محرّماتِ نکاح
اور پھر حقوق اولاد کے بارہ میں ایک جگہ فرمایا وَالۡوَالِدٰتُ یُرۡضِعۡنَ اَوۡلَادَہُنَّ حَوۡلَیۡنِ کَامِلَیۡنِ لِمَنۡ اَرَادَ اَنۡ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ؕ وَعَلَی الۡمَوۡلُوۡدِ لَہٗ رِزۡقُہُنَّ وَکِسۡوَتُہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ الجزو نمبر ۲ سورۃ البقرۃ (ترجمہ) یعنی ماؤں کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو دو برس کامل تک دودھ پلاویں اگر وہ مدت رضاعت کو پورا کرنا چاہتی ہیں۔ اور اُن کی خوراک پوشاک اس مرد کے ذمہ ہے جس کے وہ بچے ہیں۔
(چشمۂ معرفت،روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ۲۱۱)
حُرِّمَتۡ عَلَیۡکُمۡ اُمَّہٰتُکُمۡ وَبَنٰتُکُمۡ وَاَخَوٰتُکُمۡ وَعَمّٰتُکُمۡ وَخٰلٰتُکُمۡ وَبَنٰتُ الۡاَخِ وَبَنٰتُ الۡاُخۡتِ وَاُمَّہٰتُکُمُ الّٰتِیۡۤ اَرۡضَعۡنَکُمۡ وَاَخَوٰتُکُمۡ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ وَاُمَّہٰتُ نِسَآئِکُمۡ وَرَبَآئِبُکُمُ الّٰتِیۡ فِیۡ حُجُوۡرِکُمۡ مِّنۡ نِّسَآئِکُمُ الّٰتِیۡ دَخَلۡتُمۡ بِہِنَّ ۫ فَاِنۡ لَّمۡ تَکُوۡنُوۡا دَخَلۡتُمۡ بِہِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ ۫ وَحَلَآئِلُ اَبۡنَآئِکُمُ الَّذِیۡنَ مِنۡ اَصۡلَابِکُمۡ ۙ وَاَنۡ تَجۡمَعُوۡا بَیۡنَ الۡاُخۡتَیۡنِ اِلَّا مَا قَدۡ سَلَفَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا۔ … اورجن عورتوں کے ساتھ تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہو تم اُن کے ساتھ نکاح مت کرو اورجو ہوچکا اس پرکچھ مواخذہ نہیں (یعنی جاہلیت کے زمانہ کی خطا معاف کی گئی) اور پھر فرماتا ہے کہ باپ کی منکوحہ عورت کو کرنا یہ بڑی بے حیائی اور غضب کی بات تھی اور بہت ہی بُرادستور تھا تم پر یہ سب رشتے حرام کئے گئے ہیں جیسے تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور دائیاں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا اور دودھ شریک بہنیں اور تمہاری عورتوں کی وہ لڑکیاں جو تمہاری گودوں میں پرورش پائیں اور تمہارے گھروں میں رہیں مگر عورتوں سے وہ عورتیں مراد ہیں جو تم سے ہم بستر ہوچکی ہوں اور اگر تم نے اُن عورتوں سے صحبت داری نہ کی ہو تو اس صورت میں تمہیں نکاح کرنے میں مضائقہ نہیں اور ایسا ہی تمہارے بیٹوں کی بیویاں تم پر حرام ہیں مگر وہ بیٹے جو تمہارے صلبی بیٹے ہیں متبنّٰی نہیں ہیں اور یہ حرام ہے کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح کرو اوردونوں تمہارے نکاح میں ہوں مگر جو پہلے اس سے گذر گیا۔ اُس پرکچھ مواخذہ نہیں بیشک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا مہر بان ہے۔
(چشمۂ معرفت،روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۲۴۹۔۲۵۰)