متفرق مضامین

نمازکی فضیلت (نماز۔ اللہ تعالیٰ سے ملاقات و مناجات اور التحیات کا ایمان افروز پس منظر)

(’ایچ ایم طارق‘)

قرآن شریف میں انسانی تخلیق کا مقصد عبادت بیان کیاگیا ہے۔ (الذاریات :٥۷)عبادت کےمعنےتذلل کےہیں یعنی ہرقدم پراللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت اورفرمانبرداری۔عبادت کی ایک بہترین صورت روزمرہ پانچ نمازیں ہیں جو تقویٰ و طہارت کی شرائط کے ساتھ باجماعت ادا کرنے کا حکم ہے۔(البقرة:٤)

اس وقت نمازکی ایک اہم شرط خشوع و خضوع و حضور قلب زیرموضوع ہے جس کی آج کل بہت ضرورت ہے۔

رسول کریم ﷺنے نمازکودین کا ستون قرار دیا ہے۔ (شعب الایمان للبیھقی جزء٤ صفحہ ۳۰۰)اوریہ بھی کہاجاتا ہے کہ نمازمومن کی معراج ہے۔نیزآپﷺ نےفرمایا کہ جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی اس نے کفر کیا۔(المعجم الاوسط للطبرانی جزء۳ صفحہ۳٤۳)اورباجماعت نماز کی فضیلت پچیس گُنابیان فرمائی۔ (مسلم کتاب المسجد و مواضع الصلاة باب فَضْلِ صَلَاةِ الْجَمَاعَةِ وَبَيَانِ التَّشْدِيْدِ فِي التَّخَلُّفِ عَنْهَا)

اللہ تعالیٰ نمازوں میں خشوع وخضوع کرنے والے مومنوں کے بارے میں فرماتاہےکہ اصل فلاح اورکامیابی کا سہرا انہی کےسرہے۔(المومنون :۳)

رسول اللہﷺ نےاس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ’’ جس مسلمان نے بھی فرض نماز کا وقت پایا، اچھی طرح وضو کیا، پھر خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھی تو وہ نماز اس کے پچھلے تمام گناہوں کا کفارہ بن جائے گی، جب تک کہ وہ کوئی کبیرہ گناہ نہ کرے اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔‘‘(مسلم کتاب الطھارة بَابُ فَضْلِ الْوُضُوءِ وَالصَّلَاةِ عَقِبَهُ)

ہمارے آقا ومولا حضرت محمد مصطفیٰﷺنے یہ بھی فرمایاکہ’’دعا عبادت کا مغز ہے۔‘‘(سنن ترمذی کتاب الدعوات باب ماجآءفی فضل الدعاء)

نیز فرمایاکہ نمازپڑھنےوالاتو اپنے رب سے سرگوشیاں کررہاہوتا ہےاسےدیکھناچاہیے کہ وہ کیا باتیں کررہا ہے۔ (مسند احمد مسندعبداللہ بن عمرجزء۹صفحہ ۲٥۱)یعنی نماز کے کلمات اور دعاؤں کامفہوم سوچ سمجھ کراور توجہ سے ادا کرے۔

نماز کی دعائیں اور ان کی قبولیت

رسول کریمﷺ نے احسان یعنی اعلیٰ درجہ کی نیکی کی تعریف کرتے ہوئےفرمایا کہ تم نماز ایسے پڑھو گویا کہ خدا کو دیکھ رہے ہو اور اگر ایسا نہیں تو وہ خدا تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے۔ (بخاری کتاب الایمان بَابُ سُؤَالِ جِبْرِيلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الإِيمَانِ، وَالإِسْلَامِ، وَالإِحْسَانِ، وَعِلْمِ السَّاعَةِ)

اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ الوداع کرنے والے کی طرح (اداسی اورغم والی)نماز ایسے پڑھوگویا کہ وہ تمہاری آخری اور الوداعی نماز ہے۔(المعجم الاوسط جزء٤ صفحہ۳٥۸)

مسیح موعودؑ کا جماعت کو طور کی پناہ میں لے جانا

حضورقلب سے نماز اور دعاؤں کی طرف ہماری جماعت کی توجہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ آنے والے مسیح کے بارے میں رسول کریمﷺ نے فرمایا تھا کہ اس زمانے میں ایسی طاقتیں ہوں گی جن سے کسی کو جنگ کرنے کی طاقت نہ ہوگی۔اس لیے اللہ تعالیٰ مسیح موعود کو وحی کرے گا کہ میرے بندوں کو طور پہاڑ کی پناہ میں لے جا۔ (مسلم کتاب الفتن بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ وَصِفَتِهِ وَمَا مَعَهُ)

قرآن شریف سے پتا چلتا ہے کہ کوہ طور پرحضرت موسیٰؑ نے عبادت اور دعا و مناجات کے ساتھ اپنے رب کو دیکھنے کی تمنا کا اظہار کیا تھا۔اورپھر تجلّی الٰہی کے پُر ہیبت نشان دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہوئے اسی کی طرف توبہ اور رجوع کیا اور اپنے اوّل درجہ کے مومن ہونے کا اقرار کیا۔(الاعراف:۱٤٤)

بائبل میں خروج باب ۳۲ آیت ۱۱ تا ۱٤ میں بھی اس واقعہ کی جتنی تفصیل موجودہے اس کے مطابق بھی طُوردراصل عبادت،دعاؤں،ذکرالٰہی اور توبہ کاہی استعارہ ہے جس کی طرف مسیح موعود کو متوجہ کیا جانا تھا۔

چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ کو ۳؍فروری ۱۹۰٦ء کوالہام ہوا کہ ’’اٹھو نمازیں پڑھیں اور قیامت کا نمونہ دیکھیں‘‘۔ (بدرجلد۲ نمبر٦ مورخہ۹؍فروری۱۹۰٦ء صفحہ۲ ۔ الحکم جلد۱۰ نمبر٥ مورخہ ۱۰؍فروری ۱۹۰٦ء صفحہ۱۱)

قیام نماز کااعلیٰ معیار

حضورؑ نے اپنی جماعت کو اس اعلیٰ درجہ کی نماز قائم کرنے کی تلقین کرتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ’’سواپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو۔‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ۱٥)

اسی طرح فرمایا:’’سو تم نمازوں کو سنوار و اور خدا تعالیٰ کے احکام کو اس کے فرمودہ کے بموجب کرو…نماز میں جہاں جہاں رکوع وسجود میں دعا کا موقع ہے دعا کرواور غفلت کی نماز کو ترک کر دو۔رسمی نماز کچھ ثمرات مترتب نہیں لاتی اور نہ وہ قبولیت کے لائق ہے۔ نماز وہی ہے کہ کھڑے ہونے سے سلام پھیرنے کے وقت تک پورے خشوع وخضوع اور حضورِقلب سے ادا کی جاوے اور عاجزی اور فروتنی اور انکساری اور گریہ و زاری سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں اس طرح سےاداکی جاوے کہ گویا اس کو دیکھ رہے ہو اور اگر ایسا نہ ہو سکے تو کم از کم یہ توہو کہ وہی تم کو دیکھ رہا ہے۔اس طرح کمال ادب اور محبت اور خوف سے بھری ہوئی نماز اداکرو۔‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ۱۷۶-۱۷۷)

نیزفرمایا: ’’نماز سے بڑھ کر اور کوئی وظیفہ نہیں کیونکہ اس میں حمد الٰہی ہے،استغفار اور درود شریف۔ تمام وظائف کا مجموعہ یہی نماز ہے لوگ پوچھتے ہیں کوئی وظیفہ سب سے بڑا وظیفہ نماز ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی حمد بھی بیان ہوتی ہے،انسان استغفار بھی کرتا ہے،درود شریف بھی پڑھتا ہے اور یہی چیزیں ایسی ہیں جو دعاؤں کی قبولیت کا نشان دکھانے والی ہیں،وجہ بننے والی ہیں… اور اس سے ہر قسم کے غم وہم دور ہوتے ہیں۔اورمشکلات حل ہوتی ہیں۔آنحضرت کو اگر ذرہ بھی غم پہنچتا تو آپ دعا کے لئے کھڑے ہوجاتے اوراس لئے فرمایا اَلَا بِذِکرِ اللّٰہِ تَطمَئِنُّ القُلُوبُ(الرعد:۲۹) اطمینان، سکینت قلب کے لئے نماز سے بڑھ کر اورکوئی ذریعہ نہیں۔‘‘(الحکم جلد۷ مورخہ ۳۱؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۹)

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز میں ادھر ادھر توجہ ہونے کے متعلق پوچھا تو آپؐ نے فرمایا: یہ شیطان کی ایک جھپٹ ہے جو بندے کی نماز پر مارتا ہے اور اس میں سے کچھ لے لیتا ہے۔(بخاری کتاب الاذان باب الالتفات فی الصلوٰة)

نماز میں توجہ قائم رکھنے کا طریق

حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جالندھر میں ہی تھے تو اُس زمانے کے اعتقاد کے بموجب کہ دل کی بات اہل اللہ بتا دیا کرتے ہیں۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ نماز میں وساوس کس طرح دور ہوسکتے ہیں۔ تقریر کرتے کرتے حضور نے میری طرف مخاطب ہوکر فرمایا !’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ کے تکرار سے ‘‘ اور پھر تقریر جاری رکھی۔میرا اس وقت آپ پر ایمان ہوگیا۔ (سیرة المہدی جلد دوم حصہ چہارم صفحہ ۲۸۔روایت نمبر۱۰۱٦)

ظاہرہےايَّاكَ نَعْبُدُ کا محض لفظی تکرار کافی نہیں۔اس کے مفہوم و معانی پر توجہ مرکوز کرنا مراد ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ شیطان کے حملے سے بچنے اور نماز میں لذت کےلیے یہ نسخہ بیان فرماتے ہیں کہ’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ نماز میں لذت نہیں آتی مگر میں بتلاتا ہوں کہ بار بار پڑھے اور کثرت کے ساتھ پڑھے تقویٰ کے ابتدائی درجہ میں قبض شروع ہو جاتی ہے اس وقت یہ کرنا چاہیے کہ خدا کے پاس ايَّاكَ نَعْبُدُ وَ ايَّاكَ نَسْتَعِیْنُ کا تکرار کیا جائے۔ شیطان کشفی حالت میں چور یا قزاق دکھایا جاتا ہے اس کا استغاثہ جناب الٰہی میں کرے کہ یہ قزاق لگا ہوا ہے تیرے ہی دامن کو پنجہ مارتے ہیں جو اس استغاثہ میں لگ جاتے ہیں اور تھکتے ہی نہیں وہ ایک قوت اور طاقت پاتے ہیں جس سے شیطان ہلاک ہو جاتا ہے۔ مگر اس قوت کے حصول اور استغاثہ کے پیش کرنے کے واسطے ایک صدق اور سوز کی ضرورت ہے۔ اور یہ چور کے تصور سے پیدا ہو گا جو ساتھ لگا ہوا ہے وہ گویا ننگا کرنا چاہتا ہے اور آدم والا ابتلاء لانا چاہتا ہے۔ اس تصور سے روح چلا کر بول اٹھے گی إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ۔‘‘ (الحكم۱۷؍فروری ۱۹۰۱ء صفحہ۲ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ۲۰۸)

دعائے فاتحہ

دراصل تونماز ساری کی ساری ہی دعاہے،جس کا آغاز سورۂ فاتحہ کی ایسی منفرد اور کامل دعا سے ہوتا ہےجو اور کسی مذہب میں نہیں ملتی۔ یہ دعااللہ تعالیٰ نے خود بندے کوسکھائی اورفرمایا کہ میں نےاسے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے،آدھا میرے لیےاور آدھامیرے بندے کےلیےیعنی الحمد سے مالک یوم الدین تک اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء پر مشتمل ہےاور اس کے بعد بندے کی طرف سےہر دینی ودنیوی ضرورت اور صراط مستقیم کی دعائیں ہیں جن کے بارہ میں حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ نےپیشگی قبولیت کی نوید دی اورفرمایا:’’ولعبدی ماسأل‘‘یعنی میرے بندے نے جو مجھ سے مانگا وہ میں نے اسے دیا۔ (صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ)

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی جماعت کوتلقین

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزبھی جماعت کوگاہے بگاہے اس اہم امر کی طرف توجہ دلاتے رہتےہیں۔چنانچہ فرمایا: ’’ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ نماز میں ہمیں اللہ تعالیٰ سے باتیں کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ صرف ٹھونگے نہیں مارنے، صرف سجدے نہیں کرنے، صرف عربی الفاظ نہیں ادا کرنے بلکہ اپنی زبان میں بھی باتیں کرنی ہیں۔ ایسی نمازوں کی کوشش ہونی چاہیے جس میں اللہ تعالیٰ کا لقاء حاصل ہو۔‘‘ (خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز فرمود ہ۲٥؍اکتوبر۲۰۱۹ء)

حال ہی میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اجتماع واقفات نو سے خطاب میں فرمایا کہ’’آپ کی نمازیں خداتعالیٰ کے حضور خشوع وخضوع اورخلوص سے بھری ہونی چاہئیں۔‘‘ (خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع اجتماع واقفات نو فرمودہ ۲٥؍مئی۲۰۲٤ء)

اس سوال پر کہ نمازوں میں خشوع وخضوع کیسے پیدا ہو؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ’’جب نماز کے لیے کھڑے ہوں تو اس میں ادعیۂ ماثورہ کو پوری توجہ سے پڑھیں۔ نفلی نمازوں کے دوران بار بار تکرار کے ساتھ الحمد للّٰه ربّ العالمین اور اهْدِنَا الصراط الْمُسْتَقِيمَ کے کلمات ادا کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نمازوں کے دوران اپنے او پر حالت گریہ وزاری طاری کرنے کی نصیحت فرمائی ہے کیونکہ چہرے کی ظاہری کیفیت انسان کے باطن پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔‘‘

نیزحضور انورنےیہ تلقین بھی فرمائی کہ اس کے لیے دعا اور کوشش کرنی چاہیے۔(حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس انصاراللہ فرانس کی آن لائن ملاقات ٥؍جنوری ۲۰۲٤ء)

نماز کی دعاؤں میں امام اور فرشتوں سے موافقت

ہرنمازی کےخشوع وخضوع اور اخلاص کے مطابق نماز کی یہ دعائیں قبولیت پاتی ہیں،خاص طور پرفاتحہ کی دعا تو دیگر دعاؤں کی قبولیت کابھی ذریعہ بنتی ہے۔بلکہ اس کے آخر میں لفظ’’آمین‘‘کے بارےمیں رسول کریم ﷺنے فرمایاکہ جب امام آمین کہے تو تم آمین کہو۔جس کی آمین ملائکہ کی آمین کے موافق ہوگی اس کے گناہ معاف ہوگئے۔ (صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ جَهْرِ الإِمَامِ بِالتَّأْمِينِ)

تاہم نماز میں امام سے ظاہری متابعت اورمکمل اقتداہی کافی نہیں ہوتی بلکہ امام کی کیفیت نماز سے موافقت پیدا کرنانماز اور دعا کی قبولیت کا اعلیٰ درجہ ہے۔جیساکہ علامہ ابن حبان نے اس حدیث کی وضاحت میں لکھا ہے کہ اس حدیث میں ظاہری موافقت امام سے زیادہ نماز میں امام سے اخلاص اور خشوع و خضوع میں موافقت مرادہے۔ (فتح الباری لابن حجر جزء۲ صفحہ۲٦٤)

اس کی مزید تائید فرشتوں کی آمین میں موافقت سے ہوتی ہے جس کا مطلب امام کے پیچھے ان کا نماز ادا کرنا نہیں بلکہ نمازیوں کے اخلاص و خشوع و خضوع کو ملکوتی تحریکوں سے مزید بڑھانا اور حسب منشاء الٰہی ان کی دعاؤں کی قبولیت کے اسباب اور سامان پیدا کرنا ہے۔

صاحب فضیلت امام میسّرآنا

امام کے تقویٰ کی دینی فضیلت کی مناسبت سے بھی نمازی کی توجہ اورکیفیت متاثر ہوتی ہےجیساکہ آنحضرتﷺ اورخلفائے راشدین کی اقتدا میں صحابہؓ کی نمازیں اَور ہی رنگ اور شان رکھتی تھیں۔دورِحاضر میں جماعت احمدیہ کے افراد کا بھی یہی تجربہ ہے کہ خلفائے وقت کے پیچھے نماز میں توجہ اور خشوع و خضوع میں نمایاں اضافہ محسوس کیاجاتا ہے،کیونکہ خلیفۂ وقت خدا تعالیٰ کا محبوب ترین انسان ہوتا ہے اور اس کی محبت الٰہی کا ایک رنگ اس کی نمازوں میں بھی جھلکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ لوگ دُور دراز سے خلیفة المسیح کے پیچھے نمازیں پڑھنے کےلیے کشاں کشاں چلے آتے اوراس روحانی لطف ولذت سے حصہ پاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس نیک نیت کو قبول فرماتے ہوئے ان کی نمازمیں دعاؤں کی رقّت اور لطف اور خشوع و خضوع بڑھا کر اسےقبولیت کی ایک علامت بنادیتا ہے۔

مقام دعا

فاتحہ کے علاوہ نماز کے دیگر ارکان رکوع وسجود وغیرہ بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمیداورتعظیم پر مشتمل ہیں۔سجدہ کے بارے میں رسول کریم ﷺنےفرمایاکہ بندہ سجدےکی حالت میں سب سے زیادہ اپنے رب کےقریب ہوتا ہے۔ پس اس وقت بہت دعا کیا کرو۔ (سنن نسائی کتاب التطبیق باب اقرب مایکون العبد من اللّٰہ)

نماز کے قعدہ میں تشہد کے بعد درود شریف (دعائے فاتحہ کے بعد) قبولیت کا دوسرابڑا ذریعہ ہے۔اس سے پہلے التحیات کےکلمات پڑھے جاتے ہیں۔جوکمال توجہ سے ادا کریں تو نمازکایہ خوبصورت اختتام حضورقلب پیدا کرنےکا عمدہ ذریعہ اوربارگاہ الوہیت میں قبولیت کاموجب ہوتاہے۔

واقعہ معراج میں التحیات کی تفہیم و القاء

التحیات کادلچسپ پس منظر بھی نہایت ایمان افروزہے۔

علامہ خضر بن سید عبد الله بن احمد الجكيني الشنقيطي (المتوفی:۳٥٤ھ) بیان کرتے ہیں: ’’میں نے فقہ مالکی کی بعض کتابوں میں دیکھا ہے کہ نماز میں التحیات کی شروعات لیلۃ الاسراء (معراج) میں اس وقت ہوئی۔جب نبیؐ نے خدا تعالیٰ سے مکالمہ شروع کرتے وقت ایسے الفاظ کےلیے غور کیا جس میں اللہ جلّ جلالہ کی خدمت میں تحیّة(سلام)عرض کریں۔ کیونکہ آپؐ حضرت القدس میں داخل ہو رہے تھے تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے بذریعہ الہام التَّحِيَّاتُ للّٰہ کے کلمات سکھائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جو اباً ان الفاظ میں آپ کو سلام کہا :السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ یعنی اے نبی! آپؐ پر سلام اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔ پھر نبی کریمﷺکو اپنی امت کا خیال آیا تو آپؐ نے عرض کیاالسلام عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ جس میں اپنی ساری امت کے صالح بندوں پر آپ نے سلامتی بھیجی اور جب فرشتوں نے یہ مکالمہ سنا تو انہوں نے گواہی دی کہ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ کہ میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ کیونکہ انہوں نے جب اللہ تعالیٰ کے نبیؐ کی عظمت مشاہدہ کی اور نبیؐ کا یہ ثبات قدم حضرت القدس کے عظیم مقام پر مشاہدہ کیا کہ یہاں بھی آپ کو اپنی امت یاد آئی اور آپ نے اپنی امت کو فراموش نہیں کیا۔‘‘

موصوف خود کہتے ہیں کہ ’’یہ معانی اگرچہ بہت عمدہ ہیں مگر میں اس روایت کی کوئی سند نہیں جانتا تاہم یہ ایسے معانی ہیں کہ محض رائے سے نہیں کیے جاسکتے۔‘‘ (گویاکسی کشفی نظارہ کا نتیجہ ہیں۔) (كوثر المعانی الدراری جزء ۹ صفحہ ۳۸٤)

تشہدکی تعلیم و تلقین

نماز میں تشہد کی مذکورہ بالا اہمیت کے باعث رسول کریمﷺ اس پر بہت توجہ دیتے تھے۔حضرت ابو وائلؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی یہ دعائیں ہمیں اسی طرح سکھاتے تھے جس طرح قرآن کریم کی کوئی سورت ہمیں یاد کراتے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے انہیں تشہد سکھاکرارشادفرمایاکہ وہ اور لوگوں کو بھی یہ سکھائیں۔ (فتح الباری شرح البخاری باب التشہد فی الآخر)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓبیان کرتے ہیں کہ جب ہم نبی کریم ﷺکے پیچھے نماز پڑھتے تھے تو(پہلے پہل) ہم نماز کے آخری تشہد میں یہ پڑھتے تھے،سلام ہو حضرت جبرائیل اور حضرت میکائیل پراور سلام ہو فلاں فلاں پر، دوسری روایت میں ہے کہ ہم کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ پر اس کے بندو ں کی طرف سے سلامتی ہو،اس پر نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ پر سلام کہنے کی کیا ضرورت ہے،وہ تو خود سلام ہے یعنی ہر قسم کے عیب اور آفت سے محفوظ بلکہ ایسا سرچشمہ جس سے ہر ایک کو سلامتی اور رحمت عطا ہوتی ہے۔پس جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو (آخر میں )التحیات کےکلمات پڑھے تو آسمان اور زمین میں ہر نیک بندے کو تمہاری سلامتی کی یہ دعا پہنچ جائے گی۔وہ کلمات یہ ہیں:التَّحِيَّاتُ لِلّٰهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ

التحیات کے معانی ومفہوم

لفظ التحیات تحیۃ کی جمع ہےاور یہ وہ کلمہ ہے جس سے بادشاہوں کی خدمت میں سلام پیش کیا جاتا تھا،جو ہر بادشاہ اپنے لیے خاص کرتا تھا۔اس لحاظ سے التحیات کے معنی یہ ہوں گے کہ جن کلمات سے لوگ بادشاہوں کو مخاطب کرکے سلام پیش کرتے ہیں اور تمام وہ القاب تعظیم اور کلمات ثناءوحمداوردعائیں جن کے ساتھ بادشاہ ومعبودمخاطب کیے جاتے ہیں ان کی اصل مستحق خالصتاًاللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔

والطیبات

طیب اس عمدہ کلام کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی تعریف کی جائےاور جو اس کے سوا کسی پر چسپاں نہ ہوسکے۔اسی طرح ہرقسم کے مشرکانہ خیالات اور حرام اور ناجائز کمائی سے پاک اور خالص حلال ہیں یعنی مالی عبادتیں۔ اسی طرح صلوات کے معنی رحمت کے بھی ہوسکتے ہیں۔اور اگر التحیات سے مرادقولی عبادتیں ہوں تو صلوات سے فعلی عبادات مراد ہیں اور طیبات سے مالی عبادات مراد لی جاسکتی ہیں۔

صلوات سے مراد فرض یانفل نماز یا تمام عبادتیں اور دعائیں ہیں جن کا تعلق انسان کے بدن اور اعضاءاور ان کی اطاعت سے ہے۔ اسی طرح صلوات سے فعلی عبادات مراد ہیں۔

علامہ طیبی نے رسول اللہﷺپر سلام کی نسبت سے معرفت کی یہ بات لکھی ہے کہ جب التحیات للہ کہہ کرنماز پڑھنے والے خداتعالیٰ کی بادشاہت کے دروازے میں داخل ہونا چاہتے ہیں اور انہیں اس زندہ خدا کے دربار میں اس کی اجازت ملتی ہے تو ان کی آنکھیں اپنی مناجات سے ٹھنڈی اور دل خوش ہوجاتا ہے،تب انہیں متنبہ کیا جاتا ہےکہ تمہاری دعاؤں کی قبولیت کا واسطہ رحمۃ للعالمین ﷺ کی پیروی کی برکت سے ہے،تووہ چشم تصور میں کیا دیکھتے ہیں کہ خدا کے حبیب حضرت محمدﷺخدا کے دربار میں حاضر ہیں،پس وہ ان کی طرف توجہ کرتے ہوئے اپناسلام یوں عرض کرتے ہیں: السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔

اور السلام علینا کے الفاظ میں جو خود نماز پڑھنے والا اپنے لیے سلامتی کی دعا ہے،اس میں یہ اشارہ ہے کہ اللہ کی حمد اور درود کے بعد اپنی ذات کےلیے دعا کرنی چاہیے۔

اس کے بعد وعلیٰ عباداللّٰہ الصالحین میں خدا کے نیک بندوں پر سلامتی کی دعا کرتا ہے،اورنمازی کا یہ سلام ہر اس نیک اور صالح بندے کو پہنچتا ہے جو اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرتا ہے اور ظاہر ہے کہ ان کے درجات مختلف ہوتے ہیں۔

علامہ حکیم ترمذی فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ سلامتی کی وہ دعا جو تمام دنیا کے نمازی اپنی نماز میں صالحین کےلیے کرتے ہیں اس سے حصہ پائے تو چاہیے کہ وہ اللہ کا نیک بندہ بن جائے۔

خلاصہ کلام یہ کہ تمام قسم کےقولی،فعلی،مال اور جان کے تحفےصرف اللہ کےلیےہیں اسی طرح نمازیں اور دعائیں اورسب عمدہ چیزیں اللہ کی خاطر ہی ہیں۔سلام ہو آپؐ پر اے نبیؐ!اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں یعنی نبی اور رسول جس سلامتی کی خاطر بھیجا گیا ہے وہ آپ کو عطا ہو،اور اللہ تعالیٰ آپ کو ہر قسم کی ناپسندیدہ باتوں سے محفوظ رکھے۔سلام ہو ہم پراور اللہ کے نیک بندوں پر۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اس کے بندے اور رسولؐ ہیں۔

تشہداوردرود کے بعد کی دعائیں

نمازمیں سلامتی کی دعا اورتشہد،جس میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور رسول اللہﷺ کی رسالت کی گواہی ہے۔ اوردرود پڑھ لینےکے بعد رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اس کے بعد نمازی جو چاہے دعا کرے۔ (صحیح بخاری کتاب الاذان باب مایتخیر من الدعاء بعد التشھد)

خودنبی کریم ﷺ یہ دعاکثرت سے پڑھا کرتے تھے جودرود کے بعد نماز میں بھی شامل ہے:رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ (البقرة:۲۰۲) کہ اے ہمارے ربّ!ہمیں دنیا میں بھی حسنہ عطاکر اور آخرت میں بھی حسنہ عطا کراور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

اسی طرح حضرت ابراہیم ؑکی یہ جامع دعا بھی اپنے اور اولادکی قبولیت نماز ودعا کےلیےبہت عمدہ ہے جونماز کے آخر میں پڑھی جاتی ہے:رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيْمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ ۔(ابراهيم:٤۱) یعنی اے میرے ربّ!مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری نسلوں کو بھی۔اے ہمارےربّ!اور میری دعا قبول کر۔

امام بخاری نے تشہد کےبعدحضرت عائشہ ؓکی روایت سے یہ دعابھی نماز میں پڑھنے کا ذکر کیا ہے:اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَ اَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ وَ اَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَ الْمَمَاتِ اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْمَاْثَمِ وَالْمَغْرَم۔ (بخاری کتاب صفۃ الصلاۃ باب دعاء قبل السلام) اے اللہ میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ میں آتا ہوں اسی طرح مسیح الدجال کے فتنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور زندگی اور موت کی آزمائشوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔اےاللہ! میں ہر قسم کے گناہ سے اور ہر قسم کے ناواجب بوجھ سے تیری پناہ میں آتاہوں۔

اسی طرح حضرت ابوبکرؓبیان فرماتے تھے کہ رسول اللہﷺنے انہیں نماز (غالباً نفل نماز مراد ہوگی) میں پڑھنے کےلیے یہ دعا سکھائی: اللّٰھُمَّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیْرًا وَّلَا یَغْفِرُالذُّنُوْبَ اِلَّآ اَنْتَ فَاغْفِرْلِیْ مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ وَارْحَمْنِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُالرَّحِیْمُ۔ (صحیح البخاری، کتاب الاذان باب الدعاء قبل السلام) کہ اے اللہ یقیناً میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا اور تیرے سوا کوئی گناہوں کو نہیں بخشتا،پس تو مجھے اپنے حضور سے خاص بخشش عطاکر اور مجھ پر رحم کر،یقیناً توبہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کی پاکیزہ نصیحت اور ہمارے امام کی خواہش کے مطابق ہمیں خشوع و خضوع سے بھری ہوئی مقبول نمازیں پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button