خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۸؍ جولائی ۲۰۲۳ء بمقام حدیقۃ المہدی، آلٹن، ہمپشئر یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا:آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ یوکے کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تو تقریباً چار دہائیاں گزر گئی ہیں یہاں خلافت کی موجودگی میں جلسہ سالانہ منعقد ہوتے ہوئے۔ شروع میں وسیع انتظامات کی وجہ سے یہاں کی جماعت کو بہت کچھ سکھانے کی ضرورت تھی جس کے لیے حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ذاتی دلچسپی سے بھی راہنمائی فرمائی اور ربوہ سے بھی تجربہ کار لوگوں کو یہاں بلا کر کام سکھایا جن میں چودھری حمیداللہ صاحب افسر جلسہ سالانہ بھی تھے، انہوں نے بڑی مدد کی…آج میں چند باتیں جلسہ پر آئے ہوئے مہمانوں کے لیے بھی کہنا چاہوں گا۔ہر شامل جلسہ کو اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے کہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ باتیں جو میں کہنے لگا ہوں یہ روایتاً کہہ رہا ہوں اور میں نے کہہ دیا اور آپ نے سن لیا۔بس اتنا کافی ہے۔ نہیں۔ بلکہ اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ کےانتظامات کےحوالہ سےکارکنان کوکیانصائح فرمائیں؟
جواب: فرمایا:۱۹۸۵ء میں یہاں جو پہلا جلسہ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی موجودگی میں ہوا، اس سے پہلے ایک جلسہ ۸۴ء میں بھی ہوا تھا لیکن بہت مختصر تھا۔ جو باقاعدہ جلسہ ہوا ۱۹۸۵ء میں ہوا۔ اس میں شاید پانچ ہزار لوگ شامل ہوئے اور اس کی بھی انتظامیہ کو بڑی فکر تھی۔ ہر ایک پریشان تھا کہ کس طرح سنبھالیں گے۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے صرف خدام الاحمدیہ یوکے کے اجتماع میں یا لجنہ اماء اللہ کے اجتماع میں اس سے کہیں زیادہ حاضری ہوتی ہے اور بڑے احسن طریقے سے یہ ذیلی تنظیمیں بھی اپنا انتظام سنبھال لیتی ہیں۔ پس اس لحاظ سے یوکے کی جماعت بہت تجربہ کار ہو چکی ہے کہ انتظامات سنبھال سکے۔اس مرتبہ کیونکہ تین چار سال کے وقفے کے بعد مکمل وسیع پیمانے پر جلسہ منعقد ہو رہا ہے اس لیے انتظامیہ کو پھر فکر ہے کہ چالیس ہزار سے اوپر متوقع حاضری کو ہم احسن رنگ میں سنبھال بھی سکیں گے کہ نہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے مَیں امید رکھتا ہوں کہ بڑے احسن رنگ میں ہمارے کارکن اپنے انتظامات سنبھال سکیں گے۔ماشاء اللہ اب تو یہاں کے رہنے والے لوگ بلکہ یہاں پیدا ہونے والے اور پلنے بڑھنے والے بچے بھی جو اب جوان ہو چکے ہیں یا اس عمر کو پہنچ چکے ہیں جہاں ہوش و حواس سے کام سرانجام دے سکیں۔ اتنے تجربہ کار ہیں کہ اپنے کام احسن رنگ میں نبھا سکیں۔ گذشتہ اتوار مَیں نے اس وقت تک کے قائم شدہ انتظامات کا جائزہ بھی لیا تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر جگہ ہر شعبے میں مَیں نے کارکنان کو بڑا مستعد اور اپنا کام جاننے والا پایا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو فکریں تھیں وہ دُور بھی ہوئیں۔یہ جو فکر ہے کہ ایک وقفے کے بعد بہت زیادہ وسیع پیمانے پر جلسہ منعقد ہو رہا ہے اور کہیں کوئی انتظامی کمیاں ظاہر نہ ہوں، اللہ تعالیٰ ان فکروں کو، انتظامیہ کی ان فکروں کو بھی ان شاء اللہ تعالیٰ دُور فرما دے گا بشرطیکہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کی طرف ہر وقت متوجہ رہیں۔ ہمارے کام ہماری کسی ہوشیاری یا تجربے سے انجام نہیں پاتے بلکہ خالصةً اللہ تعالیٰ کے فضل سے انجام پاتے ہیں۔گذشتہ خطبے میں اس کے لیے میں نے کارکنان کو مختصراً یہ کہا بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے محنت، اعلیٰ اخلاق اور دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے ہوئے ہر کارکن اور ہر نگران کو اپنا کام کرنا چاہیے اور جب یہ ہو گا تو پھر اللہ تعالیٰ بھی برکت عطا فرمائے گا۔ ہم نے بے لوث ہو کر حضرت مسیح موعودؑ کے مہمانوں کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا ہے جو خالصةً دینی غرض سے یہاں جمع ہوئے ہیں۔ پس دوبارہ میں کارکنوں سے کہتا ہوں کہ جس جذبے سے سب نے اپنے آپ کو خدمت کے لیے پیش کیا ہے اس جذبے کو قائم رکھتے ہوئے جتنے دن بھی ڈیوٹیاں ہیں انہیں سرانجام دیں اور جہاں مہمانوں کی خدمت کرنے کا حق ادا کریں وہاں یہ بات بھی نہ بھولیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا بھی حق ادا کرنا ہے، اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کرنی ہے اور اس ماحول سے ہر لمحہ فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی ذات کو بھی پاک بنائے رکھنے کی کوشش کرنی ہے۔صرف ڈیوٹیوں کا حق ادا کر کے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہمارا جو مقصد تھا ہم نے پورا کر لیا۔ بغیر عبادت کے ہمارا مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔ پس بچے جوان مرد عورتیں جو ڈیوٹی دینے والے ہیں اس حق کی ادائیگی کا بھی خیال رکھیں۔
سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والےمہمانان کوکیانصائح فرمائیں؟
جواب: فرمایا:سب سے پہلی اور اہم بات تو یہ ہے کہ سب لوگ جو یہاں جلسہ میں شامل ہونے کے لیے آئے ہیں حضرت مسیح موعودؑ کی اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ جلسہ کوئی دنیاوی میلہ نہیں ہے۔اس جلسے میں شامل ہونے کا ہمارا ایک مقصد ہے اور وہ مقصد ہے اپنی روحانی اور علمی حالت کو بہتر کرنا۔ اخلاقی حالت کو بہتر کرنا۔اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت اپنے دل میں پیدا کرنا۔پس جب یہ سوچ ہو گی تو پھر دنیاوی باتوں کی طرف توجہ نہیں رہے گی اور جب دنیاوی باتوں کی طرف توجہ نہیں رہے گی تو پھر جلسے کے بعض انتظامات جن میں اگر کمزوری بھی ہو گی تو مہمان اسے محسوس نہیں کریں گے اور یہی سوچ رکھیں گے کہ میزبانوں کی طرف سے یا جلسے کے انتظام کرنے والوں کی طرف سے اگر کوئی کمی رہ بھی گئی ہے تو ہمیں اس کا کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارا مقصد تو اپنی روحانی اور علمی حالتوں کو بہتر کرنا ہے اور وہ ہم جلسہ کی کارروائی اور تقاریر سے فائدہ اٹھا کر کر سکتے ہیں۔پس پہلی بات یہ ہے کہ ہر آنے والا، جلسے میں شامل ہونے والا اس بات کو یقینی بنائے کہ ہم نے جلسے کے اوقات میں اِدھر اُدھر پھرنے کی بجائے جلسے کی مکمل کارروائی سننی ہے اور جلسہ کے باقاعدہ پروگراموں کے درمیان جو وقفہ ہے، جو کھانے اور نماز یا دوستوں سے ملنے ملانے کے لیے بھی ہوتا ہے اسے بھی بہتر رنگ میں استعمال کرنا ہے۔ اگر اس میں بھی فارغ وقت ملتا ہے تو صرف بازار میں شاپنگ کے لیے نہ پھریں بلکہ شعبہ اشاعت کی طرف سے یہاں جماعتی کتب کے بُک سٹال لگے ہوئے ہیں ان میں جائیں ۔ اسی طرح مختلف مرکزی شعبہ جات مثلاً مخزنِ تصاویر ہے،ریویو آف ریلیجنز ہے، تبلیغ وغیرہ کی مارکی ہے، آرکائیوز کی نمائش ہے انہیں دیکھیں اور اپنا دینی اور تاریخی علم بھی بڑھائیں۔غرضیکہ ہر لحاظ سے کلیةً دنیاوی جھمیلوں سے علیحدہ ہو کر خالصةً دینی اور علمی بہتری کے سامان کرنے کی کوشش کریں اور جب یہ ہو گا تو پھر آپس کی محبت اور تعلق میں بھی اضافہ ہو گا اور انتظامیہ اور میزبانوں میں اگر انتظامات میں کمزوریاں بھی ہیں تو نظر نہیں آئیں گی۔ایسا پیارا ماحول ہو گا جو حقیقی مومنوں کے ماحول کی تصویر کشی کرتا ہے۔ اگر یہ نہیں تو ہم جلسے میں وہ ماحول پیدا نہیں کر سکتے جو جلسے کا مقصد ہے۔ کمزوریاں اگر تلاش کرنے لگیں اور شکوے کرنے لگیں تو اتنے بڑے اور عارضی انتظام میں درجنوں شکوے پیدا ہو سکتے ہیں۔ پرفیکشن (perfection)تو نہیں ہوسکتی۔ بہت ساری کمزوریاں نظر آسکتی ہیں جو طبیعت میں بے چینی پیدا کرنے والی ہوں۔ مثلاً کھانا کھلانے کا ہی انتظام ہے اس میں عموماً تو یہی کوشش کی جاتی ہے کہ مہمانوں کو ہر ممکن سہولت کھانا کھلانے کے لیے مہیا کی جائے۔ سالن وغیرہ بھی تھوڑا نہ ہو اور کھانا دینے والے معاونین بھی مہمانوں کی صحیح طور پر اعلیٰ اخلاق دکھاتے ہوئے خدمت کریں لیکن بعض دفعہ اندازے میں کمی بیشی ہو جاتی ہے اور صحیح طرح کھانا مہیا نہیں ہو سکتا تو اس پر کسی بھی قسم کے غصے کا اظہار کرنے کی بجائے خوش دلی سے کارکنوں کی معذرت قبول کر لینی چاہیے۔
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے کھانامیسرنہ ہونے کی بابت حضرت اقدس مسیح موعودؑ کاکیاواقعہ بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت مسیح موعودؑایک دفعہ سفر پر تھے، کام میں مصروف تھے اس لیے آپ نے رات کا کھانا اس وقت نہیں کھایا جب کھانا serveکیا جا رہا تھا اور دوسرے مہمانوں کو کھلایا جا رہا تھا۔ کارکنوں نے رکھ دیا ہوگا اور بعد میں تھوڑی دیر بعد اٹھا بھی لیا ہو گا بغیر دیکھے کہ کھایا ہے کہ نہیں۔ انتظامیہ نے بھی اس طرف توجہ نہیں دی کہ آپؑ نے کھانا نہیں کھایا اور اپنے کام میں آپؑ مصروف ہیں۔ بہرحال رات گئے آپؑ کو جب بھوک کا احساس ہوا تو آپؑ نے کھانے کے بارے میں پوچھا تو سب انتظامیہ کے ہاتھ پیر پھول گئے۔سب بڑے پریشان ہوئے کہ کھانا تو جتنے لوگ وہاں آئے ہوئے تھے اور کام والے تھے سب کھاچکے ہیں اور اب تو کچھ بھی نہیں بچا ۔ رات دیر ہو گئی تھی۔ بازار بھی بند تھے کہ کسی ہوٹل سے ہی منگوا لیا جاتا وہ بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ بہرحال کسی طرح حضورؑ کو یہ علم ہوا کہ کھانا ختم ہو چکا ہے اور انتظام کرنے والے پریشان ہیں کہ فوری طور پر جلدی جلدی کھانا پکانے کا انتظام ہو۔ آپؑ نے اس پر فرمایا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ دیکھو! دستر خوان پر کچھ بچے ہوئے روٹی کے ٹکڑے ہوں گے وہی لے آؤ۔ چنانچہ آپؑ نے ان ٹکڑوں میں سے ہی تھوڑا سا کھا لیا اور انتظام کرنے والوں کی تسلی کروائی۔ روایت کرنے والے کہتے ہیں کہ حضورؑ اگر اس وقت کھانا پکانے کا حکم دیتے تو ہمارے لیے باعثِ عزت ہوتا اور ہم اس بات پر فخر محسوس کرتے کہ خدمت کا موقع ملا ہے اور اس میں برکت تھی لیکن آپؑ نے ہماری تکلیف کا احساس کرتے ہوئے روک دیا کہ کوئی ضرورت نہیں ہے۔پس یہ وہ نمونہ ہے جو ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔
سوال نمبر۵:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے معاشرہ میں امن وسلامتی کی فضاقائم کرنے کےحوالہ سےکیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:معاشرے میں امن اور سلامتی سے رہنے ، امن اور سلامتی کی فضا پیدا کرنے اور امن اور سلامتی پھیلانے کے لیے آنحضرت ﷺ نے کیا نصیحت فرمائی۔ ایک دفعہ ایک شخص آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! کون سا اسلام سب سے بہتر ہے؟ آپﷺنے جواب دیا: ضرورت مندوں کو کھانا کھلاؤ اور ہر اس شخص جسے تم جانتے ہو یا نہیں جانتے سلام کہو۔معاشرے میں محبت اور بھائی چارہ پیدا کرنے اور امن و سلامتی قائم کرنے کے لیے یہ وہ خوبصورت اصول ہے جسے اگر اپنا لیا جائے تو ایک امن اور سلامتی پھیلانے والا معاشرہ قائم ہو جاتا ہے۔ دنیا میں بہت سے فساد اس لیے ہیں کہ غریب غریب تر ہو رہا ہے۔ آج بھی کروڑوں لوگ ہیں جن کو دو وقت کی روٹی بھی نہیں ملتی۔ اگر روٹی کھائیں تو رہائش نہیں۔ یہ جو امیر ملک کہلاتے ہیں ان میں بھی ایسی باتیں ہیں یہاں اس ملک میں بھی، یوکے میں بھی جسے امیر ملک کہا جاتا ہے گو اَب ان کی امارت کی وہ حالت نہیں رہی لیکن بہت سوں سے بہتر ہیں۔ ہزاروں لوگ اور بچے سڑکوں پر پڑے ہیں کہ مہنگائی کی وجہ سے روٹی بھی صحیح طرح میسر نہیں اور رہائش بھی میسر نہیں۔ تو اسلام کی یہ بنیادی تعلیم ہے کہ بھوکے کو کھانا کھلاؤ۔ کاش کہ مسلمان اس اصول کو سمجھیں اور ان کے حکمران اپنی رعایا کے حق ادا کرنے والے بنیں اور صرف اپنے خزانے نہ بھرتے رہیں بلکہ غریبوں اور ضرورتمندوں کی ضرورت پوری کر کے معاشرے سے بےچینی اور ظلم کو دور کریں۔ آجکل یہ بے چینی بھی اسی وجہ سے بہت ساری پھیلی ہوئی ہے۔ پھر فرمایا کہ سلام کہو۔ بہرحال یہ تو ضمناً میں نے بات کی ہے۔ اپنے معاشرے میں رواج دینے کے لیے آپؐ نے سلام کی تلقین فرمائی۔ سلام کہنا صرف منہ سے بول دینا ہی نہیں بلکہ جب انسان دل سے سلام کہتا ہے تو پھر سلامتی پہنچانے ، پھیلانے کی سوچ بھی رکھتا ہے۔ایک دوسرے کے لیے نیک جذبات بھی رکھتا ہے۔ اس کی تکلیفوں کو دُور کرنے کی کوشش اور دعا بھی کرتا ہے۔ پس ان دنوں میں ہر احمدی کو یہاں سلامتی کا پیغام پھیلانے ، السلام علیکم کو رواج دینے اور اپنے اندر ایک دوسرے کے لیے نیک جذبات پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لوگ ان لوگوں سے تو خوش دلی سے مل لیتے ہیں اور بڑے تپاک سے انہیں سلام بھی کر لیتے ہیں جن سے انہیں فائدہ پہنچ رہا ہو یا ان کو بھی خوشی سے مل لیتے ہیں جن سے عام تعلقات ہوں لیکن حقیقی امن اور سلامتی اُس وقت قائم ہوتی ہے جب وہ لوگ جن کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے رنجشیں ہیں وہ دُور ہوں اور دل سے ایک دوسرے کے لیے سلامتی کی دعا نکلے۔ پس اس جلسے میں ایسے لوگوں کو بھی رنجشیں دور کر کے سلامتی کا پیغام پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے اور عمومی رنگ میں اس سارے ماحول میں سلامتی کا پیغام پہنچاتے ہی رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اس پہ عمل کرنے کی بھی ہر ایک کو توفیق عطا فرمائے اور یہ سب جلسے کا ماحول مکمل طور پر امن اور سلامتی کا ماحول بن جائے بلکہ اعلیٰ اخلاق اور حقوق العباد کی ادائیگی ہماری زندگیوں کا مستقل حصہ بن جائیں۔