گرمی میں مہمان نوازی
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ’’کی ایک خصوصیت تھی کہ مہمانوں کے آرام کے لئے ہر قسم کی قربانی فرماتے تھے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کے گھر کے لوگ لدھیانہ گئے ہوئے تھے، جون کا مہینہ تھا اور جون کا مہینہ پنجاب میں بڑا سخت گرمی کا مہینہ ہوتا ہے۔ اس وقت ایک مکان یا مکان کا ایک حصہ نیا نیا بنا تھا تو مولوی صاحب کہتے ہیں وہاں ایک چارپائی پڑی ہوئی تھی۔ اس میں موسم بھی، نسبتاً ذرا بہتر ہوتا ہے کیونکہ پانی وغیرہ کے استعمال کی وجہ سے، نئی اینٹوں کی وجہ سے اس میں کچھ نہ کچھ ٹھنڈک ہوتی ہے۔ جن لوگوں کو یہ سہولتیں یہاں میسّر ہیں اور موسم بھی اچھا ہے ان کو وہ اندازہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن وہاں کے رہنے والے جو ہیں، پرانے لوگ جو آئے ہوئے ہیں، وہ صحیح اندازہ کر سکتے ہیں کہ گرمیوں میں نیا بنا ہوا مکان کتنا آرام دہ لگتا ہے۔ تو بہر حال مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ وہاں چارپائی بچھی ہوئی تھی مَیں بھی اس پر لیٹ گیا۔ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ٹہل رہے تھے۔ تو مولوی صاحب کہتے ہیں کہ لیٹنے کے تھوڑی دیر بعد میری آنکھ لگ گئی۔ جب میری آنکھ کھلی تو مَیں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرش پر میری چارپائی کے نیچے لیٹے ہوئے ہیں۔ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ یہ دیکھ کر مَیں گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ آپؑ نے فرمایا کیا ہوا؟ آپؑ کیوں اس طرح اٹھ بیٹھے ہیں؟ تو مَیں نے عرض کی کہ حضورؑ نیچے لیٹے ہوئے ہیں، یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ مَیں اوپر چارپائی پر سو جاوٴں۔ تو آپ نے مسکرا کر فرمایا کہ مَیں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا کہ لڑکے شور کرتے تھے، انہیں روکتا تھاکہ آپ کی نیند میں خلل نہ ہو۔ تو یہ محبت ہے جو مہمان نوازی سے بہت بڑھ کر ہے۔ جو صرف ماں باپ میں ہی شاید دیکھی جاتی ہے۔ بلکہ نہیں، یہ تو ماں باپ سے بڑھ کر محبت ہے۔ اور یہ تو اللہ تعالیٰ کے نبی کا ہی حصہ ہو سکتا ہے۔ لیکن ہم جو اس کام پر مامور کئے گئے ہیں، ہمیں یہ ذمہ داری لگائی گئی ہے کہ مہمانوں کی خدمت کرو۔ انہیں اس کا کچھ نہ کچھ حصہ تو بہر حال اپنانا چاہئے۔ لینا چاہئے، نمونہ دکھانا چاہئے۔‘‘ (خطبہ جمعہ 12؍ اپریل 2013ء)