حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

توکّل علی اللہ (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۲۸؍نومبر۲۰۱۴ء)

اگر انسان خدا تعالیٰ پر کامل یقین رکھتا ہو اور یہ بات سمجھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ ہی استمداد کا حق رکھتا ہے، مدد کرتا ہے، مدد دے سکتا ہے تو وہ اس کام کی کامیابی کو بھی خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرے گا جو کسی بیرونی مدد کے ذریعے اس نے تکمیل تک پہنچایا اور اس حقیقت کو بھی جانتا ہو گا کہ رشتہ داروں، دوستوں، نظام، قوم، حکومت یا انسانی ہمدردی کی تنظیمیں جنہوں نے بھی اس کی مدد کی وہ سب مدد بھی اصل میں خداتعالیٰ نے ہی کی تھی۔ اور ان تمام ظاہری مددوں کے پیچھے خدا تعالیٰ کا طاقتور ہاتھ تھا۔ لیکن جو لوگ خدا تعالیٰ سے مضبوط تعلق نہیں رکھتے وہ دنیاوی ذرائع کو سب کچھ سمجھتے رہتے ہیں اور انہی کی طرف ان کی توجہ رہتی ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف نظر نہیں اٹھتی۔ لیکن جب یہ تمام ذرائع ناکام ہو جاتے ہیں پھر خدا تعالیٰ یاد آتا ہے۔ کیونکہ اب خدا تعالیٰ کی یاد آنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ تمام دنیاوی ذرائع جو تھے وہ استعمال ہوگئے۔ تب وہ کہتا ہے کہ یا اللہ! تُو ہی مدد کرے تو یہ کام ہو گا۔ سب طاقتوں کا مالک تُو ہی ہے۔ سب تعریفیں تیری ذات کی ہی ہیں۔ پس یہ اس بات کی بھی دلیل ہے اور یہ بات اس طرف بھی اشارہ کر رہی ہے کہ کوئی بڑی سے بڑی تدبیر یا حکومت اور تنظیم ایک محدود طاقت رکھتی ہے۔ اور یہ سب دنیاوی طاقتیں اور تدبیریں ایک حد کے بعدناکارہ اور بےفائدہ ہو جاتی ہیں۔ مَیں نے ابھی کہا تھا کہ جو لوگ خدا تعالیٰ سے مضبوط تعلق نہیں رکھتے وہ پہلے تو دنیاوی سہاروں کو بہت کچھ سمجھتے ہیں لیکن جب یہ سہارے ناکام ہو جاتے ہیں تو پھر خدا تعالیٰ کی طرف دیکھتے ہیں۔ لیکن صرف خدا تعالیٰ سے مضبوط تعلق رکھنے والوں کی بات نہیں ہے بلکہ قرآن کریم تو کہتا ہے کہ ایسی مایوسی کی حالت میں دہریہ اور مشرک بھی بے اختیار ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وَاِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِیَّاہُ فَلَمَّا نَجّٰکُمْ اِلَی الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ وَکَانَ الْاِنْسَانُ کَفُوْرًا۔ (بنی اسرائیل: 68) یعنی وَاِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِیَّاہُ۔ اور جب تمہیں سمندر میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس کے سوا ہر وہ ذات جسے تم بلاتے ہو ساتھ چھوڑ جاتی ہے اور پھر جب وہ تمہیں خشکی کی طرف بچا کر لے جاتا ہے تو اس سے اعراض کرتے ہو اور انسان بہت ہی ناشکرا ہے۔

پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ طوفانوں اور مشکلات میں تو خدا تعالیٰ کو پکارنے لگ جاتے ہو اور جب نجات ہو جائے تو بھول جاتے ہو۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ مشکل وقت میں نہایت عاجزی سے اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں اور دوسرے سارے مددگاروں کو بھول جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ اگر ان کو اس مشکل سے، اس مشکل وقت سے نجات مل جائے تو وہ ہمیشہ خدا ہی کو مدد کا ذریعہ سمجھیں گے، اسے ہی پکاریں گے۔ لیکن خطرہ کے ختم ہوتے ہی دنیا داری، تکبر اور فخر دوبارہ ان میں پیدا ہو جاتا ہے۔ پس انسان انتہائی ناشکرا اور خود غرض ہے۔ دیکھیں اللہ تعالیٰ کا رحم کس قدر وسیع ہے کہ باوجود یہ علم ہونے کے کہ خشکی پر پہنچ کر یہ خدا تعالیٰ سے بغاوت کریں گے، پھر دُور ہٹ جائیں گے۔ ان کی عاجزی اور انکسار اور دعا اور اضطرار جو ہے یہ عارضی ہے۔ ان کی پھر بھی ان کی اضطرار کی حالت کی دعاؤں کو سنتے ہوئے انہیں بچا لیتا ہے۔ پھر بھی لوگ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نعوذ باللہ ظالم ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایسے لوگوں کے بارے میں ایک واقعہ بیان کیا ہے جو خدا کو نہیں مانتے لیکن مشکل وقت میں ان کے منہ سے خدا کا ہی نام نکلتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے زلزلہ کی پیشگوئی فرمائی اور بڑا زلزلہ آیا۔ اس وقت لاہور میڈیکل کالج کا ایک طالبعلم جو ہر روز اپنے ساتھی طالبعلموں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی ہستی کے بارے میں بحث کیا کرتا تھا بلکہ استہزاء کی حد تک چلا جاتا تھا۔ زلزلہ کے دوران وہ جس کمرے میں تھا اسے محسوس ہوا کہ کمرے کی چھت گرنے والی ہے اور یہ یقین ہو گیا کہ اب کوئی طاقت اسے گرنے سے یعنی چھت کو گرنے سے بچا نہیں سکتی تو کیونکہ وہ ہندو خاندان سے تھا، اس کے منہ سے بے اختیاررام رام نکل گیا۔ اگلے دن اس کے دوستوں نے پوچھا کہ تمہیں اس وقت کیا ہو گیا تھا؟ تم تو خدا کو مانتے ہی نہیں۔ تو اس حالت میں رام رام کا شور تم نے مچا دیا۔ ہندوؤں کے نزدیک رام خدا تعالیٰ کے لئے بولا جاتا ہے۔ تو کہنے لگا کہ پتا نہیں مجھے کیا ہوا تھا، میری عقل ماری گئی تھی۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس وقت ہی اس کی عقل نے کام کیا اور جب تمام دنیاوی سہارے اس کی نظروں سے چُھپ گئے، اوجھل ہوگئے تو اسے ایک ہی سہارا نظر آیا جو سب طاقتوں کا مالک ہے۔ اسے خدا تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کوئی اور مددگار دکھائی نہیں دیا۔

پس جب تک انسان کو دوسرے ذرائع نظر آتے ہیں ان سے کام بنتا رہتا ہے وہ ان کی طرف توجہ دیتا رہتا ہے۔ جب تک وہ دوسرے اسباب نظر آتے رہیں وہ ان اسباب کی، ان ذرائع کی خوشامدیں کرنے میں لگا رہتا ہے۔ کام کروانے کے لئے بلا وجہ خوشامد کو انتہا تک پہنچانے کے لئے دوسروں کی برائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ ایک گناہ کے بعد دوسرا گناہ کرتا چلا جاتا ہے۔ لیکن جب کوئی نظر نہ آئے تو خدا تعالیٰ کو پکارتا ہے۔ جب سب طرف سے مایوس ہو جائے، کوئی ظاہری وسیلہ کام نہ کر سکے تو پھر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ ہوتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے، اللہ تعالیٰ کی تعریف کرتا ہے، اس کے سامنے اضطرار ظاہر کرتا ہے۔… بہر حال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دنیادار لوگ بھی مشکل وقت میں جب کوئی سہارا نظر نہ آ رہا ہو تو خدا تعالیٰ کے سہارے کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تدبیر تو اپنی جگہ ہے، جو ہوتی ہے۔ تو وہ لوگ جو مادہ پرست ہیں جب ایسے نظارے دکھاتے ہیں تو جن لوگوں کا دعویٰ اور اوڑھنا بچھونا ہی خدا تعالیٰ کی طرف نظر رکھنے کا ہے اور ہونا چاہئے ان کو کس قدر اس بات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہماری نظر ہر وقت خدا تعالیٰ کی طرف رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس لئے یہ دعا سکھائی ہے جو ہر نماز میں پڑھنے کا حکم ہے اور ہر رکعت میں پڑھنے کا حکم ہے تا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہماری نظر نہ ہٹے۔ کبھی ہم دنیاوی سہاروں کی طرف نظر نہ رکھیں۔ کبھی ہم پہلے یہ نہ سوچیں کہ دنیاوی سہاروں کی طرف پہلے رجوع کرو اور خدا تعالیٰ کی طرف بعد میں۔ ہاں ظاہری تدبیر کا بیشک اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کرو اور کرنی چاہئے۔ لیکن توکّل جو ہے خدا تعالیٰ کی ذات پر ہونا چاہئے۔ یہ نہیں کہ جب سمندر کے طوفان میں پھنس گئے تو خدا تعالیٰ کو پکارنا شروع کر دیا۔ جب صفیں ٹوٹ گئیں تو پھر خدا یاد آیا۔ بلکہ ہر نماز کی ہر رکعت میں یہ دعا سکھا کر خدا تعالیٰ نے ہمیں بتایا کہ میری طرف اور صرف میری طرف تمہاری نظر ہونی چاہئے۔ اور یہ دعا ہے۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن(الفاتحہ: 5)۔ ایک لمبی حدیث ہے، اس میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بندہ کہتا ہے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور میرے بندے نے جو کچھ مانگا ہے میں اسے دوں گا۔ (صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ… حدیث نمبر878)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button