حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

نظام خلافت اور نظام وصیّت کا بہت گہرا تعلق ہے

جیسا کہ میں نے بتایا تھا کہ یہ نظام وصیت بھی ذہنوں اور مالوں کو پاک کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جس طرح بعض مسلمان کرتے ہیں کہ غلط طریق سے مال کمایااور پھر بازار میں ٹھنڈے پانی کی سبیل لگا دی یا برف ڈلوا دی یا مسجد بنوا دی یا اس کا کچھ حصہ بنوا دیا۔ یا حج کر آئے اور سمجھ لیا کہ ہمارے ناجائز ذریعے سے کمائے ہوئے مال پاک ہو گئے ہیں۔ ایسے لوگ تو دین کے ساتھ مذاق کرنے والے ہوتے ہیں۔ بلکہ یہاں پاک کرنے کے ذریعے سے یہ مطلب ہے کہ پاک ذرائع سے کمائی ہوئی جو دولت ہے اس کو جب پاک مقاصد کے لئے خرچ کیا جائے گا تو اس سے تمہارے اندر جہاں روحانی تبدیلیاں پیدا ہوں گی وہاں تمہارے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت پڑے گی۔ جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے دعا کی ہے رسالہ الوصیت میں اور تین دفعہ یہ دعا کی ہے کہ ایسے لوگوں کو جو اس نظام میں شامل ہوں نیک اور پاک لوگوں کی جماعت بنا دے۔ تو مختصراً آج میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ جہاں جلسے کے بابرکت اختتام پر آپ نے شکرانے کا اظہار کیا اور شکرانے کا اظہار کر رہے ہیں وہاں اس شکرانے کا عملی اظہار بھی کریں کیونکہ جہاں اس نظام میں شامل ہونے والے تقویٰ میں ترقی کریں گے وہاں جماعت کی مضبوطی کا باعث بھی بنیں گے۔ جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود نے رسالہ الوصیت میں دو باتوں کا ذکر فرمایا ہے کہ ایک تو یہ ہے کہ آپ کی وفات کے بعد نظام خلافت کا اجراء اور دوسرے اپنی وفات پر آپ کو یہ فکر پیدا ہونا کہ ایسا نظام جاری کیا جائے جس سے افراد جماعت میں تقویٰ بھی پیدا ہو اور اس میں ترقی بھی ہو اور دوسرے مالی قربانی کا بھی ایسانظام جاری ہو جائے جس سے کھرے اور کھوٹے میں تمیز ہو جائے اور جماعت کی مالی ضروریات بھی باحسن پوری ہو سکیں۔ اس لئے وصیت کا نظام جاری فرمایا تھا۔ تو اس لحاظ سے میرے نزدیک میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ نظام خلافت اور نظام وصیت کا بڑا گہرا تعلق ہے اور ضروری نہیں کہ ضروریات کے تحت پہلے خلفاء جس طرح تحریکات کرتے رہے ہیں، آئندہ بھی اسی طرح مالی تحریکات ہوتی رہیں بلکہ نظام وصیت کو اب اتنا فعال ہو جانا چاہئے کہ سو سال بعد تقویٰ کے معیار بجائے گرنے کے نہ صرف قائم رہیں بلکہ بڑھیں اور اپنے اندر روحانی تبدیلیاں پیدا کرنے والے بھی پیدا ہوتے رہیں اور قربانیاں پیدا کرنے والے بھی پید اہوتے رہیں۔ یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والے پیدا ہوتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے پیدا ہوتے رہیں۔ جب اس طرح کے معیار قائم ہوں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ خلافت حقہ بھی قائم رہے گی اور جماعتی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں گی۔ کیونکہ متقیوں کی جماعت کے ساتھ ہی خلافت کا ایک بہت بڑا تعلق ہے۔

(خطبہ جمعہ۶؍اگست ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۰؍اگست ۲۰۰۴ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button