ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل (جلد کے متعلق نمبر ۹) (قسط ۷۷)
(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل ‘‘کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI)
گائیکم
Guaiacum
جوڑوں پر وجع المفاصل کا اثر ہو تو ناسور اور پھوڑے بھی بننے لگتے ہیں۔(صفحہ417)
گائیکم سل کے ابتدائی مراحل میں بہت مؤثر دوا ہے۔اگر خون میں سلی مادے موجود ہوں اور وجع المفاصل کے ساتھ پھوڑے پھنسیاں نکلنے کا رجحان بھی ہو اور جسم میں درد یں ہوں تو گائیکم بہت مفید دوا ہے۔ گائیکم اینٹی سورک (Antipsoric) دوا بھی ہے یعنی ایسی جلدی امراض میں جو سورائسس (Psoriasis) اور کوڑھ وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیں ان میں مفید ہے۔ سلفر اور سورائینم بھی چوٹی کی اینٹی سورک دوائیں ہیں۔ سلفر کا مزاج گرم ہوتا ہے جبکہ سورائینم کا مریض ٹھنڈا ہوتا ہے۔ لیکن محض سلفر اور سورائینم ’’سورا‘‘کی بیماریوں کی ہر قسم کو ٹھیک نہیں کر سکتیں۔ جب یہ نزلاتی جھلیوں پر حملہ آور ہوں تو بہت سی اور دواؤں کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر یہ ایگزیما کی شکل میں ظاہر ہوں تو اس کی قسموں کے مطابق تلاش کرنی پڑتی ہے۔ اگر ’’سورا‘‘کی وجہ سے کوئی مرض ظاہر ہو اور اس کی دوا بظاہر پہچان لی جائے لیکن تھوڑے سے فائدہ کے بعد شفایابی رک جائے تو اس صورت میں لازماً اونچی طاقت میں کوئی اینٹی سورک دوائیں دینی پڑیں گی۔ اگر براہ راست ان کی علامتیں موجود ہوں تو پھر یہ بھر پور فائدہ دیں گی مگر بسا اوقات ان کی براہ راست علامتیں نہیں ملتیں۔ ایسی صورت میں یہ ’’سورا‘‘کے عمومی تریاق کے طور پر کام آئیں گی اور مرض سے ملتی جلتی دوسری دواؤں کے اثر کو تازہ کر دیں گی۔(صفحہ418)
جلدی بیماریوں کی ایسی بہت سی قسمیں ہیں جو مزاجی دوا طلب کرتی ہیں۔ اگر وہ دوائیں جو غور و خوض کے بعد چنی جائیں فائدہ نہ دیں تو پھر اینٹی سورک دواؤں کی لازماً ضرورت پڑتی ہے۔ وہ بیماری کے مزاج کو نرم کر کے اثر قبول کرنے کے قابل بنا دیتی ہیں۔ ایسی دواؤں میں سلفر اور سورائینم کے علاوہ مرک سال، ٹیوبر کولینم اور سیفلینیم بھی شامل ہیں۔ اسی طرح گائیکم بھی ایک اینٹی سورک دوا ہے۔(صفحہ418،419)
بسا اوقات چھاتی میں کسی چیز کی سرسراہٹ محسوس ہوتی ہے اور جلد سکڑ جاتی ہے اور اس پر چھوٹے چھوٹے دانے نمودار ہو جاتے ہیں۔ (صفحہ420)
ہیلی بورس نائیگر
Helleborus niger
(Snow Rose)
ایک طرف کے بازو اور ٹانگ کی مسلسل خود بخود ہونے والی حرکت میں بھی ہیلی بورس مشہور دوا ہے۔ انگوٹھا مڑ کر ہتھیلی میں دھنس جاتا ہے۔ ایسے مریض کے ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کے درمیان چھالے بھی نکل آتے ہیں۔ یہ ساری علامتیں ہیلی بورس کا فوری تقاضا کرتی ہیں۔ (صفحہ433)
ہیلی بورس کے مریض کی جلد پر پھلپھلی ور میں بھی پائی جاتی ہیں اور نیلگوں داغ بھی ملتے ہیں۔ سر کے بالوں اور ناخنوں کا جھڑنا بھی اس کی علامات کے دائرہ میں ہے۔ (صفحہ433)
ہیپر سلفیورس کلکیریم
Hepar sulphuris calcareum
(Calcium Sulphide)
بعض بچوں میں ناخن کھانے کی عادت ہوتی ہے جس کی وجہ سے ناخنوں کے کناروں پر گوشت اکھڑ نے لگتا ہے اور بےچینی پیدا کرتا ہے۔ اگر ذرا بھی ہاتھ لگ جائے تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ بچہ اس گوشت کو چبانے لگتا ہے اور آہستہ آہستہ دانتوں سے نو چتا ہے پھر اس کی یہ عادت پختہ ہو جاتی ہے۔ نیٹرم میور کے علاوہ اس بیماری میں ہیپر سلف بھی مفید ہے۔ بعض دفعہ ناخن میں پیپ پڑ جاتی ہے، پورا ناخن اکھڑ جاتا ہے پھر نیا آجاتا ہے۔ اس کی اولین دوا ہیپر سلف ہے۔ اگر ناخن میں سیاہی اور خطر ناک گہرا رنگ نمایاں ہو جائے اور ناخن کی شکل بگڑنے لگے تو اس میں سب سے پہلے سورائینم دینی چاہیے۔ اگر آرام نہ آئے تو دوسری دواؤں کے بارے میں سوچیں۔ اینٹی مونیم کروڈ میں بھی ناخنوں کی خرابی ایک نمایاں علامت ہے۔ مسے پھٹ جائیں اور ان سے خون بہنے لگے تو ہیپرسلف مفید ہے۔ اگر ان میں لائنیں سی پڑ جائیں جو بد شکل اور گوبھی کے پھول کی طرح ہوں تو اس کے لیے نائٹرک ایسڈ بہترین دوا ہے۔ ہیپر سلف کے بچے نہلانے دھلانے کے باوجود صاف نظر نہیں آتے۔ ان کی جلد میلی میلی سی دکھائی دیتی ہے۔ ہیپر سلف کے استعمال سے جلد صاف ستھری ہو جاتی ہے اور چہرے پر نظر آنے والی میل ختم ہو جاتی ہے۔ (صفحہ438،439)
ہیپرسلف جلد پر ظاہر ہونے والے ہر قسم کے زخموں کے لیے مفید ہے۔ زخموں سےپیپ اور خون بہتا ہو اور وہ متعفن ہو جائیں اور ان کے گرد دانے سے بن جائیں، نہ پکنے والے پھوڑے اور وہ زخم جو مشکل سے مندمل ہوں، سب ہیپر سلف کے دائرے میں آتے ہیں۔ لیکن ہیپرسلف اور نائٹرک ایسڈ دونوں اس لحاظ سے ہم مزاج ہیں کہ ان میں چھوٹے چھوٹے زخم علیحدہ علیحدہ بھی پائے جاتے ہیں اور گچھوں کی صورت میں بھی جو ایک طرف سے شروع ہو کر پھیلنے لگتے ہیں۔ یہ دونوں دوائیں انتڑیوں کے السر میں بھی مفید ہو سکتی ہیں۔ مرکری بھی انتڑیوں کے اس قسم کے زخموں میں ان دونوں دواؤں سے مشابہ ہے۔ ہیپر سلف پرانے مسوں میں جو ٹھیک نہ ہوں مفید ہے۔ جلد پر خارش ہوتی ہے اور جسم پر دانے بن جاتے ہیں۔ جلد پر چھلکے اور کھرنڈ بننے لگتے ہیں جو اکثر ایگزیموں میں ملتے ہیں۔ اگر یہ کھرنڈ کان کے پیچھے اور گلے کے ارد گرد ہوں اور ان سے گوند کی طرح کا چپکنے والا موادر سنے لگے تو گریفائٹس سے آرام آتا ہے۔ اس قسم کے کھرنڈ جو کسی دوا سے ٹھیک نہ ہوں ان میں ہیپر سلف کو آزمانا نہ بھولیں۔ (صفحہ441)
ہورا برازیل
Hura braziliensis
یہ دوا کوڑھ یعنی جذام میں اس وقت کام آتی ہے جب یہ احساس ہو کہ جلد بہت موٹی ہو گئی ہے اور سکڑ گئی ہے۔ لہٰذا یہ لیوپس میں بھی مفید ہے۔ ہورا میں جلد پر تناؤ آ جاتا ہے اور وہ کھنچی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ ہورا اور ہائیڈ روکو ٹائل کے علاوہ میڈ ورا (Madura)بھی جذام اور لیوپس کی قسم کی بیماریوں میں کام آنے والی دوا ہے۔ ہو را میں انگلیوں کے نیچے پھانس ہونے کا احساس محض بیماری کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے ورنہ حقیقتاً وہاں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اس میں ہڈی کے ابھاروں پر خارش ہوتی ہے۔(صفحہ443)
ہائیڈراسٹس
Hydrastis
(Golden Seal)
ہائیڈ راسٹس نارنگی کے پودے کی جڑ سے تیار کی جانے والی دوا ہے۔ یہ جگر کی بیماریوں میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس کا جلد اور اندرونی جھلیوں سے بھی تعلق ہے۔ اس کی سطحی علامتوں میں جلد کے ناسور بہت نمایاں ہیں۔ اگر یہ بڑھ کر کینسر کی شکل اختیار کر لیں اور کوئی دوا اثر نہ کرے تو اس میں ہائیڈ راسٹس کو فراموش نہ کریں کیونکہ اللہ کے فضل سے اس سے ایسے خطرناک اور بڑھنے والے ناسور بھی قابو آ جاتے ہیں۔ کینسر کے گہرے پھوڑوں اور آنکھ کے ناسوروں میں ہائیڈراسٹس بہت اچھا کام کرتی ہے۔ ایسے ناسوروں کے مقامی علاج کے طور پر بہترین دوا خالص شہد ہے۔ روزانہ دو تین بار خالص شہد کی سلائی لگائی جائے تو پہلے کچھ عرصہ تک بہت پانی نکلتا رہتا ہے پھر ناسور مندمل ہونے لگتے ہیں۔ نئی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ کینسر کے ایسے زخم جو کسی اور دوا کا اثر قبول نہیں کر رہے تھے شہد لگانے سے ٹھیک ہو گئے۔(صفحہ447)
پیشانی پر بالوں کے ساتھ ساتھ ایگزیما ایک لائن کی شکل میں ابھرتا ہے۔(صفحہ449)
ہائیڈراسٹس چیچک میں بھی مفید دوا ہے۔ یہ علامات کو نرم کردیتی ہے، مرض کی مدت میں کمی کرتی ہے اور بعد میں پیدا ہونے والے بد اثرات کو بھی کم کرتی ہے۔(صفحہ449)
ہائیڈرو کو ٹائل
Hydrocotyle
ہائیڈ رو کوٹائل ایک ایسی دوا ہے جو کوڑھ کے لیے بہت مؤثر ہے اور بہت سی دوسری جلدی بیماریاں بھی اس سے ٹھیک ہو جاتی ہیں۔ کوڑھ ایک ایسا مرض ہے جو آہستہ آہستہ بڑھتا ہے۔ یہ فوری لگنے والا مرض نہیں ہے بلکہ خون میں اس کا مادہ آہستہ آہستہ نشو و نما پاتا ہے اور کسی کوڑھی کے ساتھ بہت لمبے عرصہ تک مسلسل لمس کرتے رہنے کے نتیجہ میں یہ منتقل بھی ہو سکتا ہے۔ اگر جلد پر کوڑھ کے ابتدائی آثار ظاہر ہونے لگیں تو فوراً ہائیڈ روکوٹائل دینی چاہیے ورنہ آخر کار جب کوڑھ میں جابجا زخم اور ناسور بن گئے ہوں تو پھر یہ کام نہیں آتی۔ میں نے کئی مریضوں میں ہائیڈروکوٹائل استعمال کی ہے۔ خدا کے فضل سے ہمیشہ ہی اسے بہت مفید پایا ہے۔ بعض دفعہ تو مکمل شفا ہو گئی اور بعض دفعہ بیماری بالکل معمولی رہ گئی۔ (صفحہ451)
کوڑھ کے علاوہ لیوپس (Lupus)بھی ایک ایسی جلدی بیماری ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لا علاج ہے۔ یہ کئی قسم کی شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ آبلہ دار دانے، زخم اور خارش کے علاوہ اس میں جلد کھنچ کر سکڑنے لگتی ہے اور بہت تکلیف ہوتی ہے۔ ہائیڈ روکو ٹائل اس مرض میں بھی بہت مفید ہے۔ عمومی خارش جو بغیر کسی جلدی ابھار، دانوں یا زخم کے ہو اس کے لیے بھی ہائیڈ روکو ٹائل کو فائدہ مند پایا گیا ہے۔ اسی طرح ایک اور دوا ڈولی کوس (Dolichos)بھی خشک ضدی خارش میں بہت مفید ہے۔ (صفحہ451)
جلد موٹی ہو جائے اور مچھلی کی جلد کی طرح کے چھلکے اترنے لگیں تو یہ سورائسس (Psoriasis)کی علامت ہے۔ اسے کوڑھ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ سورائسس کا علاج ہونا چاہیے جو بہت لمبی توجہ اور گہری دواؤں کے استعمال کا محتاج ہوتا ہے۔ لیوپس (Lupus )کی قسم کی ایک اور جلدی بیماری ہے جس میں سارے جسم پر مچھلی کی طرح چانے بننے لگتے ہیں، اس میں سور ائینم ایک ہزار یا آرسینک ایک ہزار طاقت میں دینی چاہیے۔(صفحہ451،452)
ہائیڈ روکو ٹائل سورائسس میں بھی مفید ہے۔ اگر سورائسس ہاتھوں کی ہتھیلیوں اور پاؤں کے تلووں پر نمایاں ہو تو اس میں بھی ہائیڈروکوٹائل کو استعمال کرنا چاہیے۔ تلووں اور ہتھیلیوں میں سورائسس کے بغیر بھی خارش ہو تو یہ دوا مفید ہے۔ (صفحہ452)
(نوٹ:ان مضامین میں ہو میو پیتھی کے حوالے سے عمومی معلومات دی جاتی ہیں۔قارئین اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر کوئی دوائی لینے سے قبل اپنے معالج سے ضرورمشورہ کرلیں۔)