اِک ماں کا خط۔ بیٹے کے نام !
تیرا خاورِ درخشاں رہے تا ابد فروزاں
تیری صبح نور افشاں کبھی شام تک نہ پہنچے
صحت و سلامتی ہو میرے مولا کی رحمتیں اور برکتیں ہرآن تمہارا حصار کیے رہیں۔
سنو بیٹے ! جب تم اس دار المحن میں آئے۔ تو کسی مبارک وجود نے تمہیں اس دعا سے نوازا تھا کہ ’’خدا تعالیٰ کرے کہ یہ آنے والا وجود آپ کی تمناؤں اور آرزوؤں کی حدوں کو چُھولے اور باعثِ فخردین و دنیا ہو۔‘‘
ذرا اِن الفاظ کی گہرائی پر غور کرنا۔ کہ اس چھوٹے سے فقرہ میں کہنے والے نے سب کچھ سمو دیا ہے۔ مَیں بھی ایسی ہی دعاؤں کے ہار لے کر آئی ہوں کہ صحت و سلامتی کے ساتھ مخلوقِ خدا کے حقوق ادا کرنے کے دائرہ میں ہمہ تن مصروف نظر آؤ۔ ہر گام پہ وہی ہستی تمہاری معین و مددگار ہو۔ کامیابیاں و کامرانیاں تمہارے قدم چومیں۔ (آمین)
اپنے اُن لمحات میں جب فکر وتخیل کی فضائیں اپنی اُونچی اُڑانوں کا مظاہرہ کرتی ہیںاور مجھے ایام پارینہ کے اُس دور میں لے جاتی ہیں جہاں میں نے اپنے مادر و پدر کے زیر سایہ اپنی زندگی کے شب وروز گزار ے۔ انہوں نے زندگی کی حسین صبحوں میں انسانیت کی پاکیزہ شعاعوں میں مجھے نہلایا۔ تاکہ پاک نفس منعکس ہو کر میری رگ و ریشہ میں سرائیت کر جائے۔ اکثر میرے کانوں میں یہ آوازیں پڑتیں کہ زندگی کو خدا تعالیٰ کا ایک عظیم احسان سمجھو۔ اس کی قدر کرو۔ اس کے ہر لمحہ اور ہر دور کو قیمتی سمجھو۔ اورکچھ حاصل کرنے اور دینے کی لگن میں آگے بڑھتے چلے جاؤ۔ کسی لمحے کا ضیاع نہ کرو۔ غلط سوچوں اور پراگندہ خیالات سے اپنے دل و دماغ کو مجروح نہ کرو۔ آج میں سوچتی ہوں۔ اور پہروں ان خیالات میں گھومتی پھرتی ہوں کہ کس قدر مسرور کن وہ لمحات وہ گھڑیاں ہوا کرتی تھیں۔ بابرکت وجودوں کی محفلیںجو روحانیت کا لبادہ اوڑھے تھے۔ جو مجلس عرفان کے میکش تھے۔ وہ زندگی کو ایک متاع عزیز گردانتے۔ ہر صبح خیر و برکت لےکر آتی۔ ہر شام صحت و سلامتی کا پیغام دیتی۔ دل کی دھڑکنیں معمول کے مطابق اپنا سفر طے کرتیں۔ نہ کسی چیز کی فکر نہ فاقہ۔ راضی بارضا کہ آج کا دن الحمدللہ اُس ہستی برتر نے خیر کا گزار دیا۔ کل کا بھی وہ خود ہی معین و مددگار ہوگا۔ تفکرات و پریشانیوں کواپنے ساتھ چمٹا نہ لیتے۔بلکہ خدا تعالیٰ کی ذات پر توکّل اور بھروسہ رکھتے۔ہر فکر و رنج پر کہتےیہ دنیا ہے۔ یہ چیزیں تو ساتھ ساتھ ہیں۔ آج اندھیرا ہے تو کل وہ ہستی روشنی بھی عطا کرے گی۔ ان کے چہرے صاف اور ترو تازہ خون سے چمک دمک رہے ہوتے تھے۔ ہر حال میں خوش و خرم ،مطمئن اور پُر سکون نظر آتے۔ زندگی کے ہر دن کو قیمتی سمجھتے کہ یہ جا کر دوبارہ نہیں آئے گا۔ جو گھڑی بیت جائے گی وہ پلٹ کر نہ آئے گی۔ ہر ایک اپنا پرایا سب کی بھلائی اور بہتری کا سوچتے۔ان کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے۔ کسی کے کام آنے اور کرنے کو اپنا قیمتی سرمایہ سمجھتے۔ اپنے دل میں ہر فرد بشر کے لیے ایسی لَو اور چنگاری جلاتے کہ ہر ایک اُن کے گھر کھنچا چلا آتا۔ گھر آنے والا اپنی ہر سانس کو پُر سکون پاتا۔ کیونکہ روزی رساں تو وہ ذات ہے اور گھر والے یہ کہتے کہ یہ روزی رزق تجھے لایا ہے۔ جب تک تیرا دانہ پانی رہے گا، تو رہے گا۔ یعنی اس قدر وہ خدا تعالیٰ کے قریب ہوا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ اِیک پتابھی اُس کے حکم کے بغیر نہیں گرتا۔ وہ ہر سانس کو اُس کی عطاسمجھتے۔
پیارے بیٹے ! یہ وہ آوازیں ہیں۔ جو میرے کانوں سے ٹکراتی تھیں۔
تو اور سنو!
ایک بوڑھا یعنی منصب بابا( جو ہمارے گھر میں رہتا اور کام کرتا تھا) اکثر یہ بات کہا کرتا تھا کہ بیگم صاحب ! میں نے کبھی زندگی میں اپنے بچوں کو ’’میرا بچہ‘‘ کہہ کر نہیں پکارا۔ ہم کون ہوئے میرا بچہ کہنے وا لے۔ سب تو اُس اُوپر والی ذات کی عطا ہے۔ اُسی کی دین ہے۔ تو پھر یہ میرا بچہ کیسے ہوا۔میں اُس کے اِس فقرہ پر اکثر غور کرتی کہ یہ بادی النظر میں اَن پڑھ بندہ یہ لفظ صحیح ہی کہتا ہے اور میں غور و فکر کرتی رہی کہ کہیں یہ چیز یہ فقرہ خدا تعالیٰ کی ہستی کو ناگوار ہی نہ ہو۔ کیونکہ کسی چیز سے بہت زیادہ محبت بھی تو اُس ہستی کے درمیان ایک بت بن جایا کرتی ہے۔ وہ پیدا کرنے والا، سب محبتوں کا منبع، سب محبتوں کا محور، سب محبتوں کا سر چشمہ، وہیں سے سب محبتیں جنم لیتی ہیں۔ اِن محبتوں میں وہی عیاں ہوتا ہے۔ وہی در حقیقت نظر آتا ہے کیونکہ وہی تخلیق کرنے والا۔ وہی ہر چیز عطا کرنے والا۔ وہی دل ودماغ کو اچھے خیالات دینے والا ہے۔ یہ تو ہم خود ہیں جو غلط زاویوں سے سوچتے، غلط تصورات کو جنم دیتے، غلط طریق اختیار کرتے، نا ہموار راہوں پہ چل پڑتے ہیں۔ دوسروں کے متعلق فضول قیاس آرائیاں کہ وہ یوں کر ے گا۔ وہ یوں ہوگا۔ اس نے یوں کیا ہوگا۔ حالانکہ اُس کے دل میں کبھی یہ خیال نہ گزرا ہوگا۔
پھر زبان کا غلط طریق سے استعمال کیا جانا اور یہ کہ بےجان اشیاء، جانوروں، موسم، حالات، خیالات، بیماری وغیرہ کو بھی بُرے ناموں سے نوازا جاتا ہے۔ زمانہ کو خراب کہنا ایک عام سی بات ہے حالانکہ ہم لوگ خود خراب ہیں نہ کہ زمانہ۔ ہم خود بگڑ گئے ہیں نہ کہ زمانہ۔ دراصل ہمیں اپنی غلطی اور اپنا جرم دوسروں کے سر ڈالنے کی عادت ہے۔ خود کو بَری کروانے کے لیے ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ہمیں احساس تک نہیں ہوتا کہ ہمارے منہ سے نکلنے والے اِن چند الفاظ سے دوسرے کا دل کس قدر دکھا ہوگا۔
پیارے بیٹے! میں بات کر رہی تھی منصب بابا کی۔ تو جب میں نے اُس کی بات پر غور کرنا شروع کیا۔ قرآن کریم کی روشنی میں یہ جاننے کی کوشش کی۔ تو صاف لفظوں میں خداتعالیٰ نے ارشاد فرمایا جس کا لب لباب کچھ یوں ہےکہ وہ میں ہی ہوں جو ایک بندہ میں طاقت ڈالتا ہوں۔ یعنی تولید کی طاقت۔اور پھر اِک جان بناتا ہوں۔ کیا تجھ میں یہ طاقت ہے۔ پھر تو کیوں کر میرا کہہ کر پکارے۔ اس لیے میں میرا کہنے سے اجتناب کرتی ہوں۔ باقی تو ہر القاب دے دیتی ہوں۔ اِسی طرح اگر کسی کی کوئی حرکت معیوب ہو۔ اس کی کوئی بات ناگوار گزرے۔ تو اول بتانے اور سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں۔ مگر چونکہ یہ دور نصیحت کو اپنانے کا نہیں۔ اس لیے خدا تعالیٰ کے حضور اُس کی بہتری کے لیے دعا کرتی ہوں۔
میں نے جب ماضی کے دریچوں میں جھانکا۔ غور کیا۔ سوچا۔ تو میرے ذہن و قلب مجھے اِس سمت لے گئے کہ عزیزِ مادر ! تم مغل برلاس خاندان کے وہ نورِ نظر ہو۔ جس کی شاخیں اور شجرۂ نسب کی کڑیاں دُور تک ماں اور باپ کی طرف سے مغل برلاس خاندان سے ملتی چلی جاتی ہیں۔ مغل تاریخ عالم میں اپنی خدا داد صلاحیتوں، جواں مردی، اولوالعزمی، شہرت وناموری اور سپہ سالاری میں کسی سے کم نہ تھے۔ حسن و خوبصورتی میں میرے خدا نے اُن کو خوب نوازا تھا۔ موٹی موٹی آنکھیں، ستواں ناک، خوب صورت خدو خال،بلا کی فہم و فراست کے مالک، خدا تعالیٰ کی صناعی اور حسن کے دلدادہ۔ لیکن عیش و عشرت میں پڑ کر انہوں نے اپنی شہرت وسطوت کو زنگ آلود کر دیا۔ مگر پھر بھی اس دنیائے رنگ وبو میں بہت سے وجود ایسے آتے رہے جو اپنا مقام پیدا کر کے جاتے۔ کئی نسلیں چلتی رہیں۔ آتی رہیں، جاتی رہیں۔ پھر بہت عرصہ کے بعد انہی کی نسلوں میں سے کوئی نادر وجود جنم لیتا ہے۔ مامور ِزمانہ اور مہدیٔ دوراں بھی مغل برلاس خاندان میں پیدا ہوئے۔
تو بیٹے ! خاندانی وقار کی پاسداری کرنی ہے۔ تو سنو ! مرزا حسین بیگ جنہوں نے گھدریالہ ضلع گجرات سے تن تنہا احمدیت جیسی نعمت پائی اُن کے پڑ پوتے اور پڑ نواسے ہو۔ مرزا حسین بیگ مرحوم اپنے علاقہ میں سب سے پہلے احمدی ہوئے۔ بہت سی مشکلات سے آپ کو دو چار ہونا پڑا۔ بہت تکلیفیں جھیلیں۔ مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا۔ بڑی کٹھن صعوبتیں اُٹھائیں۔ گھر بار چھوڑا۔ عزیز و اقارب چھوڑے۔ ماں باپ چُھوٹے۔ زمین اور جائیدادیں چھوڑیں۔ مال و دولت کی پروا نہ کی۔ یہ سب کچھ انہوں نے اِس لیے کیا کہ اس نور کے پیچھے زندگی کا صحیح مقصد عیاں تھا۔
اپنی حیثیت کو جانو! پرکھو! بیٹے تم وہ متاع عزیز ہوجس پر ایک عمارت نے استوار ہوناہے۔ تم اِس عمارت میں ایک مضبوط اینٹ کی حیثیت رکھتے ہو۔ تمہارے چلنے، پھرنے، اُٹھنے، بیٹھنے ہر حرکت سے یہ عیاں ہونا چاہیے کہ تم کِس خاندان کے فرد ہو۔ جنہوں نے بہت تکلیفیں جھیل کر یہ چراغ ہمیں تھمایا۔ہم نے اِس نور کو پھیلانا اور عیاں کرنا ہے۔ اپنے کردارو اطوار سے۔ اپنے انگ انگ سے اِس کو ظاہر کرنا ہے۔ اپنے اخلاق و عادات سے اپنے طریق و اسلوب سے اُس کو نمایاں کرنا ہے۔اور یہی چیزیں اور خوبیاں بڑے پن کی دلیل ہوا کرتی ہیں۔ چھوٹی اور کم عقل باتوں کو اپنے ذہن و دماغ میں جگہ نہ دیتا۔ کیونکہ اس سے یہ روشنی دھندلا جاتی ہے۔ اُس کی لَو مدھم پڑ جاتی ہے۔
دیکھو بیٹے !زندگی میں وہ اسلوب وہ طریق اپنا نا جو تمہارے ہونے کا پتا دیں۔ جب سورج نکلتا ہے تو وہ اپنی روشنی اور تمازت سے یہ پتا دیتا ہے کہ میں روشن ہو گیا ہوں۔ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ روشنی ہو گئی ہے۔ انسان اپنے اندر وہ صلاحیتیں پیدا کرلے کہ لوگ خود اس کے گرویدہ ہو جائیں۔
میرا آسمانی آقا کرے کہ تم زندگی میں ترقی کی منازل طے کرتے چلے جاؤ۔ مگر یاد رکھنا کہ ’’شاخِ ثمرات جھکی ہی رہتی ہے۔‘‘ اس بلند و بالا ہستی کے عاجز بندے بن کر رہنا کہ جاہ و حشمت کو ایوانوں میں نہیں دیکھا جاتا۔ پُر سطوت عمارات میں نہیں پایا جاتا بلکہ وہ انسان کے اندر ہوتا ہے ا ُس کی بلندکرداری کے اندر پوشیدہ ہوتا ہے۔
تو کر اِس طرح باغِ ہستی کی سیر
کہ انجام جس سیر کا ہو بخیر
چُن اپنے لیے پھول یا خار تو
کہ نیکی بدی کا ہے مختار تو
اپنے دل ودماغ کو ہر طرح کی اندرونی اور بیرونی آلودگیوں سے پاک رکھ کر اِس جہان فانی کی رنگینی بننا۔ بغض، کینہ، حسد، منافقت، دوسروں کی عیب جوئی کو جگہ نہ دینا۔ بلکہ اُس کی جگہ دوسروں کی فلاح و بہبود کا سوچنا۔ اُن کی بہتری کے لیے ہر منصوبہ اور کام کرنا، خدا تعالیٰ ایک بچہ کی طرح اپنی مخلوق سے پیار کرتا ہے۔ یہ تو ہم خود ہیں جو زندگی کو بھٹکا دیتے ہیں۔ اُس کی قدر نہیں کرتے اور غلط سمت چل پڑتے ہیں۔ اس کی مخلوق کو زک پہنچاتے ہیں۔ اپنی زبان کا غلط طریق سے استعمال کرتے ہیں۔
بیٹے ! اپنے ابو کی طرح عظیم بننا۔ اپنے اسلوب و طریق سے زندگی کے ایسے زاویے متعین کرنا کہ وہ روشنی خود تمہارے وجود کا پتا دے۔
وہ چال چل کہ عمر خوشی سے کٹے تری
وہ کام کر کہ یاد تجھے سب کیا کریں
جس جا پہ ذکر ہو ترا ہو ذکرِ خیر بھی
اور نام تیرا لیں تو ادب سے لیا کریں
پیارے! زندگی کے ہر دور میں،ہر قدم پر، ہر مقام پر اپنے آسمانی آقا سے لَو لگانا۔ ہواؤں میں،فضاؤں میں، غرضیکہ تمہارے ہر سانس میں اُس بلند و بالا ہستی کی خوشبو ہو۔ زندگی کے قرینے اپنانا۔ زندگی کو ایک نعمتِ عظمیٰ جاننا۔ ہر نکھری ہوئی سدھری ہوئی چیز کی طرف بڑھنا تا زندگی میں نکھار آئے۔