رضاعت کی بنا پر قائم کیے ہوئے رشتوں کا تقدّس
اسلامی تعلیم کے مطابق ایک ماں کا دودھ پینے والے بچوں کا باہم رضاعت کا رشتہ قائم ہو جاتا ہےجس کی وجہ سے ایسے بچوں اور بچیوں کی آپس میں شادی نہیں ہو سکتی جنہوں نے ایک ماں کا دودھ پیا ہو۔ لہٰذا اگر کسی جگہ ضرورت کے تحت یتیم بچوں کوماں کےدودھ کی سہولت مہیا کی جائے تو اس کا انتظام کرنے والے ادارہ یا حکومت کو بہت زیادہ احتیاط کرنی پڑے گی اور اُس کے لیے لازمی ہو گا کہ وہ اس چیز کا بھی ریکارڈ رکھے کہ کس بچہ کو کس عورت کا دودھ پلایا گیا ہے۔ جو بظاہر ناممکن ہو گا۔
لہٰذا میرے نزدیک تو شریعت اسلامی کی رُو سے اس طرح کے Milk Bank کا اجرا درست نہیں کیونکہ اس سے کئی قسم کے ابہام اور مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اور ویسے بھی اس زمانہ میں اس طرز کے Milk Bank کی ضرورت ہی کیا ہے جبکہ مارکیٹ میں بیسیوں قسم کے Formula Milkدستیاب ہیں۔ اگر کسی ادارہ یا حکومت کو یتیم بچوں کی پرورش کا اتنا ہی احساس ہے تو وہ ایسے بچوں کے لیے اس Formula Milkکی سہولت مہیا کر سکتے ہیں۔
بہرحال میں اس بارے میں مزید تحقیق کروا رہا ہوں لیکن فی الحال تو میرا یہی نظریہ ہے کہ آپ کے خط میں بیان Milk Bank کے اجرا کا طریق اسلامی تعلیم کے مطابق درست نہیں ہے۔
[بعدازاں حضور انور نے اس مسئلہ پر دارالافتاء ربوہ کے ذریعہ تحقیق کروا کر اپنے مکتوب مورخہ 17؍اگست 2022ء میں سوال کرنے والے دوست کو مزید درج ذیل ہدایت سے بھی نوازا۔ حضور انور نے فرمایا:]
میں نے اس معاملہ پر دارالافتاء ربوہ کے ذریعہ تحقیق کروائی ہے۔ اس تحقیق کے مطابق اسلامی تعلیمات کی رُو سے عورتوں کے دودھ کا Milk Bank قائم کرنا اور اس کے ذریعہ بچوں کو دودھ مہیا کرنا درست نہیں، کیونکہ اسلام نے رضاعت کی بنا پر قائم ہونے والے رشتوں کا اس حد تک تقدس قائم فرمایا ہے کہ ان رشتوں کی آپس میں شادی کی اُسی طرح ممانعت فرمائی، جس طرح نسب کی بنا پر محرم رشتوں کی باہم شادی کی ممانعت فرمائی ہے۔جبکہ اس قسم کے Milk Bank سے ملنے والے دودھ کے بارے میں کچھ پتا نہیں چلتا کہ ایک دودھ کے پیکٹ میں کتنی اور کن کن عورتوں کا دودھ ہے۔ اور اگر ان عورتوں کی اس پیکٹ پر تفصیل درج بھی کر دی جائے، تواس دودھ کو پینے والے بچوں کے بے شمار رضاعی بہن بھائی بن جائیں گے، جن کا حساب رکھنا اور ان سے شادی کے معاملہ میں احتیاط برتنا بظاہر ناممکن ہو جائے گا۔
(بنیادی مسائل کے جوابات ۴۵ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۶؍دسمبر ۲۰۲۲ء)