قرض دینے اور لینے کے آداب
کسی نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ شروع میں جب ربوہ آباد ہوا ہے، چند ایک اس وقت ربوہ میں دکانیں ہوتی تھیں۔ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بازار سودا لینے کے لئے گئے، ان کے ساتھ خدمتگار تھا۔ تو میاں صاحب نے بازار سے کچھ سودا خریدا۔ جب رقم کی ادائیگی کرنے لگے تو رقم دیکھی تو پوری نہیں تھی۔ خیر جو صاحب ساتھ تھے، جو خدمتگار ساتھ تھے انہوں نے وہ رقم ادا کردی اور سامان کا بیگ اٹھا لیا۔ گھر پہنچے تو انہوں نے وہ بیگ اندر دینا چاہا تو میاں صاحب نے کہا۔ نہیں ٹھہریں، دروازے کے باہر رکیں۔ میں آتا ہوں۔ اندر گئے اور اندر سے جا کے رقم لے کر آئے اور ان کے ہاتھ پر رکھ دی اور پھر سامان کا تھیلا پکڑ لیا اور فرمایا کہ اب مجھے دے دو کیونکہ جب تک میں نے تمہیں پیسے نہیں دیئے تھے، یہ سامان میرا نہیں تھا۔ یہ تمہارا تھا اور اب پیسے میں نے ادا کردیئے ہیں، اس لئے یہ اب مجھے دے دو۔ تو ایسی مثالیں اگر معاشرے میں قائم ہونے لگ جائیں تو بہت سارے جھگڑے فساد کبھی پیدا ہی نہ ہوں۔ تو یہ چند باتیں تھیں جو میں نے قرض دینے والے اور قرض لینے والے کو کیا طریق اختیار کرنا چاہئے، اس کے بارے میں کہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کیا طریق سکھایا ہے، جس پر عمل کرکے ہم معاشرے میں کسی قسم کی بدمزگی پیدا نہ ہونے دیں۔…قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ وَاِنْ کَانَ ذُو عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیْسَرَۃٍ۔ وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(البقرۃ:281) جب کوئی تنگدست ہو تو اسے آسائش تک مہلت دینی چاہئے اور اگر تم خیرات کردو یہ تمہارے لئے بہت اچھا ہے اگر تم کچھ علم رکھتے ہو یعنی قرض خواہ کو کہا گیا ہے کہ اگر ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ قرض دار بہت تنگدست ہو تو بہتر یہ ہے کہ یا تو اس کو سہولت دو کہ وہ آسان قسطوں پر قرض واپس کردے…
(خطبہ جمعہ ۱۳؍اگست ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳؍ستمبر ۲۰۰۴ء)