اِتّباعِ رسولﷺ- ذاتی اصلاح کا ضامن (حصہ اوّل)
فرمانِ الٰہی: مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰہَ ۚ وَمَنۡ تَوَلّٰی فَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ عَلَیۡہِمۡ حَفِیۡظًا (النساء :81)۔ ترجمہ: جو اِس رسول کی پیروی کرے تو اُس نے اللہ کی پیروی کی اور جو پِھر جائے تو ہم نے تجھے ان پر محافظ بنا کر نہیں بھیجا۔
فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم:حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص (اس وقت تک) مومن نہیں ہو سکتا جب تک مَیں اس کے لیے اس کے اہل و عیال، اس کے مال اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوں۔ (مسلم کتاب الایمان باب وُجُوبِ مَحَبَّةِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ مِنَ الأَهْلِ وَالْوَلَدِ وَالْوَالِدِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ وَإِطْلاَقِ عَدَمِ الإِيمَانِ عَلَى مَنْ لَمْ يُحِبَّهُ هَذِهِ الْمَحَبَّةَ)
اِتّباع کے لغوی معنی
اتباع کے معنی تابعداری،پیروی اور کسی کے نقش قدم پر چلنے کے ہیں اور متبوع کے معنی قائد اور راہنماکے جو آگے چل رہا ہو اور لوگ اس کے پیچھے پیچھے چل رہے ہوں۔گویا اتباع رسولﷺ کا مفہوم ہے ہر معاملے میں آپؐ کو راہنما بنانا اور ہر حال میں آپؐ کے نقش قدم پر چلنا۔
اتباع رسولؐ کی اہمیت
بے شک ہمارے لیے سب سے بہترین ہدایت اور سب سے اعلیٰ درجہ کی تعلیم قرآن مجیدمیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلام میں سنت رسولؐ کی پیروی بھی لازمی قرار دی گئی ہےکیونکہ یہ قرآن کی عملی تفسیر ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ ’’کَانَ خُلُقُہ الْقُرْاٰن‘‘ (مسند امام احمد بن حنبل جلد ۸ صفحہ ۳۰۵ حدیث ۲۵۸۱۶ مسند عائشۃؓ مطبوعہ عالم الکتب العلمیۃ بیروت ۱۹۹۸ء) یعنی آنحضور ﷺ کے تمام اخلاق قرآن کریم ہی کی تعلیمات تھے۔
اس لیے بحیثیت مسلمان اپنی تمام حرکات وسکنات، افعال و اعمال میں سنت رسولﷺ کی پیروی ہم پر لازم ہے کیونکہ آنحضور ﷺ کی سنت مطہرہ قیامت تک آنے والی پوری انسانیت کے لیے کامل نمونہ اور قابل اتباع ہے۔ آپؐ کی زندگی قول و فعل اور تعلیم و عمل کا حسین مرقع ہے۔ ورنہ اچھے سے اچھا فلسفہ اور عمدہ سے عمدہ نظر یہ تو کوئی بھی شخص پیش کر سکتا ہے۔ البتہ جو چیز پیش نہیں کی جاسکتی وہ اس نظریے اور فلسفے کے مطابق عمل ہےکیونکہ عمل کے بغیر ہر نظریہ اور فلسفہ بے کار اور بے معنی ہے۔اسی لیے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَالۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا (الاحزاب:۲۲) یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول میں نیک نمونہ ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتا ہے۔
ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے انفرادی اور اجتماعی زندگی بسر کرنے کے لیے ہمیں تمام شعبہ ہائے زندگی میں آنحضرتﷺ کی پیروی کی ضرورت ہے اورآپؐ پر ایمان لائے بغیر اور دین اسلام کو اختیار کیے بغیر بنی نوع انسان کی نجات ناممکن ہے۔ یہاں صرف اخروی نجات ہی مراد نہیں بلکہ عارضی دنیا کی تلخیوں اور مشکلات سے نجات بھی آپؐ سے وابستگی میں ہے۔ یعنی آپؐ کی اتباع کرنے والے خدا کو پانے کے ساتھ ساتھ دنیا و آخرت میں بھی کامیابی سے ہمکنار ہوں گے۔
اس زمانے میں سیّدنا حضرت مسیح موعودؑ مبعوث ہوئے اور آپؑ کا دعویٰ ہے کہ میں نے جوبھی ثمرات پائے ہیں یہ سب اپنے آقا و مطاع حضرت محمدﷺ کی پیروی کانتیجہ ہے۔
چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں: ’’میں نےمحض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پا یا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے بر گزیدوں کو دی گئی تھی۔ اور میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر میں اپنے سیّدومولیٰ، فخرالانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے راہوں کی پیروی نہ کرتا۔ سو میں نے جو کچھ پا یا اس پیروی سے پایا اور میں اپنے سچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اس نبی ﷺ کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفتِ کاملہ کا حصہ پا سکتا ہے۔‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد۲۲صفحہ ۶۴-۶۵)
آپؑ مزید فرماتے ہیں: ’’قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ (آل عمران: ۳۲)‘‘ اللہ تعالیٰ کے خوش کرنے کا ایک یہی طریق ہے کہ آنحضرت ﷺ کی سچی فرمانبرداری کی جاوے۔‘‘(ملفوظات جلد ۵صفحہ ۴۴۰، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
آپؑ آنحضرتﷺ کےسچے متبع اور کامل پیرو بن کر اُن مراتبِ عالیہ اور مقام پرفائزہوئے جس میں آپؑ کا اپنا وجود اپنا نہ رہا بلکہ رہبرِکامل ﷺ کے وجود میں فنا ہوگیا۔ حتیٰ کہ آپؑ پر یہ مثال صادق آگئی:
من توشدم تو من شدی،من تن شدم تو جاں شدی
تاکس نہ گوید بعدازیں،من دیگرم تو دیگری
اِباع رسولؐ لازم اوراحکام الٰہی کے عین مطابق ہے
صرف یہی ثبوت کافی نہیں کہ اللہ تعا لیٰ نے آپؐ کی ذات مبارکہ کو ہمارے لیے اسوہٴ حسنہ قرار دے کر فرمایاکہ رسولﷺ کا ہر قول اور فعل وعمل قابل تقلید اور قابل پیروی ہے اور اتباع نبویؐ میں ہی ہر قسم کی دینی و دنیوی اور اخروی فلاح اور کامیابی ہے بلکہ ہمیں یہ حکم بھی دیا کہ مَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا (الحشر:۸) یعنی رسول جو کچھ تم کو دے اس کو لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔
نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے طریق مبارک سے ہٹ کر کوئی اَور طریق نہ اپناؤ اور نہ ہی آپؐ کی سنت مطہرہ سے سرِمو انحراف کرو جیساکہ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یٰٓاَ یُّھَا الَّذِ یْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّ مُوْا بَیْنَ یَدَ یِ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ ا تَّقُوا اللّٰہَ (الحجرات:۲) یعنی اے مومنو! اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پیش قدمی نہ کیا کرو، اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ اس آیت میں مومنین کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کے بالمقابل کسی قول و فعل میں پیش قدمی نہ کیا کریں۔
اور ایک دوسرے مقام پر فرمایاکہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَلَا تُبۡطِلُوۡۤا اَعۡمَالَکُمۡ (محمد:۳۴) یعنی اے مومنو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرواور اپنے اعمال کو باطل نہ کرو۔یعنی اگر رسول اللہﷺ کی اطاعت نہ کی تو تمہارے اعمال باطل ہو جائیں گے، اور اللہ تعا لیٰ کے نزدیک ان کی کوئی وقعت باقی نہیں رہے گی۔ اس لیے کسی نیک کام کی نیت خواہ کچھ ہی ہو جب تک وہ عمل اللہ اور اس کے رسولؐ کی اتباع میں نہ ہو اس کی کوئی وقعت نہیں۔ اس تمام بحث کا ماحصل یہی ہے کہ رسول اللہﷺ کی پیروی تمام اعمال و افعال(سنت مطہرہ) میں نہ صر ف لازمی بلکہ اعمال کے اللہ کے حضور مقبول ہونے کے لیے بھی ضروری ہیں۔ (باقی آئندہ)