پاکستان کا اسلام
پاکستان کا نام ذہن میں آتے ہی ہمارے خیال میں یہ آتا ہے کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے۔ اسلام کاقلعہ ہے۔ یہاں بسنے والی ستانوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔ یہاں ہر وہ کام ہوتا ہے جو اسلام کی تعلیم کے مطابق ہے۔ لیکن جب اس اسلام سے جو رسول اللہ ﷺ لے کر آئے اور جس اسلام کا ذکر قرآن کریم میں ہے پاکستان کے اسلام کا موازنہ کرتے ہیں تو ہم حیران رہ جاتے ہیں کہ پاکستان کا اسلام اور قرآن کا بتایا ہوا اسلام بالکل مختلف ہیں۔ پاکستان کا اسلام اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کا اسلام دو مخالف چیزیں معلوم ہوتی ہیں۔ ان میں بُعدالمشرقین کی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔
قرآنی تعلیم کے مطابق تو اسلام سراپا دینِ امن ہے۔ سراپا رحمت ہے، سراپا سلامتی ہے۔ اسلام کے معنی ’’سلامتی‘‘کے ہیں۔اسلام بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دیتا ہے،انسان کو مذہبی آزادی دیتا ہے، عورتوں کے حقوق کا ضامن ہے، اسلام کا معاشی نظام سود سے پاک ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب وہ باتیں ہیں جو ہم نے بچپن سے اپنی تعلیمی اور مذہبی کتابوں میں پڑھیں،مسجدوں اور منبروں میں علمائےکرام سے سنیں۔ لیکن کیا واقعی پاکستان میں ایسا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ مذہب کی اصل تصویر اس کے عمل سے پہچانی جاتی ہے۔پاکستان میں آج اسلام کی جو تصویر ہم دیکھ رہے ہیں اس کا کچھ احاطہ اس مضمون میں کرنے کی کوشش کروں گا۔
مذہبی آزاد ی کسی بھی معاشرے کا بنیادی رکن ہے اور اسلامی معاشرہ جو رسول اکرمﷺ نے قائم فرمایا اس میں تمام مذاہب کو مکمل مذہبی آزادی تھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہےکہ لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ(دین میں کسی قسم کا جبر نہیں)۔ اور کسی عہدے کے لیے بھی انسان کی قابلیت دیکھی جاتی تھی نہ کہ اس کا مذہب۔لیکن پاکستان میں حالات اس کے بالکل الٹ ہیں۔پاکستان کے آئین میں ہی یہ فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ کون اپنے آپ کو مسلمان کہنے کا حق رکھتا ہے اور کون نہیں؟ پاکستان کے آئین کے مطابق صدر، وزیر اعظم اور دیگر عہدوں کے لیے ویسا مسلمان ہونا شرط ہے جیسا آئین میں لکھا ہے نہ کہ ویسا جیسا رسول اللہ ﷺ نے بتایا یا قرآن کریم جسے مسلمان قرار دیتا ہے۔ معاشی معاملات کو دیکھنے کے لیے عاطف میاں جیسےعالمی ماہر معاشیات کا نام آتا ہے تو تکفیر کے فتووں کے ساتھ ان کے عقائد ملکی معیشت کو ٹھیک کرنے کے کام میں روک بن جاتےہیں، سائنس کی دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرنے والے احمدی نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر عبد السلام کو ان کے عقیدے کی وجہ سے سائنس کی کتابوں تک سے نکال دیا گیا اور ان کے نام سے سائنس کی کانفرنس تک منعقد نہیں کرنے دی جاتی۔مذہبی شدت پسندی اتنی زیادہ ہے کہ آرمی چیف اور چیف جسٹس آف سپریم کورٹ تک کو اپنے آپ کو ’’مسلمان‘‘ ثابت کرنا پڑجاتا ہے۔
حالیہ عید قربان میں جماعت احمدیہ کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا اس کی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں ملے۔ ہاں ایسی مثال کفار مکہ کی ضرور ملتی ہے جو ایسا سلوک آنحضور ﷺ اور صحابہؓ سے کیا کرتے تھے۔ اور شاید اس کی تازہ مثال ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک سے بھی کسی قدر مشترک ہے۔ پاکستان میں کسی احمدی کے گھر میں قربانی کا دنبہ محلے میں امن عامہ کا مسئلہ ہے تو کسی کے گھر میں تین ماہ کا بکروٹا (جس کی قربانی جائز نہیں) ہمارے لوگوں کا ایمان خراب کررہا ہے تو کہیں چار دیواری میں نماز عید ادا کرنے سے امت مسلمہ میں تشویش پائی جاتی ہے۔کہیں احمدیوں کو عید قربان سے روکنے کے لیے جیلوں میں بند کیا گیا تو کسی کو قربانی کا گوشت فریج میں رکھنے کی پاداش میں جیل بھیج دیا گیا۔ یہ سب اس لیے ہوتا رہا کہ ان لوگوں نے احمدیوں کے دلوں کو چیر کر دیکھ رکھا ہے کہ وہ کس نیت سے اور کیوں قربانی کر رہے ہیں۔ آپ کسی سے بھی پوچھ لیں کہ عید پر قربانی کیوں کی جاتی ہے تو وہ یہی کہے گا کہ یہ ’’سنتِ ابراہیمی‘‘ہے۔ لیکن کب سے ’’سنتِ ابراہیمی‘‘’’سنت ِمسلمانی‘‘بن گئی یہ کسی کو معلوم نہیں۔ کیا یہودی، عیسائی وغیرہ حضرت ابراہیم اور آپ کی قربانی کو نہیں مانتے؟ تو پھر پاکستان کے مسلمانوں کی اس پر اجارہ داری کیسے بنی؟ اس سوال کا صرف ایک جواب ہے اور وہ یہ کہ پاکستان میں نافذ اسلام وہ اسلام نہیں جو رسول اللہﷺ لے کر آئے اور نہ ہی وہ جو قرآن کریم کی تعلیمات کے مطابق ہے۔ بلکہ پاکستان کا سرکاری اسلام وہ اسلام ہے جو پاکستانی ملا ں کا دیا ہوا اسلام ہے جو سیاست کی دکان چمکانے کے لیے سیاست دانوں کا دیا ہوا اسلام ہے۔
اسلام بےشک عورتوں کے حقوق کا ضامن ہے لیکن مملکت خداداد پاکستان میں آج بھی لڑکا پیدا نہ کرنے پر عورت کو طلاق دے دی جاتی ہے، کہیں غیرت کے نام پر ان کو نقصان پہنچانے والوں کو معاشرہ تحفظ فراہم کرتا ہے توکہیں عورتوں کو جائیداد سے محروم کیا جاتا ہے تو کہیں جبری طور پر مسلمان کرکے شادی کی جاتی ہے۔ ہمارے کرکٹرز ہوں، نام نہاد سماجی کارکنان ہوں یا اداکار، عورتوں کے بارے میں نازیبا الفاظ کہتے نہیں تھکتے۔آخر کیسے حقوق ہیں جو اسلام ان کو دے رہا ہے؟
کہا جاتا ہے کہ اسلام کا معاشی نظام سود سے پاک ہے۔ لیکن پاکستان کا معاشی نظام اندرونی اور بیرونی سودی قرضوں کے چنگل میں اس قدر بُری طرح پھنسا ہوا ہے کہ اس سے نکلنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ ناکام معاشی پالیسویں کے باعث ہم اپنے برادر اسلامی ممالک سے بھی بھاری سود پر قرضے لینے پر مجبور ہیں۔
اسلام انصاف کا مذہب ہے لیکن پاکستان میں یہ ایک کھوکھلے نعرے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ پاکستان کے نظام انصاف کی حالت کا صرف اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ ۱۴۰ ممالک میں پاکستان کے نظام انصاف کا نمبر ۱۲۹واں ہے جبکہ گذشتہ سال دسمبر کی رپورٹ میں پاکستان کی کورٹس میں تقریباً ۲.۲ ملین مقدمات زیر التواء(pending) ہیں۔ ہمارے جج اپنے ریمارکس سے ہمیشہ شہ سرخیوں میں رہتے ہیں لیکن عملاً ہزاروں لوگ انصاف کی تلاش میں دنیا سے گزر جاتے ہیں لیکن انصاف نہیں ملتا۔عدالتیں بھی مذہبی نوعیت کے کیسز سننے سے ہچکچاتی ہیں یا پھر انصاف کے خلاف فیصلہ دیتی ہیں تاکہ پاکستانی شدت پسند مسلمانوں سے اپنے جان اور مال کی حفاظت کر سکیں اور کوئی ’’سرکاری مسلمان‘‘کفر کا فتوی لگا کر سر عام قتل نہ کر دے۔
اسلام جس کا نام ہی امن ہے لیکن کئی لاکھ لوگ بم دھماکوں میں مار دیے گئے اور مارنے والے بھی مسلمان اور مرنے والے بھی۔ اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ہمارے کئی علماء نے ان بم دھماکوں کو جائز بھی قرار دیا ہے۔ لیکن اسلام امن کا مذہب ہے۔ کبھی سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کو ناموس رسالت کے نام پر ڈنڈوں اور لاتوں سے مار دیا جاتا ہے تو کبھی سرگودھا، گوجرانوالہ میں مسیحی برادری کے گھروں کو اس ناموس کے نام پر جلا دیا جاتا ہے۔ کبھی ناموس رسالت کے بےبنیاد الزام لگا کر مشال خان کو اس کے ہی ساتھ پڑھنے والے طلبہ مار دیتے ہیں تو کبھی سوات میں ایک سیاح کو توہین مذہب کے نام پر ہی قتل کرکے زندہ جلا دیا جاتا ہے یہ ایک ایسی لمبی فہرست ہے کہ جس کو سوچ کر بھی یہ خیال باطل ہوجاتا ہے کہ پاکستان میں قائم اسلام امن کا مذہب ہے۔
مختلف سرویز اور اعداد و شمار کے مطابق ٹیکس چوری کرنے، جھوٹ بولنے، ناپ تول میں بے ایمانی کرنے، منافع خوری کرنے، غیراخلاقی مواد دیکھنے میں پاکستانی سب سے آگےہیں لیکن ان سب کے باوجود وہ پکے اور خالص مسلمان بھی ہیں۔ اپنے اعمال سے چاہے اسلام اور آنحضور ﷺ کو بدنام کر دیں گےلیکن آپ کی ناموس پر حرف نہ آنے کا دعویٰ کریں گے۔ یہ کیسے لوگ ہیں جو وہ سب کام کرتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے منع کیے ہیں اور اس کے باوجود آپؐ کی ناموس پر حرف نہیں آتا۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک جو اسلام کے نام پر بنا اور دنیا میں اسلام کا نمائندہ ہے۔لیکن کس اسلام کا نمائندہ؟ اس اسلام کا جو رسول اللہ ﷺ لے کر آئے یا اس اسلام کا جو پاکستانی ملاں اور سیاست دانوں کا تراشا ہوا اسلام ہے؟ اس مختصر سی اسلامی پاکستان کی تصویر سے انسان آخر ایک دفعہ سوچتا ضرور ہے کہ کیا واقعی اسلام وہی ہے جو شریعت میں لکھا ہے یا شاید پاکستان کا اسلام ہی مختلف ہے۔علامہ اقبال نے ٹھیک ہی لکھا تھا:
شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود!
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو!