تکبر…ایک ہلاک کرنے والی بیماری (حصہ دوم۔ آخری)
[تسلسل کے لیے دیکھیں الفضل انٹرنیشنل ۲۶؍جون۲۰۲۴]
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں:
وہ دور ہیں خدا سے جو تقویٰ سے دور ہیں
ہر دم اسیرنخوت و کبر و غرور ہیں
تقویٰ یہی ہے یارو کہ نخوت کو چھوڑ دو
کبر و غرور و بخل کی عادت کو چھوڑ دو
چھوڑو غرور و کبر کہ تقویٰ اسی میں ہے
ہو جاؤ خاک مرضی مولیٰ اسی میں ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’عُجب سے مراد غرور اور تکبر ہے جس سے خود پسندی پیدا ہوتی ہے اگر آپ چاہتی ہیں کہ آپ کو خدا کا پیار حاصل ہو تو ان دنیا داری کی باتوں کو چھوڑ دیں۔ حقیقی تقویٰ کی راہوں پر چلیں خود غرضی اور تکبر سے بچیں۔ خاندانی وجاہت اور مال و دولت آپ کو اس بیماری میں مبتلا نہ کرے۔ اگر نہیں بچیں گی تو یہی حرکات آپ کو بد اخلاقیوں اور بدیوں کےگڑھوں میں دھکیلتی چلی جائیں گی پھر آپ کا بیعت کا مقصد بھی ختم ہو جائے گا۔‘‘(الفضل ربوہ ۱۱؍جون ۲۰۰۴ء)
گویا تکبر ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کو تباہ و برباد کر دیتی ہے اور ایک متکبر انسان جو اپنے تئیں بہت بہادر اور معاشرے میں ہر کس و ناکس کو ناچیز سمجھتا ہے اپنے مال و دولت کی نمائش کرتا اور اپنے آپ کو سب سے الگ ، اعلیٰ اور خوش قسمت خیال کرتا ہے۔اپنے ارد گرد کے لوگوں میں اپنا رعب اور دبدبہ اپنی خداداد نعمتوں حسن، علم، عقل، سمجھ بوجھ (جو سب فانی ہیں)پر اتراتے ہوئے قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک خام خیالی ہے۔مجلس میں کوئی بھی ایسے انسان کا احترام نہیں کرتا۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ بالکل تنہا رہ جاتا ہے۔لوگ اس سے کنارہ کشی کرنے لگتے ہیں اور اس کی خود پسندی سے نفرت کرتے اور اس کو قابل علاج قرار دیتے ہیں کہ یہ ذہنی مریض ہے اس پر ترس کھانے لگ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس عاجزی انکساری پیار و محبت سے معاشرے میں رہنے والا متوسط غریب۔ عام پڑھا لکھا۔ عام شکل و صورت کا مالک انسان ہر دلعزیز شخصیت بن جاتا ہے۔جس سے تعلق رکھنے کو لوگ فخر محسوس کرتے اور اس کے ساتھ مل کر چلنے اور معاشرے میں بھلائی کے کام کرنے کا رواج بڑھ جاتا ہےاور یہی ماحول دنیا میںامن اور بھائی چارہ پیدا کرنے کی بنیاد ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ بہت پیارا شعر ہمیشہ ذہن میں رکھیں اور ہر قسم کے فخر، کبر اور نخوت سے بچتے ہوئے اس فانی دنیا کی لذات سے ، عارضی فائدوں سے عارضی تعلق ہی رکھیں اور تقویٰ کی اعلیٰ راہوں پر قدم مارتے ہوئےزندگی بسر کریں تا قرب الٰہی حاصل ہو اوربخشش کی راہیں کھلیں۔
’’بد تر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں
شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں‘‘
کشتی نوح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل کرو۔‘‘
اگر اس ارشاد پر عمل کیا جائے تو ہمارے اندر سے تکبر، غرور، احساس برتری، نفس پرستی اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کی بیماریاں دور ہو سکتی ہیں۔ انسانی ہمدردی، حلم، بردباری، عاجزی اور انکساری جیسی خوبیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
ملفوظات جلد دوم میں آپؑ فرماتے ہیں: ’’میرے لئے کرسی مت رکھو کہ میں دنیا میں خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہوں۔ اسی طرح تم بھی کرسیوں پر بیٹھنے کے متمنی نہ بنو بلکہ ہر مسکین اور غریب سے ملو اور اگر تمہیں کسی غریب آدمی کے پاؤں سے زمین پربیٹھ کر کانٹا بھی نکالنا پڑ ے تو تم اسے اپنے لئے فخر سمجھو۔‘‘
ضروری ہے کہ انسان خیر کے کام کرتے ہوئے اپنے آپ کو ہر قسم کے تکبر سے بچائے رکھے۔
’’خاک کو خاک لے اڑی صائم تکبر رہ گیا وہیں کا وہیں‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی تمام بد عادات سے بچائے۔محبت، عاجزی ، انکساری سےاور بےنفس ہو کر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین اللہم آمین