ﷲ تعالیٰ ایک تبدیلی چاہتا ہے اور وہ پاکیزہ تبدیلی ہے
اب واضح رہے کہ جس حال میں وہ بلائیں جو شامتِ اعمال کی وجہ سے آتی ہیں۔اور جن کا نتیجہ جہنمی زندگی اور عذابِ الٰہی ہے ان بلائوں سے جو ترقیٔ درجات کے طور پر اخیار و ابرار کو آتی ہیں الگ ہیں۔کیا کوئی ایسی صورت بھی ہے جو انسان اس عذاب سے نجات پاوے۔ہاں اس عذاب اور دُکھ سے رہائی کی بجز اس کے کوئی تجویز اور علاج نہیں ہے کہ انسان سچے دل سے توبہ کرے۔جب تک سچی توبہ نہیں کرتا،یہ بلائیں جو عذابِ الٰہی کے رنگ میں آتی ہیں اس کا پیچھانہیں چھوڑ سکتی ہیں،کیونکہ اﷲ تعالیٰ اپنے قانون کو نہیں بدلتا جو اس بارے میں اس نے مقرر فرما دیا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ(الرعد:۱۲) یعنی جب تک کوئی قوم اپنی حالت میں تبدیلی پیدا نہیں کرتی۔اﷲ تعالیٰ بھی اس کی حالت نہیں بدلتا۔
اﷲ تعالیٰ ایک تبدیلی چاہتا ہے اور وہ پاکیزہ تبدیلی ہے۔جب تک وہ تبدیلی نہ ہو عذابِ الٰہی سے رستگاری اور مخلصی نہیں ملتی۔یہ اﷲ تعالیٰ کا ایک قانون اور سنت ہے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوتی،کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے ہی یہ فیصلہ کر دیا ہے۔ وَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا(الاحزاب : ۶۳) سنت اﷲ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔پس جو شخص چاہتا ہے کہ آسمان میں اس کے لئے تبدیلی ہو یعنی وہ ان عذابوں اور دُکھوں سے رہائی پائے جو شامتِ اعمال نے ا س کے لیے تیار کئے ہیں۔اس کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے اندر تبدیلی کرے۔جب وہ خود تبدیلی کر لیتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق جو اس نے اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ میںکیا ہے۔اس کے عذاب اور دُکھ کو بدلادیتا ہے اور دُکھ کو سُکھ سے تبدیل کر دیتاہے۔جب انسان کے اندر تبدیلی کرتا ہے، تو اس کے لیے ضرور نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو بھی دکھاتا پھرے۔وہ رحیم کریم خدا جو دلوں کا مالک ہے۔اس کی تبدیلی کو دیکھ لیتا ہے کہ یہ پہلا انسان نہیں ہے اس لئے وہ اس پر فضل کرتا ہے۔
(ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۱۱۹۔ ایڈیشن۱۹۸۸ء)
واحِد ہے لاشریک ہے اور لازوال ہے
سب موت کا شکار ہیں اُس کو فنا نہیں
سب خیر ہے اسی میں کہ اس سے لگاؤ دِل
ڈھونڈو اسی کو یارو! بتوں میں وفا نہیں
(رسالہ تشحیذ الاذہان ماہ دسمبر ۱۹۰۸ء)