ایک قوم ہے جنہوں نے کبھی جنگ کے میدانوں سے تخلّف نہ کیا
اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت فرمایا ہے وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ (المائدہ:۶۸)یعنی خدا تجھ کو لوگوں سے بچائے گا۔ حالانکہ لوگوں نے طرح طرح کے دکھ دئیے وطن سے نکالا، دانت شہید کیا اُنگلی کو زخمی کیا اور کئی زخم تلوار کے پیشانی پر لگائے۔ سو درحقیقت اس پیشگوئی میں بھی اعتراض کا محل نہیں کیونکہ کفار کے حملوں کی علّت غائی اور اصل مقصود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا زخمی کرنا یا دانت کا شہید کرنا نہ تھا بلکہ قتل کرنا مقصود بالذات تھا سو کفار کے اصل ارادے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خدا نے محفوظ رکھا۔
(ست بچن،روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۳۰۱ حاشیہ)
ایک قوم ہے جنہوں نے کبھی جنگ کے میدانوں سے تخلّف نہ کیا اور زمین کی انتہائی آبادی تک زمین پر قدم مارتے ہوئے پہنچے۔ اُن کی عقلیں آزمائی گئیں ۔ اور ملک داری کی لیاقتیں جانچی گئیں۔ سو وہ ہر ایک امر میں فائق نکلے اور علم اور عمل میں سبقت کرنے والے ثابت ہوئے ۔ اور یہ معجزہ ہمارے رسول خاتم النبیّین صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہے اور حقیقتِ اسلام پر ایک صریح دلیل ہے۔ اور اگر تمہیں شک ہے تو مجھے اِن کی مانند حضرت موسیٰ کے اصحاب میں سے یا حضرت عیسیٰ کے حواریوں میں سے یا کسی اور نبی کے صحابہ میں سے ایک انسان بھی دکھلاؤ۔
(نجم الھدیٰ،روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۴۴،۴۳)
قرآن شریف کاجو ہمارے لئے حکم مشہود و محسوس کا رکھتا ہے وہ عجیب و غریب تبدیلیاں ہیں جو اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ببرکت پیروی قرآن شریف و اثر صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ظہور میں آئیں۔ جب ہم اس بات کو دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ مشرف باسلام ہونے سے پہلے کیسے اور کس طریق اور عادت کے آدمی تھے اور پھر بعد شرف صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم و اتباع قرآن شریف کس رنگ میں آ گئے اور کیسے اخلاق میں، عقائد میں، چلن میں، گفتار میں، رفتار میں، کردار میں اور اپنی جمیع عادات میں خبیث حالت سے منتقل ہو کر نہایت طیّب اور پاک حالت میں داخل کئے گئے تو ہمیں اس تاثیر عظیم کو دیکھ کر جس نے ان کے زنگ خوردہ وجودوں کو ایک عجیب تازگی اور روشنی اور چمک بخش دی تھی اقرار کرنا پڑتا ہے کہ یہ تصرف ایک خارقِ عادت تصرف تھا جو خاص خدائے تعالیٰ کے ہاتھ نے کیا۔
(ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات،روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۴۴۷)