اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز (دورۂ جرمنی ۲۰۱۷ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ سوم)
ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب
گذشتہ روز حضور انور نے جرمنی جماعت کے آٹھ سو سے زائد احباب جماعت سے ایک گروپ کی صورت میں ملاقات فرمائی۔ جب میں نے حضورِانور سے آپ کی قوت برداشت کا ذکر کیا تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ کچھ دیر کے بعد مجھے کچھ دردیں شروع ہوگئی تھیں اور کمر میں بھی درد محسوس ہو رہی تھی لیکن مجھے جملہ احمدی احباب سے ملنا تھا اس لیے میں نے یہ سلسلہ جاری رکھا ۔یہاں تک کہ ہر فرد کو ملنے کا موقع میسر آ گیا۔
بعد ازاں حضور انور نے نہایت شفقت سے اپنے پوتے عزیز م سعد (جو صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب کے بیٹے ہیں) کا ذکر کرتے ہوئےفرمایاکہ جس سکول میں سعد پڑھتا ہے انہوں نے حال ہی میں چار راتوں کا ایک کیمپنگ سفر کا پروگرام بنایا ہے۔ لیکن بالعموم میں چھوٹے بچوں کے اپنے سکولز کے ساتھ رات گزارنے والے سفروں کے حق میں نہیں ہوں۔ یوں میں نے اس کو کہا کہ اس سفر پر جانے کی بجائے، میں اس کو ایک خیمہ لے دوں گا اور وہ حدیقۃ المہدی میں خیمہ لگا سکتا ہے جو اس نے گذشتہ رات اپنے ایک دوست کے ساتھ لگایا۔
حضور انور نے یہ بھی فرمایا کہ سعد نے کچھ لکڑیاں بھی اکٹھی کیں اور تھوڑی سی آگ بھی جلائی اور کیمپنگ کے تجربہ سے خوب محظوظ ہوا۔ چھوٹی عمر کے بچوں کے باپ ہونے کی حیثیت سے مجھے حضور انور کی سکول کے سفروں کے متعلق راہنمائی بہت پسند آئی۔ جہاں حضور انور ایسے چھوٹے بچوں کے رات گزارنے کے سفروں کو مناسب خیال نہیں فرماتے، وہاں آپ نے اس بچے کو یہ بھی محسوس نہیں ہونے دیا کہ اس نے کچھ بہت خاص چیز ضائع کر دی ہے۔ اور یوں وہی تجربہ ایک نہایت محفوظ ماحول میں مہیا فرما دیا۔
پھر حضور انور نے خاکسار کو بتایا کہ سعد بہت خوش تھا کہ اس نے حدیقۃ المہدی میں کیمپنگ کی ہے اور سکول کے سفر کے ساتھ نہیں گیا جیساکہ اس کو بعد ازاں پتا چلا کہ سکول کے سفر کے دوران مستقل بارش ہوتی رہی اور بچوں کو باہر کھلے آسمان تلے کیمپنگ کا موقع نہ مل سکا اور وہ کمروں میں ہی رہے۔
حضور انور کی موجودگی میں خاکسار نے اپنی ایک رائے کا اظہار کیا کہ جس طرح حضور انور نے امریکہ، کینیڈا، یوکے اور دیگر ممالک میں پارلیمنٹس اور بڑے پیمانے پر اجتماعات سے خطاب فرمایا ہے، ایسی کوئی تقریب ابھی تک جرمنی میں منعقد نہیں ہو سکی۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اس میں کوئی پریشان ہونے والی بات نہیں کیونکہ ان دنوں جماعت احمدیہ جرمنی میں اسلام کے پھیلنے کے بیج بو رہی ہے۔ گذشتہ سالوں میں جماعت کی میڈیا کوریج میں بہت اضافہ ہوا ہےاور جماعت میں لوگوں کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ اس طرح پہلی مرتبہ بڑے پیمانے پر ہماری جماعت کا تعارف ہوا ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ جرمنی میں جماعت بہت ترقی کرے گی۔ میری والدہ (حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہؒ)نے بھی خواب دیکھی تھی کہ انہیں جرمنی کی چابیاں دی گئی ہیں۔پس انشاء اللہ ایک دن جرمنی میں اسلام کا breakthroughہوگا اور بہت سے مقامی افراد حقیقی اسلام کو قبول کریں گے۔ تاہم اس کےلیے ضروری ہے کہ ہمارے احمدی محنت سے کام کریں اور اپنا بہترین نمونہ دکھائیں۔
چند پُر شفقت لمحات
16؍اپریل 2017ء کی شام حضور انور نے مسجد میں ایک تقریب کو رونق بخشی جہاں تیس بچے اور بچیاں جمع تھیں ،جنہیں حضور انور کے پاس بیٹھ کر قرآن کریم سنانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ہمیشہ کی طرح حضور انور نے بچوں سے نہایت شفقت سے ملاقات فرمائی اور محبت سے ان کی غلطیاں درست فرماتے رہے۔
اس تقریب کے اختتام پر حضور انور چند منٹ کے لیے تشریف فرما رہے اور اس موقع پر موجود احبابِ جماعت سے گفتگو فرمائی۔حضور انور نے خاص طور پر اپنے سامنے بیٹھے ہوئے بعض بچوں پر توجہ مرکوز فرمائی۔ حضور انور نے محسوس کیا کہ ایک نوجوان بچے کی آنکھ میں کچھ مسئلہ ہے اور اس سے اس بارے دریافت فرمایا۔ اس بچے نے حضور انور کو اپنی کیفیت بتائی اور عرض کیا کہ اس نے ہومیو پیتھک دوائی لی ہے۔ جس کے بارے میں حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ کچھ عرصہ کے لیے اس کا استعمال جاری رکھے۔
بعد ازاں ایک چھ سال کے بچے نے حضور انور سے دعا کی درخواست کی جس کو ذیابیطس کا مرض لاحق تھا اور دن میں تین مرتبہ انسولین لے رہا تھا۔ پھر حضور انور کی توجہ ایک بہت ہی چھوٹے بچے کی طرف ہوئی ،جو چار یا پانچ سال کا تھا اور آپ نے استفسار فرمایا کہ کیا وہ Kindergarten جاتا ہے؟ جو یو کے کی نرسری کے برابر ہے۔ جب اس بچے نے نہایت اعتماد کے ساتھ بتایا کہ وہ Kindergarten جاتا ہے تو حضور انور نے تبسم فرماتے ہوئے فرمایاکہ تم ہوشیار لگتے ہو۔
چند دیگر احمدی احباب کو بھی حضور انور کو اپنا تعارف کروانے کا موقع ملا اور اپنے ذاتی مسائل کے حل کے لیے حضورانور سے دعاؤں کی درخواست کی۔ ایک شخص نے حضور انور سے اپنے رشتہ داروں کے لیے دعا کی درخواست کی جو تھائی لینڈ میں پھنسے ہوئے اپنے اسائلم کیسز پاس ہونے کے انتظار میں تھے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ان دنوں تھائی لینڈ میں احمدیوں کے لیے مشکل حالات ہیں۔
ایک اَور احمدی نے جن کا تعلق پاکستان کے شہر میرپور سے تھا حضور انور کو بتایا کہ جہاں وہ اب رہائش پذیر ہیں وہاں کے مقامی میئر نے ان کی سیاست میں قدم رکھنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ تم میر پور سے ہو اور میر پور کے لوگ سیاست کو خوب اچھی طرح جانتے ہیں ۔اس لیے تم جا سکتے ہو اور اگر تم یہ کوشش کرنا چاہتے ہو ،تو کر لو۔
ایک احمدی دوست نے حضور انور سے اجازت طلب کی کہ وہ آگے آ سکے اور حضور انور سے مصافحہ کی سعادت پائے۔ اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ اگر میں نے تمہیں آگے آنے کی اجازت دے دی ،تو ہر کوئی آگے آ کے مصافحہ کرنا چاہے گا۔
چند منٹ کے بعد ایک بہت ہی چھوٹے بچے نے حضور انور سے پوچھا کہ کیا اس کو مصافحہ کی اجازت مل سکتی ہے ؟ اگرچہ حضور انور نے ایک بالغ کو اجازت نہ دی تھی،لیکن اس بچے کو آگے آنے دیا۔ فوری طور پر دوسرے بچے بھی تیزی سے آگے بڑھے اور حضور انور نے ان سب کو شرفِ ملاقات بخشا اور ازراہِ شفقت ان کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بابرکت انگوٹھی کو مَس فرمایا۔ یہ خلیفہ وقت اور احمدی بچوں کے درمیان باہمی محبت اور پیار کا ایک برجستہ اظہار تھا ۔
جب حضور انور نماز کی ادائیگی کے لیے تشریف لے جانے لگے تو جس بالغ دوست نے پہلے مصافحہ کی درخواست کی تھی، انہوں نے دوبارہ درخواست کی لیکن حضور انور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ جنہیں میں نے اجازت دی ہے وہ بارہ سال سے چھوٹے تھے اور تم بڑے ہو۔
یوں حضور انور نے اجازت عطا نہیں فرمائی لیکن اس احمدی کی درخواست کو بھولے بھی نہیں۔
احمدیوں کے جذبات
17؍اپریل کی صبح حضور انور نے فیملی ملاقاتیں فرمائیں۔ حضور انور سے ملاقات کا شرف پانے والوں میں طاہر کریم صاحب( عمر 36؍سال) اور ان کی اہلیہ تہمینہ قمر صاحبہ بھی تھیں۔ اپنی ملاقات کے چند لمحات کے بعد طاہر صاحب جنہیں دوسری مرتبہ حضور انور سے ملاقات کا شرف ملا تھا نے بتایا کہ دنیا کی کسی چیزکا اگر موازنہ خلافت کی برکات سے کیا جائے تو اس کی کوئی اہمیت یا مقصد نہیں ہے۔اپنی ساری زندگی میں دنیا کو اس بابرکت تجربہ کے بارے میں بتاؤں گا۔ ان چند لمحات کی برکات زندگی بھر میرے ساتھ رہیں گی۔
تہمینہ صاحبہ ،جنہیں زندگی میں پہلی مرتبہ حضور انور سے ملاقات کا شرف ملا تھا ،نے بتایا کہ میں سکتہ کی حالت میں ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ میرا جسم لرز رہا ہے۔ مجھے یقین نہیں آرہا جو ابھی ہوا ہے۔ آج میری زندگی کا بہترین دن تھا کیونکہ جب میں پاکستان میں رہتی تھی تو میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ایک دن مجھے حضور انور سے ملاقات کا شرف ملے گا۔ جو جلسہ ہائے سالانہ ربوہ میں ہوا کرتے تھے وہ میری پیدائش سے پہلے منعقد ہوئے اور یوں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ مجھے اپنے خلیفہ سے ذاتی ملاقات کا شرف ملا ہو۔
ایک اور شادی شدہ جوڑا جنہیں حضور انور سے ملاقات کی سعادت ملی وہ رمیض باجوہ صاحب (عمر 27؍سال)اور ان کی اہلیہ عنبرین احمد صاحبہ تھے۔ عنبرین صاحبہ حضور انور سے پہلے ملاقات کا شرف پا چکی تھیں جبکہ رمیض صاحب نے اس دن زندگی میں پہلی مرتبہ حضور انور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا تھا۔ حضور انور کی پاکیزہ صحبت میں گزارے ان چند لمحات کے بارے میں رمیض صاحب نے بتایا کہ میرے لیے یہ بیان کرنا نا ممکن ہے کہ میرے جیسے کمزور انسان کے لیے کیونکر ممکن ہے کہ وہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے سب سے محبوب انسان کو مل سکے۔جب حضورانور نے میرے ساتھ گفتگو فرمائی تو میں اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور میں اپنے اندر ایک واضح تبدیلی محسوس کر رہا ہوں۔ میں جماعت کی خدمت کرنا چاہتا ہوں اور خلیفۃ المسیح کی ہر نصیحت پر عمل کرنا چاہتا ہوں۔
بعد ازاں عنبرین صاحبہ نے بتایا کہ حضور انور کی دعائیں ہماری زندگی اور بقا کا ذریعہ ہیں۔ خلافت کے عظیم مقام و مرتبہ کے باوجود حضور انور کا ہم سے بے حد مشفقانہ ،محبت کرنے والا اور دوستانہ رویہ ہوتا ہے۔ میں بیان نہیں کرسکتی کہ میں کس قدر خوش،جذباتی اور پُرجوش ہوں۔حضور انور سے ملنا ایسا ہے جیسے آپ کسی دوسری دنیا میں ہوں۔
(مترجم:’ابو سلطان‘ معاونت:مظفرہ ثروت)