گلدستہ معلومات
کیوں؟
پیارے بچو! آج کا سوال ہے کہ
دھوپ سے جلد(skin)کا رنگ گہرا کیوں ہو جاتا ہے ؟
پیارے بچو! دھوپ میں رہنے سے جلد کا رنگ سانولا یا گہرا ہو جاتا ہے۔ یہ عمل دراصل فطرت کی طرف سے انسانی جلد کو قدرتی تحفظ دینے کا نظام یا مکینزم ہے۔ اس مکینزم کے تحت جلد کا رنگ تشکیل دینے والا مادہ میلانن (melanin)زیادہ مقدار میں پیدا ہونے لگتا ہے۔ یہ مادہ جلد کو خطرناک اثرات سے تحفظ دیتا ہے جو سورج کی کرنوں میں موجود الٹرا وائلٹ شعاعیں مرتب کرتی ہیں۔
پیارے بچو! آپ کو معلوم ہے کہ جلد کے اوپر والی تہ جس میں خلیے موجوت ہوتے ہیں انہیں ملانوسائٹس (Melanocytes) کہتے ہیں اور یہی خلیے ملن مادہ پیدا کرتے ہیں۔ جب ہماری جلد پر دھوپ پڑتی ہے تو ملانوسائٹس فعال ہو جاتے ہیں اور انسانی جسم جس قدر زیادہ عرصے تک دھوپ میں رہتا ہے، مذکورہ خلیے اسی قدر زیادہ مقدار میں میلانن خارج کرتے رہتے ہیں۔ یہ عمل کسی فلٹر کا کام کرتا ہے اور جلد کو الٹرا وائلٹ شعاعوں کے خلاف ڈھال مہیا کرتا ہے۔ سفید رنگت والی جلد اس عمل کے تحت سانولی اور گندمی رنگت سیاہی مائل یا کالی ہو جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ دھوپ میں رہنے سے ہماری جلد کی رنگت سانولی ہو جاتی ہے۔
تو بچو! یہ تھا اس سوال کا جواب۔ آپ بتائیں کہ آپ گرمی میں باہر نکلتے ہوئے کسی کریم، ٹوپی اورچھتری کا استعمال کرتے ہیں؟(مرسلہ خلیق احمد شرجیل۔ جرمنی)
٭… ٭… ٭… ٭… ٭
ایک ضرب المثل کی کہانی
اتفاق میں برکت ہے
ایک گاؤں میں ایک بوڑھا کسان رہتا تھا۔اس کے چار بیٹے تھے جو ہمیشہ آپس میں جھگڑتے رہتے تھے۔کسان نے انہیں سمجھا نے کی بہت کوشش کی،مگر بےسود۔جب وہ مرنے کے قریب تھا تو اس نے چاروں بیٹوں کو اپنے پاس بلایا اور نوکر سے کہا کہ لکڑیوں کا ایک گٹھا لے آ ؤ۔ وہ گٹھا لے آ یا۔ کسان نے ہر بیٹے سے باری باری کہا کہ گٹھا توڑ دو، ہر ایک نے کوشش کی مگر کوئی بھی نہ توڑ سکا۔ پھر اس نے گٹھے کو کھولنے کی ہدایت کی۔ گٹھا کھولا گیا تو کسان نے ایک ایک لکڑی توڑنے کو کہا۔سب نے ایک ایک کرکے تمام لکڑیاں توڑ دیں۔بوڑھے کسان نے نصیحت کی کہ اس بات کو یاد رکھو کہ جب تم مل کر رہو گے تو تم مضبوط اور طاقتور رہوگے جس طرح یہ لکڑیوں کا گٹھا تھا اور نااتفاقی میں کمزوری اور بربادی ہے۔ وہ یہ بات سمجھ گئے اور پیارومحبت اور اتفاق سے رہنے لگے۔
٭… ٭… ٭… ٭… ٭
اردو محاورے
گرمی پَڑْنا: شدّت کی گرمی ہونا، دھوپ کا تیز ہونا، موسمِ گرما کا آنا
سات پانچ کرنا: عذر کرنا، بہانے کرنا۔
اُنِّیس بِیس کا فَرق: بہت تھوڑا سا فرق، معمولی سا تفاوت، ذرا سی کمی بیشی۔
سَو پَچاس: کئی، متعدد، بہت سارا، بہت سے۔
٭… ٭… ٭… ٭… ٭
عبید اللہ علیمؔ
عبید اللہ علیمؔ 12؍جون 1939ء کو بھوپال ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ 1952ء میں وہ اپنے والدین کے ہمراہ پاکستان آ گئے۔ 1969ء میں کراچی یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کے بعد ریڈیو پاکستان سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ پھر پاکستان ٹیلی وژن میں بطور پروڈیوسر ملازمت اختیار کی مگر بعض وجوہات کی بنا پر 1978ء میں انہوں نے اس ملازمت سے استعفا دے دیا۔ عبید اللہ علیم ؔکا شمار موجودہ دور کے غزل کے بہترین شعراء میں ہوتا ہے۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ’’چاند چہرہ ستارہ آنکھیں‘‘ 1978ء میں شائع ہوا جس پر انہیں ’’آدم جی ادبی انعام‘‘بھی ملا۔آپ کے شعری مجموعوں میں ’’ویران سرائے کا دیا‘‘،’’نگارِ صبح کی امید‘‘ اورکلیات میں’’یہ زندگی ہے ہماری‘‘ اور نثری تصانیف میں’’کھلی ہوئی ایک سچائی‘‘، ’’میں جو بولا‘‘ شامل ہیں۔
18؍مئی 1998ء کو عبید اللہ علیؔم کراچی پاکستان میں وفات پاگئے اور باغِ احمد میں آسودۂ خاک ہوئے۔ ان کے چند اشعار درج ذیل ہیں:
باہر کا دھن آتا جاتا اصل خزانہ گھر میں ہے
ہر دھوپ میں جو مجھے سایہ دے وہ سچا سایہ گھر میں ہے
میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں
مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں
بنا گلاب تو کانٹے چبھا گیا اک شخص
ہوا چراغ تو گھر ہی جلا گیا اک شخص
٭… ٭… ٭… ٭… ٭