حضرت مسیح موعودؑ کے حق میں الٰہی تائیدات اور نشانات (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۱۴؍مارچ۲۰۱۴ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نشانات کے بارے میں اقتباسات اور کچھ واقعات جو آپ نے خود بیان فرمائے ہیں یا بعض ایسے بھی جو لوگوں نے بیان کئے وہ اس وقت پیش کروں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:میری تائید میں اس نے وہ نشان ظاہر فرمائے ہیں کہ آج کی تاریخ سے جو 16؍جولائی 1906ء ہے اگر میں ان کو فردًا فردًا شمار کروں تو میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ وہ تین لاکھ سے بھی زیادہ ہیں اور اگر کوئی میری قسم کا اعتبار نہ کرے تو میں اس کو ثبوت دے سکتا ہوں۔ بعض نشان اس قسم کے ہیں جن میں خدا تعالیٰ نے ہر ایک محل پر اپنے وعدہ کے موافق مجھ کو دشمنوں کے شرّ سے محفوظ رکھا اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جن میں ہرمحل میں اپنے وعدہ کے موافق میری ضرورتیں اور حاجتیں اس نے پوری کیں اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جن میں اس نے بموجب اپنے وعدہ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ کے میرے پر حملہ کرنے والوں کو ذلیل اور رسوا کیا اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جومجھ پر مقدمہ دائر کرنے والوں پر اس نے اپنی پیشگوئیوں کے مطابق مجھ کو فتح دی…‘‘
یہ جو اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ، ہے آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف جگہوں سے افریقہ سے بھی اور دوسری جگہوں سے بھی رپورٹیں آتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح ذلیل کرتا ہے اور اگر کہیں جھوٹ ہے، اور وہ لوگ اگر پکڑ میں نہیں آرہے تو ان کو اللہ تعالیٰ کا یہ قول کہ اُمْلِیْ لَھُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ (الاعراف: 184) ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ پکڑ انشاءاللہ ان کی بھی ہو گی پر وہ باز نہیں آتے۔ آپ فرماتے ہیں: ’’اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو میری مدّت بعث سے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے یہ مدت دراز کسی کاذب کو نصیب نہیں ہوئی اور بعض نشان زمانہ کی حالت دیکھنے سے پیدا ہوتے ہیں یعنی یہ کہ زمانہ کسی امام کے پیدا ہونے کی ضرورت تسلیم کرتا ہے اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جن میں دوستوں کے حق میں میری دعائیں منظور ہوئیں اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو شریر دشمنوں پر میری بد دعا کا اثر ہوا اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو میری دعا سے بعض خطرناک بیماروں نے شفاپائی اور انکی شفا سے پہلے مجھے خبر دی گئی اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو میرے لئے اور میری تصدیق کیلئے … بڑے بڑے ممتاز لوگوں کو جو مشاہیر فقراء میں سے تھے خوابیں آئیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا جیسے سجادہ نشین صاحبُ العَلَم سندھ جن کے مریدایک لاکھ کے قریب تھے اور جیسے خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں والے اور بعض نشان اس قسم کے ہیں کہ ہزار ہا انسانوں نے محض اس وجہ سے میری بیعت کی کہ خواب میں انکو بتلایا گیا کہ یہ سچا ہے اور خدا کی طرف سے ہے اور بعض نے اس وجہ سے بیعت کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور آپ نے فرمایا کہ دنیا ختم ہونے کو ہے اور یہ خدا کاآخری خلیفہ اور مسیح موعود ہے اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو بعض اکابر نے میری پیدائش یا بلوغ سے پہلے میرا نام لیکر میرے مسیح موعود ہونے کی خبر دی جیسے نعمت اللہ ولی اور میاں گلاب شاہ ساکن جمالپور ضلع لدھیانہ۔‘‘(حقیقۃالوحی روحانی خزائن جلد22صفحہ70-71)
پھر ایک جگہ آپ بیان فرماتے ہیں، لیکن اس سے پہلے یہ بتا دوں کہ یہ واقعہ صاحبزادہ سراج الحق صاحب نعمانی جو احمدی تھے کے بڑے بھائی جو سجادہ نشین تھے، پیر تھے انہوں نے اپنے بھائی پیر (سراج الحق) صاحب کو خط لکھا کہ میں تو کشفِ قبور کروا سکتا ہوں کیا مرزا صاحب بھی کروا سکتے ہیں؟ کشفِ قبور یہ ہے کہ مُردے کے حالات معلوم کر کے دے سکتا ہوں یا اس سے ملاقات کروا سکتا ہوں، تو اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’…کشفِ قبور کا معاملہ تو بالکل بیہودہ امر ہے۔ جو شخص زندہ خد اسے کلام کرتا ہے اور اس کی تازہ بتازہ وحی اس پر آتی ہے اور اس کے ہزاروں نہیں لاکھوں ثبوت بھی موجود ہیں اس کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ مُردوں سے کلام کرے اور مُردوں کی تلاش کرے۔ اور اس امر کا ثبوت ہی کیا ہے کہ فلاں مُردے سے کلام کیا ہے؟ یہاں تو لاکھوں ثبوت موجود ہیں۔ ایک ایک کارڈ اور ایک ایک آدمی اور ایک ایک روپیہ جو اَب آتا ہے وہ خدا کا ایک زبردست نشان ہے کیونکہ ایک عرصہ دراز پیشتر خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ یَأْ تُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ وَیَأْ تِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ اور ایسے وقت فرمایا تھا کہ کوئی شخص بھی مجھے نہ جانتا تھا۔ اب یہ پیشگوئی کیسے زوروشور سے پوری ہو رہی ہے۔ کیا اس کی کوئی نظیر بھی ہے؟ غرض ہمیں ضرورت کیا پڑی ہے کہ ہم زندہ خدا کو چھوڑ کر مُردوں کو تلاش کریں۔‘‘(ملفوظات جلد4صفحہ248)
پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’…دیکھو میں سچ کہتا ہوں کہ تم خداتعالیٰ کی آیات کی بے ادبی مت کرو اور انہیں حقیر نہ سمجھو کہ یہ محرومی کے نشان ہیں اور خدا تعالیٰ اس کو پسندنہیں کرتا۔ ابھی کل کی بات ہے کہ لیکھر ام خدا تعالیٰ کے عظیم الشان نشان کے موافق مارا گیا۔ کروڑوں آدمی اس پیشگوئی کے گواہ ہیں۔ خود لیکھر ام نے اسے شہرت دی۔ وہ جہاں جاتا اسے بیان کرتا۔ یہ نشان اسلام کی سچائی کے لئے اس نے خود مانگا تھا اور اس کو سچے اور جھوٹے مذہب کے لیے بطور معیار قائم کیا تھا۔ آخر وہ خود اسلام کی سچائی اور میری سچائی پر اپنے خون سے شہادت دینے والا ٹھہرا۔ اس نشان کو جھٹلانا اور اس کی پروا نہ کرنا یہ کس قدر بے انصافی اور ظلم ہے پھر ایسے کھلے کھلے نشان کا انکار کر نا تو خود لیکھرام بننا ہے اور کیا؟
یہ جو آخری پیرا ہے کہ تم خود آئے ہو اور تم نے نشان پورا کیا ہے، یہ جس کو آپؑ فرما رہے ہیں ایک نو مسلم تھا جو مسلمان تو ہو گیا تھا لیکن آپ سے آکے نشان دکھانے کی درخواست کی تھی۔ اس پر آپ نے یہ تفصیل سے اس کو سمجھایا تھا کہ نشان کا کیا کہتے ہو؟ یہ یہ نشان پورے ہوئے اور تمہارا آنا بھی ایک نشان ہے اور آج تو ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر ملک میں یہ نشانات ظاہر ہو رہے ہیں۔ پھر بیماری سے شفا کے نشانات ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’سردار نواب محمد علی خانصاحب رئیس مالیر کوٹلہ کا لڑکا عبد الرحیم خاں ایک شدید محرقہ تپ کی بیماری سے بیمار ہو گیا تھا (بڑا تیز بخار تھا) اور کوئی صورت جانبری کی دکھائی نہیں دیتی تھی گویا مُردہ کے حکم میں تھا۔ اسوقت میں نے اسکے لئے دعا کی تو معلوم ہوا کہ تقدیر مبرم کی طرح ہے۔ تب میں نے جناب الٰہی میں عرض کی کہ یا الٰہی میں اس کے لئے شفاعت کرتا ہوں۔ اسکے جواب میں خدا تعالیٰ نے فرمایا مَنْ ذَاالَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِہٖ۔ یعنی کس کی مجال ہے کہ بغیر اذن الٰہی کے کسی کی شفاعت کر سکے۔ تب میں خاموش ہو گیا۔ بعد اس کے بغیر توقف کے یہ الہام ہوا۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْمَجَازُ۔ یعنی تجھے شفاعت کرنے کی اجازت دی گئی۔ تب میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے دعا کرنی شروع کی تو خدا تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمائی اور لڑکا گویا قبر میں سے نکل کر باہر آیا اور آثار صحت ظاہر ہوئے اور اس قدر لاغر ہو گیاتھا کہ مدت دراز کے بعد وہ اپنے اصلی بدن پر آیا اور تندرست ہو گیا اور زندہ موجود ہے۔‘‘(حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ229-230)