خلافت کا صحیح فہم و اِدراک پیدا کرنا بھی مربیان کے کاموں میں سے اہم کام ہے (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳۱؍ جنوری ۲۰۱۴ء)
وہ زمانہ جو انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ احمدیت کی ترقی کا آنے والا ہے، اس کی تیاری کے لئے مربیان بننے والے، مبلغین بننے والے اپنے آپ کو بہت زیادہ تیار کریں۔ کوئی معمولی کام نہیں جو اُن کے سپرد ہونے والا ہے۔ ابھی سے خدا تعالیٰ سے ایک تعلق پیدا کریں اور اس کے لئے پہلے سے بڑھ کر کوشش کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو نشانات ہمیں دکھائے، اسلام کی جو حقیقی تعلیم دوبارہ کھول کر واضح فرمائی، اُسے سامنے رکھیں۔ صرف مسائل کو یاد کرنے تک ہی اپنے آپ کو محدودنہ رکھیں۔ مجھے قادیان سے کسی عالم نے لکھا کہ آجکل کھلے جلسے جو مخالفین کے جواب دینے کے لئے پہلے ہندوستان میں منعقد ہوتے تھے، اب نہیں ہوتے، ہم اُن جلسوں میں ایسے تابڑ توڑ حملے مخالف علماء پر کرتے تھے کہ ایک کے بعد دوسرے حملے نے اُنہیں زِچ کر دیا تھا۔ ٹھیک ہے یہ اچھی بات ہے کہ کرتے تھے۔ مخالفین کے جواب دینے چاہئیں، بلکہ دلائل کے ساتھ اُن کی باتوں کے ردّ اُن پر ہی پھینکنے چاہئیں لیکن یہ بات اس سے بھی زیادہ اہم ہے اور ضروری ہے کہ ہمارے معلمین اور مبلغین اور مربیان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو سمجھتے ہوئے اپنی روحانی حالت میں بھی وہ ترقی کرتے کہ ہر ایک کا وجود خود ایک نشان بن جاتا۔ اور اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے بلکہ وہ ترقی کریں کہ خود ایک نشان بن جائیں۔ اور اسی نمونے کو دیکھ کر لوگ جماعت میں داخل ہوں۔ بعض دفعہ نمونے دیکھ کر داخل ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ معیار پیدا نہیں ہوا۔ اسی لئے ہندوستان میں بہت سے معلمین کو فارغ کرنا پڑا۔ لگتا تھا کہ بعض پر دنیا داری غالب آ گئی ہے۔ پس یہ خط لکھنے والے بھی اور ہم میں سے ہر ایک اپنے جائزے لے کہ اُس کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ معلمین، مبلغین یہ دیکھیں کہ انہوں نے دلوں میں ایمان پیدا کرنے کی کتنی کوشش کی ہے۔ خشک دلائل سے لوگوں کے دلوں پر اثر ڈالنے اور غیراحمدی مولویوں کو دوڑانے پر ہی ہمیں اکتفا نہیں کر لینا چاہئے اور اسی پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ ہمارے پاس جو خدا تعالیٰ کے زندہ نشانات اور معجزات ہیں، اُس سے خدا تعالیٰ کی ہستی دنیا کو دکھائیں۔ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ہے، اُس سے لوگوں کے دلوں کو قائل کریں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مثال دی ہے کہ اگر سورج چڑھا ہو اور کوئی کہے کہ تمہارے پاس کیا دلیل ہے کہ سورج چڑھا ہوا ہے تو دوسرا اُسے سورج چڑھنے کی دلیلیں دینی شروع کر دے کہ اتنے بجے سورج نکلنے کا وقت ہوتا ہے، اتنے بجے غروب ہوتا ہے اور سائنس یہ کہتی ہے اور فلاں کہتی ہے۔ پس یہ جو دلیلیں ہیں توکہتے ہیں کہ دلیل دینے والا بھی احمق ہی ہو گا جو دلیلیں دینے بیٹھ گیا، اُس کا سادہ علاج تو یہ تھا کہ سورج کی دلیل پوچھنے والے کی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر اُس کا منہ اونچا کرتا اور کہتا کہ وہ سورج ہے، دیکھ لو۔ اُن کو دلیلیں دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تمہاری بیوقوفانہ باتوں کا جواب اس وقت سورج کا وجود ہے۔ پس اس وقت خدا تعالیٰ بھی ہمارے سامنے جلوہ گر ہے۔ وہ بھی عریاں ہو کر اپنی تمام صفات کے ساتھ دنیا کے سامنے رونما ہو گیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ وہ اپنے سارے حسن کے ساتھ جلوہ نما ہے۔ (ماخوذ ازخطبات محمود جلد 17 صفحہ 457 خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1936ء)
پس واعظین کا یہ کام ہے کہ سورج کے وجود کی دلیلیں دینے والے احمق بننے کے بجائے تازہ نشانات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ظاہر ہو رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت جو ہر دم ہمارے ساتھ ہے، اُس سے یہ سچائی ثابت کریں۔ لیکن بات وہی ہے کہ اپنی حالتوں کو بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق بنائیں۔ جماعت کی عملی قوت کو مضبوط کریں۔ جماعت کے بچوں، عورتوں اور مردوں کے سامنے یہ باتیں پیش کریں اور بار بار پیش کریں۔ جیسا کہ میں نے کہا، اُنہیں بتائیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ کس طرح خدا تعالیٰ کا جلال ظاہر ہوا، اُنہیں سمجھائیں کہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے کیا ذرائع ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے؟ پھر دیکھیں کہ جو نوجوان دنیاداری کے معاملات میں نقل کی طرف رجحان رکھتے ہیں، خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے والے بنیں گے۔ پھر صرف چند مربیان یا علماء غیر از جماعت مولویوں کے چھکے چھڑانے والے نہیں ہوں گے بلکہ یہ نمونے جو ہمارے نوجوان مرد، عورتیں، بچے قائم کر رہے ہوں گے یہ دنیا کو اپنی طرف کھینچنے والے ہوں گے۔ پس اپنی عملی حالتوں کی درستی کی طرف توجہ کی سب سے پہلے ضرورت ہے۔
اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جوڑ کر پھر خلافت سے کامل اطاعت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ یہی چیز ہے جو جماعت میں مضبوطی اور روحانیت میں ترقی کا باعث بنے گی۔ خلافت کی پہچان اور اُس کا صحیح علم اور ادراک اس طرح جماعت میں پیدا ہو جانا چاہئے کہ خلیفہ وقت کے ہر فیصلے کو بخوشی قبول کرنے والے ہوں اور کسی قسم کی روک دل میں پیدا نہ ہو، کسی بات کو سن کر انقباض نہ ہو۔
خلافت کا صحیح فہم و ادراک پیدا کرنا بھی مربیان کے کاموں میں سے اہم کام ہے۔ اور پھر عہدیداران کا کام ہے کہ وہ بھی اس طرف توجہ دیں۔ بعض ایسی مثالیں بھی سامنے آ جاتی ہیں کہ کہتے ہیں کہ خلیفہ وقت نے یہ غلط کام کیا اور یہ غلط فیصلہ کیا یا فلاں فیصلے کو اس طرح ہونا چاہئے تھا۔ بعض قضا کے فیصلوں پر اعتراض ہوتے رہتے ہیں۔ یا فلاں شخص کو فلاں کام پر کیوں لگایا گیا؟ اس کی جگہ تو فلاں شخص ہونا چاہئے تھا۔ خلیفہ وقت کی فلاں فلاں کے بارے میں تو بڑی معلومات ہیں، علم ہے، اور فلاں شخص کے بارے میں اُس نے باوجود علم ہونے کے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ اس قسم کی باتیں کرنے والے چند ایک ہی ہوتے ہیں لیکن ماحول کو خراب کرتے ہیں۔ اگر مربیان اور ہر سطح کے عہدیداران، پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں، ہر تنظیم کے اور جماعتی عہدیداران اپنی اس ذمہ داری کو بھی سمجھیں تو بعض دلوں میں جو شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں، کبھی پیدا نہ ہوں۔ خاص طور پر مربیان کا یہ کام ہے کہ اُنہیں سمجھائیں اور بتائیں کہ تمام برکتیں نظام میں ہیں۔