الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
محترمہ سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۲۳ء نمبر ۱ میں محترمہ امۃالکافی صاحبہ نے اپنی والدہ محترمہ سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ بنت حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ اہلیہ مکرم میجر سعید احمد صاحب کی سیرت پر روشنی ڈالی ہے۔
امّی کی شادی ۳۱؍دسمبر ۱۹۴۹ء کو ہوئی۔ ۱۲؍دسمبر کو آپ کی والدہ حضرت سیدہ اُمِّ داؤد صاحبہ نے آپ کو ڈائری میں یہ لکھ کردیا:’’پیاری بیٹی !تجھے اللہ کو سونپا۔ تم بھی اللہ کے آنچل کو مضبوطی سے پکڑ لو۔‘‘ بس یہی کُل متاع اور جامع نصیحت تھی جس کا اثر ہمیشہ ہی نظر آیا۔اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے ہمیشہ زیر لب دعائیں پڑھتے ہی دیکھا۔کوئی کام بھی خدائی ذکر اور اس کی رضا سے علیحدہ کرتے ہوئے نہ دیکھا۔توبہ اور استغفار کثرت سے کرنے کی عادت تھی۔اکثر مواقع پر یہ فقرہ سننے کو ملتا کہ یہ تو میں نے صرف خدا کی رضا کی خاطر کیاہے۔
بالکل نوجوانی کی عمر میں اپنی والدہ سے سبقاًسبقاً احادیث پڑھی تھیں۔آپ کی متعدد ڈائریوں اور نوٹس میں احادیث اور رسول اللہ ﷺکی دعائیں لکھی نظر آتیں۔
امی کو اللہ کے فضل سے حضرت اماں جانؓ کی خدمت کی بھی تو فیق ملی جس کا بہت خوشی سے ذکر کرتیں کہ ہر ہفتہ باقاعدہ ان کے اسٹور میں سامان ٹھیک طرح رکھنا، پیسوں کاحساب کتاب اور بہت سے چھوٹے موٹے کام باقاعدگی سے حضرت اماں جانؓ کروایا کرتیں اور یہ سلسلہ تقریباً سات آٹھ سال، امی کی شادی تک جاری رہا۔
جب میں چار پانچ سال کی تھی تو روزانہ دوپہر کے کھانے کے بعد بچوں کو مکرم مولوی اسماعیل صاحب پانی پتی کی کتاب ’’ہمارا آقا‘‘ میں سے پڑھ کر سناتی جاتیں اور ساتھ ساتھ آنکھوں سے آنسو پو نچھتیں۔ کہانی سنا نے کو کہتے تو صرف انبیاء کے، حضرت مسیح مو عودؑ اور آپؑ کے خلفاء و صحابہؓ کے واقعات۔ نا ممکن تھا کہ بچپن میں کوئی اَور کہانی بھی ہم نے امی سے سنی ہو۔ خلافت سے ہمیشہ غیر معمولی تعلق رہا۔ بچپن میں خلیفۂ وقت کی محبت اور اطاعت سکھا نے کا یہ گُر تھا کہ نماز کے لیے جب بھی کھڑے ہونا تو کہنا: پہلے حضور کی صحت و سلامتی کی دعا کروگے تو اللہ تمہاری مشکلات خود دُور فرمائے گا۔
جب اولاد سمجھ دار ہوئی تو نرمی کابہتا ہوا دریا بن گئیں۔ کبھی کسی بڑے کی برائی یا برے رنگ میں ذکر نہ کیا۔ بچوں کے ہمیشہ سچ بولنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ جھوٹ بولنے کی سزا بڑی ہی شدید ہوا کرتی۔ جو بات امی نے ہمیں نہ بتانی ہو تی تو آرام سے کہہ دیتیں کہ یہ نہیں بتاؤں گی لیکن جھوٹ کبھی نہ بولتے سنا اور نہ ہی ہمیں ایسا کرتے ہوئے برداشت کیا۔
ہماری ایک اچھی بھلی کھاتے پیتے گھرانے کی ہمسائی تھیں ان کی بیٹی کی شادی اچانک طے ہوئی۔ اور چونکہ شادی کے روز ان کی بیٹی کو پٹاپٹی کا غرارہ بہت پسند تھا۔ تو وہ کپڑا امی کو دے گئیں کہ آپ چند روز کے اندر اندر تیار کر کے دے دیں۔ مجھے بچپن میں یاد ہے کہ رات گئے تک امی نے وہ غرارہ تیار کیا اس پر گوٹے کا کام بھی کر کے دیا اور مجھے امّی پربڑا ترس آتا کہ سارا دن گھر کے کام کرتی ہیں، ہم بچوں کو پڑھاتی ہیں اور پھر سلائی کے کام بھی کرتی ہیں لیکن امّی کے ماتھے پر بل تک نہ آیا۔ اسی طرح اَور بہت سے لوگوں کے سلائی وغیرہ اور ٹکائی کے کام امی اور باجی دونوں کے ہی کرنے یاد ہیں۔
ہم پانچوں بچوں کو ہر روزبعدنماز مغرب امی نے قرآن مجید لفظی ترجمے سے پڑھایا۔شرط یہ تھی کہ ہر سپارے کے بعد test ہوا کرے گا اور اس میں الفاظ، معنی، بامحاورہ ترجمہ لکھنے ہوں گے۔میںگیارہ سال کی تھی اور جب بارہ سال کی ہوئی تو قرآن مجید باترجمہ ختم کیا۔ سب سے چھوٹی عمر میں ختم کرنے اور اول آنے پر بھی مجھے ایک گھڑی انعام میں ملی۔
گھر میں اس قدر سلیقہ مندی کے مظاہرے ملتے کہ حیرت ہوتی۔ پرانے اور مستعمل ریشمی جوڑوں سے دلائیاں بنائی جاتیں۔ پرانے اچھے اور گرم کپڑوں سے اچھے اچھے کشن بنائے جاتے۔ اور ایک مرتبہ تو لمبےلمبےچنے ہوئے پرانے دوپٹوں کی گت بنا کر امی نے باجی سے ایک Rugبنوایا تھا۔ امّی یہ اظہار بھی کرتیں کہ اُن کی والدہ یعنی ہماری نانی جان کے گھر کا سلیقہ تو انتہائی درجے پر پہنچا ہوا تھا۔
امی کا عموماً دستور علی الصبح نماز اور تلاوت کے بعد یہی ہوتا کہ تھوڑی دیر سو جاتیں کیونکہ تہجد سے جاگ رہی ہوتی تھیں۔پھر سات بجے ناشتہ تیار کرتیں۔ سب برتن اور کچن وغیرہ صاف کرنے کے بعد گھر کی صفا ئی کرکے نہا دھو کر کپڑے ضرور بدل لیتیں۔ جوڑے چاہے تھوڑے ہوںیا زیادہ امی نے گھر کے کام کاج کے لیے اور رات کو پہننے والے کپڑے علیحدہ ہی رکھے۔گیارہ بجے نہادھو کر چائے ضرور پیتیں اورہمیں بھی اس کی عادت ڈال دی تھی۔اس کے بعد نوافل ادا کرنے، لجنہ کے کام کرنے یا سلائی وغیرہ کے کام شروع ہو جاتے۔ہمارے گھر عموماً ناشتے کے معاً بعد دوپہر کے کھانے کا فیصلہ ہو جاتا اور جو کچھ بھی پکانا ہو چولہے پر چڑھا دیا جاتا۔ اس طرح کرنے سے ذہنی فراغت کا بھی احساس ہوتا ہے۔سوائے اس کے کہ چاول پکانے ہوں تو وہ عین وقت پر فوراًہی پکا لیتیں اور اسی طرح روٹی بھی تازہ،گرم اورمناسب مقدار میں پکانے کی عادی تھیں۔ایک خاص بات جو ہمارے گھر میں ہر معاملے میں دکھائی دیتی وہ وقت کے ضیاع کے بچاؤ کے ساتھ ساتھ اشیاء کو ضائع ہو نے سے بچانا بھی تھا۔ہر وقت یہی آواز کانوں میں امی کی آتی، پانی نہ ضائع کرو، صابن پانی میں گھل رہا ہے۔ بلا وجہ چولہا جلتا نہ رہے۔ یعنی گھرمیںتو ہر وقت یہی سبق سیکھا اور اس کا سب سے اچھا اور عمدہ نتیجہ جماعتی کاموں کے دوران نظر آیا کہ لجنہ کے کاموں میں کاغذاور قلم کا زیاں، جماعتی اشیاء کے ساتھ لاپروائی یا جماعتی چندوں میں بد احتیاطی، یہ سب باتیں ہمارے تصورات سے کوسوں دور ہیں۔
میری شادی کے تقریباً ڈیڑھ دو سال کے بعد کا لکھا ہواایک خط میرے پاس موجود ہے جس میں امی نے مجھے لکھا کہ ’’اگر تم نے کوئی نماز کبھی چھوڑی تو سمجھو کہ اس دن میرا ہارٹ فیل ہو جائے گا۔‘‘ امی کے اس فقرے کو پڑھ کر میں کانپ سی گئی تھی۔ کتنا بڑا خلا ہے جو امی کی جدائی نے ہمیں دیاہے۔اپنی ہر پریشانی، ہر فکر بآسانی امی کو بتا دیتے اور خود ایک طرف ہو کر بیٹھ رہتے تھے۔
………٭………٭………٭………
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں مکرمہ نصرت اسلام صاحبہ اپنے مضمون میں محترمہ سیّدہ بشریٰ بیگم صاحبہ کا ذکرخیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ آپ سے میری پہلی ملاقات گرمیوں کی چھٹیوں میں مسجد دارالذکر لاہور میںہوئی۔ اس وقت میں ایف اے کی طالبہ تھی اور سیالکوٹ میں پڑھتی تھی۔ میری امی جان لاہور کے ایک حلقے کی صدر لجنہ تھیں۔ وہ اپنی ماہانہ میٹنگ پر مجھے بھی ساتھ لے کر گئیں تو ملاقات ہوگئی۔ آپا جان سیّدہ بشریٰ بیگم صاحبہ اس وقت جنرل سیکرٹری کے فرائض سر انجام دے رہی تھیںجبکہ مکرمہ بی بی امۃالعزیزصاحبہ لاہور کی صدر تھیں۔
مجھے آپا جان بشریٰ کی شخصیت بہت پُرکشش لگی،بہت سادہ اور میٹھے لہجے میں بات کرتی تھیں۔ آپ کی رہائش ہمارے گھر سے قریب ہی کیویلری گراؤنڈ لاہور چھاؤنی میں تھی۔ تعلیم سے فارغ ہو کر جب میں لاہور اپنی امی جان کے پاس آگئی تو مجھے سیکرٹری ناصرات الاحمدیہ کے فرائض سونپے گئے۔ اس وقت آپ لاہور کی صدر تھیں۔ پھر توآپ سے ہر ماہ میٹنگ میں ضرورملاقات ہوتی اور کئی دفعہ جماعتی امور کے سلسلے میں آپ کے گھر بھی جانے کا موقع ملتا۔ آپ سردی کے موسم میں اپنے ہاتھوں سے چائے بنا کر لاتیں اور گرمیوں میں مشروب پلاتیں۔ اگر میں کہتی آپا جان میں کام کر لیتی ہوں تو مسکرا کے کہتیں: آرام سے بیٹھو آپ مہمان آئی ہو۔ پھراکثر لان میں بیٹھ کر گھنٹوں جماعتی امور پر باتیں ہوتیں۔ آپ ہر وقت سلسلے کی خدمت کے لیے تیار رہتی تھیں، بہت سادہ طبیعت تھیں، اپنے آپ کو کبھی بڑا نہیں سمجھتی تھیں۔کئی دفعہ جماعتی کاموں کے سلسلے میں ہمارے گھر بھی تشریف لائیں۔
دینی کاموں کے سلسلہ میںکبھی دوسری عورتو ں پر انحصارنہیں کرتی تھیں حالانکہ لاہور کی لجنہ اماءاللہ، خاص طور پر عہدیداران آپ سے بہت عقیدت رکھتی تھیں اورآپ کا ہر حکم ماننے کے لیے تیار رہتیں پھر بھی آپ خود کام کرنے کی کوشش کرتیں۔ آپ بہت دانش مند تھیں۔ اتنے بڑے شہر میں کئی مسائل پیش آجاتے تھے، آپ بڑے پیار اور خوش اسلوبی سے ان کو حل کر لیتیں اور اس سلسلہ میں اپنی عاملہ سے بھی مشورہ کرلیتیں۔
ایک دفعہ نمازوں کے جمع کرنے کا ذکر ہوا توآپ فرمانے لگیں کہ اگر دوسری نماز میں آدھے گھنٹے کا فرق ہو تو نماز ادا کر لینی چاہیے۔ کوشش کیا کرو کہ نماز کو وقت پر ادا کرلو۔ بغیر کسی مجبوری کے نماز جمع نہ کیا کرو۔
آپ نماز ہمیشہ وقت پر ادا کرتیں اور ہر مصروفیت کو چھوڑ دیتیں۔ آپ کی اس خوبی کا ذکر تو ایک دفعہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒنے بھی کیا تھا کہ خاندان میں کوئی شادی کی تقریب تھی سب عورتیں بیٹھی خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔ میں نے دیکھا کہ آپا بشریٰ نظر نہیں آرہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد آپا خاموشی سے آکر عورتوں میں بیٹھ گئیں۔ میں نے پوچھا: آپا جان آپ کہاں گئی تھیں؟ تو کہنے لگیں کہ نماز پڑھنے گئی تھی۔ حضورؒ نے فرمایا کہ آپا جان کی بہت بڑی خوبی تھی کہ نماز کے وقت وہ کسی مجبوری کو آڑے نہیں آنے دیتی تھیں۔
آپ بہت دعا گو، عبادت گزار اور کثرت سے نوافل پڑھنے کی عادی تھیں۔دوسروں کو بھی دعا کے لیے کہتیں۔ اپنی چھوٹی بیٹی بی بی ماریہ صا حبہ کے لیے میری امی جان سے کہا کہ دعا کرو بچی کا رشتہ ہو جائے۔ اُسی دن سے امی جان نے دو نفل پڑھنے شروع کر دیے کہ آپا جان کی خواہش کے مطابق رشتہ ہوجائے۔ ایک مہینہ کے بعد آپا جان لڈو لے کر ہمارے گھر آئیں کہ بی بی کا رشتہ طے پا گیا ہے۔
آپ دوسروں کی عزت نفس کا خیال کرنے والی، تعلقات بنانے والی، احمدیت کی سچی فدائی،خلیفۂ وقت کی ہر آواز پر لبیک کہنے والی تھیں۔ نہایت حلیم الطبع تھیں کسی کی تکلیف سن کر بےچینی سے آبدید ہ ہو جایا کرتی تھیں۔ خصوصاً کسی بچی کے گھریلو حالات خراب ہوتے تو پوری کوشش کرتیں کہ کسی طرح حالات ٹھیک ہو جائیں۔
میں شادی کے دو سال بعد جرمنی آگئی۔ ایک بار جب ہم نے گھر شفٹ کیا تو اپنی امّی کو فون نہ کرسکی۔ خط لکھا جو اُن کو نہ ملا۔ قریباً ایک ماہ امی سے میرا رابطہ نہ ہو سکا اور وہ بہت پریشان ہوئیں۔ آپا جان کے گھر گئیں اور روتے ہوئے بتایا کہ ایک ماہ سے میری بیٹی کا کچھ پتا نہیں چل رہا۔ نہ فون، نہ خط۔ مجھے لگتا ہے میری بیٹی اس دنیا میں نہیں ہے۔ وہ بہت ا حساس کرنے والی ہے، مجھے دوسرے تیسرے دن ضرور فون کرتی تھی، لاپروا نہیں تھی مجھے اس کی طبیعت کا پتا ہے۔ آپا جان نے امی کو گلے لگایا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ تیرے غم کو خوشی میں بدل دے۔ میں دعا کروں گی فکر نہ کرو۔ پھر بہت تسلی دے کر بھیجا۔ امی جان کو گھر آئے چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ اسی دن میرے گھر میں فون لگا اور میں نے سب سے پہلے امّی کو فون کیا۔ وہ میری آواز سن کر رونے لگیں اور بتایا کہ ابھی آپاجان کو دعا کا کہہ کر آئی ہوں اور آکر برقعہ اتارا ہی ہے کہ تمہارا فون آگیا۔ خدا حافظ اب میں آپا جان کو بتائوں۔
آپا جان بہت قناعت پسند تھیں۔ آپ کسی بھی چیز کا ضیاع پسند نہیں کرتی تھیں چاہے کھانے کا ہو، روپے پیسے کا یا وقت کا۔ بہت اصول پرست تھیں۔اپنے کا م اپنے ہاتھوں سے کرنے کی عادی تھیں۔ ۲۲؍ مارچ ۱۹۹۷ء کو دعوت الی اللہ کے سلسلے میں کسی دُور دیہات میں جانے کے لیے تیار ہوئیں۔ لیکن روانہ ہونے سے پہلے ہی اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ جنازے میں بہت بڑی تعداد میں لوگو ںنے شرکت کی۔
………٭………٭………٭………