مَردوں کے فرائض
شرائطِ تعدّدِ ازدواج اور پہلی بیویوں کے حقوق
اسلام پر اس اعتراض کے جواب میں کہ مرد کو ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دے کر عورتوں پر ظلم کیا ہے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزمستورات سے اپنےخطاب فرمودہ مورخہ31؍جولائی 2004ء جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر فرماتے ہیں : ’’ اسلام نے جو چار شادیوں تک کی اجازت دی ہے وہ بعض شرائط کے ساتھ دی ہے۔ ہر ایک کو کھلی چھٹی نہیں ہے کہ وہ شادی کرتا پھرے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ تم تقویٰ پر قائم ہو، اپنا جائزہ لو کہ جس وجہ سے تم شادی کر رہےہو وہ جائز ضرورت بھی ہے؟ پھر یہ بھی دیکھو کہ تم شادی کرکے بیویوں کے درمیان انصاف کر سکو گے کہ نہیں اور اگر نہیں تو پھر تمہیں شادی کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ اگر تم پہلی بیوی کی ذمہ داریاں اور حقوق ادا نہیں کر سکتے اور دوسری شادی کی فکر میں ہو تو پھر تمہیں دوسری شادی کا کوئی حق نہیں ہے۔ ….حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’پہلی بیوی کی رعایت اور دلداری یہاں تک کرنی چاہئے کہ اگر کوئی ضرورت مرد کو ازدواج ثانی کی محسوس ہو۔ لیکن وہ دیکھتا ہے کہ دوسری بیوی کے کرنے سے اس کی پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہوتا ہے اور حد درجہ کی اس کی دل شکنی ہوتی ہے تو اگر وہ صبر کر سکے اور کسی معصیّت میں مبتلا نہ ہوتا ہو۔ یعنی کسی گناہ میں مبتلا نہ ہواور نہ کسی شرعی ضرورت کا اس سے خون ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اگر ان اپنی ضرورتوں کی قربانی سابقہ بیوی کی دلداری کے لئے کر دے اور ایک ہی بیوی پر اکتفا کر ے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اسے مناسب ہے کہ دوسری شادی نہ کرے‘‘۔ (ملفوظات جلد ہفتم صفحہ 6۴-6۵مطبوعہ لندن)
تو فرمایا کہ’’ یہ شادیاں صرف شادیوں کے شوق میں نہ کرو۔ بعض مردوں کو شوق ہوتا ہے ان لوگوں کو بھی جواب دے دیا جو کہتے ہیں کہ اسلام ہمیں چارشادیوں کی اجازت د یتا ہے۔ فرمایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ جو تمہاری پہلی بیوی ہے اس کے جذبات کی خاطر اگر صبر کر سکتے ہو تو کرو۔ ہاں اگرکوئی شرعی ضرورت ہے تو پھر بے شک کرو۔ ایسے حالات میں عموماً پہلی بیویاں بھی اجازت دے دیا کرتی ہیں۔ تو بہرحال خلاصہ یہ کہ پہلی بیوی کے جذبات کی خاطر مرد کو قربانی دینی چاہئے اور سوائے اشد مجبوری کے شوقیہ شادیاں نہیں کرنی چاہئیں ‘‘۔
فرمایا کہ ’’ہمیں جو کچھ خداتعالیٰ سے معلوم ہوا ہے وہ بلاکسی رعایت کے بیان کرتے ہیں۔ قرآن شریف کا منشاء زیادہ بیویوں کی اجازت سے یہ ہے کہ تم کو اپنے نفوس کوتقویٰ پر قائم رکھنے اور دوسرے اغراض مثلاً اولاد صالحہ کے حاصل کرنے اور خویش و اقارب کی نگہداشت اور ان کے حقوق کی بجا آوری سے ثواب حاصل ہواور اپنی اغراض کے لحا ظ سے اختیار دیا گیا ہے کہ ایک دو تین چار عورتوں تک نکاح کر لو۔ لیکن اگر ان میں عدل نہ کر سکو تو پھر یہ فسق ہو گا اور بجائے ثواب کے عذاب حاصل کرو گے کہ ایک گناہ سے نفرت کی وجہ سے دوسرے گناہوں پر آمادہ ہوئے۔‘‘
مزیدفرمایا کہ’’خداتعالیٰ کے قانون کو اس کے منشاء کے برخلاف ہرگز نہ برتنا چاہئے اور نہ اس سے ایسا فائدہ اٹھانا چاہئے جس سے وہ صرف نفسانی جذبات کی ایک سِپر بن جاوے۔ یاد رکھو کہ ایسا کرنا معصیت ہے۔ خداتعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ شہوات کا تم پر غلبہ نہ ہو بلکہ تمہاری غرض ہر ایک امر میں تقویٰ ہو‘‘۔ (ملفوظات جلد ہفتم صفحہ63-65) (جلسہ سالانہ یوکےخطاب ازمستورات فرمودہ 31؍جولائی 2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2015ء)
(ماخوذ از عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ۱۶۳-۱۶۶)