میرے محسن، محترم جناب عبدالکریم قدسی صاحب
اللہ رب العزت نے دنیا میں ہر شے جاندارواپس پلٹنے کے لیے ہی بنائی ہے۔ اور جب سے قدرت کا یہ سلسلہ چلا ہے، آنا،جانا لگا ہوا ہے۔چھوڑ کر جانے والا پیچھے رہنے والوں کو ایک اداسی اور تکلیف دے جاتا ہے۔ والدین جو کسی بھی انسان کے سب سے زیادہ محبوب اور قریب ہوتے ہیں ان کا بچھڑنا سب سے زیادہ دکھ کاباعث بنتا ہے مگر کچھ وجود ایسے ہوتے ہیں جو جسمانی رشتے کے بغیر بھی دوسروں کے لیے والدین کی طرح ہی محسن ہوتے ہیں۔
جناب قدسی صاحب خاکسار کے لیے اور یقیناً اور بھی بہت سے لوگ ہوں گے جن کے لیے ایسا ہی شفیق رویہ رکھتے تھے۔ ان سے کبھی ملاقات ہوئی نہ ہی انہیں کبھی دیکھا مگر گذشتہ تیرہ برس سے ان سے اَن دیکھی ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ اس کی ابتدا اس وقت ہوئی جب، خاکسار کا پہلا نظموں کا مجموعہ ’’یادوں کے جگنو ‘‘شائع ہوا۔ الفضل ربوہ، کی طرف بھیجا گیا تو جناب بھائی قدسی صاحب نے بھی اسے پڑھا اور اس پر تبصرہ لکھا۔ بغیر کسی لگی لپٹی کے خوب صحت مند تنقید کےساتھ ساتھ خاکسار کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ بس اسی دن سے میں ان کی شفقتوں اور ادبی تجربے سے فائدہ اٹھا رہی تھی۔ فون پر ان سے تعارف حاصل کیا اور ان کی شاگردی میں آ گئی۔بھائی صاحب نے بھی پوری شفقت دکھاتے ہوئے مجھ نااہل انسان کا استاد بننے کا ارادہ کر لیا۔ شائد شروع میں انہیں محسوس نہ ہوا ہو لیکن یقیناً! آہستہ آہستہ انہیں احساس ہو گیا ہوگا کہ کس نکمّے شاگرد سے پالا پڑا ہے۔
مگر ان کے مشفقانہ رویّے نے مجھے بہت کچھ دیا۔ ہر تخلیق کو سراہتے بھی اور تصحیح بھی کرتے۔ جماعت،جماعتی عہدیداران خصوصاً واقفین زندگی اور مربیان کی بہت عزت فرماتے۔ میرے بیٹے عزیزم یاسر فوزی (مربی سلسلہ ناروے) کے متعلق بات کرنا ہوتی تو جامعہ میں تعلیم کے دوران بھی اسے مربی صاحب کہہ کر حال پوچھتے۔ اس کی شادی پر ایک خوبصورت دعائیہ نظم لکھی۔ جب عزیزم کے ہاں پہلی بچی پیدا ہوئی میں نے انہیں خبر سنائی تو انہوں نے چند اشعار گھر میں رحمت اترنے کے موضوع پر لکھے۔ جب بھی کبھی میں نے ان سےاپنے بچوں کے لیے دُعا کے لیے درخواست کی انہوں نے ہمیشہ ایک جواب دیا کہ ’’آپ کے مربی بیٹے کے لیے دُعا کرنا تو میں اپنا فرض سمجھتا ہوں اور کرتا ہوں لیکن دوسرے بیٹے کے لیے بھی یاد کروانے پر دُعا کرنے کی توفیق ملتی ہے۔‘‘
کچھ عرصہ پہلے جب ان پر بیماری کا حملہ ہوا فکر والی بات تو تھی ہی۔ مگر انہوں نے نہایت بہادری سےاس بیماری کا مقابلہ کیا۔جب بات کرنے کے قابل ہوئے تو خود فون کر کے اپنی طبیعت کا بتایا۔ پاکستان سے بھی اور امریکہ جاکر بھی اپنے طبع ہونے والے مجموعے کسی نہ کسی کے ہاتھ بھیجتے رہے۔
حضور انور کے خطبہ جمعہ سے مرحوم کی شخصیت کے متعلق بہت سی نئی معلومات میسر آ ئیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے کاموں کا اجر ان کو دے اور ہمیں بھی ان کی شاگردی کے طفیل وہ علم اور سمجھ عطا فرمائےجو نافع الناس ہو۔ ان کی وفات سے ایک قابل اور نقاد شاعر سے جماعت محروم ہوگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ ان کے وجود کی کمی بھی پوری ہوجائے اور اللہ تعالیٰ ان کو بھی اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹے۔ آمین