اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان (اپریل ۲۰۲۴ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب)
جان سے مارنے کی دھمکی
جوڑیاںوالا ضلع حافظ آباد۔ اپریل ۲۰۲۴ء:اس گاؤں میں صرف ایک ہی احمدی خاندان ہے اور گذشتہ کچھ ہفتوں سے مقامی مولوی آبادی کو احمدیوں کے خلاف مشتعل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ مولوی نے کہا کہ احمدی واجب القتل ہیں اور ان کے قتل کا آخرت میں بہت زیادہ ثواب ملے گا۔ ۲۶؍اپریل کو اس نے جمعے کی نماز پر لوگوں کو ایک بار پھر سے احمدیوں کے خلاف اشتعال دلایا اور جمعہ کی نماز کے بعد ایک مشتعل ہجوم اس احمدی گھر کے باہر جمع ہوگیا۔ اور احمدیوں کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور اپنے متشددانہ جذبات کا کھل کر اظہار کیا۔ احمدی خاندان نے پولیس کو اطلاع کی۔ جس پر پولیس نے موقع پر پہنچ کر انہیں اس ہجوم سے بچایا اور اپنے ساتھ تھانے لے گئے۔ متاثرہ خاندان ابھی کسی اَور مقام پر اپنے عزیزوں کے ہاں رہائش پذیر ہے۔
ٹھٹہ جوئیہ ضلع سرگودھا میں ہنگامہ آرائی
ٹھٹہ جوئیہ۔ ۶؍اپریل ۲۰۲۴ء:تحریک لبیک کے شرپسندوں نے ڈی پی او سرگودھا کے دفتر میں ایس ایس پی اور ڈی پی او سے ملاقات کی اور ٹھٹہ جوئیہ میں موجود احمدیہ مسجد کے مینارے مسمار کرنے اور قبروں کے کتبوں سے کلمہ ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ ان شرپسندوں نے انتہائی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتظامیہ سے کہا کہ اگر انہوں نے لیت و لعل کا مظاہرہ کیا تو وہ خود یہ کارروائی کریں گے۔ اس سے قبل ۴؍جنوری کو پولیس نے احمدیہ مسجد سے کلمہ اور ایک احمدی کے گھر کے باہر سے ماشاء اللہ اور اسی طرح ایک اور مقام سے بسم اللہ بھی ہٹا دیا تھا۔
دو احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی
کِسراں ضلع اٹک۔ ۱۲؍اپریل ۲۰۲۴ء:کِسراںضلع اٹک میں دو احمدی احباب کی قبروں کے کتبوں کو شہیدکر دیا گیا۔
عید کے موقع پر احمدیوں کو درپیش مسائل
مولویوں اور انتظامیہ نے گوجرانوالہ اور فیصل آباد میں احمدیوں کو نماز عید کی ادائیگی سے روک دیا۔ اسی طرح حافظ آباد میں نماز عید کے بعد مخالفین احمدیت احمدیہ مسجد کے باہر جمع ہو گئے اور احمدیت مخالف نعرے بازی کی۔ جب پولیس کو مطلع کیا گیا تو ہجوم منتشر ہو گیا۔ اسی طرح قصور میں نمازعید کے مقررہ وقت سے پہلےمخالفین احمدیت احمدیہ مسجد کے باہر جمع ہوگئے اور شدید نعرے بازی کی جس کی وجہ سے احمدیوں کو متبادل انتظام کرنا پڑا۔
ادھووالی فیصل آباد میں احمدی نماز کی ادائیگی کے بعد مسجد سے نکل رہے تھے جب بدنام زمانہ تحریک لبیک کے شرپسندوں نے احمدی احباب کی تصویریں بنا لیں اور تھانہ ڈجکوٹ میں ان کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا۔ پولیس نے نامزد احمدی احباب کو تھانے میں بلایا۔ احمدی احباب چند بااثر غیر احمدیوں کے ساتھ تھانے میں گئے۔ مخالفین احمدیت پہلے سے ہی وہاں موجود تھے۔ احمدیوں کو دیکھتے ہی انہوں نے نعرے بازی شروع کر دی۔ ایس ایچ او کی غیرموجودگی کی وجہ سے احمدی وفد کودوبارہ آنے کو کہا گیا۔ دو روز کے بعد ۱۴؍اپریل کو احمدیہ وفد دوبارہ تھانے پہنچا تو مخالفین نے نعرے بازی کی اور ایس ایچ او سے شدید بدتمیزی سے پیش آئے۔ اس نے معاملہ ایس پی کو منتقل کر دیا۔ اس پر امیرضلع فیصل آباد ریجنل پولیس افسر سے ملے اور اس کو سارے معاملے سے آگاہ کیا۔ آر پی او نے ایس پی کو فون کیا اور کہا کہ کسی کو عبادت کرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ اگر کوئی غیرقانونی عمل ہو رہا ہے تو اس کو روکیں۔ اس پر ایس پی نے مخالفین کو سپریم کورٹ کا حکم نامہ دکھایا اور کہا کہ احمدی اپنی چاردیواری کے اندر عبادت کا حق رکھتے ہیں۔ یہ بات مخالفین کو کسی صورت گوارا نہ تھی۔ انہوں نے ایس پی کو سڑکیں بند کرنے کی دھمکی دے دی۔ اس پر ایس پی نے فریقین کو دوبارہ اپنے دفتر بلایا ۔
اسی طرح ۸۴ ج۔ب سر شمیر میں کچھ شر پسند مولوی احمدیہ مسجد سے کچھ دُور کھڑے ہو گئے اور دوسری جانب سے آنے والے ایک احمدی کو روک کر پوچھنے لگے کہ آیا وہ جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لیے آیا ہے؟ لیکن اس احمدی نے ان کو جواب نہ دیا اور وہاں سے چلے جانا مناسب خیال کیا تا کہ انہیں کسی فتنہ بازی کا موقع نہ ملے۔
ایک احمدی کے خلاف کھلےعام امتیازی سلوک
چاہ احمدیاں والا۔ ضلع ملتان۔ اپریل ۲۰۲۴ء:نویں جماعت کے طالبعلم کو بورڈ کے امتحانات میں ترجمۃالقرآن اور اسلامیات کے مضامین کے پیپر دینے سے روک دیا گیا۔ داخلے بھیجے جانے کے وقت محمد اجمل نامی ایک شرپسند نے کہا کہ مذکورہ طالب علم بےدین ہے۔امتحان کے روز موصوف سے پیپر واپس لے لیے گئے اور یہ کہہ کے واپس بھیج دیا گیا کہ وہ ایک بےدین ہے۔
الگ انتخابی فہرست کو دیکھ کر ایک احمدی سکول کے مالک کے خلاف نفرت انگیز مہم
کوٹ لکھپت۔ لاہور۔ اپریل ۲۰۲۴ء:ایک احمدی امتیاز پبلک سکول کے نام سے ایک پرائیویٹ سکول چلا رہے ہیں۔ اس سکول کی اچھی شہرت ہے۔ لیکن اب اس سکول کے خلاف ایک نفرت انگیزی کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ ۲۰۲۳ء کی انتخابی فہرست سے اس سکول کے مالک کو ڈھونڈ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے اور مہم چلائی جا رہی ہے۔ اور ایک اشتہار نشر کیا جارہا ہے جو یوں ہے:
اہم اعلان: لاہور
امتیاز پبلک سکول جو پیکو روڈ کوٹ لکھپت میں واقع ہے۔ یہ سکول قادیانیوں کا ہے اور اس کا مالک … ہے جو کٹر قادیانی ہے اور قادیانیوں کی ووٹر لسٹوں سے بھی اس کی تصدیق ہو گئی ہے۔ ختم نبوت کا یہ ڈاکو ۱۹۶۰ء سے یہ سکول چلارہا ہے۔ پتہ نہیں کتنے مسلمان بچوں کا ایمان لوٹا ہوگا اس نے۔ خدارا۔… جن کے بچے اس سکول میں پڑھتے ہیں وہ فوراً اپنے بچوں کو اس سکول سے ہٹا لیں۔ اور اپنے بچوں کے ایمان کی حفاظت کریں۔ جلدی اپنے تمام مسلمان بہن بھائیوں بچوں کے ایمان کی حفاظت کے لیے اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں۔ تاجدار ختم نبوت زندہ باد۔…
(مرتبہ:مہر محمد داؤد)