تاریخ احمدیت

یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق (قسط۳۴) وزیر سنگھ از گجرات کی قادیان آمد (مارچ ۱۹۰۱ء)

(عمانوایل حارث)

صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے وزیر سنگھ نامی ایک متلاشی حق کا حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی خدمت میں قادیان دارالامان آکر چند روز رہنے کا ذکر جماعت کے اولین اخبار الحکم میں محفوظ ہے۔

اس شخص کا کہنا تھا کہ وہ ابتداسے ہی مذہبی رجحانات رکھنے والا تھا اور اپنے خیال میں بعض نیکیاں بھی کرتا رہا ہے، مگراسے دُنیا اور اس کے طلب گاروں کو اپنے اردگرد دیکھ کربہت بڑی تکلیف محسوس ہوتی اوروہ اپنے اندر ایک کشمکش پاتا تھا۔

اس نے بتایا کہ مَیں ایک مرتبہ دریائے جہلم کے کنارے کنارے پھر رہا تھا کہ مجھے ایک عجیب نظارہ پریم (محبت) کا دکھایاگیا تھا جس سے مجھے ایک لذّت اور سُرور محسوس ہوتا تھا۔ جس طرف نظر اُٹھاتا تھا آنندہی آنند ملتا تھا۔ کھانے میں، پینے میں، چلنے میں، پھرنے میں، غرض ہر ایک حرکت میں ہراَدا میں پریم ہی پریم معلوم ہوتا تھا، چند گھنٹوں کے بعدیہ نظارہ تو جاتا رہا، مگر اس کا بقیہ ضرور دو ماہ تک رہا۔ یعنی اس نظارہ سے کم درجہ کا سرور دینے والا نظارہ۔ اس وقت مَیں عجیب گھبراہٹ میں ہوں۔ مَیں نے بہت کوشش کی کہ مَیں اِس کو پھر پاؤں، مگر نہیں ملا۔

اسی روحانی سرور دینے والے ماحول اور نظار ے کی طلب اور تلاش میں وہ لاہور گیا اور بتایا کہ میں برہموسماج کے سرگرم رکن بابو’’ا بناش چندر‘‘فورمین صاحب کے پاس گیا۔ مگر افسوس ہے کہ وُہ مجھ سے بجز چند منٹ کے اور وُہ بھی اپنے دفتر میں ہی نہ مل سکے۔

پھر مَیں پنڈت شونرائن ستیاننداگنی ہوتری کے پاس گیا۔ مَیں نے دیکھا کہ وُہ لوگ کسی قدر رُوحانیت کو محسوس کرتے ہیں۔ آخر مَیں کوئی دو مہینے تک ان کے ہائی سکول موگا میں بطور تھرڈ ماسٹر کام کرتا رہا اور اپنی اصلاح میں لگا رہا۔ وہاں جانا میرا صرف اس مطلب کے لیے تھاکہ مَیں اپنی لائف کو بناؤں۔ اس عرصہ میں کچھ مختصر سا نظارہ نظرآنے لگا، مگر میری تسلّی اور اطمینان نہیں ہوا۔ بیمار ہوکر مجھے آنا پڑا۔

مَیں نے اپنے شہر میں شیخ مولابخش صاحب کو ایک مرتبہ جلسۂ اعظم مذاہب والا آپ کامضمون پڑھتے ہوئے سُنا۔ مَیں اپنے خیال میں مست اور متفکرجارہا تھا کہ اُن کی آواز میرے کان میں پڑی۔ میری رُوح نے غیر معمولی طور پر محسوس کیا کہ اس کلام میں لائٹ (نور) ہے اور یہ کہنے والا اپنے اندرروشنی ضروررکھتا ہے۔مَیں نے اس مضمون کو کئی مرتبہ پڑھا اور میرے دل میں قادیان آنے کی خواہش پیداہوئی، مگر لیکھرام کے قتل کے تازہ وقوعہ کے باعث لاہور میں مَیں اگر کسی مسلمان سے پتہ پوچھتا تھا، تووہ پتہ نہ بتاتاتھا۔ غالباً اس کو یہ وہم ہوتا ہوگا کہ شاید یہ مرزا صاحب کے قتل کو جاتا ہے۔ بہرحال میرے دل میں ایک کشمکش پیدا ہورہی تھی۔ اب وہ میری آرزو پوری ہوئی ہے اورمَیں اپنی زندگی کو بنانا چاہتا ہوں۔

اسی غرض کے واسطے حضور ؑکی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔

اس پر حضرت اقدس امام ہمام علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے اسلام کی حقیقت یوں سمجھائی، فرمایا: حقیقت یہی ہے کہ انسان کو پوست اور چھلکے پرٹھہرنا نہیں چاہیے اور نہ انسان پسند کرتا ہے کہ وہ صرف پوست پر قناعت کرے۔ بلکہ وہ آگے بڑھنا چاہتاہے اور اسلام انسان کو اسی مغز اور روح پر پہنچانا چاہتا ہے۔ جس کا وہ فطرتاً طلبگار ہے…مگر بات یہ ہے کہ اگر انسا ن چاہے کہ ایک دم میں سب کچھ ہوجائے اور معرفتِ الٰہی کے اعلیٰ مراتب پر یکدفعہ پہنچ جائے۔ یہ کبھی نہیں ہوتا۔ دنیامیں ہر ایک کام تدریج سے ہوتا ہے۔ دیکھو کوئی علم اورفن ایسا نہیں جس کو انسان تامل اور توقف سے نہ سیکھتا ہو۔ ضروری ہے کہ سلسلہ وار مراتب کوطے کرے۔ دیکھو! زمیندار کو زمین میں بیج بوکر انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اول وہ اپنی عزیز شے اناج کو زمین میں ڈال دیتاہے جس کو فوراً جانور چُگ جائیں یا مٹی کھالے۔ یاکسی اور طرح ضائع ہوجائے مگر تجربہ اس کو تسلی دیتا ہے کہ نہیں ایک وقت آتا ہے کہ یہ دانے جو اس طرح پر زمین کے سپردکیے گئے ہیں۔ بارور ہوں گے اور یہ کھیت سرسبز لہلہاتا ہوا نظرآئے گا اور یہ خاک آمیختہ بیج رزق بن جائیں گے۔

اس کے بعد حضور علیہ السلام نے اس سائل کو بتایا کہ اصلاح کے لیے صبر شرط ہے۔فرمایا: اب آپ غور کریں کہ دنیاوی اور جسمانی رزق کے لئے جس کے بغیر کچھ دن آدمی زندہ بھی رَہ سکتا ہے، چھ مہینے درکار ہیں۔

حالانکہ وہ زندگی جس کا مدار جسمانی رزق پر ہے اَبدی نہیں، بلکہ فنا ہوجانے والی ہے۔ پھر رُوحانی رزق جو رُوحانی زندگی کی غذا ہے جس کو کبھی فنا نہیں اور وہ ابدالآباد کے لئے رہنے والی ہے۔ دوچاردن میں کیونکرحاصل ہو سکتا ہے؛ اگرچہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ ایک دم میں جو چاہے کردے اور ہمارا ایمان ہے کہ اس کے نزدیک کوئی چیز انہونی نہیں… اسلام نے وہ خدا پیش کیا ہے۔ جو اپنی قدرتوں اور طاقتوں میں بے نظیر اور لاشریک خدا ہے۔ مگر ہاں اس کا قانون یہی ہے کہ ہر ایک کام ایک ترتیب اور تدریج سے ہوتا ہے۔ اس لیے صبر اور حُسن ظن سے اگر کام نہ لیا جائے کامیابی مشکل ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہا کہ پہلے بزرگ پھونک مار کر آسمان پرپہنچادیتے تھے۔ مَیں نے کہا کہ تم غلطی کرتے ہو۔ خداتعالیٰ کا یہ قانون نہیں ہے…

نہایت ہی بدقسمت ہے وہ انسان جو حق کی طلب میں نکلے اور پھر حُسنِ ظن سے کام نہ لے…

یادرکھو۔ اصلاح کے لئے صبر شرط ہے۔ پھر دُوسری بات یہ ہے کہ تزکیہ اخلاق اور نفس کا نہیں ہوسکتا۔ جب تک کہ کسی مزکی نفس انسان کی صحبت میں نہ رہے۔ اول دروازہ جو کھلتا ہے، وُہ گندگی دُور ہونے سے کھلتا ہے۔ جن پلید چیزوں کو مناسبت ہوتی ہے وہ اندر رہتی ہیں۔ لیکن جب کوئی تریاقی صحبت مل جاتی ہے، تو اندرونی پلیدی رفتہ رفتہ دُور ہونی شروع ہوتی ہے…

حضور علیہ السلام نے مجاہدہ کی ضرورت و اہمیت بیان کرتے ہوئے مزید بتایا کہ ’’مَیں نے جس شخص کا ذکر کیا ہے کہ اس نے مجھ سے کہا کہ پہلے بزرگ پھونک مارکر غوث قطب بنادیتے تھے۔ میں نے اس کو یہی کہا کہ یہ دُرست نہیں ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا قانون نہیں ہے۔ تم مجاہدہ کرو۔ تب اللہ تعالیٰ اپنی راہیں تم پر کھولے گا۔ اس نے کچھ توجہ نہ کی اور چلاگیا۔ ایک مدت کے بعد وہ پھر میرے پاس آیا، تو اس کو اس پہلی حالت سے بھی ابتر پایا۔ غرض انسان کی بدقسمتی یہی ہے کہ وُہ جلدی کا قانون تجویز کرلیتا ہے اور جب دیکھتا ہے کہ جلدی کچھ نہیں ہوتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے قانون میں تو تدریج اور ترتیب ہے، تو گھبرااُٹھتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دہریہ ہوجاتا ہے۔ دہریّت کا پہلا زینہ یہی ہے۔ میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں کہ یا تو بڑے بڑے دعوے اور خواہشیں پیش کرتے ہیں کہ یہ ہوجائیں اور وہ بن جائیں اور یا پھر آخر اَرذَل زندگی کو قبول کرلیتے ہیں۔ ایک شخص میرے پاس کچھ مانگنے آیا۔ جوگی تھا۔ اس نے کہا کہ مَیں فلاں جگہ گیا۔ فلاں مرد کے پاس گیا۔ آخر ا س کی حالت اور اندازِ گفتگو سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ مانگ کر گذارہ کرلینا چاہیے۔اصل اور سچی بات یہی ہے کہ صبر سے کام لیا جائے…

اللہ تعالیٰ تو اخیر حدتک دیکھتاہے۔ جس کو کچا اورغدار دیکھتا ہے۔ وہ اس کی جناب میں راہ نہیں پاسکتا…۔‘‘

الغرض اس علمی مجلس میں آپ علیہ السلام نے اس مہمان وزیر سنگھ کو معرفت، محبت الٰہی کے ذرائع، خداجوئی کے آداب بڑی تفصیل سے بتائے۔ اور فرمایا: ’’آپ خداجوئی کے طالب ہیں۔ آپ کے لئے عمدہ طریق یہی ہے کہ آپ پہلے تصحیح عقائد کریں۔ جس سے آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ وُہ خدا جس کی تلاش اور جستجو آپ کوہے۔ ہے کیا چیز؟ ا س سے آپ کی معرفت کو ترقی ملے گی اور معرفت میں جو قوتِ جذب محبت کی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک محبت پیداکرنے کا موجب ہو گی۔ بدوں اس کے محبت کا دعویٰ سنیروپھل کی طرح ہے جو چند روز کے بعد زائل ہوجاتا ہے…۔

حق جُو: حضُور مَیں مذہب کا پابند نہیں ہوں۔

حضرت اقدسؑ: اگر کوئی اپنی جگہ یہ فیصلہ کرکے آوے کہ مَیں نے کچھ ماننا ہی نہیں تو اس کو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے اور کہیں بھی کیا۔ لیکن اگر کوئی عقل رکھتا ہے تو اضطراراً اس کو ایک راہ پیدا کرنی پڑتی ہے۔ مذہب کیا ہے؟ وہی راہ ہے جس کو وہ اپنے لیے اختیار کرتا ہے۔ مذہب تو ہر شخص کو رکھنا پڑتااور وہ لامذہب انسان جو خدا کو نہیں مانتا اس کو بھی ایک راہ اختیار کرنی لازمی ہے۔ اور وہی مذہب ہے۔مگر ہاں امر غور طلب یہ ہونا چاہیے کہ جس راہ کو اختیار کیا ہے،کیا وہ راہ وہی ہے جس پر چل کر اس کو سچی استقامت اور دائمی راحت اور خوشی اور ختم نہ ہونے والا اطمینان مل سکتا ہے؟

حق جُو: مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ مذہب کا کام فطرت کو درست کرنا ہے۔

حضرت اقدسؑ:اس وقت کوئی بادشاہ ہے۔مثلاً شہنشاہ ایڈورڈ ہفتم ہے۔ اب اگر کسی اور کو کہیں بھی تو تکلفات سے کہیں گے، مگر ہو نہیں سکتا۔ ہم یہی تو چاہتے ہیں کہ اس حقیقی خدا کو شناخت کیا جاوے اور باقی سب تکلّفات چھوڑدیئے جائیں، اس کا نام فطرت کی درستی ہے… ‘‘

اس علم و معرفت سے بھری محفل کا احوال لکھ کر ایڈیٹر الحکم نے مزید لکھا:’’حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس تقریر کو یہاں ختم کیا۔حق جُوصاحب کچھ عرصہ تک قادیان میں رہے۔ انہوں نے حضرت اقدس کی صحبت میں رہ کر جو فائدہ اُٹھایا۔ اُس کے اظہار کے لئے ہم اُن کے ایک خط کو بھی جو اُنہوں نے لاہور سے ہمارے نام بھیجا ہے یہاں درج کرتے ہیں:

مکرمی جناب شیخ صاحب۔تسلیم

(۱)میری بے اَدبی معاف فرمادیں۔مَیں قادیان سے اچانک کچھ وجوہات رکھنے پر چلا آیا۔ مَیں اب یہاں سوچوں گا کہ مجھے اپنی زندگی پر لوک کے لئے کس پہلو میں گذارنی ہے۔ مَیں آپ کی جماعت کی جُدائی سے تکلیف محسوس کررہا ہوں۔

(۲) مَیں حضرت جی کے اخلاص کا حددرجہ مشکور ہوں اور جو کچھ رُوحانی دان مجھے نصیب ہوا اور جو کچھ مجھ پر ظاہر ہوا۔ اُس کے لئے نہایت ہی مشکور ہورہا ہوں۔مگر افسوس ہے دنیا میں سخت اندھکار ہے اور مَیں ایک ایک قدم پر گررہا ہوں۔ سوائے صُحبت کے اس حالت کو قائم رکھنامیرے لئے کٹھن ودشوار ہے۔

(۳) اس بات پر میر ایقین ہے کہ بے شک حضرت صاحب رُوحانی بھلائی کے طالبوں کے لئے اعلیٰ نمونہ ہیں اور ان کی صحبت میں مستقل طور پر رہنا بڑا ضروری ہے۔ دُنیا کی حالت ایسی ہے کہ موتیوں کو کیچڑ میں پھینکتے ہیں اورکوڑیاں جمع کرتے ہیں اور جو شخص موتی سنبھالنے لگے اس کے سر پر مٹی پھینک دیتے ہیں۔ہائے افسوس کہ وہ کوڑیوں کو بھی موتی سمجھے بیٹھے ہیں۔ مَیں سخت گھبرا یاہوا ہوں۔ ہاں میں کیا کروں اور کدھر جاؤں۔میری حالت بہت بُری ہے۔ تمام جماعت کی خدمت میں آداب۔خصوصاً حضرت صاحب کی خدمت میں مؤدبانہ آداب عرض فرماویں اور میرے لیے حضرت صاحب اور تمام جماعت سے دُعا کراویں۔

آپ کا نیاز مند

وزیرسنگھ

یہ خط حضرت اقدسؑ کے حضور پڑھ کر سنایا گیا۔حضور علیہ السلام نے ایڈیٹر الحکم کو مندرجہ ذیل جواب لکھ دینے کا حکم دیا:

صبراوراستقلال کے ساتھ جب تک کوئی ہماری صحبت میں نہ رہے، وُہ فائدہ نہیں اُٹھاسکتا۔ ان کو چاہیے کہ وُہ یہاں آجائیں اور ایک عرصہ تک ہمارے پاس رہیں۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ : ۴۵۷تا ۴۶۹۔ ایڈیشن۱۹۸۸ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button