امام الزماںؑ بطور حَکم و عَدل (کذب ثلاثہ والی حدیث کی روشنی میں)
آنحضرت ﷺ نے آخری زمانے کی پیشگوئیوں میں ایک پیشگوئی امام مہدی کے ظہور کی بھی فرمائی اور اس آنے والے وجود کی بہت ساری علامات بھی بیان کیں۔ انہی میں سے ایک علامت (جس کا ذکر مسند احمد بن حنبل میں ملتا ہے) یہ تھی کہ وہ وَحَكَمًا عَدْلًا یعنی حکم و عدل ہو گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’میری حیثیت ایک معمولی مولوی کی حیثیت نہیں ہے بلکہ میری حیثیت سنن انبیاء کی سی حیثیت ہے۔ مجھے ایک سماوی آدمی مانو۔ پھر یہ سارے جھگڑے اور تمام نزاعیں جو مسلمانوں میں پڑی ہوئی ہیں ایک دم میں طے ہو سکتی ہیں۔ جو خدا کی طرف سے مامور ہو کر حَکم بن کر آیا ہے جو معنے قرآن شریف کے وہ کرے گا وہی صحیح ہوں گے اور جس حدیث کو وہ صحیح قرار دے گا وہی صحیح حدیث ہو گی۔ ورنہ شیعہ سنی کے جھگڑے آج تک دیکھو کب طے ہونے میں آتے ہیں۔مگر مَیں کہتا ہوں کہ جب تک یہ اپنا طریق چھوڑ کر مجھ میں ہو کر نہیں دیکھتے یہ حق پر ہرگز نہیں پہنچ سکتے۔ اسی لیے تو میں کہتا ہوں کہ میرے پاس آؤ، میری سنو تا کہ تمہیں حق نظر آوے۔‘‘(ملفوظات جلد 2 صفحہ 140-141۔ ایڈیشن۱۹۸۴ء)
یہ موضوع یقیناً بہت وسعت رکھتا ہے۔ ہم اس کو حدیث مبارکہ کی روشنی میں دیکھتے ہوئے صرف ایک حدیث کو زیربحث لائیں گے اور اس پیشگوئی کی صداقت کا عملی ثبوت دیکھیں گے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین باتوں کے سوا خلافِ واقعہ نہیں کہا۔ ان میں سے دو تو اللہ عز وجل کی ذات کے بارے میں یعنی ان کا یہ کہنا کہ ’’میں بیمار ہوں‘‘ اور ان کا یہ کہنا ’’بلکہ ان میں سے بڑے نے یہ کیا ہے‘‘ ا ور آپ نے فرمایا: اسی اثنا میں وہ اور حضرت سارہ ظالموں میں سے ایک ظالم کے ملک میں آئے اور اسے بتایا گیا کہ یہاں ایک مرد ہے جس کے ساتھ ایک نہایت ہی خوبصورت عورت ہے۔ اس نے ان کو بلا بھیجا اور سارہ کی بابت ان سے دریافت کیا۔ پوچھا:یہ کون ہے؟ حضرت ابراہیم نے کہا: میری بہن۔ پھر حضرت ابراہیمؑ حضرت سارہ کے پاس آئے۔ کہا: سارہ! رُوئے زمین پر میرے اور تمہارے سوا اَور کوئی مومن نہیں اور اس شخص نے مجھ سے تمہارے متعلق پوچھا: میں نے اسے بتایا کہ تم میری بہن ہو اس لیے تم مجھے نہ جھٹلانا۔ اس ظالم نے سارہ کو بلا بھیجا۔ جب وہ اس کے پاس اندر گئیں وہ ان کو اپنے ہاتھ سے پکڑنے لگا مگر وہ جکڑا گیا۔ کہنے لگا: میرے لئے اللہ سے تم دعا کرو اور میں تمہیں نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ حضرت سارہ نے اللہ سے دعا کی اور وہ چھوڑ دیا گیا۔ پھر اس نے ان پر دوسری مرتبہ ہاتھ ڈالا اور وہ پھر اسی طرح یا اس سے بڑھ کر سختی سے جکڑا گیا۔ کہنے لگا: میرے لئے اللہ سے تم دعا کرو اور میں تمہیں نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ حضرت سارہ نے دعا کی اور وہ چھوڑ دیا گیا۔ پھر اس نے اپنے بعض دربان بلائے اور ان سے کہا : میرے پاس انسان کو تم نہیں لائے ہو بلکہ شیطان تم میرے پاس لائے ہو۔ اس نے حضرت سارہ کو حضرت ہاجرہ بطور خدمت گزار کے دی اور حضرت ابراہیم کے پاس وہ آئیں اور وہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے او ر انہوں نے اپنے ہاتھ کے اشارہ سے پوچھا: کیا ہوا؟ حضرت سارہ بولیں: اللہ نے اس کافر یا کہا اس بدکار کی تدبیر اسی کے سینے میں اُلٹادی اور ہاجرہ خدمت کے لیے دی ہے۔ (صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب قول اللّٰہ عزوجل واتخذ اللّٰہ ابراہیم خلیلا )
اس حدیث میں حضرت ابراہیم ؑ کے لیے لفظ كَذِبَاتٍ آیا ہے جس کا عموماً ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑنے تین جھوٹ بولے۔(نعوذ باللہ)۔ جیسا کہ علامہ وحید الزماں نے کیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے (ساری عمر) جھوٹ نہیں بولے مگر تین بار۔دو جھوٹ تو خالص اللہ کے لیے (یعنی اس کی راہ میں جس میں اس کا ذاتی فائدہ کچھ نہ تھا) ایک تو یہ کہنا کہ میں بیمار ہو جاؤں گا (ستاروں کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے) دوسرے یہ کہنا کہ اس بڑے بت نے ان بتوں کو توڑا ہے اور تیسرے یہ کہ ابراہیم اور سارہ دونوں سفر میں جا رہے تھے…(تیسیر الباری جلد ۴ صفحہ ۴۳۲) آئیے اب دیکھتے ہیں کہ اسلام کے دیگر فرقے اس روایت کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں اور احمدی مسلمان اپنے امام حکم و عدل کی نصیحت کے تحت اس کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟ اسلام کے دو بڑے فرقے اہلحدیث اور اہل قرآن ہیں۔ اہلحدیث کہتے ہیں کہ حدیث کے بغیر دین نامکمل ہے اور حدیث پر ایمان لانا ضروری ہے اور یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ حدیث قرآن پر قاضی ہے۔ اس لیے وہ تو اس حدیث کو مانتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق یہ صحیح بخاری میں آ چکی ہے۔ پھر دوسرا فرقہ اہل قرآن کا ہے، ان کے نزدیک تو حدیث کا وجود ہی رخنہ کا موجب ہے، پس وہ اس کو سرے سے مانتے ہی نہیں۔ اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں: ’’ تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے اور حدیث سے مُراد ہماری وہ آثار ہیں جو قصّوں کے رنگ میں آنحضرتﷺ سے قریباً ڈیڑھ سو برس بعد مختلف راویوں کے ذریعوں سے جمع کئے گئے ہیں۔…جب …دَور صحابہ رضی اللہ عنہم کا گذر گیا تو بعض تبع تابعین کی طبیعت کو خدا نے اس طرف پھیر دیا کہ حدیثوں کو بھی جمع کر لینا چاہئے تب حدیثیں جمع ہوئیں۔ اِس میں شک نہیں ہوسکتاکہ اکثر حدیثوں کے جمع کرنے والے بڑے متّقی اور پرہیزگار تھے۔اُنہوں نے جہاں تک اُن کی طاقت میں تھاحدیثوں کی تنقید کی اور ایسی حدیثوں سے بچنا چاہا جو اُن کی رائے میں موضوعات میں سے تھیں اور ہر ایک مشتبہ الحال راوی کی حدیث نہیں لی۔ بہت محنت کی مگر تا ہم چونکہ وہ ساری کارروائی بعد از وقت تھی اِس لئے وہ سب ظن کے مرتبہ پر ہے بایں ہمہ یہ سخت نا انصافی ہوگی کہ یہ کہا جائے کہ وہ سب حدیثیں لغو اور نکمّی اور بے فائدہ اور جھوٹی ہیں بلکہ اُن حدیثوں کے لکھنے میں اس قدر احتیاط سے کام لیا گیا ہے اور اس قدر تحقیق اور تنقید کی گئی ہے جواس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں پائی جاتی ۔‘‘(ریویو بر مباحثہ بٹالوی وچکڑالوی، روحانی خزائن جلد۱۹صفحہ۲۱۰، ۲۱۱)
حضرت مسیح موعودؑ ایک اور موقع پر فرماتے ہیں:’’ سچ وہی ہے جو حَکَم کے مُنہ سے نکلے۔ اگر ایمان ہو تو خدا کے مقرر کردہ حَکَم کے حکم سے بعض حدیثوں کا چھوڑنا یا ان کی تاویل کرنا مشکل امر نہیں ہے یہ تمہارے بزرگوں کی اپنے مُنہ کی تجویزیں ہیں کہ فلاں حدیث صحیح ہے اور فلاں حسن اور فلاں مشہور اور فلاں موضوع ہے۔ خدا تعالیٰ کا حکم نہیں اور کسی وحی کے ذریعہ سے یہ تقسیم نہیں ہوئی۔ پھر ایسی حدیث جو قرآن کے مخالف ہو اور بعض دوسری حدیثوں کے بھی مخالف اور خدا کے حکم سے بھی مخالف ہو تو کیا وجہ کہ اس کو ردّ نہ کیا جائے۔‘‘ (اربعین نمبر۲، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ ۳۷۱۔372)
قرآن کریم
آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں کیا فرماتا ہے۔
اسُوہ حسنہ
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں صرف دو لوگوں کے لیے اسوہ حسنہ کا ذکر فرمایا ہے۔ سورت احزاب میں اللہ نے آنحضرتﷺ کے لیے فرمایا کہ ان کی ذات مبارکہ میں تمہارے لیے اسوہ حسنہ ہے: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُو اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ(الأحزاب:22)۔ اور ہوبہو انہی الفاظ میں سورت ممتحنہ میں حضرت ابراہیمؑ اور ان کے ساتھیوں کے بارےمیں فرمایا کہ ان میں تمہارے لیے اسوہ حسنہ ہے لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُو اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ (الممتحنة:7) (ىقىناً تمہارے لئے ان مىں اىک نىک نمونہ ہے ىعنى اُس کے لئے جو اللہ اور ىومِ آخرت کى امىد رکھتا ہے)۔ اب کیا ایسا ممکن ہے کہ جس شخص کے بارے میں علی الاعلان کہا جائے کے اس نے جھوٹ بولا تھا اس کے لیے اللہ تعالیٰ فرمائے کہ اس کے اسوہ کی پیروی کرو؟
آپؑ بہادر تھے
جھوٹ وہ شخص بولتا ہے جو کمزور ہوتا ہے۔ اور کسی خوف کی بنا پر وہ جھوٹ بولتا ہے۔ آپؑ تو وہ جری انسان تھے کہ انہوں نے اپنی پوری قوم کے سامنے کہا: قَالَ لَقَدْ كُنْتُمْ أَنْتُمْ وَاٰبَآؤُكُمْ فِي ضَلَالٍ مُّبِيْنٍ (الانبياء:55) (اس نے کہا تو پھر تم بھى اور تمہارے باپ دادا بھى کھلى کھلى گمراہى مىں مبتلا رہے) پھر فرمایا وَتَاللّٰهِ لَأَكِيْدَنَّ أَصْنَامَكُمْ بَعْدَ أَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِيْنَ (الانبياء:58) (اور خدا کى قسم! مىں ضرور تمہارے بتوں سے کچھ تدبىر کروں گا بعد اس کے کہ تم پىٹھ پھىرتے ہوئے چلے جاؤ گے)
اللہ کے چنیدہ اور صالح بندے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَنْ يَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ إِبْرَاهِيْمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٗ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهٗ فِي الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِيْنَ (البقرة:131) (اور کون ابراہىم کى ملّت سے اِعراض کرتا ہے سوائے اس کے جس نے اپنے نفس کو بےوقوف بنا دىا اور ىقىناً ہم نے اُس (ىعنى ابراہىم) کو دنىا مىں بھى چُن لىا اور ىقىناً آخرت مىں بھى وہ صالحىن مىں سے ہوگا)۔ پس جو اللہ کا چنیدہ بھی ہو اور صالح بھی ہو اور خدا کا نبی بھی ہو تو کیسے ممکن ہے کہ وہ دنیا کے خوف سے جھوٹ بولے؟
لوگوں کا امام
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَإِذِ ابْتَلٰٓى إِبْرَاهِيْمَ رَبُّهٗ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّيْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا (البقرة:125) (اور جب ابراہىم کو اس کے ربّ نے بعض کلمات سے آزماىا اور اس نے ان سب کو پورا کر دىا تو اُس نے کہا مىں ىقىناً تجھے لوگوں کے لئے اىک عظىم امام بنانے والا ہوں)۔ دنیا میں بھی قانون ہے کہ امام دیکھ بھال کر بنایا جاتا ہے اور اس آیت میں تو امام بنانے والا بھی اللہ تبارک و تعالیٰ ہے جو عالم الغیب ہے، کیسے ممکن تھا کہ وہ کسی ایسے فرد کو امام کا درجہ عنایت کرتا جس میں جھوٹ بولنے والی کمزوری تھی ؟
سچا نبی
گذشتہ چار آیات سے تو استدلال لیا جاتا ہے کہ آپؑ کی ذات ایسی کمزوری سے پاک تھی۔ مگر سورت مریم میں تو اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهٗ كَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّا (مريم :42) (اور (اس) کتاب مىں ابراہىم کا ذکر بھى کر ىقىناً وہ اىک صدىق نبى تھا ) پس اب توکسی دلیل کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہی۔ قیامت تک کے لیے ان کی سچائی پر مہر تصدیق ثبت ہو گئی۔
اب اس حدیث میں مذکور تینوں واقعات کو الگ الگ دیکھتے ہیں۔
۱: آپؑ کا بیان کہ اِنِّیۡ سَقِیۡمٌ ( میں بیمار ہوں )
قرآن کریم کی آیات ہی اس بات کو واضح کر دیتی ہیں۔ آئیے اس واقعہ کو آیات مبارکہ سے پڑھتے ہیں سورة الصافات میں یہ واقعہ مذکور ہے: إِذْ قَالَ لِأَبِيْهِ وَقَوْمِهٖ مَاذَا تَعْبُدُوْنَ۔ أَئِفْكًا اٰلِهَةً دُونَ اللّٰهِ تُرِيدُوْنَ۔ فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعَالَمِيْنَ۔ فَنَظَرَ نَظْرَةً فِيْ النُّجُومِ۔ فَقَالَ إِنِّيْ سَقِيْمٌ۔ (الصافات 86-90) جب اس نے اپنے باپ سے اور اس کى قوم سے کہا وہ ہے کىا جس کى تم عبادت کرتے ہو کىا اللہ کے سوا، تم سراپا جھوٹ دوسرے معبود چاہتے ہو پس تم نے تمام جہانوں کے ربّ کو کىا سمجھ رکھا ہے پھر اس نے ستاروں پر اىک نظر ڈالى اور کہا مىں تو ىقىناً بیمار ہوں۔
حضرت خلیفة المسیح الاول رضی ا للہ عنہ بھی فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ سے یہی مراد لیتے تھے کہ رات دیر تک مذہبی گفتگو جاری رہی۔ آپؓ فرماتے ہیں: ’’انہوں نے وقت کی طرف توجہ دلائی۔ اب بھی مہذب ملک میں دستور ہے کہ کسی کو رخصت کرنا ہو یا خود جانا ہو تو گھڑی دیکھ لیتے ہیں ‘‘۔ پھر إِنِّيْ سَقِيْمٌ کے بارےمیں فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا وہ بڑا راست باز تھا۔ادھر حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں إِنِّيْ سَقِيْمٌ میں بیمار ہوں میری طبیعت ناساز ہے۔ پس وہ اپنے قول میں سچے تھے۔ اپنی کمزوری اور کسی اندرونی سقم کو انسان خود ہی سمجھتا ہے۔ اللہ کے بندے باوجود ناسازی طبع بھی تبلیغ کے جوش میں نکل آتے ہیں‘‘۔(حقائق الفرقان جلد3 صفحہ471)
مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری بھی اسی کی وضاحت میں لکھتے ہیں:’’حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ گفتگو اپنی قوم کے لوگوں سے ہوئی جبکہ آپ ان سے شرک کی تردید میں مناظرہ کر رہے تھے اور جب وہ لوگ عاجز آگئے اور ادھر رات بہت گزر چکی فَنَظَرَ نَظْرَةً فِی النُّجُومِ۔ تب انہوں نے کہا کہ باقی گفتگو کسی دوسرے وقت سہی کیونکہ میں بیمار ہوں۔ گویا جب تک وہ لوگ گفتگو کرتے رہے آپ بھی اپنے نفس پر جبر کر کے توحید کی تائید کرنے میں مگن رہے۔ لیکن جب گفتگو انتہا کو پہنچ گئی تو آپ نے لوگوں کو اپنی اصلی حالت سے آگاہ کر کے کہا کہ میں بیمار ہوں۔ اب اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ بیان جھوٹ ہوتا تو وہ دشمن جو مناظرے میں لاجواب ہو چکے تھے اس موقع کو غنیمت سمجھتے اور برملا کہتے کہ موحد اور صالح ہونے کا دعویٰ اور یہ برملا دروغ گوئی، لیکن وہ لوگ چونکہ ان کی حالت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور حضرت ابراہیمؑ کی راست بازی کے قائل تھے اس لیے انہوں نے حضرت ابراہیمؑ کے بیان إِنِّي سَقِيْمٌ کو بلا چوں چراں فوراًتسلیم کر لیا اور جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِيْنَ وہ حضرت ابراہیم ؑکو چھوڑ کر اپنے ٹھکانوں کی طرف چل دیے۔‘‘(الفضل 19؍جولائی1934ء)
۲: آپؑ کا بیان کہ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا
(میں نے نہیں کیا بلکہ ان کے بڑے بت نے ایسا کیا ہے۔
اس بات کا جواب تو خود قرآن کریم کے اسی رکوع میں موجود ہے۔ آئیے اس کو ایک مرتبہ پھر سے غور سے پڑھتے ہیں حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا ’’ اور خدا کى قسم! مىں ضرور تمہارے بتوں سے کچھ تدبىر کروں گا بعد اس کے کہ تم پىٹھ پھىرتے ہوئے چلے جاؤ گے۔ پس اس نے ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دىا سوائے ان کے سردار کے تاکہ وہ اس کى طرف رجوع کرىں۔ انہوں نے کہا ہمارے معبودوں سے ىہ کس نے کىا ہے ىقىناً وہ ظالموں مىں سے ہے۔ انہوں نے کہا ہم نے اىک نوجوان کو سنا تھا جو اُن کا ذکر کر رہا تھا اُسے ابراہىم کہتے ہىں۔انہوں نے کہا پس اُسے لوگوں کى نظروں کے سامنے لے آؤ تا کہ وہ دىکھ لىں۔ انہوں نے کہا کىا تُو نے ہمارے معبودوں سے ىہ کچھ کىا ہے اے ابراہىم!۔ اس نے کہا بلکہ ان کے اس سردار نے ىہ کام کىا ہے پس ان سے پوچھ لو اگر وہ بول سکتے ہىں۔ پھر وہ اپنے ساتھىوں کى طرف چلے گئے اور کہا کہ ىقىناً تم ہى ظالم ہو۔ پس وہ سربہ گرىباں کر دىے گئے (اور بولے) تُو ىقىناً جانتا ہے کہ ىہ کلام نہىں کرتے۔ اس نے کہا پھر کىا تم اللہ کے سوا اس کى عبادت کرتے ہو جو نہ تمہىں ذرّہ بھر فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ تمہىں نقصان پہنچا سکتا ہے۔تُف ہے تم پر اور اس پر جس کى تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو پس کىا تم عقل نہىں کرتے‘‘۔ (سورة الانبیاء 58تا 68)
اب دیکھیں کہ حضرت ابراہیمؑ بہادر تھے، انہوں نے اپنی قوم کو برملا کہا کہ میں تمہارے بتوں کے ساتھ تدبیر کرنے والا ہوں۔ نہ صرف بتایا کہ مستقبل میں جو ہو گا اس کو کرنے کی ذمہ داری ابھی سے میں لے رہا ہوں، بلکہ ساتھ بتا دیا کہ وہ فعل ایک تدبیر ہوگی تمہیں حقیقی خدا کی طرف لانے کے لیے۔ پھر انہوں نے اسی تدبیر کے تحت سارے بت توڑے مگر سب سے بڑے کو چھوڑ دیا۔ سب سے بڑے کو اس لیے چھوڑا کیونکہ وہ اس قوم کے نزدیک سب سے طاقتور معبود تھا۔ پھر جب قوم نے آپ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ تمہارے معبود ہیں ان سے پوچھو، اگر یہ تمہارے مستقبل کے حال کو جانتے ہیں تو اپنے ماضی کو بھی بتائیں کہ کس نے ان کو توڑا ہے ؟ اور ساتھ یہ دلیلاً فرمایا کہ اے نادانو! میں ایک انسان ہوکر کس طرح تمہارے خداؤں کو توڑ سکتا ہوں، یقیناً تمہارے بڑے خدا نے ہی ان کو توڑا ہو گا۔ گویا اپنی قوم کو یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ جس خدا کو اس کی مخلوق ہی توڑ دے وہ کس طرح معبود قرار دیا جا سکتا ہے۔ تو اس پر انہوں نے یہ نہیں کہا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو بلکہ نُكِسُوْا عَلٰى رُءُوْسِهِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هٰٓؤُلَآءِ يَنْطِقُوْنَ (الانبياء: 66) شرمندہ ہوئے اور اقرار کیا کہ یہ بت تو کلام کی طاقت نہیں رکھتے۔ پس ان کی شرمندگی اور اقرار ہی تھا جو حضرت ابراہیم ؑکو مطلوب تھا یعنی وہ چاہتے تھے کہ ایسی تدبیر کی جائے جس کے ذریعہ ان کی قوم پر واضح ہو جائے کہ یہ بت دراصل کچھ حیثیت نہیں رکھتے، ان کو معبود سمجھنا صرف انسان کا اپنا دھوکا ہے، ان میں الوہیت کی کوئی صفت نہیں پائی جاتی۔ پس اس واقعہ کو پڑھ کر کسی طرح ممکن نہیں کہ کہا جائے کہ نعوذ باللہ حضرت ابراہیمؑ نے جھوٹ بولا تھا۔
۳: تیسرا واقعہ وہ ہے جس کے بارے میں حدیث میں ذکر ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنی اہلیہ سارہ ؓ کے بارےمیں کہا کہ وہ میری بہن ہے۔
اس کا جواب دو طرح دیا جا سکتا ہے۔ ایک تو اس طرح کہ اگر تسلیم کر لیا جائے کہ واقعی حضرت ابراہیمؑ نے ایسا فرمایا تو اس صورت میں جواب یہ ہو گا کہ عمدۃ القاری کی روایت میں آتا ہے کہ وَاللّٰهِ إِنْ عَلَى الْأَرْضِ مُؤْمِنٌ غَيْرِي وَغَيْرُكِ (اللہ کی قسم!اس وقت روئے زمین پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مومن نہیں ) اور تمام مومن بھائی بھائی ہوتے ہیں ( إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَةٌ (الحجرات: 11)) کے تحت انہوں نے کہا کہ ایمان کے لحاظ سے میں اور سارہ بہن بھائی ہیں۔
دوسری صورت میں ہمیں اس روایت کی سند کو دیکھنا ہو گا کہ یہ کس راوی نے بیان کی ہے۔ یہ روایت حدیث کی جس کتاب میں بھی مذکور ہے وہاں اس کے راوی حضرت ابوہریرہؓ ہیں۔ ان کے علاوہ کسی راوی نے یہ حدیث بیان نہیں کی۔ اگر یہ الفاظ حضور ﷺ نے فرمائے تھے تو کہیں تو کسی اور راوی نے بھی اس کو بیان کیا ہوتا۔ پھر اس روایت میں اولاً مذکور دو جھوٹ قرآنی سورتوں سے تعلق رکھتے ہیں (یعنی جن کا ذکر قرآن کی سورتوں میں آ یا ہے )۔ وہ دونوں سورتیں الصافات اور الانبیاء دونوں ہی مکی سورتیں ہیں، اور حضرت ابوہریرہؓ مدینہ میں اسلام لائے تھے۔ مکہ کے ۱۳ سالہ دور کی بھی احادیث ہیں مگر کہیں یہ ذکر نہیں ملتا کہ قرآن کے ثبوت کے تحت حضرت ابراہیمؑ نے فلاں فلاں جھوٹ بولا (نعوذ باللہ)۔ پھر قرآن کریم (جس کی حفاظت کی ذمہ داری خدا تعالیٰ نے خود لی ہے ) تو فرماتا ہے کہ وہ صدیق تھے اور بہادر تھے۔ پھر کس طرح ممکن ہے کہ انہوں نے اپنی جان بچانے کے لیے اپنی اہلیہ کو بہن کہہ دیا۔ یوں تو نہ وہ صادق ٹھہرے اور نہ بہادر (نعوذ باللہ)۔ نیز یہ واقعہ تورات میں بھی ملتا ہے (پیدائش باب ۱۲) جس سے یہ لگتا ہے کہ یہود اور عیسائی اس واقعہ سے باخبر تھے۔ اور حضرت ابوہریرہؓ بھی عیسائیت سے اسلام میں آئے تھے۔ پس ممکن ہے کہ انہیں اس واقعہ میں غلطی لگی ہے۔ امام فخر الدین رازی لکھتے ہیں :’’ بعض لوگوں نے حضرت ابراہیم کے بیان کو جھوٹ قرار دیا ہے اور اس بارے میں آنحضرتﷺ سے ایک روایت بھی بیان کی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا ابراہیم نے صرف تین جھوٹ بولے ہیں۔میں (علامہ رازی) نے لوگوں میں سے ایک سے کہا کہ یہ حدیث قبول کرنے کے لائق نہیں ہے کیونکہ ابراہیم علیہ السلام کی طرف جھوٹ منسوب کرنا ہرگز جائز نہیں۔ تو اس نے جواب دیا کہ عادل راویوں کے جھوٹ کا بھی کیسے حکم لگایا جا سکتا ہے ؟ میں نے کہا کہ جب تعارض اس امر میں پیدا ہو گیا کہ جھوٹ کی نسبت راوی کی طرف کی جائے یا حضرت ابراہیمؑ کی طرف تو یہ یقینی طور پر معلوم ہے کہ جھوٹ کو راوی کی طرف منسوب کرنا ہی بہتر ہے‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد ۷ صفحہ ۱۴۵)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’ اس نے پہلے سے براہین احمدیہ میں خبر دے دی کہ ینقطع آباء ک ویبدء منک یعنی تیرے بزرگوں کی پہلی نسلیں منقطع ہو جائیں گی اور ان کے ذکر کا نام و نشان نہ رہے گا اور خدا تجھ سے ایک نئی بنیاد ڈالے گا۔ اسی بنیاد کی مانند جو ابراہیم سے ڈالی گئی۔ اسی مناسبت سے خدا نے براہین احمدیہ میں میرا نام ابراہیم رکھا جیسا کہ فرمایا سَلٰمٌ عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ صَافَیْنَاہُ وَنَجَّیْنَاہُ مِنَ الۡغَمِّ وَاتَّخِذُوۡا مِنۡ مَّقَامِ اِبۡرٰہٖمَ مُصَلًّی۔ قُلْ رَبِّ لَا تَذَرۡنِیۡ فَرۡدًا وَّاَنۡتَ خَیۡرُ الۡوٰرِثِیۡنَ۔ یعنی سلام ہے ابراہیم پر (یعنی اس عاجز پر) ہم نے اس سے خالص دوستی کی اور ہر ایک غم سے اس کو نجات دے دی۔ اور تم جو پیروی کرتے ہو تم اپنی نماز گاہ ابراہیم کے قدموں کی جگہ بناؤ یعنی کامل پیروی کرو تا نجات پاؤ۔ اور پھر فرمایا کہہ اے میرے خدا! مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تو بہتر وارث ہے۔ اس الہام میں یہ اشارہ ہے کہ خدا اکیلا نہیں چھوڑے گا اور ابراہیم کی طرح کثرت نسل کرے گا اور بہتیرے اس نسل سے برکت پائیں گے ‘‘۔(اربعین نمبر۳، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 420)
اب اس تحریر کو دیکھیں، حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ کا نام دیا۔ گویا ان کی صفات سے نوازا اور آپؑ فرماچکے ہیں ’’ تم کوئی عیب، افترا یا جھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افتراء کا عادی ہے یہ بھی اس نے جھوٹ بولا ہو گا۔‘‘ (حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 64)۔ پس اس جملہ سے بتا دیا کہ نہ آپؑ نے کبھی جھوٹ بولا اور نہ حضرت ابراہیمؑ نے۔
پھر ایک اور موقع پر فرمایا: ’’ دیکھو میری مخالفت میں کس قدر علماء تکلیف میں ہیں۔ بسا اوقات میرے پر وہ نکتہ چینیاں کی جاتی ہیں جن میں انبیاء بھی داخل ہو جاتے ہیں۔ … اُن کی پیشگوئیوں کے متعلق بھی بعض لوگوں کو ابتلا پیش آئے کہ اُن کے خیال کے موافق وہ پوری نہ ہوئیں۔ جیسے یہودی آج تک مسیح بادشاؔ ہ کے متعلق جو پیشگوئی تھی اور جو ایلیا کے دوبارہ قبل از مسیح آنے کی پیشگوئی تھی ان پر اعتراض کرتے ہیں۔ اور حضرت ابراہیم پر مخالفوں نے درو غ گوئی کا اعتراض کیا ہے اور حضرت موسیٰ پر فریب سے مصریوں کا زیور لینا اور جھوٹ بولنا اور عہد شکنی کرنا اور شیر خوار بچوں کو قتل کرنا اب تک آریہ وغیرہ اعتراض کرتے ہیں۔‘‘ (اربعین نمبر۲، روحانی خزائن جلد17 صفحہ 379) پس واضح بتایا کہ حضرت ابراہیم ؑ پر کذب کا الزام لگانے والے ان کے مخالف ہیں، ورنہ انبیاء ایسی باتوں سے پاک ہیں۔
پس اس مضمون کا مقصد حضرت ابوہریرہؓ یا کسی بھی حدیث یا کسی بھی مصنف کی کتاب کے معیار پر قلم اٹھانا نہیں۔ بلکہ ہمارا منشا صرف آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کو پورا ہوتا دیکھنا اور دکھانا ہے کہ جو پیشگوئی تھی کہ آنے والا مسیح حکم و عدل ہو گا،پس اس مسیح آخر زمان نے آ کر ہمیں وہ راہیں دکھائیں جن پر چل کر حق و باطل کو پرکھا جا سکتا ہے۔ پس لاکھوں درود و سلام محمد مصطفیٰ ؐ پر جن کے فیض سے آج ۱۵ صدیوں کے بعد بھی لوگ انبیاء پر لگائے جانے والے الزامات کو بآسانی پرکھ پارہے ہیں۔
سب پاک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر
لیک از خدائے برتر خیرالوریٰ یہی ہے
اللّٰھم صل علی محمد و علی آل محمد۔