متفرق مضامین

ندامت کے چراغوں سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

(عرفان احمد خان۔ جرمنی)

ذوالحجہ کا چاند پورے عالم اسلام پر جیسےہی نظر آتاہے اس کے طلوع کے ساتھ ہی ماحول میں حج اور عیدالاضحی کا چرچا شروع ہو جانا ایک طبعی امر ہے۔ عید قربان کا تعلق جانور کے ذبح کیے جانے سے ہے جس کا ایک تاریخی پس منظر اور فلسفہ ہے جس کو سمجھنے اور یاد رکھنے کے لیے دس ذوالحجہ کو لاکھوں جانور خدا کی راہ میں قربان کیے جاتے ہیں۔ عالم اسلام یعنی اسلامی ممالک میں ان دس دنوں کا انتظار جس شدت سے کیا جاتا ہے اس نے عید کی آمد آمد کے محاورے کو جنم دیا لیکن بدقسمتی سے اسلام کے نام پر حاصل کیے جانے والے ملک پاکستان میں ذوالحجہ کے مبارک مہینے کے آغاز کے ساتھ ہی شیطان صفت ملاں کو لٹھ لے کر خدشات کی بنیاد پر نفرت کو فروغ دینے اور کمزور کو دھمکانے کا لائسنس مل جاتا ہے۔ لائسنس مَیں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ گذشتہ دنوں کے دوران پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر چلنے والی خبروں کا جائزہ لیں تو حکومت جس کی ذمہ داری بلا امتیاز اپنے ہر شہری کو امن مہیا کرنا ہے نفرت کے فروغ میں خود شریک کار بنی ہوتی ہے اور فساد پھیلانے والوں کو روکنے کی بجائے ان کے آگے گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔ قربانی کرنا ایک شخصی انفرادی نیکی ہے جس کا تعلق توفیق سے ہے نہ کہ کسی انتظامی حکم سے۔ ضلع چکوال کے پولیس افسران اور ڈپٹی کمشنر نے ملی بھگت سے جماعت احمدیہ کے تین عہدیداران سے زبردستی یہ ضمانت حاصل کرنا چاہی کہ ان کے ضلع میں کوئی احمدی قربانی کا جانور ذبح نہیں کرے گا اور جب اس زبردستی کے حصول میں ناکام رہے تو ان تینوں کو تیس روز کے لیے حوالات میں بند کر دیاگیا۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ اس سے ملتے جلتے واقعات روز سوشل میڈیا پر اور جماعت احمدیہ کے پریس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے جاری کردہ پریس  ریلیزز سے دنیا کے علم میں آرہے ہیں۔ سعد اللہ پورضلع منڈی بہاؤ الدین میں دو احمدیوں غلام سرور اور راحت باجوہ کی شہادت کے بعد سے چکوال، سیالکوٹ، جہلم، بستی شکرانی ضلع بہاولپور، جاہمن برکی ایریا لاہور، کوٹلی آزاد کشمیر، گوجرہ، نارووال، بلدیہ ٹاؤن کراچی ہر جگہ سے ظلم و زیادتی کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ تحریک لبیک نے خوف کی ایک فضا پورے ملک میں قائم کررکھی ہے جس کی بنیاد صرف یہ خدشہ بتایا جاتا ہے کہ احمدی قربانی کے جانور ذبح کریں گے۔

آج کل اخبارات میں حکومت پنجاب کی طرف سے روز ایک جلی اشتہار شائع کیا جا رہا ہے جس میں ۹۳ کالعدم تنظیموں کے نام درج ہیں جن پر قربانی کی کھالیں جمع کرنے پر پابندی ہے۔ اشتہار میں لوگوں سے اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ ان کالعدم تنظیموں کو کھالیں نہ دیں۔ ایک طرف احتیاط کا یہ عالم ہے اور دوسری طرف تحریک لبیک کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ ہاتھوں میں ہتھیاراٹھائے جگہ جگہ وارننگز جاری کریں کہ قربانی کا جانور ذبح کرنے والے احمدیوں کے سر قلم کر دیے جائیں گے۔ تحریک لبیک و دیگر انتہا پسند تنظیموں کے کارکنان کے سامنے بھیگی بلی بنے پنجاب پولیس کے افسران کی تصاویر پنجاب کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں۔ پنجاب کی سرکاری مشینری کی پشت پر سپریم کورٹ کے سینئرجج منصور علی شاہ اور پنجاب ہائی کورٹ کے جج طارق سلیم کے فیصلوں کی طاقت موجود ہے لیکن پنجاب سرکار قانون کی طاقت کا سہارا موجود ہونے کے باوجود ملاں سے سینگ پھنسانا نہیں چاہتی اور انہیں اپنے اعمال پر کوئی ندامت بھی نہیں۔

دیکھا تو سب کے سر پہ گناہوں کا بوجھ تھا

خوش تھے تمام نیکیاں دریا میں ڈال کر

چور اور چوکیدار کے گٹھ جوڑ نے قانون کو ایک مذاق بنا دیا ہے۔ جماعت احمدیہ کے خلاف سوشل میڈیا پر جس قدر جھوٹا پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے اور جو زبان استعمال کی جا رہی ہے اس سے نوجوان اخلاقی زوال کا شکار ہو رہے ہیں، پہلے قربانی کے لیے خریدا گیا بکرا کھونٹے سے کھول کر لے جانے کے ایک دو واقعات ہو جاتے تھے۔ امسال تو بکروں بھرے ٹرک لوٹ لیے جانے کی خبریں بھی اخبارات میں با تصویر موجود ہیں۔ جس پر سرکار کو کوئی ندامت نہیں۔

فکر ہے تو بس یہ کہ کوئی احمدی قربانی کا جانور ذبح نہ کر لے۔ سیاست میں مذہب کو شامل کرنے کا ایک نقصان یہ بھی ہوا ہے کہ اسلام کا بھی وہی حال کر دیا گیا ہے جو جمہوریت کا ہے۔ آج کی نوجوان نسل پوچھتی ہے کہ کیا ہمارے بزرگوں نے ایک طویل سیاسی جدوجہد کےذریعے یہ ملک اس لیے بنایا تھا کہ ہم عقیدوں کی سیاست اور ملاں کی مرضی کے تابع رہ کر زندگی بسر کریں گے؟ افسوس کہ ہم نے پاکستان میں سیاست اور مذہب کو یکجا کر کے نفرتوں کو عقیدے کے کاروبار کے لیے استعمال کیا۔ جس سے پستی کا ایسا سفر شروع ہوا کہ کامیابی کی امید ناپید ہو کر رہ گئی۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ جب پاکستان قائم ہوا تو رمضان المبارک کا مقدس مہینہ تھا۔ اب جب بھی رمضان آتا ہے تو پاکستان کے عوام مہنگائی کی مصیبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ہمیں اپنے اعمال اور قول وفعل پر کوئی ندامت نہیں۔ سیاست، جمہوریت، صحافت، عدالتیں، تجارت، تعلیم، اور سرکاری دفاتر سے لے کر کھیل کے میدانوں تک زوال ہی زوال نظر آ رہا ہے۔

کاش کوئی اس زوال کی وجہ جاننے کی کوشش کر سکے۔ اس غلطی کا کھوج لگانے کی کوشش کرے جو پستی کے سفر کی وجہ بنی۔ ناانصافیوں، محرومیوں اور خدا کے بتائے ہوئے راستے سے دوری کے سفر نے ملک خداداد کو اس کی اصل منزل سے دُور رکھا ہوا ہے۔

ہم دیار غیر میں بیٹھے توجہ ہی دلا سکتے ہیں۔

ندامت کے چراغوں سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

اندھیری رات کے آنسو خدا سے بات کرتے ہیں

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button