خلاصہ خطبہ جمعہ

غزوہ بنو مصطلق کےحالات و واقعات کا بیان: خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍ جولائی ۲۰۲۴ء

٭… يہ غزوہ قبيلہ بنو خزاعہ کي ايک شاخ بنو مصطلق کے ساتھ ہوا اس ليے اس کو غزوہ بنو مصطلق کہا جاتا ہے … اس غزوہ کا دوسرا نام غزوہ مريسيع بھي ہے
٭… قبيلہ بنو خزاعہ کي ايک شاخ بنو مصطلق نے پہل کي اورمدينہ پر حملہ کرنے کي تياري شروع کردي
٭… مسلمانوں نے ايسي ہوشياري کے ساتھ ان کا گھيرا ڈالا کہ ساري کي ساري قوم محصورہو کر ہتھيار ڈالنے پر مجبور ہو گئي
٭… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیدار مغزی کی وجہ سے صرف دس کفار اور ایک مسلمان کے قتل پر اس جنگ کا خاتمہ ہو گیا
٭…محرم کے دنوں میں درود شریف پڑھنے اور دعائیں کرنے کی تلقین
٭… مکرم بونجا محمود صاحب شہید آف ٹوگو ، مکرم رشید احمد صاحب سابق معاون ناظر امور عامہ، مکرم چودھری مطیع الرحمٰن صاحب نائب ناظر امور عامہ، مکرمہ منظور بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم محمود احمد بھٹی صاحب آف سرگودھا اور مکرم ماسٹر سعادت احمد اشرف صاحب ابن مکرم خوشی محمد صاحب باڈی گارڈ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے نماز جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۲؍جولائی۲۰۲۴ء بمطابق۱۲؍وفا ۱۴۰۳؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۲؍جولائی۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب (مربی سلسلہ) کے حصے ميں آئي۔تشہد، تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آج غزوہ بنو مصطلق یا غزوہ مریسیع کا ذکر کروں گا۔

یہ غزوہ کب ہوا؟اس کے متعلق سیرت نگاروں کا اختلاف ہے۔بعض کے نزدیک یہ ۶؍ہجری میں ہواجبکہ بعض نے ۵؍ہجری یا ۴؍ہجری بیان کیا ہے لیکن حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ  کی تحقیق کے مطابق اس کی تاریخ شعبان ۵؍ہجری ہے۔یہ غزوہ قبیلہ بنو خزاعہ کی ایک شاخ بنو مصطلق کے ساتھ ہوا اس لیے اس کو غزوہ بنو مصطلق کہا جاتا ہے اور یہ قبیلہ مریسیع نام کے ایک کنویں کے پاس رہتا تھا اس لیے اس غزوہ کا دوسرا نام غزوہ مریسیع بھی ہے۔

بنو مصطلق قریش کے حلیف تھے اور انہوں نے یہ حلف لیا تھا کہ ہم لوگ ایک جان ہو کر قریش کے ساتھ رہیں گےاور اسی معاہدے کے تحت بنو مصطلق غزوہ اُحد میں کفار قریش کے لشکر میں شامل تھے۔

اس غزوہ کا ایک سبب یہ تھا کہ بنو مصطلق اسلام دشمنی میں بے باک ہو گئے تھے۔ انہیں کفار قریش کی مکمل تائید اور حمایت حاصل تھی۔ غزوہ اُحد میں مسلمانوں کے خلاف لڑائی میں شرکت کی وجہ سے اب یہ کھل کر مسلمانوں سے مقابلے پر اتر آئے تھے اور ان کی سرکشی میں بہت اضافہ ہو گیا تھا۔ دوسری بات یہ تھی کہ مکہ مکرمہ سے جانے والے مرکزی راستے پربنو مصطلق کا کنٹرول تھا۔ یہ لوگ مکہ میں مسلمانوں کا عمل دخل روکنے کےلیے مضبوط رکاوٹ کی حیثیت رکھتے تھے۔تیسر ا اہم سبب یہ تھا کہ

بنو مصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرار نے اپنی قوم اور اہل عرب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کے لیے تیار کیااور مدینہ سے ۹۶؍میل کے ایک مقام پر لشکر کو جمع کرنا شرع کردیا۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نےسیرت خاتم النبیینؐ میں اس کے بارے لکھا ہے کہ قریش کی مخالفت دن بدن زیادہ خطرناک صورت اختیار کرتی جاتی تھی۔وہ اپنی ریشہ دوانی سے عرب کے بہت سے قبائل کو اسلام اور بانی اسلام کے خلاف کھڑا کر چکے تھے لیکن اب ان کی عداوت نے ایک نیا خطرہ پیدا کر دیا تھا کہ حجاز کے وہ قبائل جو مسلمانوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے تھے وہ بھی قریش کی فتنہ انگیزی سے مسلمانوں کے خلاف اُٹھنا شروع ہوگئے۔ اس معاملے میں قبیلہ بنو خزاعہ کی ایک شاخ بنومصطلق نے پہل کی اورمدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری شروع کردی۔ ان کے رئیس حارث بن ابی ضرار نے اس علاقے کے دوسرے قبائل کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کی اطلاع ملی تو آپؐ نے احتیاطاً ایک صحابی بریدہ بن الحصیبؓ  کو دریافت حالات کے لیے بنو مصطلق روانہ فرمایا اور تاکید فرمائی کہ بہت جلد واپس آکرحقیقۃ الامر سے آپؐ کو اطلاع دیں۔

انہوں نے واپس آکر بتایا کہ نہایت زورو شور سے مدینہ پر حملے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔آپؐ نے مسلمانوں کو بلایا اور دشمن کے بارے میں خبر دی۔اسلامی لشکر جلد از جلد تیار ہو کر روانہ ہو گیا۔

آپؐ کی روانگی کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے۔ ایک روایت کے مطابق آپؐ نے حضرت زید بن حارثہؓ  کو مدینہ میں نائب مقرر کیا۔ابن ہشام نے حضرت ابوذر غفاریؓ  کا نام بیان کیا ہے۔ اسی طرح حضرت نمیلۃ بن عبداللہ ؓکا نام بھی بیان کیا جاتا ہے۔بہرحال لشکر روانہ ہوا۔ اسلامی لشکر ۷۰۰؍ افراد پر مشتمل تھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲؍شعبان ۵؍ہجری کو پیر کے دن مدینہ منورہ سے بنو مصطلق کی طرف کُوچ کیا۔

حضرت مسعود بن حنیدہ ؓراستے کے گائیڈ تھے۔مسلمانوں کے پاس کل تیس گھوڑے تھے جن میں سے مہاجرین کےپاس دس گھوڑے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دو گھوڑے تھے۔ جن مہاجرین کے پاس گھوڑے تھے ان میں حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ، حضرت علیؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ، حضرت مقداد بن عمرؓ  شامل تھے۔انصار صحابہ کےبیس گُھڑ سواروں میں سے پندرہ کے نام ملتے ہیں۔ان میں حضرت سعد بن معاذؓ، حضرت سید بن عزیرؓ، حضرت قتادہ بن نعمانؓ حضرت عویم بن ساعدۃ حضرت سعد بن زیداشھلی، حضرت حارث بن حزمہؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت ابو قتادہ ؓ، حضرت ابی بن کعبؓ،حضرت حباب بن منذرؓ، حضرت زیاد بن لبیدؓ، حضرت فرواہ بن عمرؓ، حضرت معاذ بن رافعؓ تھے۔ اس کی تفصیل میں مزید یہ بیان ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت سے منافقین بھی نکلے وہ اس سے قبل اس طرح کسی غزوہ کےلیے نہیں نکلے تھے۔اُن کی غرض جہاد کی نہیں تھی بلکہ وہ مال غنیمت کےلیے نکلےتھےکہ اگر جیت ہوئی تو ہمیں مال غنیمت ملے گا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیچھے ابوذر غفاریؓ یا بعض روایات کی رُو سے زید بن حارثہؓ  کو مدینہ کا امیر مقرر کر کے اللہ کا نام لیتے ہوئے شعبان ۵؍ہجری میں مدینے سے نکلے۔ فوج میں صرف تیس گھوڑے تھے۔البتہ اونٹوں کی تعداد کسی قدر زیادہ تھی اور انہی گھوڑوں اور اونٹوں پر مل جُل کر مسلمان باری باری سوارہوتے تھے۔راستہ میں مسلمانوں کو کفار کا ایک جاسوس مل گیا جسے انہوں نے پکڑ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا اور آپؐ نے اس تحقیق کے بعد کہ واقعی جاسوس ہے اُس سے کفار کے متعلق کچھ حالات وغیرہ دریافت کرنے چاہے مگر اُس نے بتانے سے انکار کیا اور چونکہ اُس کا رویہ مشتبہ تھا اس لیے مروجہ قانون جنگ کے ماتحت حضرت عمرؓ نے اُسے قتل کر دیا اور اس کے بعد لشکر اسلام آگے روانہ ہوا۔

بنومصطلق کو جب مسلمانوں کی آمد اور اپنے جاسوس کے مارے جانے کی خبر پہنچی تو وہ بہت خائف ہو ئے کیونکہ اُن کا اصل منشاءیہ تھا کہ کسی طرح مدینہ پر اچانک حملہ کرنے کا موقع مل جائے مگرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیدار مغزی کی وجہ سے اب ان کو لینے کے دینے پڑ گئےتھے۔

وہ بہت مرعوب ہو گئے اوراُن کی مدد کے لیے جمع ہونے والے دوسرے قبائل خدائی تصرف کےماتحت کچھ ایسے خائف ہوئے کہ فوراً اُن کا ساتھ چھوڑ کر اپنے گھروں کو چلے گئے۔مگر بنو مصطلق کوقریش نے مسلمانوں کی دشمنی کا کچھ ایسا نشہ پلا دیا تھا کہ وہ پھر بھی جنگ کے ارادے سے باز نہ آئے اور پوری تیاری کے ساتھ اسلامی لشکر کے مقابلے کے لیےآمادہ رہے۔

جب ا ٓنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مریسیع پہنچےتو آپؐ کے لیےچمڑے کا خیمہ لگایا گیا۔حضرت عائشہ صدیقہؓ  آپؐ کے ہمراہ تھیں۔ بعض مؤرخین نے حضرت ام سلمہؓ  کا بھی ذکر کیا ہےلیکن علامہ ابن حجر نے ایسی روایات کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کا شعار یا مَنْصورُ اَمِتْ اَمِتْ تھا یعنی اے مدد یافتہ شخص ماردے ماردے۔اس شعار کے استعمال کرنے کی حکمت یہ تھی کہ مسلمانوں اور کفار کے درمیان اشتباہ نہ ہو اور رات کے اندھیرے میں بھی مسلمان ایک دوسرے کو پہچان سکیں۔

آپؐ نے صحابہ کرام ؓکی صف بندی کی۔ مہاجرین کا جھنڈا حضرت ابوبکر صدیقؓ  کو دیا۔ دوسرا قول ہے کہ حضرت عماربن یاسرؓ  کو دیاگیا۔انصار کا جھنڈا حضرت سعدبن عبادہؓ  کو دیاگیا۔آپؐ نے حضرت عمرؓ  کو حکم دیا کہ دشمن کی فوج کے سامنے اعلان کریں کہ اے لوگو! کہو اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اس کے ذریعہ سے اپنے نفوس اور اموال محفوظ کر لو۔ حضرت عمر ؓنے اسی طرح کیا مگر مشرکین نے انکار کر دیا۔ کچھ دیر تِیر اندازی ہوتی رہی۔

سب سے پہلا تِیر مشرکین کے ایک شخص نے پھینکااور مسلمان بھی کچھ دیرتِیر اندازی کرتے رہے۔پھرآپؐ نے صحابہ کرام ؓکو حکم دیا کہ حملہ کریں۔

انہوں نے یکجان ہو کر حملہ کیا۔ مشرکین میں سے کوئی بھی بھاگ نہ سکا۔ اُن میں سے۱۰؍مقتول ہوئے اور باقی سارے قیدی ہو گئے۔آپؐ نے ان کے مرد و خواتین، اولاد اور جانورقید کرلیے۔

حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ نے اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مریسیع پہنچےتوآپؐ نے ڈیرا ڈالنے کا حکم دیا اورصف آرائی اور جھنڈوں کی تقسیم کے بعدآپؐ کے حکم کے مطابق حضرت عمر ؓنے بنو مصطلق میں یہ اعلان کیا کہ اگر اب بھی وہ اسلام کی عداوت سے باز آ جائیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کو تسلیم کر لیں تو ان کوامن دیا جائے گااور مسلمان واپس لوٹ جائیں گے مگر انہوں نے سختی کے ساتھ انکار کیا اور جنگ کے واسطے تیار ہو گئے۔ حتی ٰکہ سب سے پہلا تیر جو اس جنگ میں چلایا گیا وہ انہی کے آدمی نے چلایا تھا۔جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ حالت دیکھی تو آپؐ نے بھی صحابہ کو لڑنے کا حکم دیا۔تھوڑی دیر فریقین کے درمیان خوب تیزتِیراندازی ہوئی جس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو یکلخت دھاواکر دینے کا حکم دیا اور اس اچانک دھاوے کے نتیجے میں کفار کے پاؤں اُکھڑ گئے مگر

مسلمانوں نے ایسی ہوشیاری کے ساتھ ان کا گھیرا ڈالا کہ ساری کی ساری قوم محصورہو کر ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئی۔صرف دس کفار اور ایک مسلمان کے قتل پر اس جنگ کا جوایک خطرناک صورت اختیار کر سکتی تھی خاتمہ ہو گیا۔

حضور انور نے فرمایا کہ آج ایک شہید اور بعض مرحومین کا بھی ذکر کرنا ہے اس لیے یہ اصل خطبہ مختصر دے رہا ہوں۔تاہم آج محرم کے حوالے سے دعا کی طرف بھی توجہ دلاناچاہتا ہوں۔یہ ایک دردناک واقعہ ہے جس میں ظلم و بربریت کی انتہائی مثال قائم ہوئی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور آپؐ کے خاندان کے لوگوں کو شہید کیا گیا لیکن

مسلمانوں کی بد قسمتی یہ ہے کہ اس سے سبق لینے کی بجائے یہ ظلم اب تک چل رہا ہے۔ محرم میں شیعہ سنی فساد یا دہشت گردی کے حملوں کے واقعات بڑھ جاتے ہیں۔

دونوں طرف سے جانیں بھی ضائع ہوتی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس فساد کو ختم کرنے کے لیے اپنے وعدے کے مطابق انتظام فرمایا ہے اسے یہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کاش کہ ان لوگوں کو سمجھ آئے۔ بہرحال

ان دنوں میں احمدیوں کو درود شریف پڑھنے اور مسلمانوں کی اکائی کے لیے خاص دعاؤں کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

اپنی حالتوں کو بھی بہتر کرنے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بڑھنے کی طرف بھی خاص توجہ دینی چاہیے۔اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق بھی عطا فرمائے۔

حضور انور نے آخر میں مکرم بونجا محمود صاحب آف ٹوگوکی شہادت، مکرم رشید احمد صاحب، مکرم چودھری مطیع الرحمٰن صاحب، مکرمہ منظور بیگم صاحبہ اور مکرم ماسٹر سعادت اشرف صاحب کی وفات پر ان کے ذکر خیر اور ان کی جماعتی خدمات کا تذکرہ کرنے کے بعد ان کے نماز جنازہ غائب بعد نماز جمعہ پڑھانے کا اعلان بھی کیا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button