میزبان اور مہمانوں کے فرائض
مجھے جلسے کے دنوں میں بھی اور ویسے بھی بعض لنگر خانوں کی شکایات ملتی رہتی ہیں اور جب تحقیق کرو تو اُتنی لاپرواہی مہمان کے بارہ میں نہیں برتی گئی ہوتی جتنا بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ٹھیک ہے مہمان کے جذبات ہوتے ہیں ان کا خیال رکھنا چاہئے۔ لیکن مہمانوں کو بھی اصل حقائق بیان کرنے چاہئیں۔ ربوہ میں تو اب جلسے نہیں ہوتے جب جلسے ہوا کرتے تھے تو اس وقت وہاں بھی شکایات پیدا ہوتی تھیں۔ اب ربوہ میں دارالضیافت جو لنگر خانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہے وہاں ابھی بھی باقاعدہ لنگر چلتا ہے۔ اگر کبھی انتظامیہ سے غلطی ہو جائے تو احمدی مہمان وہاں بھی بہت زیادہ زود رنجی کا اظہار کرتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ اکثر انتظامیہ ان لوگوں سے معذرت بھی کر لیتی ہے۔ اسی طرح مجھے قادیان کے لنگر خانے کی بھی شکایات آ جاتی ہیں اور یہاں خلیفۂ وقت کی موجودگی کی وجہ سے مستقل لنگر چلتا ہے اس لئے یہاں بھی شکایات پیدا ہوتی رہتی ہیں اور خاص طور پر جلسے کے دنوں میں شکایات پیدا ہوتی ہیں۔ باقی دنیا میں عام دنوں میں تو لنگر نہیں چل رہا ہوتا کیونکہ وہاں ابھی لنگر کا اتنا وسیع انتظام نہیں ہے اور نہ لوگوں کا آنا جانا ہوتا ہے۔ لیکن جلسے کے دنوں میں لنگر چلتا ہے۔ وہاں بھی شکایات پیدا ہوتی ہیں۔ تو بہرحال کارکنان کی طرف سے یہ کوتاہیاں جو ہیں وہ ہوتی ہیں جو نہیں ہونی چاہئیں۔ کارکنان کا فرض ہے کہ جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لنگر میں آئے اس کی پوری عزت کی جائے اسے احترام دیا جائے۔ جہاں جہاں مستقل لنگر چلتے ہیں وہاں کے کارکنان کو میں توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہاں کوئی بھی مہمان آئے چاہے وہ وہاں مقامی رہنے والا ہو، ربوہ کا یا قادیان کا، یہاں کے بھی آتے ہیں، ان کے جذبات کا احترام کریں اور کبھی کوئی چبھتی ہوئی بات نہ کریں۔ بہرحال مہمان نوازی کی وجہ سے یہ باتیں مَیں نے عام لنگر خانوں کے بارہ میں بھی ضمناً کہہ دیں۔ لیکن مہمانوں کی طرف دوبارہ لوٹتے ہوئے میں پھر یہی کہوں گا کہ انہیں بھی صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ جلسے کے ان دنوں میں کیونکہ سب والنٹیئرزہیں، مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے ہیں، یونیورسٹیوں، کالجوں کے طلباء ہیں۔ اس ماحول میں رہنے کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کے لئے پیش کرتے ہیں۔ ان کی کمزوریوں سے صَرفِ نظر کریں اور ان کے جذبے کی قدر کریں جس کے تحت انہوں نے اپنے آپ کو خدمت کے لئے پیش کیا ہے۔
جہاں تک غیر از جماعت مہمانوں کا سوال ہے ان کے لئے علیحدہ انتظام ہوتا ہے تاکہ ان کی مہمان نوازی زیادہ بہتر رنگ میں کرنے کی کوشش کی جا سکے۔(خطبہ جمعہ ۲۴؍جولائی ۲۰۰۹ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۴؍اگست ۲۰۰۹ء)