غزوہ بنو نضیر کے حالات و واقعات کا بیان نیز پاکستان کے احمدیوں، ساری دنیا کے مسلمانوں اور دنیا کے عمومی صورت حال کے لیے دعاؤں کی تحریک: خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۸؍جون ۲۰۲۴ء
٭… جب عملاً جنگ شروع ہوئي تو منافقين کوآنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کے خلاف کھلم کھلا ميدان ميں آنے کي جرأت نہ ہوئي اور نہ بنو قريظہ کو ہمت پڑي کہ مسلمانوں کے خلاف ميدان ميں آ کر بنو نضير کي مدد کريں
٭… آپؐ کي نيت محض قيام امن تھي اور آپؐ نے مسلمانوں کي اس تکليف اوران اخراجات کو نظر انداز کرتے ہوئے جو اس مہم ميں برداشت کرنے پڑے تھے اب بھي بنو نضير کي اس شرط کو مان ليا
٭… رحمت و عنايات کا عالم يہ تھا کہ يہ بھي اجازت دي کہ سوائے ہتھياروں اور اسلحے کے جو سامان بھي لے جانا چاہيں لے جائيں
٭… بنو نضير اپنےہاتھوں سے اپنے مکانوں کو مسمار کرکے ان کے دروازے اورچوکھٹيں اور لکڑي تک اُکھيڑ کر اپنے ساتھ لے گئے
٭… پاکستان کے احمديوں، پاکستان کي عمومي امن و امان کي حالت،ساري دنيا کے مسلمانوں اور دنيا کي عمومي صورت حال کے ليے دعاؤں کي تحريک
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۸؍جون ۲۰۲۴ء بمطابق۲۸؍احسان ۱۴۰۳؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۸؍جون۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب مربی سلسلہ کے حصے ميں آئي۔
تشہد، تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
بنو نضیر کے ساتھ جنگ کا ذکر ہو رہا تھا ۔
اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بنو نضیر کے قلعےکی جانب روانہ ہوئے توآپؐ نے اپنے پیچھےمدینہ کی آبادی میں عبد اللہ ابن مکتوم ؓکو امام الصلوٰۃ مقرر فرمایا اور خود صحابہ ؓکی ایک جماعت کے ساتھ مدینہ سے نکل کر بنو نضیر کی بستی کا محاصرہ کر لیاجو اُس زمانے کے طریق جنگ کے مطابق قلعہ بند ہو گئے۔اس موقع پر عبداللہ بن ابی بن سلول اور دوسرے منافقین مدینہ نے بنو نضیر کے رؤسا کویہ کہلا بھیجا کہ تم مسلمانوں سے ہرگز نہ دبنا، ہم تمہارا ساتھ دیں گے اور تمہاری طرف سے لڑیں گے لیکن
جب عملاً جنگ شروع ہوئی تو منافقین کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کھلم کھلا میدان میں آنے کی جرأت نہ ہوئی اور نہ بنو قریظہ کو ہمت پڑی کہ مسلمانوں کے خلاف میدان میں آ کر بنو نضیر کی مدد کریں۔
بہرحال بنو نضیر مسلمانوں کے مقابلے پر نہیں نکلے اور قلعہ بند ہو کر بیٹھ گئے۔چونکہ ان کے قلعے اُس زمانے کے لحاظ سے بہت مضبوط تھے اس لیےاُن کو اطمینان تھا کہ مسلمان ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکیں گے اور تنگ آ کر محاصرہ چھوڑ جائیں گےلیکن آپؐ نے محاصرہ جاری رکھا۔
یہ محاصرہ چھ دن اور ایک روایت کے مطابق پندرہ دن تک جاری رہا۔بیس اور تئیس دنوں کے اقوال بھی مروی ہیں۔
چند دن گزر گئے تو آپؐ نے قلعوں کے باہر کھجوروں کے درختوں میں سے بعض درخت کاٹنے کا حکم دیا۔یہ لینہ قسم کی کھجور کے درخت تھے جو عموماً انسانوں کے کھانے کے کام نہیں آتا تھا۔
یہود ان درختوں کی آڑ میں قلعوں کی فصیل سے تِیر اور پتھر برسا رہے تھے اس لیے آپؐ نے ان درختوں کے کاٹنے کا حکم دیا تاکہ بنو نضیر مرعوب ہوجائیں اور اپنے قلعوں کے دروازے کھول دیں اور اس طرح چند درختوں کے نقصان سے بہت سی انسانی جانوں کا نقصان اور ملک کا فتنہ و فساد رُک جائے۔
معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خاص الہام کے تحت آپؐ نے یہ درخت کاٹنے کا حکم دیا تھا۔ چنانچہ یہ تدبیر کارگر ہوئی اور ابھی صرف چھ درخت ہی کاٹے گئے تھے کہ بنو نضیر نے غالبا ًیہ خیال کر کےکہ شاید مسلمان ان کے سارے درخت جن میں پھل دار درخت بھی شامل تھے،کاٹ ڈالیں گے آہ و پکار شروع کر دی۔عام حالات میں مسلمانوں کو دشمن کے پھل دار درخت کاٹنے کی اجازت نہیں تھی۔بہرحال بنو نضیر نے مرعوب ہو کراس شرط پر قلعے کے دروازے کھول دیے کہ ہمیں یہاں سے اپنا سامان لے کر امن و امان کے ساتھ جانے دیا جائے۔ یہ وہی شرط تھی جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود پہلے پیش کر چکے تھے اور چونکہ
آپؐ کی نیت محض قیام امن تھی اور آپؐ نے مسلمانوں کی اس تکلیف اوران اخراجات کو نظر انداز کرتے ہوئے جو اس مہم میں برداشت کرنے پڑے تھے اب بھی بنو نضیر کی اس شرط کو مان لیا
اور حضرت محمد بن مسلمہؓ کو مقرر فرمایا کہ وہ اپنی نگرانی میں بنو نضیر کو امن و امان کے ساتھ مدینہ سے روانہ کر دیں۔
یہود کی بے بسی اور ان کی خود جلاوطنی کی درخواست کرنے کے بارے میں مزید یوں لکھا ہے کہ مسلمانوں نے اس قبیلے کےدرخت جلا کر انہیں مزید گھبراہٹ میں ڈال دیا۔اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب بھر دیا اور وہ ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوگئے۔
اُن کی جلاوطنی کی درخواست پر آپؐ نے حکم دیا کہ مدینہ سے نکل جاؤتمہاری جانیں محفوظ رہیں گی۔تمہارے اونٹ جو سامان اُٹھاسکیں وہ بھی لے جاؤسوائے اسلحہ کے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام لگانے والوں کو دیکھنا چاہیے کہ آپؐ نے عہد شکنی کے مرتکب، ریاست کے سربراہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو متعدد مرتبہ قتل کرنے کی سازشیں اور کوششیں کرنے والے، ہتھیار بند ہوکر بغاوت پر اُترنے والے اور امن کی پیشکش کو تکبرانہ طور پر ٹھکرانے والے ان یہود پر گرفت حاصل کرلی تھی لیکن اس کے باوجود آپؐ کی امن پسندی،صلح جوئی، رحمت و شفقت انسانی کی عجیب شان اور خُلق ظاہر ہوتا ہے کہ آپؐ نے اُن کو یہاں سے امن و سلامتی کے ساتھ چلے جانے کی اجازت دے دی۔رحمت و عنایات کا عالم یہ تھا کہ یہ بھی اجازت دی کہ سوائے ہتھیاروں اور اسلحے کے جو سامان بھی لے جانا چاہیں لے جائیں۔
آپؐ نے جلاوطنی کی چار شرائط رکھی تھیں۔نمبر ایک بنو نضیر کے یہود مدینہ منورہ کے علاقے سے جہاں چاہیں کُوچ کرجائیں۔دوم :جلاوطنی کے وقت یہود مکمل طور پر بغیر ہتھیار ہوں گے۔سوم:جس قدر سامان وہ اُٹھا کر لے جانا چاہیں لے جاسکتے ہیں۔چہارم:یہود کے مقدور بھر سامان لے جانے کے بعد اُن کے بچ جانے والے منقولہ و غیر منقولہ اموال مسلمانوں کی ملکیت ہوں گے۔
اس موقع پر یہود نے ایک اَور عذر کیا کہ بہت سے لوگ ہمارے مقروض ہیں اور ایک مقررہ مدت کے بعد وہ قرض انہوں نے ادا کرنا ہے اُن کا کیا بنے گا۔اس سے اُن کا مقصد تھا کہ مدینہ میں مزید رُکنے کا موقع مل جائے گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم سود ختم کرکے قرض کی رقم کم کردو اور جلدی کرو۔اس طرح اُن کے قرض کی رقم ادا کردی گئی۔
یہود نے جلا وطنی کے وقت اپنے چھ سو اونٹوں پر عورتوں اور بچوں کے علاوہ وہ سامان بھی لاد لیا جو وہ لے جاسکتے تھے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نےیہود کی جلاوطنی کے بارے میں لکھا ہے کہ بنو نضیر اپنےہاتھوں سے اپنے مکانوں کو مسمار کرکے ان کے دروازے اورچوکھٹیں اور لکڑی تک اُکھیڑ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ یہ لوگ مدینہ سے اس جشن اور دھوم دھام کے ساتھ گاتے بجاتے ہوئے نکلے کہ جیسے ایک بارات نکلتی ہے۔ البتہ ان کا سامان حرب اور جائیداد غیر منقولہ یعنی باغات وغیرہ مسلمانوں کے ہاتھ آئے اور چونکہ یہ مال بغیر کسی عملی جنگ کے ملا تھا اس لیے شریعت اسلامی کی رُو سے اس کی تقسیم کا اختیار خالصتاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھا اورآپؐ نے یہ اموال زیادہ تر غریب مہاجرین میں تقسیم فرما دیےجن کے گزارہ جات کا بوجھ ابھی تک اس ابتدائی سلسلہ مواخات کے ماتحت انصار کی جائیدادوں پر تھا اور اس طرح بالواسطہ انصار بھی اس مال غنیمت کے حصہ دار بن گئے۔
جب بنو نضیر محمد بن مسلمہؓ صحابی کی نگرانی میں مدینہ سے کُوچ کر رہے تھے تو بعض انصار نے ان لوگوں کو ان کے ساتھ جانے سے روکنا چاہا جو درحقیقت انصار کی اولاد سے تھے مگر انصار کی منت ماننے کے نتیجے میں یہودی ہو چکے تھے اور بنو نضیر ان کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے لیکن چونکہ انصار کا یہ مطالبہ اسلامی حکم لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ یعنی دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہونا چاہیے کے خلاف تھا اس لیے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے خلاف اور یہودیوں کے حق میں فیصلہ کیا اور فرمایا کہ جو شخص بھی یہودی ہے اور جانا چاہتا ہے ہم اُ سے روک نہیں سکتے البتہ بنو نضیر میں سے دو آدمی خود اپنی خوشی سے مسلمان ہو کر مدینہ میں ٹھہر گئے۔
ایک روایت آتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے متعلق یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ شام کی طرف چلے جائیں یعنی عرب میں نہ ٹھہریں لیکن باوجود اس کے ان کے بعض سردارمثلاً سلام بن ابی الحقیق، کنانہ بن ربیع اور حیی بن اخطب وغیرہ اور ایک حصہ عوام کا بھی حجاز کے شمال میں یہودیوں کی مشہور بستی خیبر میں جا کر مقیم ہو گیا اور خیبر والوں نے ان کی بڑی آؤبھگت کی۔یہ لوگ بالآخر مسلمانوں کے خلاف خطرناک فتنہ انگیزی اوراشتعال جنگ کا باعث بنے۔
بنو نضیر سے حاصل ہونے والے مال کی تقسیم کےبارے میں لکھا ہے کہ ان کا اسلحہ،باغات،زمینیں اور مکانات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قبضے میں لے لیے۔ یہ مال چونکہ بغیر جنگ کے حاصل ہوا تھا جسے مال فے کہتے ہیں اور اس مال میں سے مال غنیمت کی طرح خمس نہیں نکالا جاتا بلکہ سارے کا سارا مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار میں ہوتا تھا تاکہ آپؐ جہاں چاہیں اسے صَرف فرمائیں۔
بنو نضیر سے لڑائی کی نوبت ہی نہیں آئی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کا رعب اوردبدبہ اُن کے دلوں پر طاری کر دیا تھا ۔اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ؐکو اُن کے مال کا وارث بنا دیا۔ آپؐ نے تمام ساز وسامان کو مسلمانوں میں تقسیم کر دیا تاکہ وہ ا سے نیکی کے کاموں میں خرچ کریں۔اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے کہوَمَاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ مِنۡہُمۡ فَمَاۤ اَوۡجَفۡتُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ خَیۡلٍ وَّلَا رِکَابٍ وَّلٰکِنَّ اللّٰہَ یُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ۔یعنی اور جو کچھ اللہ نے ان کا مال اپنے رسول کو دیا تم نے اپنے گھوڑے اور اونٹ اس مال کے حصول کے لیے نہیں دوڑائے تھے۔ لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس کا چاہتا ہے مالک بنا دیتا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
انصار کے عجیب قابل رشک محبت اور ایثار کے اظہار کا نمونہ بھی ہمیں یہاں ملتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال تقسیم کرتے وقت حضرت ثابت بن قیس بن شماسؓ سے فرمایا کہ میرے سامنے اپنی قوم کو اکٹھا کرو۔تمام انصار کو بُلاؤ۔ انہوں نے اوس اور خزرج کو بلا لیا۔آپؐ نےانصار کے مہاجرین سے حسن سلوک کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو بنو نضیر سے حاضل شدہ مال فےتمہارے اور مہاجرین کے درمیان تقسیم کر دیا جائے اس صورت میں مہاجرین تمہارے گھروں پر قابض اور مالوں کے مالک رہیں گے اور اگر تمہاری مرضی ہو تو میں مال فےمہاجرین میں تقسیم کر دوں اس صورت میں وہ تمہارے دیے ہوئے گھروں سے نکل جائیں گے۔اس پر حضرت سعد بن عبادہؓ اور حضرت سعد بن معاذؓ نےعرض کیا کہ ہمارے اموال ان کے پاس رہنے دیجیے اور بنو نضیر کے تمام اموال بھی ہمارے مہاجر بھائیوں میں تقسیم کردیجیے۔مہاجرین میں سے صدائیں آنے لگیں کہ اے اللہ کے رسولؐ !ہم اس پر خوش ہیں اور ہم نے تسلیم کیا۔
آپؐ اس ایثار و قربانی کے جذبے کو دیکھ کر انتہائی خوش ہوئے اور فرمایا:
اے اللہ! انصار پر اور اُن کی اولادوں پر رحم فرما۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثراموال مہاجرین کی جماعت میں تقسیم فرما دیے۔ انصار میں سے صرف دو تنگدست صحابہ حضرت سہیل بن حُنیفؓ اور حضرت ابو دجانہؓ کو اس مال سے نوازا گیا۔آپؐ نے حضرت سعد بن معاذؓ کو ابو حقیق کی تلوار عطا کی۔اس تلوار کی بڑی شہرت تھی۔آپؐ نے بقیہ سامان غرباء میں تقسیم کر دیا اور کچھ ازواج مطہرات کے اخراجات کے لیے رکھا۔ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنو نضیر کے باغات سے حاصل ہونے والے غلے میں سے سال بھر کا خرچ اپنی ازواج کو دے دیتے تھے اور جو باقی بچ جاتا تھا اُسے جہاد کی تیاری کےلیے صَرف کرتے تھے۔ غریبوں اور ناداروں کی اعانت بھی اسی مال سے کی جاتی تھی۔بنونضیر کے سات باغات تھے جن پرآزاد کردہ غلام حضرت ابو رافعؓ کو مقرر کیا گیا تھا۔ یہاں غزوہ بنو نضیر کا ذکر ختم ہوا ہے۔آئندہ انشاءاللہ دوسرے غزوات کا ذکر ہوگا۔
خطبہ جمعہ کے آخر پر حضور انور نے پاکستان کے احمدیوں، پاکستان کی عمومی امن و امان کی حالت،ساری دنیا کے مسلمانوں اور دنیا کی عمومی صورت حال کے لیے دعاؤں کی تحریک فرمائی جس کی تفصیل درج ذیل لنک پر موجود ہے۔
٭…٭…٭