وہ یار کیا جو یار کو دل سے اتار دے (منظوم کلام حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
وہ یار کیا جو یار کو دل سے اتار دے
وہ دل ہی کیا جو خوف سے میدان ہار دے
اک پاک صاف دل مجھے پروردگار دے
اور اس میں عکس حسنِ ازل کا اتار دے
وہ سیم تن جو خواب میں ہی مجھ کو پیار دے
دل کیا ہے بندہ جان کی بازی بھی ہار دے
افسردگی سے دل مرا مرجھا رہا ہے آج
اے چشمۂ فیوض نئی اک بہار دے
دنیا کا غم اِدھر ہے اُدھرآخرت کا خوف
یہ بوجھ میرے دل سے الٰہی اتار دے
مسند کی آرزو نہیں بس جوتیوں کے پاس
درگہ میں اپنی مجھ کو بھی اک بار،بَار دے
گزری ہے ساری عمرگناہوں میں اے خدا
کیا پیشکش حضور میں یہ شرمسار دے
وحشت سے پھٹ رہا ہے مراسرمرے خدا
اس بےقرار دل کو ذرا تو قرار دے
توبارگاہ حسن ہے میں ہوں گدائے حسن
مانگوں گا بار بار مَیں ، تُو بار بار دے
دن بھی اسی کے راتیں بھی اس کی جوخوش نصیب
آقا کے در پہ عمر کو اپنی گزار دے
دل چاہتا ہے جان ہو اسلام پر نثار
توفیق ا س کی اے مرے پروردگار دے
میرے دل و دماغ پہ چھا جا او خوبرو!
اورماسوا کا خیال بھی دل سے اتار دے
ممکن نہیں کہ چین ملے وصل کے سوا
فرقت میں کوئی دل کو تسلی ہزار دے
کیسے اٹھے وہ بوجھ جو لاکھوں پہ بار ہو
جب غم دیا ہے ساتھ کوئی غم گسار دے
ہے سب جہاں سے جنگ سہیڑی ترے لیے
اب یہ نہ ہو کہ تُوہمیں دل سے اتار دے
تنگ آگیا ہوں نفس کے ہاتھوں سے میری جاں
جلدآ اورآکے اس مرے دشمن کو مار دے
بچھڑے ہوؤں کوجنتِ فردوس میں ملا
جَسرِ صراط سے بہ سہولت گزار دے
(کلام محمودمع فرہنگ صفحہ 243-244)