امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ واقفات نَو سکاٹ لینڈ کے ایک وفد کی ملاقات
مورخہ٢٣؍جون ۲۰۲۴ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ سکاٹ لینڈ کی واقفاتِ نَوکے ایک وفد کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں قائم ايم ٹی اے سٹوڈيوز میں بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی، جنہوں نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سے سکاٹ لینڈ سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا ۔
حضور انور جب ایم ٹی اے سٹوڈیوز میں رونق افروز ہوئے تو آپ نے تمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کہا۔
ملاقات کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآنِ کریم مع انگریزی ترجمہ، حدیثِ نبوی صلی الله علیہ وسلم اور نظم سے ہوا۔ اس کے بعد واقفاتِ نَو کو حضور انور سے مختلف نوعیت کے سوالات پوچھنے کا بھی موقع ملا۔
حضور انور کی خدمت میں پہلا سوال پیش کرنے کی سعادت ریجنل کوآرڈینیٹر (Coordinator)واقفاتِ نَو سکاٹ لینڈ کوحاصل ہوئی۔موصوفہ نے راہنمائی طلب کی کہ کلاسز میں ہم ان واقفات کی حاضری کیسے بہتر کر سکتے ہیں جو شادی شدہ ہیں اور گھر کے کاموں اور بچوں کی وجہ سے کلاسز میں شامل نہیں ہو پاتیں؟
اس پر حضور انور نے معاونہ صدر برائے واقفات نو کی مثال پیش کرتے ہوئے نشاندہی فرمائی کہ یہ شادی شدہ اور تین بچوں کی ماں ہے، پھر بھی وقت نکال کر کلاسز کرواتی ہے۔یہ توارادے کی بات ہے۔ اگر ارادہ ہو کہ ہم نےشامل ہونا اور وقت نکالنا ہے تو لوگ وقت نکال لیتے ہیں۔ اور اگر یہ ارادہ ہو کہ نہیں ہم بڑے مصروف ہیں، سستی طاری ہو گئی ، بچے سنبھالنے پڑتے ہیں، تو یہ غلط ہے۔ کبھی کبھار بہت چھوٹے بچے ہوتے ہیں تو عارضی طور پر کچھ وقت کے لیے رخصت لی جا سکتی ہےاور کہا جاسکتا ہے کہ مَیں ابھی نہیں آ سکتی یا فلاں وقت نہیں آ سکتی۔ لیکن اس بات کو عادت بنا لینا کہ میرے بچے ہیں اس لیے مصروف ہوں اورمَیں نہیں آسکتی یہ درست نہیں۔
وقفِ نَو کیا ہے؟جب وقف کیا ہے تو پھر اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر کام کرنا ہے۔ اگر آسانی ہوتی تو ہر ایک کیوں نہ وقف کر دیتا۔ وقف کرنے کا تومطلب ہی یہی ہے کہ جب بھی مجھے اللہ تعالیٰ کی خاطر یا جماعت کےکسی کام کے لیے بلایا جائے گا یا میری بہتری کے لیے کوئی جماعتی پروگرام ہو گا تو مجھے تکلیف بھی برداشت کرنی پڑی تو مَیں اس میں ضرور شامل ہوں گی۔
یہ تو ان لوگوں کوrealizeکروانے والی بات ہے کہ تم وقفِ نَو ہو، تمہاری ایک اہمیت ہے، تو تمہیں اپنا ٹائم اس طرح manageکرنا چاہیے کہ بچوں کو بھی وقت دو۔ ہاں کبھی کبھار اگر مجبوری ہو جاتی ہے تو کوئی ایسی بات نہیں ہے۔
حضورانور نے مزید تلقین فرمائی کہ یہ تو مستقل کہنے کی بات ہے۔ اگر بچوں، لڑکیوں اور لڑکوں کی بھی تربیت بچپن سے ہی یہ ہو اور ان کو پتا ہو کہ بحیثیت وقفِ نَو ہماری کیا اہمیت اور ڈیوٹیز ہیں نیز جماعت کو ہم سے کیا expectationsہیں تو پھر ہی وہ یہ سب امور بہتر طور پر سرانجام دے سکتے ہیں۔ تو اس بات پر تربیت کی ضرورت ہے، تربیت کرتے رہو، مگر پیار سے، سختی سے نہیں۔
بعد ازاں ایک بارہ سالہ بچی نے حضور انور سے دریافت کیا کہ فرض نماز کے بعد ہم تسبیح پڑھتے ہیں۔ اس حوالے سے تینتیس، تینتیس اور چونتیس کے اعداد میں کیا اہمیت اور حکمت ہے اور کیا وجہ ہے کہ فرض نمازکی تیسری اور چوتھی رکعت میں سورۃالفاتحہ کے بعد کوئی بھی سورت نہیں پڑھی جاتی؟
اس پر حضور انور نے فرمایاکہ ایک دفعہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غریب صحابہؓ کا ایک گروہ آپؐ کے پاس تشریف لایا اور انہوں نے کہا کہ امیر لوگ ایسے ہیں جو ہر قسم کی قربانیاں کرتے ہیں، وہ جہاد میں حصہ لیتے ہیں اور چونکہ وہ امیر ہیں تو وہ اللہ کی راہ میں مال بھی خرچ کرتے ہیں، لیکن ہمارے پاس اتنا مال نہیں ہے کہ ہم بھی بڑھ چڑھ کر مالی قربانی میں حصہ لیں۔ تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں جس کے کرنے سے ایسا ہی ہو گا کہ گویا آپ نے بھی انہی کی طرح ہر قسم کی قربانی میں حصہ لیا ہو۔
آپؐ نے فرمایا کہ ہر نماز کے بعد آپ اللہ اکبر چونتیس، الحمد للہ تینتیس اور سبحان اللہ تینتیس دفعہ پڑھیں۔اس طرح سے ان اعداد کو جمع کر کے ایک سَو کا عدد بنتا ہے۔ یہ تعداد آپؐ نے انہیں اس وجہ سے بتائی کیونکہ اگر آپ اللہ تعالیٰ کا نام سَو مرتبہ لو گے اور اس کی تسبیح کرو گے تو اللہ تعالیٰ آپ پر اپنا خاص فضل کرے گا۔اور ایسا نہیں ہے کہ آپ اس سے زیادہ تسبیح نہیں کر سکتے بلکہ اگر آپ کے پاس وقت ہو تو اس سے زیادہ بھی کر سکتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےتو یہاں تک فرمایا ہے کہ سارا دن ذکر الٰہی کیا کرو، اللہ تعالیٰ کو ہمیشہ یاد کیا کرو، لہٰذا کم وقت میں آپ اتنا تو کر سکتے ہیں۔اگر آپ ہر نماز کے بعد ایسا کریں تو اس کا مطلب یہ ہواکہ دن میں آپ نے پانچ سَو مرتبہ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی تسبیح کی اور یہ کافی اچھی تعداد ہے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوگا۔اگر اس سے زیادہ بھی ہو تو ٹھیک ہے۔
سوال کے دوسرے حصے کے جواب میں حضور انور نےفرمایا کہ سورة الفاتحہ کے بعد کوئی اَور سورت نہ پڑھنے میں حکمت یہ ہے کہ یاد رہے کہ جو کام بھی ہم کرتے ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّت کے مطابق کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرض نماز اور سُنّتوں کے دوران پہلی دو رکعتوں میں سورۃالفاتحہ کے بعد قرآنِ پاک کی کوئی بھی اور آیت یا سُورت پڑھیں۔ مگر آخری دو رکعتوں میں ایسا کرنے کا حکم نہیں ہے۔ صرف سورۃالفاتحہ پڑھیں، اس پر غور و فکر کریں، یہی کافی ہے۔جو بھی کام ہم کرتے ہیں وہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّت کے مطابق ہوتا ہے اور یہی ہمیں سکھایا گیا ہے۔
بلکہ سورۃالفاتحہ میں قرآنِ پاک میں مذکور تمام مضامین شامل ہیں، اسی لیے سورۃالفاتحہ کے اتنے سارے نام رکھے گئے ہیں۔قرآن پاک کی تعلیمات کا خلاصہ سورۃالفاتحہ میں موجود ہے۔ اس لیے اگر صرف سورۃالفاتحہ ہی ہے تو آپ تلاوت کرتے وقت اس کے مضامین پر غور کریں اور اس بات پر بھی کہ آپ دعائیں کیا مانگ رہے ہیں؟ اس حالت میں کہ آپ اس کی مدد، ہدایت اور فضل طلب کر رہے ہوں ۔ مختصراً یہ کہ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مطابق ہے، جس طرح سے انہوں نے کیا ، ہمیں بھی اسی طرح کرنا چاہیے۔
اس کے بعد ایک آٹھ سالہ بچی نے بڑی معصومیت سے عرض کیا کہ مَیں فی الحال بایاں ہاتھ استعمال کرتی ہوں اور مجھے کاموں کے لیےاپنا دایاں ہاتھ استعمال کرنا مشکل لگتا ہے۔ دعا اور راہنمائی کی عاجزانہ درخواست ہے۔
اس پر حضور انورنے کمال شفقت اور محبّت سےجواب دیتے ہوئے اس بچی کو سمجھایا کہ دیکھو! اگر آپ بایاں ہاتھ استعمال کرتی ہو تو کوئی بات نہیں ۔بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اپنا بایاں ہاتھ استعمال کرتے ہیں۔لیکن اس بات کی عادت ڈالو کہ کھانا کھاتے وقت اپنا دایاں ہاتھ استعمال کرو۔ اس کے علاوہ چونکہ آپ بایاں ہاتھ استعمال کرتی ہو تو ظاہری بات ہے بائیں ہاتھ سے لکھنے پر مجبور ہو، لیکن جب آپ کھانا کھاؤ تو کھانا کھانے کے لیے لازماً اپنے دائیں ہاتھ کو استعمال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اگر کچھ عرصہ کوشش کرو توپھر اللہ تعالیٰ بھی مدد کرے گا اور کم از کم کھانا کھاتے وقت اپنا دایاں ہاتھ استعمال کیا کرو۔ ورنہ تو کوئی فرق نہیں پڑتا، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس طرح بنایا ہے، اس عادت کو چھوڑنا بہت مشکل ہے۔
ایک واقفہ نو نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ مَیں بہتر اور اچھا پردہ کرنا چاہتی ہوں مگر اپنے دوستوں اور اساتذہ کے سامنے ایسا کرنے سے شرماتی ہوں، کیا حضور میری راہنمائی کر سکتے ہیں؟
حضور انورنے اس پر استفہامیہ انداز میں موصوفہ سے دریافت کیا کہ کیا آپ خدا پر یقین رکھتی ہو، کیا آپ کے خیال میں یہ اللہ کا حکم ہے کہ آپ حیا دار لباس پہنیں؟
اثبات میں جواب ملنے پر حضور انور نے اس ضمن میں تلقین فرمائی کہ یہ اللہ کا حکم ہے تو پھر آپ کو شرمانا نہیں چاہیے۔ پھر اپنے آپ کو تھوڑا پُر عزم بنانا ہو گا کہ جو بھی کرو گی اسلام کی تعلیمات اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق کرو گی۔ اور اس بارے میں شرم محسوس کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ دوسرے لوگ آپ کے بارے میں کیا کہیں گے۔
آپ وہ ہیں جس نے دنیا کی راہنمائی کرنی ہے۔ ہمیشہ یہ سوچو کہ مَیں ایک اچھی احمدی مسلم لڑکی ہوں اور میرا کام دنیا کی راہنمائی کرنا ہے اور لوگوں کو اپنا اچھا نمونہ دکھائیں، لہٰذا اگر آپ شرما گئی تو راہنمائی کیسے کرو گی؟ آپ نے تو دنیا کی راہنمائی کرنی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ اچھی تعلیم دے کر آپ پر اپنا فضل کیا ہے۔ لوگ جو کہنا چاہتے ہیں انہیں کہنے دو، اس کی پروا نہ کرو۔اس بات پر پُرعزم رہو کہ اسلام کی تعلیمات کی پیروی کرنی ہے اور اس طرح اپنے آپ میں اعتماد پیدا کرو۔ شرمانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر شرما گئی تو دنیا کی راہنمائی کون کرے گا؟ آپ نے تو دنیا کی راہنمائی کرنی ہے، آپ وہ وجود ہو جس کی لوگوں کو پیروی کرنی چاہیے۔لیڈر جرأت مند ہونا چاہیے۔جرأت مند بننے کی کوشش کرو۔
جواب کے آخرمیں حضورانور نے ایک مرتبہ پھر اس نصیحت کا اعادہ فرمایا کہ کبھی مت شرمانا ۔
پھر ایک بچی نے حضور انور کی خدمت میں عاجزانہ درخواست کی کہ کیا آپ از راہِ شفقت سکاٹ لینڈ کا دَورہ فرما سکتے ہیں؟ حضور انورنے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ٹھیک ہےپھر دعا کرو۔
ایک سوال کیا گیا کہ دیکھا گیا ہے کہ ہم بچوں اور والدین کی سوچ میں بعض امور میں اختلاف ہوتا ہے۔مثلاًsubjectکیchoiceوغیرہ کے حوالے سے۔ ایک طرف والدین کے تجربے اور فرمانبرداری میں برکت ہے تو دوسری طرف بچوں کا ذہن دوسرےsubjectکی طرف مائل ہوتا ہے۔ اس حوالے سے راہنمائی طلب ہے کہ ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ پڑھائی تم نے کرنی ہے کہ والدین نے؟ تم نے پڑھنا ہے تو جو تمہاری مرضی کا subjectہےتم وہ پڑھو۔ مجھ سے لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم کیا پڑھیں؟ اگر تو وہ فرسٹ، سیکنڈ، تھرڈ، فورتھ choiceلکھ دیں تو پھر مَیں کہہ دیتا ہوں کہ انchoicesمیں سے یہ choiceمیرے نزدیک بہتر ہے لیکن اس کے باوجود بھی جو تمہاری مرضی ہے تم وہ پڑھو۔
حضور انور نے کم علمی کی بنا پروالدین میں پائے جانے والے جذباتی رجحانات کی روشنی میں سمجھایا کہ والدین کو تو پتا ہی نہیں ہے۔ اکثر لوگ جن کے بوڑھے والدین ہیں وہ تو پاکستان سے آئے ہوئے ہیں۔جو یہاں پیدا ہوئے اور پڑھ لکھ گئے، انہوں نے بھی زیادہ سے زیادہ GCSEکیا ہے یا اے لیول کر لیا۔ یونیورسٹی پڑھنے والے تو بہت کم والدین ہیں۔
پاکستان سے آئے ہیں تو ایف اے، بی اے کر کے آئے ہیں، جہاں پڑھائی ہوتی ہی کوئی نہیں ۔ اس لیے ان کی باتیں ماننے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جو تمہاراinterest ہے، ان کو ان نئے subjectsکا پتا ہی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں ایشین لوگوں کو صرف یہ پتاہے کہ ایک میڈیسن پڑھ لو یا ٹیچنگ کر لو یا انجنیئرنگ کر لو۔ بس اس کے علاوہ کچھ نہیں پتا۔ ان کو پتا ہی نہیں کہ law کیا چیز ہے یا انفارمیشن ٹیکنالوجی ایک چیز ہے یا کامرس کیا چیز ہے، تو ان چیزوں کا تو ان کو پتا ہی نہیں ہے۔
اس لیے ان کو بتاؤ کہ میری دلچسپی فلاںsubject میں ہے، مَیں اس کو پڑھوں گی اور اس میں بہتر جاب opportunitiesہیں۔اگر تو کوئی خاص انٹرسٹ نہیں ہے تو پھر یہ دیکھو کہ مارکیٹ میں جابopportunitiesکیا ہیں، جو بہتر ہے اور جسsubject میں تمہارا جنرل انٹرسٹ بھی ہے تو پھر اس طرف جاؤ جوبعد میں کام بھی آئے۔
لیکن سب سے بہتر چیز یہ ہے کہ ایسی پڑھائی کرنی چاہیے جو تمہارے بچوں کے بھی کام آئے، ان کی تربیت میں بھی کام آئےاور ان کی تعلیم میں بھی کام آئے۔
اس چیز میں ماں باپ کی بات نہ ماننے میں کوئی ہرج نہیں ہے، کوئی ایسا شرعی مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایسی بُری بات ہے۔ کہو کہ میرا انٹرسٹ ہی نہیں ہے تومَیں اس subject کوکس طرح پڑھوں؟ ماں باپ کے کہنے پر لوگ بعض چیزیں پڑھ تو لیتے ہیں لیکن ان کو انٹرسٹ نہیں ہوتا ، کچھ تھوڑی دیر جا کے بعد میں وہ پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں یا اس پڑھائی میں آگے صحیح طرح نہیں چل پاتے۔ ہاں اگر اپنا انٹرسٹ ہے تو پھر ٹھیک ہے اس مجوزہ subjectمیں پڑھائی کرو، باقی یہ کوئی ماں باپ کی نافرمانی نہیں ہے، بے شک اپنے انٹرسٹ کے مطابق پڑھائی کرو۔
ایک لجنہ ممبر نے حضور انور کی خدمت میں دعا کی عاجزانہ درخواست کرتے ہوئے عرض کیا کہ وہ جلد ایک جماعت کے ہسپتال میں چار ہفتوں کے لیے بغرضِ خدمت بیرونِ ملک کا سفر اختیار کرنے والی ہیں۔ اسی طرح موصوفہ نے عنقریب بطور ڈاکٹر فارغ التحصیل ہونے کے حوالے سے راہنمائی طلب کی۔
اس پر حضورانور نے فرمایا کہ آپ جس انسٹی ٹیوٹ میں جا رہی ہیں ،وہ ایک جدید ترین ادارہ ہے۔وہاں قیام کے دوران آپ کوسیکھنا اور تجربہ حاصل کرنا چاہیے۔ البتہ اگرآپ وہاں کسی ایسی چیز کا مشاہدہ کریں، جس میں بہتری لائی جاسکتی ہے، تو اس کے بارے میں اپنی مفید تجاویز و آراسے ضرورآگاہ کریں۔
ایک شریکِ مجلس نے حضور انور سے دریافت کیا کہ جہنم کا منظر کیسا ہو گا؟
اس پرحضورانور نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ عذاب دیتا ہے اور کسی پر ناراض ہوتا ہے تو ایک سعید فطرت انسان کے لیے بذاتِ خود یہی ایک قسم کی جہنم ہوتی ہے۔ پس تم اس دنیا میں اچھے کام کرنے کی کوشش کروتاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے ہمیشہ راضی رہے اور تمہیں جزائے خیر سے نوازے۔
انسان کو اس دنیا میں ہی اپنی جنّت بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔یعنی یہاں جو بھی نیک اعمال بجا لائے جائیں گے، وہ جنّت میں لے جائیں گے اور بُرے اعمال جہنم میں لے جائیں گے۔ جہنم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہاں آگ ہوگی۔ بُرے کام کرنے والوں کو ان کے بُرے اعمال کی سزا جہنم میں ملے گی۔
ایک ممبر ناصرات الاحمدیہ نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے احمدیت کی سکاٹ لینڈ میں تبلیغ کے حوالے سے ایک رؤیا دیکھی ۔ الحمد للہ! کہ جماعت اس حد تک پھیل رہی ہے کہ اب گلاسگو والی مسجد ہماری مختلف تقریبات اور تبلیغی پروگرامز کے لیے چھوٹی پڑگئی ہے۔ کیا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی اس رؤیا کی مزید کوئی اور تعبیر بھی ہے؟
حضور انور نے اس کی بابت ارشاد فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی آپ اس وقت تبلیغی مساعی کررہے ہیں اس سے بڑھ کر وسعت دینی چاہیے۔اس کا مطلب ہے کہ سکاٹ لینڈ میں اسلام احمدیت کے پیغام کو پھیلانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اگر آپ یہ کام خلوص نیت اور دعاؤں کے ساتھ کریں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کی مدد بھی فرمائے گا اور آپ سکاٹ لینڈ میں اسلام کا پیغام بہت تیزی سے پھیلتے ہوئے دیکھیں گے لیکن یہ سب آپ کی اپنی کوشش پر منحصر ہے۔اگر آپ اس خواب کو پورا کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو سخت محنت کرنی ہوگی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ سکاٹ لینڈ میں رہنے والے تمام احمدیوں کو اسلام کے پیغام کو پھیلانے کے لیےجدوجہد کرنی چاہیے۔
ایک میڈیکل کی طالبہ نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ یونیورسٹی میں بہت سے سٹوڈنٹس یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر دنیاوی تعلیم انسان کو اچھے اخلاق سکھاتی ہے اور اگر انسان اپنی دنیاوی زندگی میں مطمئن بھی ہے تو اس دَور میں مذہب کا کوئی مقصد نہیں لگتا تو ہم ایسے لوگوں کو مذہب کی اہمیت کیسے سمجھا سکتے ہیں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ انہوں نے زندگی کا ایک aspect تو پورا کر لیا لیکن دوسرا نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مَیں نے انسان کو دو چیزوں کے لیے پیدا کیا ہے۔ ایک یہ کہ اللہ کے حق ادا کرو اوردوسرا یہ کہ بندوں کے حق ادا کرو۔ یہ realizeکرنے والی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب ہمیں پیدا کیا ہے تو ہم اس کی شکرگزاری کریں۔ انسان آپ ہی آپ تو نہیں پیدا ہو گیا؟ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مَیں نے تمہیں پیدا کیا ہے اور تمہارے پیدا کرنے سے پہلے جو سارا infrastructureاور سسٹم بنایا ، وہ تمہارے لیے اس لیے بنایا تا کہ تم آرام سے رہ سکو۔
دوسرے یہ کہ مذہب ہی ہے جس نے سارے اچھے اخلاق کی تعلیم دی ہے۔ دنیا میں کوئی مذہب ایسا نہیں ہے، جس میں اخلاقی تعلیم کے بارے میں کوئی contradictionہو۔ چاہے وہ یہودی ہیں، عیسائی ہیں، ہندو ہیں یا مسلمان ہیں سب نے لوگوں کے حق ادا کرنے کے بارے میں جو اخلاقی تعلیم دی ہے وہ یہی تعلیم ہے کہ لوگوں کے حق ادا کرو۔ تو جو اچھے اخلاق سے پیش آتے ہیںوہ اپنی پیدائش کا ایک aspectتو پورا کر لیتے ہیں لیکن دوسرا جو بڑا aspectہے وہ پورانہیں کرتے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے شکرگزار نہیں ہوتے۔
تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ٹھیک ہے، ایسے لوگ جو میری شکرگزاری نہیں کرتے یا مذہب کو کچھ نہیں سمجھتے، اگر وہ اس پر mockنہیں کرتے اور اس پر استہزانہیں کرتے تو ٹھیک ہے مَیں ان کو تھوڑی سزا دوں گا مگر اس دنیا میں نہیں دوں گا ، لیکن جو خدمت ِخلق یا دنیاوی لوگوں کی خدمت یا اچھے اخلاق کا reward ہےوہ ان کو مل جائے گا۔
ان سے کہنا کہ ہم یہ مانتے ہیں کہ ہمیں اللہ نے پیدا کیا اور اللہ تعالیٰ نے پیدا کرنے سے پہلے ہمیں ایک سسٹم بنا دیا۔ ہمارے ماں باپ، بہن بھائی، پڑھنے، لکھنے کے سارےresources مہیا کر دیے۔یہ چیزیں اس بات کی ڈیمانڈ کرتی ہیں کہ ہم اس کا شکر کریں۔اس کا مطلب ہے کہ اگر ہم ایک طرف اللہ کا شکر نہیں ادا کر رہے تو ہم پوری طرح gratefulنہیں ہیں لہٰذا آپ کے اخلاق کا جو ایک پہلو ہے وہ تو ختم ہو گیا۔ بندوں کے لیے تو آپ نے کر دیا لیکن اللہ کے لیے نہیں کیا۔
اس لیے ہم احمدی مسلمان اس بات کو مانتے ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے دومقاصد کے لیےپیدا کیا ہے، ایک اس کی عبادت کرنا ،اس کا حق ادا کرنا، اس کی شکر گزاری کرنا کہ اس نے ہمیں اتنا کچھ دے دیا ہے۔ دوسرا یہ کہ دنیا میں لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا اور ان کا حق ادا کرنا۔
حضور انور نے یاددہانی کروائی کہ یہ باتیں تو مَیں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ ہماری دو ذمہ داریاں حقوق اللہ اور حقوق العباد ہیں۔یہی چیز خلاصہ ہے، اسی پیرائے میں ان کو بتایا کرو کہ یہی ہم مانتے ہیں۔ ان سے کہو کہ اس میں کیا بُرائی ہے یااگر اس میں کوئی بُرائی ہے تو بتا دو؟ باقی ہم تمہیں نہیں کہتے کہ تم جہنم میں جاؤ گے۔یہ تمہارا اور اللہ کا معاملہ ہے۔ہمیں یہ نہیں پتا کہ اللہ نے کہاں کس کو ڈالنا ہے۔جلدی سے بغیر کسی سوچ کے یہ نہ کہا کرو کہ تم یہ نہیں کرتے توتم جہنم میں جاؤ گے، ہمیں نہیں پتا کہ جہنم میں کون گیا اور کون نہیں گیا ۔کہو کہ ہم یہ سمجھتے ہیں اس لیے ہم تو دونوں پہلوؤں کی شکرگزاری کرتے ہیں۔
بچپن میں پسندیدہ کھیل کے بارے میں دریافت کیے جانے پر حضور انور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ حضور بچپن میں کرکٹ شوق سے کھیلتے تھے۔
اس ملاقات کا آخری کیا جانے والا سوال بھی ایک ناصرہ کا تھا کہ مَیں اپنی کلاس فیلوز کو خدا پر ایمان لانے کے بارے میں کس طرح قائل کر سکتی ہوں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ آپ انہیں اپنا ذاتی تجربہ بتا سکتی ہو۔موصوفہ سے استفہامیہ انداز میں حضور انور نےاستفسار فرمایا کہ کیا تم خدا پر ایمان رکھتی ہو، کیا تمہارا خیال ہے کہ خدا نے کبھی تمہاری مدد کی ہےاور تمہاری خواہشات اور تمنائیں پوری کی ہیں؟
حضور انور نے تلقین فرمائی کہ پھر تم انہیں بتا سکتی ہو کہ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے اس لیے مَیں اس پر ایمان لاتی ہوں۔ جب مَیں دعا کرتی ہوں تو وہ میری دعائیں قبول کرتا ہے۔ لیکن تم کسی کو مجبور نہیں کر سکتی کہ وہ اللہ تعالیٰ کو مانے یا اس پر ایمان لائے۔
اس کے علاوہ تم ہستیٔ باری تعالیٰ کے دس دلائل والی کتاب بھی پڑھو۔یہ ایک چھوٹا کتابچہ ہےجو تم کو مدد دے گا۔ اسی طرح کتاب ’’ہمارا خدا ‘‘بھی پڑھو۔ پھر تمہیں علم ہو گا کہ اس مسئلہ کو مختلف طریق سے کس طرح حل کرنا ہے۔ مختلف لوگوں کے مختلف نظریے اور سمجھنے کے انداز مختلف ہوتے ہیں۔ تو اگر تم ان کتابوں کو پڑھوگی تو تمہیں پتا چلے گا کہ کس طرح مختلف مواقع پر اس سوال کا سامنا کرنا ہے۔ہمیشہ اپنا نمونہ دکھاؤ۔کہو کہ مَیں اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتی ہوں اور مَیں نے اس کی ذات کا تجربہ کیا ہے۔
بعدازاں تمام شرکائے مجلس کو از راہِ شفقت حضورانور کےدستِ مبارک سے قلم کا تبرک حاصل کرنے کا بھی شرف حاصل ہوا۔
حضور انورنے آخر پر سب شاملین کوالسلام علیکم کا تحفہ عطا فرمایا اوراس طرح سے یہ ملاقات بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔