضرت اسحاقؑ کہاں پیدا ہوئے؟

دادی جان: حضرت اسحاقؑ کی پیدائش مُلک شام میں ہوئی۔ حضرت اسحاقؑ اپنے گھر میں پرورش پانے لگے۔ بائبل کے مطابق جب آپ آٹھ دن کے ہوئے تو آپ کا ختنہ کیا گیا۔ دن گزرتے گئے اور حضرت اسحاقؑ جوان ہوگئے۔ حضرت ابراہیمؑ کو آپ سے بہت محبت تھی۔ اس لیے آپؑ انہیں اپنی نظروں سے دُور نہیں کرنا چاہتے تھے اور دوسری طرف آپ کی یہ خواہش بھی تھی کہ اسحاقؑ کی شادی کر دی جائے۔ چنانچہ آپ نے اپنے بھتیجے بتوئل کو یہ پیغام بھیجا کہ میں اسحاق کی شادی تمہارے خاندان میں کرنا چاہتا ہوں لیکن میں اسحاق کو اپنی نظروں سے دُور بھی نہیں کر سکتا۔ اس لیے اگر تم اپنی بیٹی کا رشتہ اسحاق کے لیے منظور کرو تو اسے میرا پیغام لانے والے شخص کے ساتھ ہمارے گھر بھجوا دو۔ یہ پیغام سن کر بتوئل اور اس کے بیٹے لابان کو بہت خوشی ہوئی اور یوں بتوئل کی بیٹی ربقہ سے حضرت اسحاقؑ کی شادی ہو گئی۔ یہ شادی اپنی ذات میں بہت برکات کا باعث بنی کیونکہ اس شادی کے نتیجہ میں حضرت اسحاقؑ کے ہاں دو بیٹے پیدا ہوئے۔ جن کی نسل میں کئی بزرگ انبیاء پیدا ہوئے۔ بنی اسرائیل جن میں حضرت موسیٰ، حضرت داؤد، حضرت سلیمان اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام جیسے عالی مرتبہ نبی پیدا ہوئے حضرت اسحاقؑ کی اولاد سے ہیں۔

گڑیا:حضرت یعقوبؑ آپ کے ہی بیٹے تھے؟

دادی جان: جی ہاں۔ حضرت ابراہیمؑ کو بیٹے حضرت اسحاقؑ اور پوتے حضرت یعقوبؑ دونوں کی ولادت کی خوشخبری دی گئی تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اس آیت(سورۃہود:72) سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت اسحاقؓ کی پیدائش سے بھی پہلے خبر دے دی تھی کہ حضرت اسحاقؑ کے ہاں اولاد بھی ہوگی اور ان کا ایک بیٹا یعقوب مقرّب الٰہی ہوگا۔ بہرحال حضرت اسحاقؑ شادی کے بعد اسی علاقہ کنعان میں رہتے رہے۔ لیکن ایک مرتبہ کنعان میں شدید قحط پڑ گیا جس کی وجہ سے حضرت اسحاقؑ کو یہ علاقہ چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی اور آپ فلسطین کے علاقہ جیرہ میں آباد ہو گئے۔ اسحاقؑ کا طویل عمر میں انتقال ہوا۔ بعض محققین نے آپ کے زمانے کا تعیّن 23ویں صدی قبل مسیح کیا ہے۔ آپ کا انتقال حبرونمیں ہوا اور آپ کو بھی حضرت ابراہیمؑ کی قبر کے ساتھ مکفیلہ کے غار میں دفن کیا گیا۔ اب اس جگہ کو الخلیل کہتے ہیں۔ کیونکہ یہاں حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ کی یاد میں ایک مسجد تعمیر کی گئی ہے جس کا نام الخلیل ہے۔

گڑیا: دادی جان حضرت ابراہیمؑ کے ایک بیٹے کی نسل سے ہزاروں انبیاء پیدا ہوئے۔ اور دوسرے بیٹے کی نسل میں صرف ایک۔ ایسا کیوں ہوا؟

دادی جان: یہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر تھی۔ حضرت ابراہیمؑ کی آل سے اللہ تعالیٰ کو بہت پیار تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے سامان کیے اور ان پر انعامات کی برسات کی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے گمراہی کے حد تک جانے کے بعد ان سے نبوت کا انعام واپس لے لیا۔ اور اپنے وعدہ کے مطابق ان کے بھائی کی نسل میں دے دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت رسول کریم ﷺ کے ذریعہ دنیا کی ہدایت فرمائی کہ قیامت تک کسی شریعت کی ضرورت نہیں۔ یعنی آنحضرت ﷺ پر نازل ہونے والی شریعت میں گذشتہ تمام انبیاء کی ضروری تعلیمات سے آئندہ آنے والے مسائل کا حل موجود ہے۔ اور یہ بھی دیکھیں کہ ہم درود شریف پڑھتے ہیں تو حضرت ابراہیمؑ پر درود بھیجتے ہیں اور دوسری طرف رسول اللہ ﷺ اور آپؐ کی آل پر درود بھیجتے ہیں۔

یہ تھی حضرت اسحاقؑ کی کہانی۔ چلیں اب درود پڑھتے ہیں اور سوجاتے ہیں۔

سب نے درود پڑھ کر کہا شب بخیر!

دادی جان: شب بخیر

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button