’’شیخ ابن عربی کا تصور نبوت اور عقیدۂ ختم نبوت‘‘ مصنفہ ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل اور ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی (قسط دوم۔ آخری)
(گذشتہ سے پیوستہ)(۲) اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نےکس قسم کی نبوت کا دعویٰ فرمایا اور وہ کیوں ختم نبوت کے منافی نہیں ہے؟ فاضل مصنفین لکھتے ہیں: شیخ کی ساری بحث میں الجھاؤ تب پیدا ہوتا ہے جب آپ اصطلاح اور عبارت تو شیخ کی پکڑیں مگر مفہوم دوسری تعبیری روایت سے پہنانا شروع کردیں۔یہ کوئی علمی طریقہ نہیں کہ الفاظ و عبارات تو شیخ کی ہوں مگر تعبیری نظام آپ کا۔(صفحہ ۲۰۷)۔یہی بات ہم عرض کرتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے کلام کو آپؑ کے بیان فرمودہ نظام فکر کے ماتحت دیکھیں گے تو اس پر بھی کوئی اعتراض پیدا نہیں ہو گا۔آپ اصطلاحات تو حضرت اقدسؑ کی کتاب سے لیتے ہیں مگر مفہوم علمائے عقیدہ کا لیتے ہیں۔یہ کوئی علمی طریقہ نہیں ہے۔حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’یاد رہے کہ بہت سے لوگ میرے دعوے میں نبی کا نام سن کر دھوکہ کھاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ گویا میں نے اس نبوت کا دعویٰ کیا ہے جو پہلے زمانوں میں براہِ راست نبیوں کو ملی ہے لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں میرا ایسا دعویٰ نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرتﷺ کے افاضۂ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لیے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپؐ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا۔ اس لیے میں صرف نبی نہیں کہلا سکتا بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی اور میری نبوت آنحضرتﷺ کی ظل ہے نہ کہ اصلی نبوت‘‘۔(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۱٥٤، حاشیہ)۔نیز فرماتے ہیں: ’’اے نادانو! میری مراد نبوت سے یہ نہیں ہے کہ میں نعوذ باللہ آنحضرتﷺ کے مقابل پر کھڑا ہو کر نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں یا کوئی نئی شریعت لایا ہوں صرف مراد میری نبوت سے کثرت مکالمت و مخاطبت الٰہیہ ہے جو آنحضرتﷺ کی اتباع سے حاصل ہے سو مکالمہ و مخاطبہ کے آپ لوگ بھی قائل ہیں۔ پس یہ صرف لفظی نزاع ہوئی یعنی آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ و مخاطبہ رکھتے ہیں میں اس کی کثرت کا نام بموجب حکمِ الٰہی نبوت رکھتا ہوں۔و لکل ان یصطلح۔ ‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد۲۲صفحہ٥۰۳)
۳) فاضل مصنفین ابن عربی کے حوالے سے لکھتے ہیں:یعنی جہاں کہیں آپ نے نبوت تشریع کے بعد نبوت کے جاری رہنے کی بات کی ہے،اس سے آپ کی مراد یا حضرت سیدنا مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کے بعد کی غیر تشریعی حیثیت ہے یا امتیوں کو ملنے والی وہ ولایت ہے جنہیں آپ جزء من اجزاء النبوۃ کے پیش نظر نبوت عامہ سے تعبیر کرتے ہیں جو مبشرات سے عبارت ہے۔ (صفحہ ۲۰٤)۔یعنی اگر غیر تشریعی نبوت کی حامل ایسی نبوت ہو صرف مبشرات (نبوت عامہ ) سے عبارت ہو تو اس کا جواز موجود ہے لیکن یہ دروازہ صرف حضرت عیسیٰؑ کے لیے کھلا ہے۔اگر ثابت ہو جائے کہ حضرت عیسیٰؑ کی وفات ہو چکی ہے پھر یا تو آپ کومعتزلہ،غامدی وغیرہ کی طرح نزول مسیحؑ کا انکار کرنا پڑے گا یا پھر ہماری تشریح کو قبول کرنا پڑے گا۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے امتی کی حیثیت سے ایسی غیر تشریعی نبوت کا دعویٰ کیا جو مبشرات (نبوت عامہ) پر مشتمل ہے۔چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں: ’’نبوت اور رسالت کا لفظ خدا تعالیٰ نے اپنی وحی میں میری نسبت صدہا مرتبہ استعمال کیا ہے مگر اس لفظ سے صرف وہ مکالمات مخاطبات الٰہیہ مراد ہیں جو بکثرت ہیں اور غیب پر مشتمل ہیں اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد۲۳صفحہ۳٤۱)
٤) حضرت اقدس مسیح موعودؑ اس بارے میں اپنے اعتقاد کو واضح الفاظ میں یوں بیان فرماتے ہیں:ونَعتَقِدُ بِأنَّہ لا نبیَّ بَعدَہ إلَّا الَّذِی ھُوَ مِن أمَّتِہ ومِن أکمَلِ أتباعِہ، الَّذی وَجَدَالفَیضَ کلَّہ مِن رُوحانیتِہ وأضاءَ بضِیائِہ . فَہُناک لا غَیرَ ولا مقامَ الغَیرَۃِولیسَت بِنُبُوَّۃ أخرٰی ولا مَحَلَّ للحَیرَۃِ، بل ھو أحمَدُ تَجَلّی فی سَجَنْجَلٍ آخرَ، ولا یَغارُرَجل علی صُورَتِہ الَّتی أراہ اللّٰہُ فی مِرْآۃ وأظہَرَفإنَّ الغَیرۃَ لا تَہِیجُ علی التَّلامِذَۃِوالأبناءِ، فَمَن کان مِنَ النَّبی وفی النَّبی فإنَّما ھُوَ ھُوَ، لِأنَّہ فی أتَمِّ مقامِ الفَناءِ…ولایَدخُلُ الحضرۃَ أبدا إلَّا الَّذی مَعَہ نَقشُ خاتِمِہ، وآثارُ سُنَّتِہ، ولَن یُقبَل عَمَل ولا عِبادۃ إلا بَعدَ الإقرارِ بِرسالتِہ، والثّباتِ علی دِینِہ ومِلَّتِہ….مَنِ ادَّعی النُّبُوَّۃَ مِن ھذہ الأمۃِ، وما اعَتَقَدَ بِأنّہ رُبّیَ مِن سَیّدنا محمّدٍ خیرِ البَریَّۃ،وبِأنَّہ لَیسَ ھُوَ شَیئا مِن دُونِ ھَذہِ الأسوَۃِ، وأنَّ القُرآنَ خاتِمُ الشَّریعۃِ، فَقَدھَلَکَ وألحَقَ نَفسَہ بالکفَرَۃِ الفَجَرَۃِ. ومَنِ ادَّعی النُّبُوَّۃَ ولَم یَعتَقِد بِأنّہ مِن أمَّتِہ، وبِأنَّہ إنَّما وَجَدَ کُلَّ ما وَجَدَ مِن فَیضَانِہ، وأنَّہ ثَمَرَۃ مِن بُستَانِہ،وقَطرَۃ مِن تَہْتَانِہ، وشَعْشَعٌ مِن لُمعانِہ، فَہُوَ مَلعُون ولعنۃُ اللّٰہِ عَلَیہِ وعَلی أنصارِہ وأتباعِہ وأعوانِہ. لا نبیَّ لَنَا تَحتَ السَّماءِ مِن دُونِ نَبِیِّنا المُجتَبٰی،ولا کِتابَ لَنَا مِن دُونِ القُرآنِ، وکُلُّ مَن خَالَفَہ فَقَد جَرَّ نَفسَہ إلی اللظی۔(مواھب الرحمٰن روحانی خزائن جلد ۱۹صفحہ۲۸۷-۲۸۵)۔یعنی ہمارا اعتقاد ہے کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں مگر جو آپﷺ کی امت میں سے ہو اور آپﷺ کے سب سے کامل متبعین میں سے ہو۔جس نے اپنا تمام فیض حضرت اقدس رسول اللہﷺ کی روحانیت سے حاصل کیا ہو اور وہ آپﷺ کے نور سے منور ہوا ہو۔اس مقام میں نہ کوئی اجنبیت ہے اور نہ غیرت کی جگہ ہے اور نہ ہی یہ کوئی الگ نبوت ہے اور نہ ہی حیرت کا مقام ہے بلکہ یہ احمد ہی ہے جو دوسرے آئینہ میں ظاہر ہوا۔اور کوئی شخص اپنی ہی صورت پر جو اللہ نے آئینہ میں دکھائی اور ظاہر کی،غیرت نہیں کھاتاکیونکہ غیرت شاگردوں اور بیٹوں پر جوش نہیں مارتی۔پس جو نبی سے (فیض یافتہ)ہے اور نبی میں (فنا) ہے وہ درحقیقت وہی ہے کیونکہ وہ کامل فنا کے مقام پر ہے…اب ذات باری تعالیٰ کی درگاہ میں وہی داخل ہو سکتا ہے جس کے پاس آپﷺ کی مہر کا نقش ہے اور آپﷺ کی سنت کے آثار ہوں۔اوراب کوئی عمل یا عبادت قابل قبول نہیں جب تک آپﷺ کی رسالت کا اقرار نہ ہو اور آپﷺ کے دین پر ثابت قدم نہ ہو….جس نے اس امت میں سے نبوت کا دعویٰ کیا لیکن یہ اعتقاد نہ رکھا کہ وہ حضرت اقدس رسول اللہﷺ کا تربیت یافتہ ہے،اور و ہ آپﷺ کے اُسوہ کے بغیر کچھ نہیں اور یہ کہ قرآن آخری شریعت ہے،تو وہ ہلاک ہو گیا اور اس نے خود کو کافروں اور فاجروں سے جا ملایا۔ اور جس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور یہ اعتقاد نہ رکھا کہ وہ آپﷺ کی امت میں سے ہے اور جو کچھ اسے ملا ہے وہ آپﷺ کا فیضان ہے اور یہ کہ وہ آپﷺ کے ہی باغ کا پھل ہے اور آپﷺ ہی کی موسلادھار بارش کا ایک قطرہ ہے آپﷺ کی ہی روشنی کی ایک کرن ہے،تو وہ ملعون ہے اور اس پر اور اس کے انصار ومتبعین پر اللہ کی لعنت ہو۔آسمان کے نیچےہمارے نبی مجتبیٰﷺ کے علاوہ ہمارا کوئی نبی نہیں اور قرآن کے علاوہ اور کوئی کتاب نہیں اور جس نے بھی اس کی مخالفت کی تو وہ خودکو آگ کی طرف کھینچ کرلے گیا۔
خلاصہ یہ کہ
٭… حضرت اقدس مسیح موعود ؑبطور حکم عدل اس بات کی تصویب کرتے ہیں کہ امت میں کلام الٰہی کے انعام کا سلسلہ جاری ہے جسے ابن عربی نبوت عامہ کہتے ہیں۔
٭… حضرت اقدس مسیح موعودؑ ابن عربی اور دیگر علماء کے اس موقف کو غلط قرار دیتے ہیں کہ حضرت مسیح ناصری کا نزول ختم نبوت کے خلاف نہیں۔
٭… حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے بطور امتی ایسی نبوت خاصہ غیر تشریعی کا دعویٰ فرمایا ہے جو مبشرات (نبوت عامہ ) پر مشتمل ہے۔جس کو ابن عربی و دیگر علماء صرف حضرت عیسیٰؑ کے حق میں جاری مانتے ہیں۔
٭… اگرکہا جائے کہ حضرت عیسیٰؑ غیر تشریعی مستقل نبوت کے حامل ہوں گے تو یہ ختم نبوت کے منافی ہے۔اگر کہیں کہ وہ امتی نبوت کے حامل ہوں گے تو ظاہر ہے کہ آنحضرتﷺ کی امت میں امتی نبوت آپﷺ کے ظہور کے بعد ہی دی جا سکتی ہے۔لیکن حضرت عیسیٰؑ تو پہلے سے مستقل نبی ہیں اور جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ امتی ہونے کی حقیقت اپنے اندر نہیں رکھتے۔
٭… حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی ذات با برکات پر اعتراضات کرتے ہوئے فاضل محققین نے انصاف سے کام نہیں لیا۔ جس انصاف کی توقع انہوں نے ابن عربی کے ناقدین سے کی تھی،اسے خود اعتراض کرتے ہوئے ملحوظِ خاطر نہیں رکھا۔
ہم فاضل مصنفین کی خدمت میں علامہ ابنِ کمال پاشا کے انہی الفاظ کو نقل کریں گے جو انہوں نے ابنِ عربی کے ناقدین کے لیے کیے:ومَن لَم یَطَّلِع علی المعنی المَرامِ یَجِب علیہ السُّکوتُ فی ھذا المقامِ ولِقولہ تعالیٰ ولا تقف ما لیس لک بہ علم (رد المحتار بحوالہ کتاب مذکورہ صفحہ ٤٥)یعنی جوشخص معانی مقصودہ تک نہ پہنچ سکے اسے چاہیے کہ اس مقام میں سکوت کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اور تو اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں۔
۵. جیسا کہ خاکسار شروع میں عرض کر آیا ہے کہ فاضل مصنفین حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے متعلق اپنی تحقیق میں اُسی روش کو اپناتے ہیں جس کا گِلہ وہ ابن ِعربی کے ناقدین سے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:۱) مثلا ًکتاب کے باب ۱۰ میں حافظ زبیر صاحب کے اس نظریہ کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ’’سارا فلسفہ اُسی ابن عربی سے لیا ہے‘‘(صفحہ ۴۱۵) کے جواب میں یہ ثابت کرتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ اہل حدیث مسلک کے قریب تھے۔(دیکھیں کتاب مذکور صفحہ ٤۱۷ تا ٤۲۹)فاضل مصنفین اگر حق اور انصاف کے ترازو کو اس باب میں بھی تھامے رکھتے تو آپ اس باب میں بھی حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تحریرات کی روشنی میں وہی گفتگو ملاحظہ کرتے جو گذشتہ صفحات میں درج کی گئی ہے۔
۲) فاضل مصنفین ابنِ عربی کی بعض ایسی قابل اعتراضات تحریرات کا بھی دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں جن کے بارے میں اکبری فکر کے بعض چوٹی کے ماہرین کو بھی لکھنا پڑا کہ یہ عبارات بعد میں ان کی کتب میں شامل کی گئی ہیں اور یہ ابن عربی پر بہتا ن ہے۔(کتاب مذکور صفحہ ٦۰۳ تا٦۰٦)۔لیکن جب حضرت مسیح موعودؑ پر اعتراض کرنے لگتے ہیں تو ان کا انصاف ملاحظہ فرمائیں کہ کتاب مذکور کے صفحات ٤۳۱ تا ٤٤٦ اُنہی اعتراضات سے سیاہ کیے گئے ہیں جن کا جواب حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی انہی پیش کردہ تحریرات کے سیاق و سباق اور الہامات کی تشریح میں موجود ہے۔ مزید یہ کہ اعتراضات اُن فاضل اصحاب کی طرف سے کیے گئے ہیں جنہوں نے خود اعتراض کا جواب دینے کے لیے یہ اصول وضع کیا ہے: جب خواب دیکھنے والے نے خود ہی اس کی تعبیر واضح کر دی ہو تو اپنی طرف سے عبارت میں کفریہ مفاہیم کیوں کر شامل کئے جائیں۔(صفحہ ٥۹۸)۔!!!!
۶. فاضل مصنفین نے صفحہ ٤٤۹-٤٥۰ پر حضرت اقدسؑ اور ابن عربی کے حوالے سے بعض مخصوص اعتراضات اٹھائے ہیں۔ذیل میں ان پر مختصرا ًتبصرہ درج کیا جاتا ہے:
۱) حقیقۃ الوحی میں بحوالہ فصوص الحکم لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ صینی الاصل ہوں گے۔فاضل مصنفین لکھتے ہیں:’’اس کا حوالہ بھی (حضرت) مرزا قادیانی(علیہ السلام) نے نہیں دیا۔ظاہری عبارت یہی بتا رہی ہے کہ یہ بات شیخ کی طرف غلط منسوب کی گئی ہے‘‘۔
I. خاکسار عرض کرتا ہے کہ مصنفین کی طرف سے یہ عجیب قسم کی خیانت ہے کیونکہ جب حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ابن عربی کی کتاب کا نام بھی درج فرمایا ہے تو یہ کہنا کہ،’’کیونکہ فتوحات مکیہ سے متعدد حوالہ جات ہم اس بارے میں ذکر کر چکے ہیں کہ شیخ اکبر علیہ الرحمۃ حضرت سیدنا مسیح علیہ السلام کے قرب قیامت میں نزول کے قائل ہیں‘‘ کیا معنی رکھتا ہے؟۔کیا آپ ابن ِعربی کی کتاب فتوحات مکیہ کو ہی اصل سمجھتے ہیں؟
II. کیا آپ جیسے اکبری فکر کے ماہرین کو فصوص الحکم کی یہ عبارت نہیں ملی؟ وعلى قَدَم آخر مَولُود يُولَد مِن هذا النوعِ الإنساني، وهو حاملُ اَسرارِه، وليس بعدَه ولَد في هذا النوعِ۔ فهُو خاتَمُ الأولادِ، وتُولَد مَعَه أخت لَه فَتَخرُجُ قَبلَه ويَخرُجُ بَعدَها يَكونُ رأسُه عِندَ رِجلَيها، ويكونُ مَولَدُه بالصِّينِ ولُغَّتُه لُغةُ أهلِ بَلَدِه، ويَسرِي العقمُ في الرجالِ والنساءِ فيَكثُرُ النِّكاحُ مِن غيرِ وِلادَة ويَدعُوهُم إلى اللّٰهِ فلا يُجابُ، فإذا قَبَضَهُ اللّٰهُ تَعالىٰ وقَبَضَ مُؤمِني زمانِه بَقِيَ مَن بَقِيَ مِثلَ البَهائِمِ لا يُحِلُّون حلالا ولا يَحَرِّمُون حراما، يَتَصَرَّفُون بِحُكمِ الطَّبيعةِ شَهوَة مُجَرِّدَة عَنِ العَقلِ والشَّرعِ فَعَليهِم تَقومُ السَّاعةُ۔(فصوص الحکم فص حکمۃ نفثیۃ فی کلمۃ شیثیۃ)۔یعنی اس نوع انسانی میں جو شخص سب سے آخر پیدا ہو گا وہ قدم شیث علیہ السلام پر ہوگا۔وہ حامل اسرار شیث ہو گا۔اس کے بعد اس نوع سے کوئی پیدا نہ ہو گا پس وہ خاتم الاولاد ہو گا۔اس کے ساتھ اس کی توام بہن پیدا ہو گی۔وہ پہلے پیدا ہو گی اور بھائی بعد میں پیدا ہو گا۔(شکم مادر میں) بھائی کا سر بہن کے پیروں کے پاس ہو گا۔وہ چین میں پیدا ہو گا۔اپنے شہر کی بولی بولے گا۔ اس کے پیدا ہونے کے بعد مردوں اور عورتوں میں عقم اور بانجھ پن سرایت کرے گا۔نکاح و جماع تو بہت ہوگا مگر ولادت نہ ہو گی وہ خدا کی طرف تو بلائے گا مگر اس کی کوئی نہ سنے گا۔جب اللہ تعالیٰ اس کو اور اس کے ہم زمانہ مومنین کی روح قبض فرما لے گا تو ما بقی لوگ مثل بہائم کے رہ جائیں گے نہ حلال کو حلال سمجھیں گے نہ حرام کو حرام۔خواہش نفسانی و شہوت طبعی کے موافق کام کریں گے۔ان کے کام عقل و شرح کے منافی ہوں گے انہی لوگوں پر قیامت قائم ہو گی۔
III. کیا آپ نہیں جانتے کہ اکبری فکرکے ماہرین عمومی طور پر اس سے مرا دحضرت عیسیٰؑ لیتے ہیں۔مثلاً محقق عبدالباقی المفتاح مندرجہ بالا حوالہ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:کلامُ الشَّیخِ فی ھذہ الفِقرَۃِ یَذکُرُ بِحالِ عیسی عِندَما یَنزِلُ فی آخِرِ الزَّمانِ۔(المفاتیح الوجودیۃ والقرآنیۃ لکتاب فصوص الحکم لابن عربی صفحہ۱۳۲)۔یعنی اس فقرہ میں شیخ (ابن عربی)، حضرت عیسیٰؑ کا ذکر کر رہے ہیں جب وہ آخری زمانہ میں نازل ہوں گے۔
پس ثابت ہوا کہ ابن عربی جس عیسیٰ کے نزول کی بات کر رہے ہیں اس کی پیدائش توام ہو گی۔حضرت مسیح ناصریؑ کی پیدائش توام ہرگز نہیں تھی۔
۲) ایک اعتراض یہ کرتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ ابن عربی نے لکھا ہے کہ علمائے وقت امام مہدی کی مخالفت کریں گے۔چنانچہ مصنفین صفحہ ٤٥۰ پر لکھتے ہیں:’’یہ بات (حضرت)مرزا قادیانی (علیہ السلام) نے غلط طور پر شیخ کی طرف منسوب کی ہے‘‘۔
I. فاضل مصنفین نے اپنی تحقیق کی بِنا فتوحات مکیہ پر رکھی ہے۔ کیا ان کو اس میں مندرجہ ذیل عبارت نہیں ملی:اذا خَرَجِ هذا الإمامُ المَهدِي فَلَيسَ لَه عَدوّ مُبِين إلّا الفُقَهاءُ خاصَّة فإنَّهُم لا تَبقي لَهُم رياسَة و لا تَميِيز عَنِ العامَةِ (الفتوحات المکیۃ الباب السادس والستون وثلاثمائۃ فی معرفۃ منزل وزراء المھدی)۔یعنی جب یہ امام مہدی ظاہر ہو گا تو اس کے کھلے کھلے دشمن خاص طور پر فقہاء ہی ہونگے کیونکہ ان کی حکومت (اختیار) جاتی رہے گی اور عام لوگوں سے ان کا امتیاز قائم نہیں رہے گا۔
II. کیا فاضل مصنفین اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ بہت سے علماء نے ذکر کیا ہے کہ امام مہدی کی بہت مخالفت کی جائے گی۔مثلاً
a) نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں: چوں مہدی علیہ السلام مقاتلہ بر احیاء سنت و اماتت بدعت فرماید علماء وقت کہ خوگر تقلید فقہاء و اقتداء مشائخ و آباء خود باشند گوینداین مرد خانہ بر انداز دین و ملت ماست و بمخالفت بر خیزند و بحسب عادت خود حکم تکفیر و تضلیل وی کنند۔(حجج الکرامہ صفحہ۳٦۳)۔یعنی چونکہ مہدی علیہ السلام سنت کے احیا اور بدعت کے انسداد کے لیے جہاد کریں گے علماء وقت جو فقہا کی تقلید اور مشائخ اور اپنے باپ دادوں کی پیروی کے عادی ہوں گے کہیں گے کہ یہ شخص دین اور ملت کی بنیادوں کو برباد کرنے والا ہے اور اس کی مخالفت پر اٹھ کھڑے ہوں گے اور اپنی عادت کے مطابق اس کی تکفیر اور گمراہی کے فتوے جاری کریں گے۔
b) نواب نور الحسن صاحب لکھتے ہیں: اگر امام مہدی آگئے تو سارے مقلدبھائی ان کے جانی دشمن بن جائیں گے ان کے قتل کی فکر میں ہوں گے۔ کہیں گے یہ شخص تو ہمارے دین کو بگاڑتا ہے۔ (اقتراب الساعۃ صفحہ ۲۲٤)
c) شیعہ عالم مولوی سید محمد سبطین لکھتے ہیں:حجّت خدا (امام مہدی) کے ظہور سے وہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اٹھا رہے ہیں جو پہلے سے زمانہ غیبت میں ایمان لائے ہوئے ہوں اور اس پر اعتقاد رکھتے ہوں۔وہ لوگ اول اس کی تصدیق کر سکتے ہیں اور اس کو پہچان سکتے ہیں۔ اس کے اتباع و اطاعت میں سبقت کر سکتے ہیں جو پہلے سے مومن ہوں اور اس کے منتظر۔جب تک ان میں حالت منتظرہ پہلے سے پیدا نہ ہو گی ہرگز اطاعت و اتباع و سبقت نہ کر سکیں گے بلکہ ہرگز ایمان نہ لائیں گے بلکہ مثل شیطان شک و شبہ کر کے اپنے قیاسات باطلہ رکیکہ سے اس کی حجیت کا انکار کریں گے بلکہ اس کے مقابلہ کو تیار اور عداقت و دشمنی پر آمادہ ہو جائیں گے اور ہر طرح سے اس کو اور اس کے معتقدین کو اذیت پہنچانے کی کوشش کریں گے۔علماء اس کے قتل کے فتوے دیں گے۔
(الصراط السوی فی احوال المہدی صفحہ ٥۰۷)
d) مولوی قاسم صاحب نانوتوی اہل تشیع کے متعلق لکھتے ہیں کہ جیسے یہود نے حضرت اقدس رسول اللہ ﷺ کی آمد پر آپﷺ سے منہ موڑ لیا اسی طرح اہل تشیع:رواز حضرت امام خواہند تافت۔چہ اوشاں چنانکہ خواہند دانست سراپا موافق کلام اللہ خواہند بود۔ وکلام اللہ خود ظاہر است کہ بجز کلمہ سنیاں ہیچ نمیرید۔اندریں صورۃ شیعیان اوشان را امام سنیاں پنداشتہ بقفا خواہند نہاد۔و آری دجال را موافق خیال خود خواہند دید۔ہم دوزخ و جنۃ ہمراہ وہم احیاء اب و جد مردم بردست آں گمراہ ہو بہو امام مہدی خود خواہند دانست وبہاویہ ضلالہ خواہند افتاد۔ (انوار النجوم مکتوب فارسی بنام مولوی فخرالحسن گنگوہی صفحہ ۱۱۵-۱۱٦)۔یعنی (اہل تشیع بھی) حضرت امام مہدی سے منہ پھیر لیں گے۔کیونکہ امام مہدی جیسا کچھ جانیں گے سراپا کلام اللہ کے موافق ہوں گے اور کلام اللہ خود ظاہر ہے کہ سنیوں کی باتوں کے سوا کچھ نہیں فرماتا ہے اس صورت میں یہ صاحبان امام مہدی کو سنیوں کا امام خیال کر کے ان سے رو گردانی کریں گے اور ہاں دجال کو اپنے خیال کے موافق دیکھیں گے،کہ اس کے ہمراہ جنت و دوزخ ہوں گے اور اس گمراہ کے ہاتھ باپ دادوں کو زندہ کرنا دجال کے ذریعہ ظہور میں آئے گا تو شیعہ اس کو ہو بہو امام مہدی جانیں گے اور گمراہی کے گڑھے میں جا پڑیں گے۔
خلاصہ یہ کہ شیعہ کہتے تھے کہ اہل سنت مخالفت کریں گے۔اہل سنت کہتے ہیں کہ شیعہ مخالفت کریں گے۔اہل حدیث کہتے ہیں کہ مقلدین مخالفت کریں گے۔پس حقیقت یہ ہے کہ سب کی ہی بات درست نکلی!!!!
۳) پھر صفحہ ٤٤۹ پر اعتراض کرتے ہیں کہ ’’مسیح اور مہدی ایک ہی شخصیت کو قرار دیتے ہوئے ابن عربی رحمہ اللہ کی طرف بلا حوالہ ایک غلط بات منسوب کی ہے کیونکہ شیخ اکبر علیہ الرحمۃ کے نزدیک مہدی اور مسیح دو الگ الگ شخصیات ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ امام مہدی اور مسیح علیہ السلام کو چینی قرار دیں؟‘‘
خاکسار عرض کرتا ہے کہ فاضل مصنفین ابن عربی پر تنقید کرنے والوں سے نالاں دکھائی دیتے ہیں کہ وہ بعض عبارات پر اکتفا کر کے اعتراض کر دیتے ہیں اور تمام تحریرات کو مدّنظر رکھ کر نظام فکر اور سیاق ِکلام کو نہیں دیکھتے لیکن جب حضرت اقدس مسیح موعودؑ پر اعتراض کرتے ہیں تو کیا خود اس اصول کی پابندی کرتے ہیں؟ کیا انہیں نہیں معلوم کہ حضرت اقدس مسیح موعود ؑنے اس بارے میں ابن عربی کا حوالہ من و عن نقل فرمایا ہے ؟چنانچہ ابن عربی لکھتے ہیں: وجَبَ نُزُولُه في آخِرِ الزَّمانِ، بِتَعَلُّقِه بِبَدَن آخَر۔(تفسیر ابن عربی زیر آیت بل رفعہ اللہ الیہ،کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ۲۲ تا ۲۳ حاشیہ) یعنی پس ضروری ہوا کہ آخری زمانہ میں حضرت عیسیٰؑ کا نزول ایک دوسرے بدن کے ساتھ ہو۔ نیز وفاتِ مسیح ؑکا استنباط بھی اس مقام پر موجود ان الفاظ سے ہوتا ہے:رَفعُ عيسى عليه السلام اتِّصالُ رُوحِه عَندَ المُفارِقَةِ عَنِ العالَمِ السِّفِلي بالعالَمِ العلوي۔(تفسیر ابن عربی زیر آیت بل رفعہ اللّٰہ الیہ) یعنی حضرت عیسیٰؑ کا رفع درحقیقت ان کی روح کا عالم سِفلی سے الگ ہو کر عالم بالا سے ملنا ہے۔ اسی طرح آیت انی متوفیک ورافعک کی تفسیر کرتے ہوئے ابن عربی لکھتے ہیں: وقال لعيسى: (إني متوفيك) أي: قابضك إلي من بينهم (ورافعك إلي) أي: إلى سَماءِ الرُّوحِ في جَوارِي۔(تفسیر ابن عربی زیرِ آیت اذ قال اللہ یٰعیسی…) یعنی میں تجھے ان کے درمیان میں سے اٹھا کر اپنی قربت میں روح کے آسمان میں لے جاؤں گا۔حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ابن عربی کی انہی عبارات سے استنباط فرمایا ہے کہ وہ وفات مسیح کے قائل تھےاور نزول مسیح کو بروزی مانتے تھے۔(مثلاً دیکھیں: کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ۲۲ تا ۲۳، حاشیہ) جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ ابن عربی خاتم الاولاد کو صینی الاصل قرار دیتے ہیں اور اس سے مراد ان کی حضرت عیسیٰؑ ہیں۔
خلاصہ یہ کہ
٭… حضرت اقدس مسیح موعود ؑبطور حکم عدل اس بات کی تصویب کرتے ہیں کہ امت میں کلامِ الٰہی کے انعام کا سلسلہ جاری ہے جسے ابن عربی نبوت عامہ کہتے ہیں۔
٭… حضرت اقدس مسیح موعودؑ ابن عربی اور دیگر علماء کے اس موقف کو غلط قرار دیتے ہیں کہ حضرت مسیح ناصری کا نزول ختم نبوت کے خلاف نہیں۔
٭… ابن عربی کی تحریرات کے تضاد سے لگتا ہے کہ غالباً انہوں نے کسی وقت حضرت عیسیٰؑ کے نزول جسمانی کے مشہور موقف سے رجوع کر لیا تھا اور وہ وفات مسیح ؑکے قائل ہو گئے تھے۔حضرت اقدس مسیح موعود ؑاس کا ذکر کرتے ہوئےفرماتے ہیں:معلوم ہوتا ہے کہ ابن عربی نے آخر عمر میں اپنے پہلے اقوال سے رجوع کر لیا تھا۔(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۲۹۲)
آخر میں خاکسارفاضل مصنفین کو امام شعرانی کے الفاظ میں تنبیہ کرتا ہے۔وہ لکھتے ہیں:فإنَّ لُحومَ الاولیاءِ مَسمُومَۃوھلاکُ أدیانِ مُبغَضِھم معلوم ومَن أبغَضَھم تَنَصَّرَ و ماتَ علی ذالک و مَن أطلَقَ لِسانَہ فِیھِم بالسَّبِّ ابتَلاہُ اللّٰہُ بِمَوتِ القَلبِ (الیواقیت والجواھربحوالہ کتاب مذکور صفحہ ۳۹-۴۰)۔یعنی اولیاء کے گوشت زہر آلود ہوتے ہیں (یعنی ان کی غیبت مہلک ہے)۔ان سے بغض رکھنے والوں کے دین کا برباد ہو جانا معلوم ہے۔جو ان سے بغض رکھے گا وہ نصرانی ہو کر مرے گا۔جس نے ان پر اپنی زبان سب و شتم دراز کی اللہ تعالیٰ اسے دل کی موت میں مبتلا کر دے گا۔
پس اگر اولیاء پر زبان درازی، ایمان کے لیے اس قدر خطرہ ہے تو پھر انبیاء پر زبان درازی کس قدر مہلک ہو گی!!