تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (قسط ۵۲) تحفہ مستریاں یعنی فتنہ مستریاں کی حقیقت (مصنفہ حضرت میر قاسم علی صاحب رضی اللہ عنہ)
حضرت میر قاسم علی صاحبؓ (تاریخ بیعت: جولائی ۱۹۰۲ء)ایک صحافی اور جماعت احمدیہ کے ابتدائی مصنفین میں سے ایک کامیاب مصنف تھے، آپؓ نے ہر مذہب و ملت کے دشمنان احمدیت کے مقابل پر عمر بھر اپنا قلمی جہاد جاری رکھا۔آپ کے جاری کردہ رسائل ’’الحق‘‘،’’رسالہ احمدیہ‘‘ اور ’’فاروق‘‘کے ذریعہ آریہ سماجی، عیسائی، احراری، مرتد، منافق،الغرض ہر نوع کے معترضین کو ان کی اپنی زبان میں جواب ملتا رہا۔ بے شک آپ دینی غیرت کا مرقع تھے۔
حضرت میر قاسم علی صاحبؓ نے اعتراضات کا رد کرنے کے علاوہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہارات کو بھی مدوّن کرنے کی غیر معمولی خدمت کی توفیق پائی۔
آپ کی زیر نظر کتاب ایک اندرونی فتنہ کی تفصیل پر مبنی ہے جو دسمبر ۱۹۲۸ء میں الفاروق پریس قادیان سے طبع ہوکر فاروق منزل قادیان سے شائع کی گئی اور بار دوم میں اس کی قیمت ایک روپیہ کے چار نسخے مقرر ہوئی تھی۔
اس کتاب میں فاضل مصنف نے ایک نومبائع اور مفسدہ پرور شخص مستری فضل کریم اور اس کے بیٹوں کے خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ اورنظام جماعت سے بیزاری و انحراف کے صحیح اور مکمل واقعات اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی پاکیزہ ذات پر لگائے گئے ناواجب الزامات کا تفصیل سے رد درج کیا ہے، نیز حضرت میر قاسم علی صاحب نے ۸۴ صفحات کی اپنی اس مختصر کتاب میں ان معاندین اور ان کے سرپرستوں کے تعاون سے جاری ہونے والے اخبار دعوت مباہلہ کا ناقابل تردید اور مدلل و مفصل جواب پیش کیا ہے۔
فاضل مصنف نے اس کتاب میں فتنہ مستریاں کے صحیح واقعات درج کرکے بعض مخفی رازوں پر سے بھی پردہ اٹھا یا ہے اور بتایا ہے کہ یہ مستری لوگ تو محض ایک آلہ کار تھے، اور ان کو ہلانے، نچانے، بلانے اور چلانے والے پس پردہ کچھ اور لوگ تھے جو کافرین، فاسقین، منکرین، منافقین میں سے تھے اور ان کا واحد مقصد سلسلہ عالیہ احمدیہ کو مٹانا اور امام جماعت احمدیہ کی مقدس ذات پر ناپاک اتہامات لگانا تھا۔
کتاب کے صفحہ۲ سے شروع کرکے اس فتنہ کی کچھ تفصیل بتائی گئی ہے جو یوں ہےکہ ۱۹۱۳ء یا ۱۹۱۴ءمیں ایک شخص مسمی مستری فضل کریم اپنے تین بچوں دو لڑکے مسمی عبدالکریم اور محمد زاہد اور ایک لڑکی مسماۃ سکینہ بی بی کے ہمراہ جالندھر سے قادیان منتقل ہوا۔اس کی اہلیہ کی تب تک وفات ہو چکی تھیں۔ ابتدا میں مہمان خانہ میں جگہ دی گئی اور بعد میں ایک مکان اور دکان کرایہ پر حاصل کی جس کا کرایہ بھی ادا نہ کیا۔
کتاب کے صفحہ ۵ پر اس اہم مقدمہ کی کارروائی کی تفصیل شروع ہوتی ہے جس کے مطابق اسی کاروبار کے سلسلے میں ایک جماعتی ادارہ’’احمدیہ سٹور‘‘سے ان کی درخواست پر ان کو مالی امداد دی گئی۔جب ان کے حالات بہترہوگئےتواحمدیہ سٹور کی طرف سے دیا گیا قرض واپس کرنے کا تقاضا کیاگیا۔اس پریہ لوگ لیت و لعل سے کام لینےلگے۔ جب با ر بار تقاضا کے باوجود انہوں نے احمدیہ سٹور کو واجب الادا قرض واپس نہ کیا تو اگست۱۹۱۹ء میں مینیجر احمدیہ سٹور نے نظارت امور عامہ میں درخواست دی کہ مستری فضل کریم وغیرہ کے ذمہ احمدیہ سٹور کا جو قرض واجب الاداہے،وہ دلوایا جائے۔حسبِ فیصلہ نظارت امورعامہ جب ادائیگی کا وقت آیا تو مستری فضل کریم صاحب نے منظور شدہ فیصلہ امور عامہ کے خلاف قضا میں اپیل کر دی جو۱۹۲۰ء میں اس بنا پر رد کر دی گئی کہ جو فیصلہ باہم رضا مندی سے کیا گیا تھا مستری فضل کریم صاحب کو اس کے خلاف اپیل کا کوئی حق حاصل نہیں۔
الغرض بار بار کی مہلت کے باوجودمستریوں نے قرض لی ہوئی رقم واپس نہ کی اور طرح طرح کے مقدمات کر کے معاملہ کو الجھائے رکھا۔درحقیقت یہ لوگ لین دین کے اچھے نہ تھے اس لیے ان کےخلاف کئی کاروباری مقدمات زیر کارروائی رہے۔
فاضل مصنف نے مستریوں پر ایک فروخت کردہ ناقص مشین کی رقم کی واپسی کے مقدمہ، دھوکادہی کرنے کے مقدمہ، اورلڑائی جھگڑا کرنے کے مقدمہ کا احوال لکھ کر صفحہ ۲۵ پر نتیجہ مقدمات کے عنوان سے بتایا کہ ’’مستریوں کی ہلاکت روحانی اور تباہی ایمانی کا وقت جو علم الٰہی میں مقدر تھا۔ ان مقدمات کے ذریعہ نزدیک آگیا۔ اور یہ گرتے گرتے اس درجہ تک پہنچ گئے کہ حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بھی ہر فیصلہ کو ٹھکرانے لگے۔اور بازی۔ بازی باریش بابا ہم بازی تک پہنچ گئے…‘‘
کتاب کے مصنف نے اتمام حجت کے لیے ان احمدی احباب کے خطوط بھی شائع کردیے جن کا مستری اپنے اشتہارات میں نام لیتے اوران کو اپنا ہم نوا قرا ر دیتے تھے،ان خطوط میں ان احمدی احباب نے اقرار کیا کہ ان کا جماعت منافقین سے کچھ تعلق نہیں۔ اور میں ان کے تمام بیانات کی تردید کرتا ہوں۔ وغیرہ وغیرہ
آخر پر کتاب کے صفحہ ۷۵ پر مصنف نے ’’دعا کرو اور خدا سے ڈرو‘‘کے عنوان کے تحت لکھا کہ’’الحمدللہ علی احسانہ کہ خدا نے مجھ جیسے ناتوان اور ضعیف انسان سے یہ خدمت لی اور مجھے توفیق عطا فرمائی کہ میں نے محض رضا الٰہی کے لیے بڑی محنت سے اس مضمون کو لکھا…مستریوں کے اہم مطالبات کا میں نے بفضلہ تعالیٰ پورا جواب دے دیا ہے۔ اس کے بعد اگر ان کو یا ان کے کسی حمائتی کو جرأت ہوئی کہ اس کے خلاف قلم اٹھائے تو ان شاء اللہ اس پر بھی پوری مستعدی سے نظر ڈالوں گا۔ اور جواب دونگا۔ باقی جو فضولیات ان کے اشتہاروں میں ہیں وہ اس قابل نہیں کہ ان پر التفات کیا جائے…‘‘
آخر پر ان فتنہ پردازوں کو مزید متوجہ کرکے ڈرا یا کہ وہ پہلے پیغامی بنے تھے، اب مرتد ہوتے جارہے ہیں اور عنقریب دہریہ بن جائیں گے۔کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ
شریروں پر پڑے ان کے شرارے
نہ ان سے رک سکے مقصد ہمارے