حضرت مصلح موعودؓ کا سفرِدمشق ۱۹۲۴ء
مسیح محمدی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتاب ’’الوصیت‘‘ میں یہ آسمانی حقیقت واضح فرمادی ہے کہ انبیاء سے وابستہ پیشگوئیاں بعض تو نبی کی اپنی زندگی میں پوری ہوتی ہیں اور بعض ان کی وفات کے بعد قدرت ثانیہ یعنی ان کے خلفاء کے ذریعے پوری ہوتی ہیں۔ مسیح موعودؑکے متعلق پیشگوئیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ منارہ دمشق کے قریب نازل ہوگا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی عربی کتاب ’’حمامۃ البشریٰ‘‘ میں اس حدیث نبوی کے متعلق فرماتے ہیں: ’’… ثُمّ یُسافِرُ المسیح الموعود أو خلیفَۃٌ مِّنْ خُلَفائِہٖ اِلیٰ أرْضِ دمشق، فھذا معنی القول الذی جاء فی حدیث مسلم أنّ عیسیٰ ینزل عند منارۃ دمشق، فإِنّ النزیل ھو المسافر الوارد من ملک آخر و فی الحدیث … إِشارۃٌ إِلیٰ أنّہٗ یسیر إِلیٰ مدینۃ دمشق من بعض البلاد المشرقیۃ و ھو ملک الھند۔‘‘ (حمامۃ البشریٰ، روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 225)ترجمہ: پھر مسیح موعود یا اس کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ سرز مین دمشق کا سفر اختیار کرے گا۔ یہ ہے صحیح مسلم کی اس حدیث کا معنی جس میں آیا ہے کہ عیسیٰ دمشق کے منارہ کے قریب نازل ہوگا کیونکہ نزیل ایسے مسافر کو کہتے ہیں جو کسی دوسرے ملک سے آیا ہو اور حدیث میں … اشارہ ہے کہ وہ بعض مشرقی ممالک سے دمشق شہر کی طرف آئے گا اور یہ مشرقی ملک ہندوستان ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ بات حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ذریعے پوری ہوئی جبکہ آپؓ اپنے سفر انگلستان 1924ء کے دوران اپنے رفقاء کے ہمراہ دمشق میں نزیل ہوئے۔ سفر انگلستان کی منصوبہ بندی کرتے وقت ہی حضورؓ نے یہ ارادہ فرما لیا تھا کہ راستہ میں دمشق کا سفر بھی اختیار کیا جائے گا چنانچہ حضورؓ فرماتے ہیں:’’ارادہ ہے کہ رسول کریمﷺ کی اس پیشگوئی کو جو مسیح موعود کے زمانہ کے متعلق ہے اور جس کی تاویل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے یہ فرمائی ہے کہ مسیح موعود یا اس کا کوئی خلیفہ دمشق کو جائے گا، اس سفر میں پورا کرنے کی کوشش کی جائے اور راستہ میں چند دن کے لیے دمشق بھی ٹھہرا جائے۔ گو اس کے لئے اپنے راستہ سے ہٹ کر جانا ہوگا مگر چونکہ ایسے موقعے روز بروز نہیں مل سکتے اس لئے جہاں تک ہو سکے اس سفر سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی ضروری ہے اور سلسلہ کی صداقت کا ایک نشان قائم کرنا تو عین سعادتمندی ہے۔‘‘ (الفضل 24؍جون 1924ء صفحہ 4۔ دورہ یورپ، انوار العلوم جلد 8 صفحہ 381)
اس سفر میں حضورؓ نے مصر، فلسطین، شام اور لبنان کا دورہ فرمایا۔ دمشق میں تشریف آوری سے قبل حضور رضی اللہ عنہ نے مصر اور فلسطین کا دورہ فرمایا اور مورخہ 4؍اگست 1924ء کی صبح کو حیفا سے بذریعہ ٹرین روانہ ہوئے اور اسی شام کو ساڑھے آٹھ بجے کے قریب دمشق پہنچے اور ایک ہفتہ قیام کے بعد 10؍اگست کو دمشق سے روانہ ہوکر بیروت سے ہوتے ہوئے حیفا پہنچے۔ ملک شام کے شہروں میں آپؓ کی آمد کاچرچا ہوگیا تھا جس پر مختلف اخبارات کے نامہ نگار اور ایڈیٹر حضور کے انٹرویو کے لیے حاضر ہوئے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ قیام دمشق کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’جب ہم دمشق میں گئے تو اول تو ٹھہرنے کی جگہ ہی نہ ملتی تھی، مشکل سے انتظام ہوا مگر دو دن تک کسی نے کوئی توجہ نہ کی۔ مَیں بہت گھبرایا اور دعا کی کہ اے اللہ! پیشگوئی جو دمشق کے متعلق ہے کس طرح پوری ہوگی؟ اس کا یہ مطلب تو ہو نہیں سکتا کہ ہم ہاتھ لگا کر واپس چلے جائیں تُو اپنے فضل سے کامیابی عطا فرما۔ جب میں دعا کر کے سویا تو رات کو یہ الفاظ میری زبان پر جاری ہوگئے عَبْدٌ مُکَرَّمٌ یعنی ہمارا بندہ جس کو عزت دی گئی۔ اس سے میں نے سمجھا کہ تبلیغ کا سلسلہ یہاں کھلنے والا ہے چنانچہ دوسرے ہی دن جب اٹھے تو لوگ آنے لگے یہاں تک کہ صبح سے رات کے بارہ بجے تک دو سو سے لے کر بارہ سو تک لوگ ہوٹل کے سامنے کھڑے رہتے۔ اس سے ہوٹل والا ڈر گیا کہ فساد نہ ہو جائے، پولیس بھی آگئی اور پولیس افسر کہنے لگا فساد کا خطرہ ہے۔ میں نے یہ دکھانے کے لیے کہ لوگ فساد کی نیت سے نہیں آئے، مجمع کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ چند ایک نے گالیاں بھی دیں لیکن اکثر نہایت محبت کا اظہار کرتے اور ھَذا اِبْنُ الْمھْدِی کہتے اور سلام کرتے مگر باوجود اس کے پولیس والوں نے کہا کہ اندر بیٹھیں، ہماری ذمہ داری ہے اور اس طرح ہمیں اندر بند کر دیا گیا۔ اس پر ہم نے برٹش قونصل کو فون کیا اور اس نے انتظام کیا … کہ لوگ اجازت لے کر اندر آتے رہے … غرض عجیب رنگ تھا۔ کالجوں کے لڑکے اور پروفیسر آتے، کاپیاں ساتھ لاتے اور جو میں بولتا لکھتے جاتے، اگر کوئی لفظ رہ جاتا تو کہتے یا استاذ ذرا ٹھہریے، یہ لفظ رہ گیا ہے۔ گویا انجیل کا وہ نظارہ تھا جہاں اسے استاد کر کے حضرت مسیح ؑکو مخاطب کرنے کا ذکر ہے۔ اگر کسی مولوی نے خلاف بولنا چاہا تو وہی لوگ اسے ڈانٹ دیتے۔ ایک مولوی آیا جو بڑا بااثر سمجھا جاتا تھا، اس نے ذرا نا واجب باتیں کیں تو تعلیم یافتہ لوگوں نے ڈانٹ دیا اور کہہ دیا کہ ایسی بیہودہ باتیں نہ کرو، ہم تمہاری باتیں سننے کے لئے نہیں آئے اس پر وہ چلا گیا اور رؤسا معذرت کرنے لگے کہ وہ بےوقوف تھا، اس کی کسی بات پر ناراض نہ ہوں۔ یہ ایک غیرمعمولی بات تھی۔ پھر منارۃ البیضاء کا بھی عجیب معاملہ ہوا، ایک مولوی عبدالقادر صاحب حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کے دوست تھے، ان سے میں نے پوچھا کہ وہ منارہ کہاں ہے جس پر تمہارے نزدیک حضرت عیسیٰؑ نے اترنا ہے؟ کہنے لگے مسجد امویہ کا ہے لیکن ایک اور مولوی صاحب نے کہا کہ عیسائیوں کے محلہ میں ہے۔ ایک اور نے کہا حضرت عیسیٰ آکر خود بنائیں گے۔ اب ہمیں حیرت تھی کہ وہ کون سا منارہ ہے؟ دیکھ تو چلیں! صبح کو میں نے ہوٹل میں نماز پڑھائی، اس وقت میں اور ذوالفقار علی خان صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تھے یعنی میرے پیچھے دو مقتدی تھے۔ جب میں نے سلام پھیرا تو دیکھا سامنے منار ہے اور ہمارے اور اس کے درمیان صرف ایک سڑک کا فاصلہ ہے۔ میں نے کہا یہی وہ منار ہے اور ہم اس کے مشرق میں تھے۔ یہی وہ سفید منارہ تھا اور کوئی نہ تھا۔ مسجد امویہ والے منار نیلے سے رنگ کے تھے جب میں نے اس سفید منارہ کو دیکھا اور پیچھے دو ہی مقتدی تھے تو میں نے کہا کہ وہ حدیث بھی پوری ہوگئی۔‘‘(الفضل4؍دسمبر1924ء صفحہ ۷،۶)
دمشق میں علاوہ اور مہمانوں کے بلاد عربیہ کے مشہور ادیب اور عالم الشیخ عبدالقادر المغربی (وفات: 7؍جون 1956ء) بھی ملاقات کے لیے آئے۔ الشیخ عبدالقادر المغربی صاحب پر اس ملاقات کا ایک خاص اثر تھا۔ چنانچہ آپ اس ملاقات کے کوائف کا تذکرہ بعد میں کیا کرتے تھے اور بتاتے تھے کہ ’’اس قافلہ کے اصحاب اور ہیئت تشکیل جاذب نظارہ افکار تھی۔ ان کے لباس، نورانی چہرے، خوبصورت ڈاڑھیاں مجسم اسلامی اخلاق، وقار اور متانت کا نمونہ تھیں اور ان کے قلوب میں …. تبلیغ اسلام کا درد معلوم ہوتا تھا اور اپنے امیر کی اطاعت میں وہ اعلیٰ مقام رکھتے تھے….‘‘ (الفضل 23؍جون 1956ء صفحہ 5) الشیخ المغربی صاحب نے دوران ملاقات کہا کہ ایک جماعت کے امام ہونے کی حیثیت سے ہمیں آپ کا احترام ہے لیکن ہم لوگ عربی النسل ہیں لہٰذا کوئی غیر عربی عالم ہم سے زیادہ قرآن و حدیث کے معنی سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا اس لیے یہ امید نہ رکھیں کہ ان علاقوں میں کوئی شخص آپ کے خیالات سے متاثر ہوگا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ مبلغ تو ہم نے آہستہ آہستہ ساری دنیا میں ہی بھیجنے ہیں مگر اب ہندوستان واپس جاکر پہلا کام یہ کروں گا کہ آپ کے ملک میں مبلغ روانہ کروں گا۔ چنانچہ جب حضورؓ سفر یورپ سے واپس قادیان پہنچے تو حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ اور مولانا جلال الدین شمس صاحبؓ کو شام بھجوایا جو 27؍جون 1925ء کو قادیان سے روانہ ہوئے اور 17؍جولائی 1925ء کو دمشق پہنچے جس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان علاقوں میں احمدیت کی مضبوط اور مخلص شاخیں قائم ہوئیں۔ (سلسلہ احمدیہ جلداوّل از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 368، 369۔ نیو ایڈیشن۔ الفضل 30؍جون 1925ء صفحہ1)
بہرکیف یہ دورۂ دمشق بفضلہ تعالیٰ نہایت ہی کامیاب اور احمدیت کی شاندار تبلیغ کا باعث ہوا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے لندن پہنچ کر بذریعہ تار سفر کے بعض حالات قادیان میں حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کو بھجوائے جس میں بیان فرمایا: ’’دمشق میں توقع سے بہت بڑھ چڑھ کر کامیابی ہوئی (الحمدللہ) علماء ہماری کامیابی کو دیکھ کر خوف زدہ ہوگئے اور یکے بعد دیگرے ہمارے پاس آکر التجاء کی کہ ملک کے سکون میں خلل انداز نہ ہوں کیونکہ عرب لوگ احمدی نہیں ہونے کے۔ اس میں جب علماء نامید ہوگئے تو پھر انہوں نے شرارت کا پہلو اختیار کیا لیکن پریس (اخبارات) کو ہمارے معاملہ میں بہت دلچسپی ہوگئی اور چار روزانہ اخباروں کے نمائندہ ملاقات کو آتے رہے، بعض ملاقاتیں گھنٹوں تک رہیں۔ اخبارات نے لمبے لمبے تعریفی مضامین شائع کیے۔ دمشق کے تعلیم یافتہ طبقہ نے نہایت گہری دلچسپی لی۔ تمام وہ اخبارات جن میں ہمارے مشن کے متعلق خبریں اور مضامین نکلتے تھے، کثرت سے فورًا فروخت ہو جاتے تھے۔ ملانوں نے فساد کرنے اور فتنہ اٹھانے کی کوشش کی مگر نوجوان تعلیم یافتہ طبقےنے ان کو ملامت کی۔ آخری تین روز تک ہمارا ہوٹل ملاقات کرنے والوں کے ہجوم سے ہر وقت بھرا رہتا تھا۔ جو خواہش مندان ملاقات میرے کمرے میں بیٹھنے کے لیے جگہ نہیں پاتے وہ میرے رفقاء کے ارد گرد جمع ہو جاتے تھے۔ آخری دن صبح کے دس بجے سے لے کر رات کے دس بجے تک ہمارے ہوٹل میں دو سو سے لے کر سات سو تک مجمع رہا۔ پولیس اپنے انتظام میں صرف چند شخصوں کو ہوٹل کے اندر باری باری آنےکی اجازت دیتی تھی۔ ہم دمشق سے بہت سویرے روانہ ہوگئے تاہم قریبًا دو سو آدمی دُور دُور سے ہمیں الوداع کہنے کے لیے جمع ہوگئے اور بڑے تپاک سے ہماری مشایعت کی۔ کثرت سے لوگ سٹیشن پر آئے۔ اگر یہاں مشن کھولا جائے تو صدہا آدمی فورًا جماعت میں شامل ہونے کے لیے تیار معلوم ہوتے ہیں۔‘‘(الحکم 7؍ستمبر 1924ء صفحہ 6)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس سفر کے دوران اخباری نمائندوں اور صحافیوں کی آمد اور اخبارات میں احمدیت کے چرچے کا ذکر فرمایا جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ ’’اخبارات نے لمبے لمبے تعریفی مضامین شائع کیے۔‘‘ ذیل میں اس حوالے سے بعض خبروں کا اندراج کیا جا رہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح مخالفین خلافت اور مخالفین احمدیت کے دعووں کے برخلاف اللہ تعالیٰ نے اس سفر کو با برکت بنایا اور اپنے خلیفہ کی تائید و نصرت کرتے ہوئے بلاد عربیہ میں احمدیت کی تبلیغ کے سامان کیے۔ اخبار ’’فلسطین‘‘ نے خبر دیتے ہوئے لکھا: ’’زار دمشق الاستاذ میرزا بشیر الدین محمود أحمد خلیفۃ مسیح الھند فزارہ فی الفندق عدد کبیر من علماء دمشق و أدبائھا و وجھائھا۔ و قد إِتصل بجریدۃ المقتبس أنہٗ طبع نداء وجھہ إِلی الشعب العربی نشر فیہ دعوتہ و المطالبۃ ببیعتہ فضبطتہ الحکومۃ و منعت نشرہ۔ و قد زارہٗ بعض الجھلۃ و أسمعوہ قوارص الکلام فأظھر حلمًا کبیرًا و اجتمع الناس علیہ حتی خربوا بعض أثاث النزل فاضطرت الحکومۃ للتدخل بالأمر۔ و قد سافر إِلیٰ بیروت فی طریقہ إِلیٰ لندن لحضور مؤتمر تحقیق الأدیان۔‘‘ (فلسطین، 15 آب (اگست) 1924ء صفحہ 3۔ مطبعۃ جریدۃ فلسطین)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ مسیح الہند نے دمشق کا دورہ فرمایا اور دمشق کے علماء، ادیبوں اور نامور لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ہوٹل میں آپ سے ملاقات کی۔ آپ نے عرب عوام کے نام ایک اپیل چھاپنے کے لیے اپنے اخبار المقتبس سے رابطہ کیا، جس میں اپنے دعوے اور بیعت کرنے کا مطالبہ شائع کیا، لیکن حکومت نے اسے ضبط کر لیا اور اس کی اشاعت کو روک دیا۔ کچھ جاہل لوگ بھی آپؓ کے پاس آئے اور آپ سے سخت باتیں کیں لیکن آپ نےانتہائی حلم دکھایا۔ کئی لوگ آپ کے گرد جمع ہو گئے یہاں تک کہ ان لوگوں نے ہوٹل کا کچھ سامان خراب کر دیا، چنانچہ حکومت اس معاملے میں مداخلت کرنے پر مجبور ہوئی۔ بعد ازاں آپؓ بین المذاہب ریسرچ کانفرنس لندن میں شرکت کے لیے آگے بیروت کو روانہ ہوگئے۔
اخبار ’’الف با‘‘نے اپنی اشاعت 9؍محرم 1343ھ بمطابق 10؍اگست 1924ء میں ’’مھدی الھند فی دمشق‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا۔ اصل مضمون تو نہیں مل سکا لیکن اس کا ترجمہ حضرت شیخ محمود احمد عرفانی صاحب مبلغ مصر کے قلم سےاخبار الحکم قادیان 21؍ستمبر 1924ء صفحہ 3 پر شائع ہوا۔ حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ، حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ اور حضرت فتح محمد سیال صاحبؓ نے اخبار کے دفتر کو بھی وزٹ کیا جس پر اخبار نے لکھا: ’’… ہم بہت محظوظ ہوگئے اور ہم نے ان میں بہت بڑی غیرت پائی مصلحت اسلامیہ کے لیے۔ پس ہم ان کا خیر مقدم کرتے ہیں بہترین خیر مقدم اور ان کی اچھی اقامت کے خواہش مند ہیں اپنے پاس۔‘‘
اسی طرح دمشق کے اخبار ’’سوریۃ الجدیدۃ‘‘ اور ’’فتی العرب‘‘ نے حضور اور وفد کی خبریں شائع کیں۔ (الحکم ۲۱؍ستمبر ۱۹۲۴ءصفحہ۳) لیکن افسوس کہ مذکورہ اخبارات کے بھی متعلقہ شمارے نہیں مل سکے گو کہ ان کے بعض دیگر شمارے آن لائن موجود ہیں۔
دمشق کے بعد حضورؓ کا قافلہ بیروت میں قیام پذیر ہوا جہاں کے اخبار ’’لسان الحال‘‘ نے خلیفۃ المھدی سرخی کے تحت خبر دیتے ہوئے لکھا: ’’قدم أمس من دمشق السید بشیر الدین أحمد محمود الھندی خلیفۃ المھدی و حاشیتہ المؤلفۃ من 12 شخصًا، بینھم الطبیب و العالم و الصحافی و الترجمان و الواعظ و المرشد، و نزل فی نزل (السنترال) و سیغادر بیروت قریبًا الی لندن لحضور مجمع (تحقیق الادیان) …. و ھناک ینشر بیانًا مسھبًا بالانکلیزیۃ عن مذھبہ و تعالیمہٖ‘‘ (لسان الحال 12 آب (اگست) 1924ء صفحہ 2۔ المطبعۃ الأدبیۃ شارع البوسطۃ بیروت)
ترجمہ: خلیفۃ المہدی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب الھندی اور آپ کے وفد کے بارہ اشخاص جن میں ڈاکٹر، عالم، صحافی، مترجم، مبلغ اور گائیڈ شامل تھے، کل شام دمشق سے تشریف لائے اور سینٹرل ہوٹل (Central Hotel) میں ٹھہرے اور عنقریب وہ بیروت سے لندن روانہ ہوجائیں گے جہاں آپ بین المذاہب ریسرچ کانفرنس میں شرکت کریں گے … اور وہاں اپنے مذہب اور تعلیمات کے متعلق انگریزی زبان میں مفصل بیان شائع کریں گے۔
غرضیکہ اخبارات نےاس دورے کو بھرپور coverage دی اور شام اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں احمدیت کا تعارف ہوا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے انگلستان چلے جانے کے بعد بھی لوگوں میں احمدیت کا چرچا رہا اور وہ مزید معلومات کے خواہاں ہوئے یہاں تک کہ حضورؓ کے اس سفر مبارک کا چرچا امریکہ میں بسنے والے عربوں میں بھی ہوا چنانچہ نیویارک سے چھپنے والے عربی اخبار ’’الھُدیٰ‘‘ نے ’’مسیح الھند فی دمشق‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا اور لکھا کہ یہ مضمون شامی اخبار ’’المقتبس‘‘ میں فتی ظبیان کے قلم سے چھپے مضمون سے اخذ کیا گیا ہے۔ ’’الھُدیٰ‘‘ لکھتا ہے: ’’وافی دمشق خلیفۃ مسیح الھند الشھیر المدعو بالامام مع لفیف من أتباعہ و دعاتہ یناھز فرصۃ وجودھم فی الفیحاء و سارعت لزیارتھم و الاستفسار عن حقائق معتقدھم و مذھبھم الجدید الذی اخذ ینتشر فی الھند و اوربا و امریکا الشمالیۃ انتشارًا ھائلا لم یعھد لہٗ مثیل …… و حادثت امامھم محادثۃ طویلہ استغرقت زھاء ثلاث ساعات و قد دفعنی الواجب لادرج خلاصہ ذالک الحدیث و زبدۃ ما استطعت ان استقیہ من اولئک المبشرین….
و الغایۃ من ھذہ الرحلۃ الطویلۃ ھی الأشراف علی شؤون المسلمین و الاطلاع علی أحوالھم و النظر فی تنظیم الدعوۃ لدینھم الأحمدی و نشرھا فی الأصقاع الاسلامیہ و تالیف جمعیات تبشیریۃ تقوم بتلقین المسلمین و غیرھم حقیقۃ الشریعۃ الغراء و نبذ الخرافات و البدع التی سرت بین ظھرانیھم ……‘‘ (الھُدیٰ، نیویارک 29؍آب (اگست) 1924ء صفحہ 8)
(ترجمہ) ہندوستان میں ظاہر ہونے والےمسیح کے مشہور خلیفہ جسے امام کہا جاتا ہے، اپنے پیروکاروں اور مبلغین کے ایک گروہ کے ساتھ دمشق پہنچے اور الفیحاء (دمشق) میں موجودگی سے لطف اندوز ہوئے اور میں نے جلدی جلدی ان سے ملاقات کی اور حقائق کے بارے میں دریافت کیا۔ ان کا عقیدہ اور نیا نظریہ جو ہندوستان اور یورپ اور شمالی امریکہ میں اس قدر پھیلنا شروع ہو گیا ہے کہ ایسا پھیلنا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا…. اور میں نے ان سے ایک طویل گفتگو کی جو تقریباً تین گھنٹے جاری رہی، اورمیرے فرض نے مجھے اس گفتگو کا خلاصہ اور اس کا خلاصہ جو میں ان مشنریوں سے حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکا، شامل کرنے پر آمادہ کیا۔
اور اس طویل سفر کا مقصد مسلمانوں کے معاملات کی نگرانی کرنا، ان کے حالات کے بارے میں جاننا، احمدی جماعت کی تبلیغ کو منظم کرنے پر غور کرنا، اسے پوری اسلامی دنیا میں پھیلانا، اور مسلمانوں اور دیگر لوگوں میں اِس سچائی کو اجاگر کرنے کے لیے مشنری سوسائٹیوں کو تشکیل دینا ہے اور اُن میں پھیلی ہوئی خرافات اور بدعتوں کا دُور کرنا ہے۔
اسی امریکی اخبار ’’الھُدیٰ‘‘ سے اخذ کر کے حیفا (فلسطین) کے ماہنامہ رسالہ الزھرۃ نے مسیح الھند کے عنوان سے ایک تفصیلی مضمون شائع کیا اور اس میں بعض اضافے کرتے ہوئے لکھا:’’لبضعۃ أشھر خَلت مرّ بالقدس فحیفا میرزا بشیر الدین احمد القادیانی ….. و بمعیتہٖ حاشیۃ مؤلفۃ من 12 أشخاص بینھم بعض کبار علماء ھذہ الدیانۃ فی الھند و ھم قاصدون إِلَی لندن عن طریق دمشق فبیروت لحضور مؤتمر الدیانات الذی فتح جلساتہ فی 22 ایلول الماضی و لوضع الحجر الأول للمعبد المنوی تشییدہ ھناک لھذہ الدیانۃ۔ و قد صرّحوا لِمن قابلھم من أرباب الصحف أن دیانتَھُم ھذہ إِن ھی إِلا طریقۃ من الطرق الإِسلامیۃ و لا تختلف عن السنۃ إِلا ببعض الأمور الطفیفۃ، منھا بأن الوحی الإِلٰھي لَم ینقطع بعد وفاۃ الرسول ولٰکن ذالک لا یحدث تبدیلًا فی القرآن، و من معتقداتھا الإِیمان بِکل ما ورد فی القرآن مِن الأمور و الأحادیث الثابتۃ۔ وأن المسیح لم یَمت عندما صلب بل ضمدت جراحہ خفیۃ و انتقل من فلسطین إِلی الھند حیث بثّ مبادئہ و مات ھناک فی سن 112 و وجد قبرہٗ فی قشمیر (کشمیر۔ ناقل) و لذا یدعی میرزا …. أحمد المسیح الموعود و المھدی المعھود و قد أرسل لھدایۃ المسلمین و إِبطال عقیدۃ التثلیث و القضاء عَلی الوثنیۃ ……
و لما أن مرور ھذا الرجل و أتباعہ بفلسطین و سوریا جعل النّاس یتساءلون عنہ و عَن حقیقۃ تاریخ ھذہ الدیانۃ التی قلما یعرفون عنھا شیئًا رأینا أن نتّحف القرّاء بالمقال التاریخي التالی نأخذہٗ عن الھدی الغراء …..‘‘(الزَھرۃ۔ کانون ثانی/ شباط (جنوری۔ فروری) 1925ء۔ العدد 9-10 السنۃ الرابعۃ۔ صفحہ 512-518۔ مطبعۃ الزھرۃ حیفا)
(ترجمہ) چند ماہ قبل ارض مقدسہ اور حیفا سے میرزا بشیرالدین احمد قادیانی کا گذرہوا اور آپ کی معیت میں 12؍ افراد تھے جن میں سے بعض اس جماعت کے بڑے علماء بھی تھے جو کہ ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا ارادہ براستہ دمشق و بیروت لندن جانے کا ہے جہاں وہ ایک بین المذاہب کانفرنس میں شرکت کریں گے (جس کا آغاز گذشتہ 22؍جولائی کو ہوا) اسی طرح وہاں اپنی جماعت کی طرف سے بنائی جانے والی مسجد کا سنگ بنیاد بھی رکھیں گے۔ اور انہوں نے اپنے ملنے والے اخباری نمائندوں کو بڑی وضاحت سے بتایا کہ ان کی جماعت دین اسلام کا ہی ایک حصہ ہے اور یہ سنت سے بالکل بھی مختلف نہیں سوائے چند امور میں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد وحی الٰہی کا دروازہ بند نہیں ہوگیا (بلکہ جاری ہے) ہاں کوئی ایسی وحی نہیں آسکتی جو قرآن کریم میں تبدیلی کر سکے۔ اور جو باتیں بھی قرآن کریم اور احادیث ثابتہ میں بیان ہوئی ہیں، یہ جماعت ان سب پر مکمل ایمان رکھتی ہے۔ اور یہ کہ مسیح ناصری علیہ السلام کو جب صلیب دی گئی تو آپؑ ہرگز صلیب پر نہیں مرے بلکہ آپؑ کے زخموں کی مرہم پٹی کی گئی اور آپؑ فلسطین سے ارض ہند کی طرف ہجرت کرگئے جہاں آپؑ کی تعلیمات پھیلیں اور وہیں آپؑ کی وفات 112؍ سال کی عمر میں ہوئی اور آپ کی قبر کشمیر میں ہے …. اور یہ کہ مرزا غلام احمد (اخبار نے غلطی سے مرزا بشیر الدین محمود احمد نام لکھا ہے۔ ناقل) مسیح موعود اور امام مہدی کے مدعی ہیں جوکہ مسلمانوں کی ہدایت اور تثلیث کے عقیدے کے ابطال اور بت پرستی کے خاتمہ کے لیے بھیجے گئے ہیں۔
اور اس شخص (مراد حضرت مصلح موعودؓ۔ ناقل) اور اس کے پیروکاروں کے فلسطین اور شام سے گزرنے کی وجہ سے لوگ آپ کے متعلق پوچھنے لگے اور اس جماعت کی تاریخ کی حقیقت کے متعلق بھی کیونکہ بہت تھوڑے ہیں جو اس کے متعلق جانتے ہیں۔ ہم نے مناسب سمجھا کہ ہم اپنے قارئین کو ایک تاریخی مقالے کا تحفہ دیں جو کہ ذیل میں دیا جا رہا ہے اور یہ مؤقر (اخبار) الھدیٰ سے اخذ کیا گیا ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اپنے اسی سفر یورپ کے دوران کہی گئی ایک نظم میں فرماتے ہیں:
اہل پیغام! یہ معلوم ہؤا ہے مجھ کو
بعض احبابِ وفا کیش کی تحریروں سے
آزمائش کے لیے تم نے چنا ہے مجھ کو
پُشت پر ٹوٹ پڑے ہو مِری شمشیروں سے
حق تعالیٰ کی حفاظت میں ہوں مَیں یاد رہے
وہ بچائے گا مجھے سارے خطا گیروں سے
تم مِرے قتل کو نکلے تو ہو پر غور کرو!
شیشے کے ٹکڑوں کو نسبت بھلا کیا ہیروں سے
جن کی تائید میں مولیٰ ہو اُنہیں کس کا ڈر
کبھی صیاد بھی ڈر سکتے ہیں نخچیروں سے
(کلام محمود)