ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر۱۶۸)
’’بعض حدیثوں میں آیا ہے کہ جہاں ایک مومن امام ہو اس کے مقتدی پیش ازیں کہ وہ سجدہ سے سر اُٹھاوے بخش دیئے جاتے ہیں۔
مومن وہ ہے کہ جس کے دل میں محبتِ الٰہی نے عشق کے رنگ میں جڑ پکڑلی ہو۔اس نے فیصلہ کر لیا ہو کہ وہ ہر ایک تکلیف اور ذلت میں بھی خدا تعالیٰ کا ساتھ نہ چھوڑےگا۔اب جس نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کب کسی کا کانشنس کہتا ہے کہ وہ ضائع ہوگا کیا کوئی رسول ضائع ہوا؟ دنیا نا خنوں تک اُن کو ضائع کرنے کی کوشش کرتی ہےلیکن وہ ضائع نہیں ہوتے۔ جو خدا تعالیٰ کے لیے ذلیل ہو وہی انجام کار عزت و جلال کا تخت نشیں ہوگا۔ایک ابو بکرؓ ہی کو دیکھو جس نے سب سے پہلے ذلت قبول کی اور سب سے پہلے تخت نشین ہوا۔اس میں کچھ شک نہیں کہ پہلے کچھ نہ کچھ دکھ اٹھانا پڑتا ہے کسی نے سچ کہا ہے ؎
عشق اول سرکش و خونی بود
تا گریزد ہر کہ بیرونی بود
عشق الٰہی بے شک اول سرکش و خونی ہوتا ہے تا کہ نااہل دُور ہو جاوے۔عاشقانِ خدا تکالیف میں ڈالے جاتے ہیں۔قسم قسم کے مالی اور جسمانی مصائب اُٹھاتے ہیں اور ا س سے غرض یہ ہوتی ہے کہ ان کے دل پہچانے جاویں۔‘‘
(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ۴۰تا ۴۱۔ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
تفصیل :اس حصہ ملفوظات میں آمدہ فارسی شعر کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
عِشْق اَوَّل سَرْکَشْ وخُوْنِی بُوَدْ
تَا گُرِیْزَدْ ہَرْ کِہ بِیْرُوْنِی بُوَدْ
ترجمہ:شروع میں عشق بہت منہ زور اور خونخوار ہوتا ہے،تا وہ شخص جو صرف تماشائی ہے بھاگ جائے۔
یہ شعر جلال الدین محمد بلخی معروف بہ مولانا،مولوی و رومی کا ہے اور آپ کے دیوان میں ایک شعر اس طرح بھی ملتا ہے۔
عِشْق اَزْ اَوَّل سَرْکَشُ وخُوْنِی بُوَدْ
تَاگُرِیْزَدْ آنْکِہ بِیْرُوْنِی بُوَدْ
ترجمہ:عشق آغازمیں بہت منہ زوراورخونخوارہوتاہے تاوہ شخص جو صرف تماشائی ہے بھاگ جائے۔
مثنوی میں مولانا نے اس مضمون کو اس طرح بھی بیان کیا ہے۔
عِشْق اَزْ اَوَّل چِرَا خُوْنِی بُوَدْ؟
تَا گُرِیْزَدْ ہَرکہ بِیْرُوْنِیْ بُوَدْ
ترجمہ :شروع میں عشق کیوں منہ زور اور خونخوا ر ہوتا ہے تا وہ شخص جو صرف تماشائی ہے بھاگ جائے۔