جلسہ سالانہ برطانیہ اور ہماری ذمہ داریاں (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۲۱؍جولائی ۲۰۱۷ء)
جلسہ کے مہمانوں میں علاوہ احمدیوں کے جو جلسہ کی برکات سے فیض یاب ہونے کے لئے آتے ہیں اب برطانیہ کے علاوہ بعض دوسرے ممالک سے غیر از جماعت اور غیر مسلم مہمان بھی تشریف لاتے ہیں جن میں بعض ممالک کے حکومتی نمائندے یا سرکاری افسر یا پڑھا لکھا طبقہ جو صاحبِ اثر و رسوخ ہے وہ شامل ہوتا ہے۔ اسی طرح پریس اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی تعدادمیں بھی اب اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے۔ اور یہ سب آنے والے جو غیر ہیں یہ بڑی گہری نظر سے ہماری ہر چیز دیکھتے ہیں اور عموماً متأثر ہوتے ہیں اور خاص طور پر جب ہمارے نظام کو دیکھتے ہیں جو تمام رضاکارانہ نظام ہے تو یہ چیز پھر تبلیغ کے مزید راستے کھولتی ہے، مزید تعارف ہوتا ہے، مزید احمدیت کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس ان دنوں میں ہمارے کام کرنے والے والنٹیئرز مرد عورتیں، لڑکے لڑکیاں، بچے ایک خاموش تبلیغ کر رہے ہوتے ہیں اور پریس کے ذریعہ احمدیت کا تعارف دنیا کے طول و عرض میں بڑے وسیع پیمانے پر پھیلتا ہے۔ اب جبکہ پریس کی توجہ عام دنوں میں بھی بعض اوقات بعض واقعات کی وجہ سے جماعت کی طرف ہو رہی ہے مثلاً یہاں یورپ میں بعض دہشتگردی کے واقعات کے بعد جماعت کے افرادنے جن میں عورتیں بھی شامل تھیں، مرد بھی شامل تھے، جنہوں نے ان واقعات کے بعد اسلام کا صحیح پیغام دنیا کو دینے کی کوشش کی اور ہمارے پریس سیکشن نے بھی اس میں بڑا کردار ادا کیا، ہمارے مربیان کے بھی بڑے انٹرویو آتے رہے۔ جماعت کو اسلام کی امن پسند تعلیم کے حوالے سے دنیا کی پریس نے دنیا میں وسیع پیمانے پر متعارف کروایا ہے۔ جوں جوں یہ واقعات بڑھ رہے ہیں جماعت کا تعارف بھی مزید بڑھ رہا ہے۔ تو بہرحال جلسہ کے دنوں میں بھی اللہ تعالیٰ اس ذریعہ سے یعنی جلسہ کے ذریعہ اسلام کا تعارف کروانے کے وسیع سامان مہیا فرما رہا ہے۔
جلسہ کے پروگراموں تقریروں وغیرہ کے ذریعہ جہاں احمدی روحانیت میں ترقی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیکھنے کے لئے آتے ہیں وہاں غیر از جماعت مہمان اور پریس علمی اور اعتقادی لحاظ سے ہماری تعلیم کو سننے کے ساتھ ساتھ عمومی طور پر جلسہ کے ماحول اور احمدی عورتوں مردوں کی رضاکارانہ خدمت اور مہمان نوازی کے جذبے سے انہیں کام کرتا ہوا دیکھ کر اسلام کی خوبصورت تعلیم کا عملی مشاہدہ بھی کر لیتے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ بہت بڑا تبلیغ کا ذریعہ ہے۔ پس رضاکار کارکنان کا ایک بہت بڑا کردار ہے اور کارکنان جہاں اور جس پوزیشن میں بھی کام کر رہے ہیں ان کی ایک اپنی اہمیت ہے اور اس اہمیت کو ایک عام معاون کارکن سے لے کر افسر تک ہر ایک کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ ایک عام معاون کارکن چاہے وہ چھوٹا سا پانی پلانے والا بچہ ہی ہو اس کا رویّہ اور ایک لگن سے بے نفس ہو کر کام کرنا جہاں اسے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حاصل کرنے والا بنا رہا ہوتا ہے وہاں غیروں کو بھی متأثر کر رہا ہوتا ہے جس کا جلسہ میں شامل ہونے والے مہمان اظہار بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح معاونین کے علاوہ افسران جو ہیں ان کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ صرف اپنے کارکنان اور معاونین کو ہی خدمت کرنے والا سمجھ کر ان سے کام نہ لیں بلکہ خود بھی عاجزی کے ساتھ ایک معاون اور ایک عام کارکن کی طرح کام کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے کارکنوں سے اور دوسرے لوگوں سے بھی مہمانوں سے بھی اپنے رویّے نرم اور تعاون کرنے والے رکھیں۔ چہرے پر عاجزی اور نرمی کے تأثرات نظر آتے ہوں۔ زبان میں نرمی اور اخلاق کے اعلیٰ اظہار کے معیار قائم ہو رہے ہوں۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ مہمان نوازی ایک بہت اہم شعبہ ہے اور مہمان نوازی صرف کھانا کھلانا، پانی پلانا یا زیادہ سے زیادہ رہائش کا انتظام کر دینا ہی نہیں ہے بلکہ جلسہ سالانہ کا ہر شعبہ ہی مہمان نوازی ہے چاہے اسے کوئی بھی نام دیا گیا ہو۔ جلسہ پر جو بھی آتا ہے وہ مہمان ہے اور اس کی ضروریات کا خیال اپنے میسّر وسائل کے ساتھ رکھنا ہر اس شخص کا جو جلسہ سالانہ کی کسی بھی ڈیوٹی پہ متعین ہے ضروری ہے۔ اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے جذبات کا ایک جگہ اظہار فرمایا جو ہمارے لئے اصولی لائحہ عمل ہے۔ آپ علیہ السلام نے ایک موقع پر فرمایا کہ ’’میرا ہمیشہ خیال رہتا ہے کہ کسی مہمان کو تکلیف نہ ہو بلکہ اس کے لئے ہمیشہ تاکید کرتا رہتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے مہمانوں کو آرام دیا جاوے‘‘۔ فرمایا کہ’’مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک ہوتا ہے اور ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 5صفحہ 406۔ ایڈیشن 1984ء)
پس اس بات کو ہمیں یاد رکھنا چاہئے اور اگر بعض دفعہ کوئی ایسے حالات پیدا ہوں تو اپنی طبیعتوں پر جبر کر کے بھی ہمیں مہمان کو آرام اور سہولت پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے اور ہر شعبہ کے افسران سے میں کہوں گا کہ اگر ان کا رویّہ نرم ہے، ان کے اخلاق اچھے ہیں، ان میں صبر کا مادہ ہے، ان میں نامناسب بات سننے کا بھی حوصلہ بڑھا ہوا ہے تو ان کے نائبین اور معاونین بھی ایسے ہی رویّے مہمانوں کے ساتھ دکھائیں گے، ان کا اظہار کریں گے اور مہمان نوازی کے عمدہ نمونے قائم کریں گے۔ لیکن اگر افسران کے چہروں پر سختی، باتوں میں کرختگی اور بات کو غور سے نہ سننے اور برداشت نہ کرنے کی عادت ہے تو ان کے نائبین بھی اور معاونین بھی ویسے ہی رویّے دکھانے والے ہوں گے۔ پس مہمان نوازی کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کے لئے ہر شعبہ کے افسران اپنی حالت کا جائزہ لیتے رہیں اور عاجزی اور انکساری کو انتہا تک پہنچانے کی کوشش کریں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ایک دو شعبے ہی مہمان نوازی کے تحت نہیں آتے بلکہ جلسہ سالانہ کا ہر شعبہ ہی مہمان نوازی کا شعبہ ہے۔ چاہے وہ رہائش کا شعبہ ہے یا کھانے پکانے کا شعبہ ہے یا کھانا کھلانے کا انتظام ہے یا ٹرانسپورٹ کا انتظام ہے یا صفائی اور غسل خانوں کا انتظام ہے یا ڈاکٹر اور پیرامیڈیکس پر مشتمل صحت کی نظامت ہے یا راستوں کی رہنمائی کرنے والے خدام ڈیوٹی پر یا دوسرے لوگ یا سیکیورٹی کا شعبہ ہے اور اس کے علاوہ دوسرے شعبے، ہر ایک اپنے اپنے دائرے میں میزبان ہے۔
رہائش کے انتظام والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اجتماعی قیامگاہوں میں بھی اور خیموں میں بھی عورتوں بچوں کی بیڈنگ وغیرہ کا خاص طور پر خیال رکھیں۔ بیشک آجکل گرمیوں کے دن ہیں لیکن رات کو موسم ایک دم ٹھنڈا بھی ہو سکتا ہے اور حدیقۃ المہدی میں جہاں جلسہ ہونا ہے انشاء اللہ تعالیٰ، لندن کی نسبت ویسے بھی چار پانچ ڈگری ٹمپریچر کم رہتا ہے اس لئے جو لوگ اپنے سونے وغیرہ کا انتظام کر کے آتے ہیں، بعض لوگ اپنے ٹینٹ بھی لے آتے ہیں انہیں اس بات کو سامنے رکھنا چاہئے کہ رات کے لئے بستروں کا باقاعدہ اچھا انتظام ہو۔
گزشتہ سال کا تجربہ یہی ہے کہ بچوں والے بعض دفعہ موسم ٹھنڈا ہونے کی وجہ سے رات کو پریشان ہوتے رہے۔
اسی طرح کھانا کھلانے والے ہیں جن کا براہ راست مہمانوں سے واسطہ ہے انہیں مَیں ہمیشہ یاددہانی کرواتا ہوں کہ کھانا دیتے ہوئے پلیٹ میں ڈالتے ہوئے مہمان کی پسند کو بھی دیکھ لیا کریں گو اس میں کافی دقّت اور مشکل پیش آتی ہے لیکن بہرحال کوشش کریں جس حد تک دیکھ سکتے ہیں دیکھیں اور اگر کوئی مجبوری ہو تو پھر بجائے سختی سے جواب دینے کے احسن رنگ میں اس کو جواب دیں، جس سے دوسرے کے جذبات کو تکلیف نہ ہو۔
… امیر غریب کی یکساں مہمان نوازی ہونی چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہماری رہنمائی کے لئے بعض چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف بھی رہنمائی فرمائی ہے اور بڑی باریکی سے مہمان نوازی کے طریق سمجھائے ہیں۔ چنانچہ ایک موقع پر فرمایا کہ’’جو نئے ناواقف آدمی ہیں‘‘ یعنی آنے والے مہمان جو پوری طرح واقفیت نہیں رکھتے، یہاں بھی کئی نئے مہمان دوسرے ملکوں سے آتے ہیں فرمایا کہ’’تویہ ہمارا حق ہے کہ ان کی ہر ایک ضرورت کو مدّنظر رکھیں‘‘۔ فرمایا کہ’’بعض وقت کسی کو بیت الخلا کا ہی پتہ نہیں ہوتا تو اسے سخت تکلیف ہوتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ مہمانوں کی ضروریات کا بڑا خیال رکھا جاوے۔‘‘ آپ نے فرمایا کہ’’جن لوگوں کو ایسے کاموں کے لئے قائمقام کیا ہے (یا مقرر کیا ہے) یہ ان کا فرض ہے کہ کسی قسم کی شکایت نہ ہونے دیں۔ کیونکہ لوگ صدہا اور ہزارہا کوس کا سفر طے کر کے صدق اور اخلاص کے ساتھ تحقیق حق کے واسطے آتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 7صفحہ 220۔ ایڈیشن 1984ء)