حضرت مصلح موعود ؓ

اِکرامِ ضَیف (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۵؍دسمبر۱۹۱۹ء) (قسط اول)

۱۹۱۹ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایاجس میں آپؓ نے احباب جماعت کو مہمان نوازی کے حوالے سے نصائح فرمائیں۔دنیا کے کئی ممالک میں آج کل جلسہ ہائے سالانہ منعقد ہو رہے ہیں یا آئندہ چند ہفتوں میں ہوں گے۔ اس مناسبت سے قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)

حضورؓ نے تشہدوتعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد آیات:ہَلۡ اَتٰٮکَ حَدِیۡثُ ضَیۡفِ اِبۡرٰہِیۡمَ الۡمُکۡرَمِیۡنَ اِذۡ دَخَلُوۡا عَلَیۡہِ فَقَالُوۡا سَلٰمًا ؕ قَالَ سَلٰمٌ ۚ قَوۡمٌ مُّنۡکَرُوۡنَ۔ فَرَاغَ اِلٰۤى اَهْلِهٖ فَجَآءَ بِعِجْلٍ سَمِيْنٍۙ۔ فَقَرَّبَهٗۤ اِلَيْهِمْ قَالَ اَلَا تَاْكُلُوْنَٞ۔فَاَوۡجَسَ مِنۡہُمۡ خِیۡفَۃً ؕ قَالُوۡا لَا تَخَفۡ ؕ وَبَشَّرُوۡہُ بِغُلٰمٍ عَلِیۡمٍٍ۔فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُهٗ فِيْ صَرَّةٍ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا وَ قَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِيْمٌ۔قَالُوْا كَذٰلِكِ قَالَ رَبُّكِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ۔قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ اَيُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ۔قَالُوْۤا اِنَّاۤ اُرْسِلْنَاۤ اِلٰى قَوْمٍ مُّجْرِمِيْنَ۔(سورۃالذّٰریٰت: ۲۵تا ۳۳)تلاوت کیں اور فرمایا کہ

زمین پر جب سے کہ انسان کو خدا نے پیدا کیا ہے اسی وقت سے تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ فطرتِ انسانی میں اکرامِ ضیف کو رکھا گیا ہے اور بغیر کسی کسب کے اور بغیر اس کے کہ کسی فلسفہ کے نتیجہ میں یہ خواہش پیدا ہو قدیم زمانہ سے اور فلسفہ کی ایجاد سے پہلے علوم کی دریافت سے پہلے، انسانوں میں اکرامِ ضیف اور مہمان نوازی کا دستور ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فطری تقاضہ ہے جس طرح ماں باپ سے نیک سلوک کرنا اور ماں باپ کا اپنے بچے سے محبت کرنا اور جس طرح میاں بیوی کے تعلقات فطرت میں پیدا ہوتے ہیں اور کسی فلسفہ کا نتیجہ نہیں ہوتے اور ہمیشہ سے انسان ایسا کرتا چلا آیا ہے اور کر رہا ہے اور کرتا چلا جائے گا کوئی فلسفہ، کوئی علم اس پر اثر نہیں کر سکتا بلکہ اگر دیکھا جائے تو تمدن کا اس پر اُلٹا اثر پڑا ہے نئی تہذیب نے محبت کو کم کیا ہے زیادہ نہیں کیا۔ پس اگر فلسفہ کا اس پر کوئی اثر پڑا ہے تو وہ یہ ہے کہ یہ باتیں پہلے سے کم ہوگئیں اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ باتیں تمدن کا نتیجہ ہیں یا کسی فلسفہ کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہیں۔

اگر یہ بات علوم سے پیدا ہوتی تو قوانین کے مرتب ہونے سے بعد میں پیدا ہوتی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قوانینِ تمدن نے ان کو کم کیا ہے۔

وہ قومیں جن پر یورپ کا اثر ہے ان میں ماں باپ کی محبت کم ہو گئی ہے۔ پس تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات پُرانی چلی آتی ہے اور فطرتی بات ہے کہ انسان مہمان نوازی کرتا ہے اور مہمان کا اکرام کرتا ہے۔

مَیں نے ابھی جو چند آیات پڑھی ہیں ان میں حضرت ابراہیم ؑکے زمانہ کا حال بیان کیا گیا ہے اور وہ زمانہ ہزاروں سال کا زمانہ ہے جو موجودہ تہذیب کے قواعد کے ترتیب دیئے جانے سے بہت پہلے کا ہے۔ پُرانا تمدن یونانی تمدن ہے جس نے دُنیا پر بڑا اثر کیا۔لیکن

حضرت ابراہیم ؑکا زمانہ اس سے بہت پہلے کا زمانہ ہے

پھر ہندو فلسفہ ہے مگر اس کے متعلق جو تازہ ترین تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے وہ یہ کہ تین ہزار سال سے ہے اور حضرت ابراہیمؑ کا زمانہ اس سے پہلے کا زمانہ ہے۔ حضرت ابراہیمؑ حضرت موسیٰؑ سے چھ سو سال قبل ہوئے ہیں۔ کیونکہ حضرت ابراہیم ؑ ان تاریخی زمانوں سے پہلے ہوئے ہیں ان کے متعلق اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابراہیم کے ہاں کچھ مہمان آئے وہ مہمان کیسے تھے ایسے نہ تھے جو حضرت ابراہیمؑ کے قریبی رشتہ دار ہوتے۔ نہ آپس میں قدیم واقفیت تھی کیونکہ لوگ اپنے رشتہ داروں کی خاطرتواضع اور مہمان داری کرتے ہیں لیکن

رشتہ داروں کی مہمان داری حقیقی مہمان نوازی نہیں ہوتی۔ اس کا باعث آپس کے تعلقات ہوتے ہیں۔

اگر یہ شخص ان کے ہاں جائے تو وہ بھی اس کی اسی طرح خاطر کریں گے اس لئے یہ تو عوض معاوضہ کی صورت ہو گئی۔ ایک بھائی اپنے دوسرے بھائی کی دعوت کرے یا ایک شخص اپنے ماں باپ کی خاطرداری کرے تو ہم اس کے متعلق یہی کہیں گے کہ وہ اس کا بھائی ہے اور وہ اس کے ماں باپ۔ اور بھائی بھائیوں کی خاطرداری کیا ہی کرتے ہیں اور سعید اولاد ماں باپ کی خدمت گزاری کیا ہی کرتی ہے۔ اسی طرح رشتہ داروں کی بھی لوگ مہمانداری کیا ہی کرتے ہیں۔ اس کی عام طور پر یہ وجہ ہوتی ہے کہ ایک دوسرے پر احسان کا موقع ملے لیکن ایسے مواقع پر مہمان نوازی کی حقیقت نہیں کھلتی ۔مگر

ابراہیم علیہ السلام کے پاس جو لوگ آئے آپ ان کو جانتے پہچانتے نہ تھے بلکہ آپ ان سے بالکل ناواقف تھے مگر باوجود ناواقفیت کے کہ ابراہیم ؑکو ان کا علم نہ تھا ابراہیم ؑنے ان کو اپنا مہمان کیا اور ایسا مہمان بنایا کہ ابراہیم ؑ کے ضیف مکرم معزز و محترم مہمان ہو گئے۔

حضرت ابراہیمؑ وہ ہیں جن کو خدا نے معزز کیا تھا، جن کی بزرگی کی دُنیا قائل ہے لیکن چونکہ وہ مہمان تھے اور

ابراہیمؑ نے ان کا کامل احترام کیا اس لئے وہ ضیف مکرم کہلائے۔

اب حضرت ابراہیم ؑکا طریق بیان کرتا ہے اور اس ادب کو بتاتا ہے جو آپ نے اپنے مہمانوں کا کیا۔ جب مہمانوں کو بٹھا چکے تو فَرَاغَ اِلٰۤى اَهْلِهٖ اپنے احترام کرنے کو پوشیدہ رکھا اور نہایت پوشیدگی اور خاموشی کے ساتھ اپنے اہل کی طرف چلے گئے۔ لوگوں کا قاعدہ ہوتا ہے کہ جب کوئی مہمان آئے تو وہ اس کا احترام بھی کرتے ہیں مگر ساتھ ہی ایسی باتیں بھی کر جاتے ہیں جن سے یہ مقصود ہوتا ہے کہ مہمان ہمارے اس رویہ کی قدر کرے مثلاً مہمان آیا تو کہیں گے آپ کے لئے دُودھ لاؤں۔ چائے تیار کروں۔ انڈا اُبلواؤں۔ آپ کو فلاں چیز کی ضرورت ہو گی۔ پلاؤ تیار کراؤں، مُرغ کے کباب بناؤں۔ آپ تشریف رکھیئے مَیں آپ کے کھانے کی فکر کرتا ہوں۔ وغیرہ وغیرہ۔ لانی تو ایک ہی چیز ہوتی ہے مگر اس فہرست کے گننے سے یہ مقصود ہوتا ہے کہ کم از کم دو دو تین تین دفعہ مہمان بھی کہے کہ آپ کا احسان، آپ کی مہربانی۔

لوگ اکرام تو کرتے ہیں مگر اکرامِ ضیف کی حقیقت کو نہیں سمجھتے

مگر حضرت ابراہیمؑ نے یہ نہیں کیا بلکہ ان کو بٹھایا اور خاموشی اور خفیہ طریق سے اپنے اہل کی طرف گئے۔ رَاغَ کے معنے ہوتے ہیں خفیہ جانا اور یہ لفظ شکاریوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ بعض لوگوں نے ان اصل معنوں کو چھوڑ کر اور معنے کئے ہیں مگر میرے نزدیک اصل معنوں سے شان بڑھتی ہے۔ پس

جس طرح شکاری شکار پر جاتا ہے کہ کہیں شکار کو خبر نہ ہو جائے اسی طرح ابراہیم بھی چپکے سے کھسک گئے اور فوراً ایک موٹا تازہ عجل (بچھڑا) ذبح کر کے اور کھانے کے لئے تیار کر کے لے آئے

مگر وہ تو عذاب کے لئے آئے تھے تو ایسی حالت میں کھانا واناکس کو سُوجھتا ہے اُنہوں نے نہ کھایا۔

اس میں اختلاف ہے کہ آیا وہ فرشتے تھے یا آدمی۔ اگر وہ فرشتے تھے تو اُنہوں نے کھانا ہی نہ تھا۔ بہرحال وہ کوئی ہوں حضرت ابراہیمؑ نے کھانا لا کر رکھا مگر اُنہوں نے نہیں کھایا۔

ان کے کھانا نہ کھانے پر حضرت ابراہیم ؑنے بُرا نہیں منایا جیسا کہ ایسے موقع پر بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں

کہ ہم نے تو ان کے لئے یہ کچھ تیاری کی پر اُنہوں نے قدر نہ کی مگر ابراہیمؑ کی نسبت اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُنہوں نے مہمانوں کے اس فعل سے بُرا نہیں منایا کہ اُنہوں نے کھانا کیوں نہ کھایا بلکہ فرماتا ہے فَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيْفَةً۔ اس آیت کے متعلق کہتے ہیں کہ ابراہیم اپنے دل میں ڈر گئے کہ کہیں یہ ڈاکو نہ ہوں مگر مَیں کہتا ہوں کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ

حضرت ابراہیم ؑکو خوف اس بات کا ہوا کہ کہیں مجھ سے مہمان نوازی میں تو کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہوئی۔

ابراہیمؑ کے متعلق یہ کہنا کہ وہ مہمانوں کو ڈاکو سمجھ کر ڈر گئے غلطی ہے کیونکہ ابراہیم ؑتو وہ ہیں جو اکیلے بادشاہ کے جھگڑے سلجھانے کے لئے چلے جاتے ہیں۔ (پیدائش) وہ ڈاکوؤں سے کیا ڈرتے۔ ان کو جو خوف ہوا وہ یہی تھا کہ کہیں مہمان نوازی میں تو کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہوئی۔ مہمان پر ناراض نہیں ہوئے نفس کو الزام دیا کہ تجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو گی مگر

مہمانوں نے جو کھانا نہیں کھایا تھا اس راز کو خود اُنہوں نے ہی کھول دیا کہ ہم کس کام پر آئے ہیں۔

تو اکرامِ ضیف ایک فطری تقاضہ ہے اور شرعی حکم بھی ہے اس لئے اب یہ محض فطری بات نہ رہی بلکہ شریعت کی تصدیق نے اس کو حکم ربی بنادیا۔ اس لئے کیا بلحاظ انسان بننے کے اور کیا بلحاظ مومن ہونے کے اکرامِ ضیف ضروری چیز ہے۔

(باقی آئندہ جمعرات ان شاء اللہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button