متفرق مضامین

احمدی خواتین کی بعض ذمہ داریاں (حصہ دوم۔ آخری)

(فوزیہ شکور۔ جرمنی)

[تسلسل کے لیے دیکھیں الفضل انٹرنیشنل ۳؍جولائی۲۰۲۴ء]

تمسخراڑانے سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ ایک قوم دوسری قوم کی ہنسی نہ اڑائے عورتیں دوسری عورتوں کی ہنسی نہ اڑائیں۔ تمہیں کیا معلوم کہ ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا کتنا پیار ہے؟ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی بندیاں ہیں اور خدا تعالیٰ انہیں پسند کرتا ہے اور خدا تعالیٰ پسند نہیں کرتا کہ اس کے بندوں کو کوئی تکلیف پہنچائے خواہ جذباتی تکلیف ہو یا جسمانی، جھگڑے اور فساد کی ایک وجہ بدظنی ہے اس لیے منع فرماتا ہے کہ يٰٓأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ (الحجرات:13) اے مومنو! بدگمانی سے بچو، بہت سی بد گمانیاں گناہ میں مبتلا کر دیتی ہیں بدظنی پیدا ہونے کے نتیجہ میں انسان تجسس کرتا ہے جس کا نتیجہ بعض دفعہ بہت برا نکلتا ہے تجسس ختم کرنے کے لیے الہٰی ارشاد کے مطابق گھروں میں اجازت لے کر جاؤ۔ تین وقت صبح دوپہر اور عشاء کے بعد جب مرد گھر ہوتے ہیں ایسے وقت ہوتے ہیں کہ عورتوں کو نہیں جانا چاہیے۔ اگر کسی سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ نہیں مل سکتے تو برا منانے کی کوئی بات نہیں۔ پھر تجسس کے نتیجے میں کسی کے علم میں کوئی برائی آ جاتی ہے اگلا دوسرے کو بتا دیتا ہے اسی کو غیبت کہتے ہیں۔ اگر ایک عورت میں برائی پائی جاتی ہے اس کے متعلق دوسروں کو بتایا نہیں جاتا اورہو سکتا ہے کہ کسی وقت اس کو احساس ہو اور وہ اسے چھوڑ دے اور اس کو دوسروں کے بتانے سے خود اس کے دل میں بھی برائی کا احساس مٹ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے غیبت ایسا ہی فعل ہے جیسا کہ مردہ بھائی کے جسم سے گوشت کاٹ کر کھانا۔

ہماری ترقی کے لیے اور معاشرے کی اصلاح کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپس میں دل صاف ہوں۔ صلح کے ساتھ رہیں اور وہ طاقت جو غیروں کے مقابلے پر خرچ کرنی ہے وہ اپنوں سے لڑنے میں خرچ نہ کریں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کشتی نوح میں فرماتے ہیں کہ ’’تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں وہ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے۔ تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمی ناراضگی جانے دو اور سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل کرو تا تم بخشے جاؤ۔‘‘ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19صفحہ 12)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد قوم کو پاک کرنا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’پاک دل بننے کے سوا نجات نہیں۔ سو تم پاک بن جاؤ۔‘‘

اگر تکبّر نہ ہوتا تو کوئی شخص کافر نہ رہتا

نفسانی چیزوں سے الگ ہو جاؤ انسان کے نفس امارہ میں کئی قسم کی پلیدگیاں ہوتی ہیں مگر سب سے زیادہ تکبر کی پلیدگی ہے، اگر تکبر نہ ہوتا تو کوئی شخص کافر نہ رہتا۔ سو تم دل کے مسکین بن جاؤ اور عام طور پر بنی نوع انسان کی ہمدردی کرو۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’سب سے اول اپنے دلوں میں انکسار اور صفائی اور اخلاص پیدا کرو اور سچ مچ دلوں کے حلیم اور سلیم اور غریب بن جاؤ۔ کہ ہر یک خیر اور شر کا بیج پہلے دل میں ہی پیدا ہوتا ہے۔ اگر تیرا دل شر سے خالی ہے تو تیری زبان بھی شر سے خالی ہو گی۔‘‘(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد3 صفحہ547)

پھرحضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’پھر بعد اس کے کوشش کرو اور نیز خدا تعالیٰ سے قوت اور ہمت مانگو کہ تمہارے دلوں کے پاک ارادے پاک خیالات اور پاک جذبات اورپاک خواہشیں تمہارے اعضاء اور تمہارے تمام قویٰ کے ذریعے سے ظہور پذیراور تکمیل پذیر ہوں تا تمہاری نیکیاں کمال تک پہنچیں، سچائی اختیار کرو کہ وہ دیکھ رہا ہے کہ تمہارے دل کیسے ہیں۔‘‘(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ548)

سچائی کی بہت ضرورت ہے معاشرے کو پاکیزہ بنانے کے لیے۔ قول میں سچائی، فعل میں سچائی، لین دین میں سچائی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں سچائی اختیار کرو، سچائی اختیار کرو وہ دیکھ رہا ہے تمہارے دل کیسے ہیں۔ کیا انسان اس کو بھی دھوکا دے سکتا ہے۔ ہم سچائی کا عہد تو اپنے ہر کام میں دہراتے ہیں۔ لیکن پھر بعد میں بھول جاتے ہیں اور جماعت کی ترقی کے لیے احمدیت کی ترقی کے لیے لجنہ کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ان تمام برائیوں کو چھوڑتے ہوئے ہم پاک صاف ہو جائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس پاک جماعت کے لیے مبعوث ہوئے ویسے بن جائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمان کے مطابق چاہیے کہ اسلام کی ساری تصویر تمہارے وجود میں نمودار ہو اور تمہاری پیشانیوں میں اثر سجود نظر آئے اور خدا تعالی کی بزرگی تم پر طاری ہو۔ پس کوشش بھی کریں اور دعا بھی کریں کہ ہمارا عمل ہمارے ایمان کی گواہی دے ہم متحد ہو کر احمدیت کی ترقی کے لیے کام کریں نہ کہ ہمارے وجود روک بنیں۔ اولاد کی تربیت کی طرف بہت زیادہ توجہ دیں کیونکہ ان کی تربیت کے ساتھ ہی آپ کی قوم کی زندگی باقی رہ سکتی ہے اور ہماری قربانیوں کا تسلسل جاری رہ سکتا ہے پس بچوں کی دینی تعلیم ان کی اخلاقی تعلیم، ان کے اندر دینی محبت پیدا کرنا، مذہب کے لیے قربانی کا جذبہ پیدا کرنا آپ کا کام ہے اور یہ کام آپ بغیر اپنا نمونہ پیش کئے نہیں کر سکتیں اس لیے پہلے خود کو ایسا بنائیں اور پھر اپنے نمونے کے ذریعے اپنی اولادوں کی تربیت کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو۔ آمین

(خطابات مریم جلد دوم صفحہ 551تا 556)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button