ذرّہ ذرّہ میں نشاں ملتا ہے اس دلدار کا (منظوم کلام حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
ذرّہ ذرّہ میں نشاں ملتا ہے اس دلدار کا
اس سے بڑھ کر کیا ذریعہ چاہیے اظہار کا
فلسفی ہے فلسفہ سے رازِ قدرت ڈھونڈتا
عاشقِ صادق ہے جویاں یار کےدیدار کا
عقل پر کیا طالب ِ دنیا کی ہیں پردے پڑے
ہے عمارت پر فدا منکر مگر معمار کا
تیری رہ میں موت سے بڑھ کر نہیں عزت کوئی
دار پر سے ہے گزرتا راہ تیرے دار کا
غیر کیوں آگاہ ہو رازِ محبت سے مرے
دشمنوں کو کیا پتا ہو میرے تیرے پیارکا
ڈھونڈتا پھرتا ہے کوناکونامیں گھر گھر میں کیوں
اس طرف میں پتا دوں تجھ کو تیرے یار کا
اے خدا کردے منور سینہ و دل کو مرے
سرسے پا تک میں بنوں مخزن ترے انوار کا
سیر کروا دے مجھے تُو عالمِ لاہوت کی
کھول دے تو باب مجھ پر روح کے اسرار کا
قید و بندِ حرص میں گردن پھنسائی آپ نے
اس حماقت پر ہے دعویٰ فاعلِ مختار کا
رشتۂ الفت میں باندھے جارہے ہیں آج لوگ
توڑ بھی کیا فائدہ ہے اس ترے زُنّار کا
فلسفہ بھی ، رازِ قدرت بھی ، رموزِ عشق بھی
کیا نرالا ڈھنگ ہے پیارے تری گفتار کا
بن رہی ہے آسماں پر ایک پوشاکِ جدید
تانا بانا ٹوٹنے والا ہے اب کفار کا
ان کے ہاتھوں سے تو جامِ زہر بھی تریاق ہے
وہ پلائیں گر تو پھر زَہرہ کسے انکار کا
چُھٹ گیا ہاتھوں سے میرے دامنِ صبر وشکیب
چل گیا دل پر مرے جادو تری رفتار کا
(کلام محمودمع فرہنگ صفحہ 246)