خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 28؍ جون 2024ء
غزوۂ بنو نضیر اور اس کے نتیجے میں ہونے والی بنو نضیر کی جلاوطنی کا تفصیلی بیان
اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جنگ اور قتل و غارت، مال غنیمت حاصل کرنے وغیرہ کے الزامات لگانے والوں کو دیکھنا چاہیےکہ …اب آخر کار جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر پر قابو پا لیا تو ان کو جتنی بھی سخت سے سخت سزاد ی جاتی تو وہ روا تھی لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امن پسندی اور صلح جوئی اور رحمت و شفقتِ انسانی کی عجیب شان اور خلق ظاہر ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہاں سے امن و سلامتی کے ساتھ چلے جانے کی اجازت دے دی اور رحمت و عنایات خسروانہ کا عالم یہ تھا کہ یہ بھی اجازت دی کہ جو سامان بھی لے جانا چاہیں لے جائیں سوائے اسلحہ اور ہتھیاروں کے
پاکستان کے احمديوں کے لیے دعائیں جاری رکھیں۔ دنيا میں مسلمانوں کی عمومی حالت کے لیے بھی دعا کریں۔
دنيا میں جنگ کی جو عمومي صورت حال بن رہی ہے اس کے ليے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی اور ہر معصوم کو اس کے شر سے محفوظ رکھے۔
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 28؍ جون 2024ء بمطابق 28؍احسان1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
بنونضیر کے ساتھ جنگ کا ذکر
ہو رہا تھا۔ اس کی مزید تفصیل یوں ہے۔ اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بنونضیر کے ایک قلعے کی طرف روانہ ہوئے تو ’’آپؐ نے اپنے پیچھے مدینہ کی آبادی میں ابن مکتوم ؓکوامام الصلوٰة مقرر فرمایا اور خود صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ مدینہ سے نکل کر بنونضیر کی بستی کامحاصرہ کر لیا اور بنونضیر اس زمانہ کے طریقِ جنگ کے مطابق قلعہ بند ہو گئے۔ غالباً اسی موقعہ پر عبداللہ بن اُبَی بن سَلُول اور دوسرے منافقین مدینہ نے بنونضیر کے رؤساء کو یہ کہلا بھیجا کہ تم مسلمانوں سے ہرگز نہ دبنا، ہم تمہارا ساتھ دیں گے اورتمہاری طرف سے لڑیں گے لیکن جب عملاًجنگ شروع ہوئی تو بنونضیر کی توقعات کے خلاف ان منافقین کویہ جرأت نہ ہوئی کہ کھلم کھلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف میدان میں آئیں اور نہ بنو قریظہ کویہ ہمت پڑی کہ مسلمانوں کے خلاف میدان میں آ کر بنونضیر کی برملا مدد کریں۔ گو دل میں وہ ان کے ساتھ تھے اور درپردہ ان کی امداد بھی کرتے تھے جس کا مسلمانوں کو علم ہوگیا تھا۔ بہرحال بنونضیر کھلے میدان میں مسلمانوں کے مقابل پرنہیں نکلے اورقلعہ بند ہو کر بیٹھ گئے، لیکن چونکہ ان کے قلعے اس زمانہ کے لحاظ سے بہت مضبوط تھے اس لئے ان کو اطمینان تھا کہ مسلمان ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکیں گے اور آخر خود تنگ آ کر محاصرہ چھوڑ جائیں گے۔ اوراس میں شک نہیں کہ اس زمانہ کے حالات کے ماتحت ایسے قلعوں کافتح کرنا واقعی ایک بہت مشکل اور پراز مشقت کام تھا اور ایک بڑا طویل محاصرہ چاہتا تھا۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 526)
بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کا محاصرہ جاری رکھا۔ یہ محاصرہ چھ دن اور ایک روایت کے مطابق پندرہ دن تک رہا۔ اس کے علاوہ بیس اور تئیس دنوں کے اقوال بھی مروی ہیں۔ یہ بھی لوگ کہتے ہیں کہ بیس دن یا تئیس دن بھی رہا۔ دورانِ محاصرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند درخت کاٹنے اور جلانے کا حکم دیا۔ چونکہ یہود قلعوں کی فصیلوں سے تیر اور پتھر برسا رہے تھے اور یہ درخت ان کے لیے دفاعی حیثیت رکھتے تھے اور ان کی کمین گاہ کا کام دے رہے تھے یعنی کہ یہ درخت چھپنے کی جگہ بن رہے تھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابولیلیٰ مَازِنِی اور عبداللہ بن سلام کو وہ درخت جلانے کی ذمہ داری سونپی۔ یہ جنگی یا دفاعی ضرورت کے لیے کیا گیا تھا نہ کہ صرف باغ اجاڑنے کے لیے۔ کیونکہ اسلام میں درختوں کا کاٹنا تو منع ہے۔ آگے اس میں یہ لکھا ہے کہ ابولیلیٰ مَازِنِی ان کے عجوہ کھجوروں کے درختوں کو آگ لگا رہے تھے اور عبداللہ بن سلام عجوہ کے علاوہ دیگر کھجوروں کے درخت جلا رہے تھے لیکن روایات میں یہ بھی ہے کہ گھٹیا قسم کی کھجوروں کو جلایا گیا۔ اس کی تفصیل مَیں آگے بیان کروں گا۔ بہرحال جو اس روایت میں لکھا ہے وہ یہی ہے کہ حضرت ابولیلیٰ کہنے لگے کہ یہ درخت ان کا قیمتی سرمایہ ہیں یہ جلانے سے انہیں زیادہ رنج ہو گا۔ یہودیوں کو اس کا رنج ہو گا کیونکہ یہ ان کا سرمایہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلام نے کہا: اللہ ان کے اموال کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مال غنیمت بنائے گا۔ عبداللہ بن سلام کے اس فقرے سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عجوہ کھجور کے درخت جو کارآمد درخت تھے وہ نہیں جلائے گئے تھے دوسرےدرخت جلائے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ عجوہ سب سے بہتر مال ہے اور انہوں نے تو یہ کہا کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کام آئے گا۔ یہود نے جب ان درختوں کو آگ میں جلتے دیکھا تو ان کی عورتیں اپنے گریبان چاک کرنے لگیں، منہ پر طمانچے مارنے لگیں اور واویلا کرنے لگیں۔ پھر یہود نے فوراً پیغام بھیجا۔ اے محمد! آپ تو بڑے عزت اور شرف کے حامل ہیں۔ آپ فساد سے منع کرنے والے اور فساد کی ہر صورت کو ناپسند کرتے ہیں۔ اب آپ خود ہی یہ کام کر رہے ہیں لیکن جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ یہ درخت ان کے لیے کمین گاہ کا کام، دفاعی کام دے رہے تھے اس لیے ان کے اس دفاع کو ختم کرنا ضروری تھااور اس میں حکمت بھی کارفرما تھی کہ جتنی جلدی ہوسکے یہ قوت ختم ہوجائے تا کہ مزید قتل و غارت نہ ہو اور
معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خاص الہام کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ درخت جلانے کا حکم دیا تھا
چنانچہ یہود کے اس الزام کا جواب اللہ تعالیٰ نے یوں دیا ہے کہ مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّيْنَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَآئِمَةً عَلٰٓى أُصُوْلِهَا فَبِإِذْنِ اللّٰهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِيْنَ (الحشر: 6)جو بھی کھجور کا درخت تم نے کاٹا یااسے اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا تو اللہ کے حکم کے ساتھ ایسا کیا ہے اور یہ اس غرض سے تھا کہ وہ فاسقوں کو رسوا کر دے۔
بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاصرے کے وقت یہود کو ایک مرتبہ پھر معاف کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے نئے عہدو پیمان کی پیشکش بھی کی تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود سے فرمایا کہإِنَّكُمْ وَاللّٰهِ لَا تَأْمَنُوْنَ عِنْدِيْ إِلَّا بِعَهْدٍ تُعَاهِدُوْنِيْ عَلَيْهِ۔ تم لوگوں پر مجھے کوئی اعتماد نہیں سوائے اس کے کہ تم مجھ سے نئے سرے سے کوئی پختہ عہد کرو۔ لیکن انہوں نے عہد و پیمان سے انکار کر دیا۔ یہود مال کے سب سے زیادہ حریص ہوتے ہیں۔ جب ان کے قیمتی درخت جلائے گئے تو انہوں نے فوراً گھٹنے ٹیک دیے اور علاقہ چھوڑنے پر راضی ہو گئے۔
(دائرہ معارف ِسیرت محمد رسول اللہﷺ جلد7صفحہ 183-185 بزم اقبال لاہور 2022ء)
یہ سیرت کی ایک کتاب کا حوالہ مَیں نے دیا ہے۔ اب مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی جو سیرت ہے اس کے حوالے سے بات کرتا ہوں۔ لکھتے ہیں کہ’’کئی دن تک مسلمان برابر محاصرہ کئے رہے لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ جب محاصرہ پر چند دن گزر گئے اور کوئی نتیجہ نہ نکلا اور بنونضیر بدستور مقابلہ پر ڈٹے رہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم صادر فرمایا کہ بنونضیر کے ان کھجوروں کے درختوں میں سے جو قلعوں کے باہر تھے بعض درخت کاٹ دئے جائیں۔ یہ درخت جوکاٹے گئے لِیْنَہ قسم کی کھجور کے درخت تھے۔ جو ایک ادنیٰ قسم کی کھجور تھی جس کا پھل عموماً انسانوں کے کھانے کے کام نہیں آتا تھا اور اس حکم میں منشاء یہ تھا کہ تاان درختوں کوکٹتا دیکھ کر بنونضیر مرعوب ہو جائیں اور اپنے قلعوں کے دروازے کھول دیں اوراس طرح چند درختوں کے نقصان سے بہت سی انسانی جانوں کا نقصان اور ملک کا فتنہ وفساد رک جائے۔ چنانچہ یہ تدبیر کارگر ہوئی اور ابھی صرف چھ درخت ہی کاٹے گئے تھے کہ بنونضیر نے غالباً یہ خیال کرکے کہ شاید مسلمان ان کے سارے درخت ہی جن میں پھل دار درخت بھی شامل تھے، کاٹ ڈالیں گے آہ وپکار شروع کر دی۔ حالانکہ جیسا کہ قرآن شریف میں تشریح کی گئی ہے صرف بعض درخت اور وہ بھی لِیْنَہ قسم کے درخت کاٹنے کی اجازت تھی اور باقی درختوں کے محفوظ رکھنے کا حکم تھا اور ویسے بھی عام حالات میں مسلمانوں کو دشمن کے پھل دار درخت کاٹنے کی اجازت نہیں تھی۔ بہرحال یہ تدبیر کارگر ہوئی اور بنونضیر نے مرعوب ہو کر پندرہ دن کے محاصرہ کے بعد اس شرط پر قلعہ کے دروازے کھول دئے کہ ہمیں یہاں سے اپنا سازوسامان لے کر امن وامان کے ساتھ جانے دیا جاوے۔ یہ وہی شرط تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود پہلے پیش کرچکے تھے اور چونکہ آپؐ کی نیت محض قیام امن تھی آپؐ نے مسلمانوں کی اس تکلیف اوران اخراجات کو نظر انداز کرتے ہوئے جو اس مہم میں ان کو برداشت کرنے پڑے تھے اب بھی بنونضیر کی اس شرط کومان لیا اور محمد بن مَسْلَمہؓ صحابی کو مقرر فرمایا کہ وہ اپنی نگرانی میں بنونضیر کو امن وامان کے ساتھ مدینہ سے روانہ کر دیں۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے 526-527)
جس طرح حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا ہے کہ اعلیٰ قسم کی کھجوریں نہیں کاٹی گئی تھیں۔ اسی طرح بخاری کی ایک شرح میں بھی لکھا گیا ہے، اس کی یہ روایت ہے۔ اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ روایات کی تفصیل میں جائیں تو اوّل تو جن کھجوروں کو جلایا گیا تھا وہ اعلیٰ قسم کی کھجور نہیں تھی بلکہ معمولی اور ردّی قسم کی کھجور تھی جو بالعموم لوگوں کی غذا کے طور پر بھی استعمال نہیں ہوتی تھی۔(نعمۃ الباری فی شرح صحیح البخاری جلد7 صفحہ343 حدیث4031مطبوعہ رومی پبلیکیشنرز لاہور)اور صرف چھ درخت جلائے گئے تھے جیسا کہ سیرت خاتم النبیینؐ میں بھی ذکر ہوا ہے۔
یہود کی بے بسی اور ان کی خود جلاوطنی کی درخواست کرنے کے بارہ میں
مزید یوں لکھا ہے کہ مسلمانوں نے اس قبیلے کے یہود کے درخت جلا کر انہیں مزید گھبراہٹ میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب بھر دیا۔ ان کے حوصلے ٹوٹ گئے اور وہ ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہو گئے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہلا بھیجا کہ ہم مدینہ سے نکلنے کوتیار ہیں۔ آپ ہمیں پرامن جلا وطنی کا موقع دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ درخواست منظور فرمائی اور حکم دیا کہ مدینہ سے نکل جاؤ۔ تمہاری جانیں محفوظ رہیں گی۔ تمہارے اونٹ جو سامان اٹھا سکیں وہ بھی لے جاؤ سوائے اسلحہ کے۔
اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جنگ اور قتل و غارت، مال غنیمت حاصل کرنے وغیرہ کے الزامات لگانے والوں کو دیکھنا چاہیےکہ اب باوجود اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہود پر گرفت حاصل کر لی تھی اور یہود بھی وہ کہ جو مسلسل عہد شکنی کے مرتکب ہوتے رہے، وہ لوگ جو متعدد مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ ریاستِ مدینہ کے سربراہ بھی تھے، ان کو قتل کرنے کی مذموم سازشیں اور کوششیں کر چکے تھے اور اب ہتھیار بند ہو کر باقاعدہ بغاوت پر اتر آئے تھے اور اس محاصرے کے دوران بھی ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے از سر نو معاہدہ اور صلح کی پیشکش کی تھی جسے نہایت تکبر سے انہوں نے ٹھکرا دیا تھا اور اب آخر کار جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر قابو پا لیا تو ان کو جتنی بھی سخت سے سخت سزاد ی جاتی تو وہ روا تھی لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امن پسندی اور صلح جوئی اور رحمت و شفقتِ انسانی کی عجیب شان اور خلق ظاہر ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہاں سے امن و سلامتی کے ساتھ چلے جانے کی اجازت دے دی اور رحمت و عنایات خسروانہ کا عالم یہ تھا کہ یہ بھی اجازت دی کہ جو سامان بھی لے جانا چاہیں لے جائیں سوائے اسلحہ اور ہتھیاروں کے۔
چنانچہ آگے تفصیل آئے گی کہ یہود نے اس جُود و کرم سے اس طرح فائدہ اٹھایا کہ اپنے گھروں کے دروازے تک اکھیڑ کر چھ سو اونٹوں پر سامان لاد کر لے گئے اور اپنی فطرت کا مظاہرہ یوں کیا کہ جو سامان ساتھ نہیں لے جا سکتے تھے وہ پوری کوشش کی کہ ضائع کر دیا جائے۔ چنانچہ اپنے گھروں کی چھتوں اور دیواروں کو منہدم کر دیا تا کہ مسلمانوں کے کام نہ آ سکے۔ گھر بھی توڑ کے چلے گئے۔ بنونضیر کے ساتھ کی جلاوطنی کی جو شرائط رکھی گئی تھیں۔ ان شرائط کے حوالہ سے ان امور کا ذکر ملتا ہے۔
نمبر ایک۔ بنونضیر کے یہود مدینہ منورہ کے علاقے سے جہاں چاہیں کوچ کر جائیں۔ پہلی بات یہ کہ بنونضیر کے لوگ مدینہ چھوڑ دیں اور جہاں مرضی چاہیں چلے جائیں۔ نمبردو: یہود مدینہ منورہ سے جلا وطن ہونے کے وقت مکمل طور پر بغیر ہتھیار ہوں گے۔ نمبرتین: ہتھیاروں کے سوا یہود جس قدر اپنے اموال اپنے اونٹوں پر لے جا سکتے ہیں وہ لے جائیں۔ نمبر چار یہ کہ یہود کے مقدور بھر اموال اٹھا لینے کے بعد ان کے جو منقولہ و غیر منقولہ اموال بچ جائیں گے وہ مسلمانوں کی ملکیت ہوں گے۔
جلاوطنی کے عمل کی نگرانی اور یہود کے عذر اور بہانے بنانے کی تفصیل
بھی ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ بنونضیر کو مدینہ منورہ سے جلا وطن کرنے کی ذمہ داری حضرت محمد بن مَسْلَمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سونپی گئی۔ اس وقت یہود نے ایک اَور عذر کیا کہ یہاں کے بہت سے لوگ ہمارے مقروض ہیں۔ وہ قرض انہیں مقررہ مدت کے بعد ادا کرنا ہے، ان کا کیا بنے گا؟ ان کا مقصد تھا کہ ہمیں مدینہ میں ٹھہرنے کا مزید موقع مل جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سود ختم کر کے قرض کی رقم کم کر دو اور جلدی کرو۔ ٹھیک ہے قرض تمہیں واپس مل جاتا ہے بشرطیکہ تم سود ختم کرو لیکن جلدی یہاں سے جاؤ۔ ابورافع سَلَّام بن اَبی حُقَیق نے حضرت اُسَید بن حُضَیر سے ایک سو بیس دینار لینے تھے۔ چنانچہ اس نے چالیس دینار سود ختم کر کے اصل زر اسّی دینار وصول کر لیے۔(سیرت انسائیکلوپیڈیاجلد 7صفحہ54 دار السلام ریاض 1435ھ)اس طرح اَور بہت سارے دوسرے لوگ بھی ہوں گے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلاوطنی کی شرائط عائد کیں تو ابورافع سَلَّام بن اَبی حُقَیق نے حُیَی بن اَخْطَب سے کہا کہ تیرا برا ہو۔ اسلام قبول کر لے اس سے پہلے کہ اس سے بھی بدتر انجام بھگتنا پڑے۔ حُیَی نے کہا اس سے بدتر انجام کیا ہو سکتا ہے؟ ابو رافع نے کہا کہ ہمارے بال بچوں کو قید کر لیا جائے گا، ہمارے بہادر قتل ہوں گے اور ہمارے اموال مسلمانوں کے قبضہ میں چلے جائیں گے۔ آج مال چھوڑ کر جانیں بچانا آسان ہے۔ اگر ہم نے کوئی فتنہ کھڑا کیا تو اس کا انجام قتل اور قید ہوگا۔ حُیَی ایک دو دن اس فیصلے پر سوچتا رہا۔ جب یَامِین بن عُمَیر اور ابوسعد بن وَہْب نے اس کی یہ کشمکش دیکھی تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ بلا شبہ تمہیں پتہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں۔ تم کس چیز کا انتظار کر رہے ہو؟ ہم مسلمان ہو جائیں۔ پتہ تو ہے ہمیں۔ ہماری کتابوں سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے تو بہتر ہے کہ مسلمان ہو جائیں۔ اس طرح ہمارے مال اور جانیں محفوظ ہو جائیں گی۔ چنانچہ وہ رات کی تاریکی میں اپنے قلعوں سے نکلے اور اسلامی لشکر میں آ گئے۔ انہوں نے اسلام قبول کر کے اپنی جان ومال محفوظ کر لیے۔ اس طرح یہ دو لوگ مسلمان ہوئے۔
(سیرت انسائیکلوپیڈیاجلد 7صفحہ55 دار السلام ریاض 1435ھ)
یامین بن عُمَیرؓ بعد میں بہت مخلص صحابی ثابت ہوئے بلکہ ان کے دل میں انہی دنوں میں ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اتنا گھر کر چکی تھی کہ بنونضیر کے جس یہودی عَمْرِو بن جَحَّاشْ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی مذموم کوشش کی تھی۔ یہ انہی اسلام قبول کرنے والے یامین بن عمیر کا چچا زاد تھا تو اس مخلص نومسلم نے ایک شخص کے ذریعہ عَمْرِو بن جَحَّاشْ کو قتل کروا دیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کے اس اخلاص اور محبت کا علم ہوا تو آپؐ نے مسرت کا اظہار فرمایا۔
(سبل الهدىٰ والرشاد، جزء4 صفحہ 323 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1993ء)
(البدایۃ والنھایۃ جزء5 صفحہ538 دارہجر 1997ء)
یہ تاریخ کی ایک کتاب کا حوالہ ہے۔
یہود کی جلاوطنی کی کیفیت کے بارے میں
لکھا ہے کہ یہود نے جلاوطنی کے وقت اپنے اونٹوں پر عورتوں اور بچوں کے علاوہ اپنا وہ سامان بھی لاد لیا جو اونٹ لے جا سکتے تھے۔ صرف ہتھیار چھوڑ دیے۔ ان کے ساتھ کل ملا کر چھ سو اونٹ تھے۔ ہر شخص خود اپنا مکان گرا کر اس کی لکڑی جیسے دروازے اور کھڑکیاں وغیرہ تک نکال کر اونٹوں پر لاد کر لے گیا۔ ایک روایت میں ہے کہ ان لوگوں نے اپنے مکانوں کے ستون اور چھتیں تک توڑ ڈالیں۔ کواڑ، تختے جو دروازے تھے یہاں تک کہ ان کی چولیں چوگاٹھیںتک نکال لیں اور محض حسد اور جلن میں اپنے مکانوں کی دیواریں تک منہدم کر دیں تا کہ وہ اس قابل نہ رہیں کہ ان کے جلا وطن ہونے کے بعد ان مکانوں کو مسلمان آباد کر سکیں۔
(سیرت حلبیہ جلد 2صفحہ 361 دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2008ء)
جب یہود نے اپنے بچوں اور عورتوں کو سواری کے اونٹوں پر سوار کیا اور بقیہ اونٹوں پر سامان لادنے لگے تو ان کے اس انداز سے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے انہیں جلا وطن ہونے کی کوئی پریشانی یا ندامت نہیں حالانکہ ان کے سینے آتش کدے بنے ہوئے تھے، آگ لگی ہوئی تھی ان کے سینوں میں لیکن ظاہر یہ کر رہے تھے کہ ان کو کوئی پروا نہیں۔ البتہ لوگوں کو یہ تاثر دے رہے تھے کہ ہم خوش و خرم یہاں سے جا رہے ہیں۔ یہ لوگ پہلے بنو حارث بن خَزْرَج کے علاقے سے گزرے اور جِسْر کے علاقے کو عبور کیا۔ پھر مدینہ منورہ کے بازاروں سے ان کا گزر ہوا۔ جِسْر بھی مدینہ کی ایک مارکیٹ تھی۔ بہرحال انہوں نے اپنی عورتوں کو بناؤ سنگھار کر کے ہودجوں پر بٹھا رکھا تھا۔ اونٹوں پر سوار کیا ہوا تھا اور ساتھ گانے باجے پر ان کی کنیزیں ناچ بھی رہی تھیں۔ یہ لوگ اپنے مال و ثروت کو لوگوں پر عیاں کر رہے تھے تا کہ لوگ ان پر رشک کریں۔ ابورافع نے چمڑے سے بنے تھیلے کو سونے چاندی سے بھرا ہوا تھا۔ اسے اچھال اچھال کر کہہ رہا تھا کہ ہم نے یہ رقم انہی حالات کا مقابلہ کرنے اور فتح حاصل کرنے کے لئے رکھی ہے۔ ان کے جانے کی کیفیت یہ تھی کہ نغمے الاپے جا رہے تھے۔ شہنائیاں بج رہی تھیں۔ اشتعال انگیز اشعار زبان پر تھے اور رقص کیا جا رہا تھا لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کم ظرفی کو نظر انداز کر دیا۔ یہ دیکھنے کے باوجود ان پہ کوئی توجہ نہیں دی۔ اگر ان کا واسطہ کسی دوسری قوم سے پڑتا تو شاید انہیں ستر پوشی کے لیے کپڑا بھی نہ دیا جاتا۔
(دائرہ معارفِ سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد7صفحہ187 بزم اقبال لاہور 2022ء)
(مقالات مدینہ منورہ صفحہ 142 مرتبہ محمد فیض احمد اویسی، کتب خانہ امام احمد رضا)
جو حالت انہوں نے کی تھی، جو رویہ انہوں نے اختیار کیا تھا ان کوسزا تو ایسی ملنی چاہیے تھی کہ کچھ بھی نہ جانے دیا جاتا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عفو اور رحم دلی تھی جس نے ان باتوں کی کوئی پروا نہیں کی۔
بنونضیر کا نیا مسکن
کہاں بنا؟ اس بارے میں لکھا ہے کہ بنونضیر کو جب جلا وطنی کا حکم ہوا تو ان کے لیے ضروری نہیں تھا کہ وہ سارے جزیرہ نمائے عرب سے نکل جائیں بلکہ ضروری یہ تھا کہ وہ مدینہ منورہ سے نکل جائیں۔ صرف مدینہ سے نکالا گیا تھا اور اس کے سوا جہاں چاہیں آباد ہو جائیں۔ چنانچہ ان میں سے کچھ تو شام کے علاقے أَذْرِعَاتْ کی طرف چلے گئے اور اکثر نے خیبر کا رخ کیا۔ خیبر مدینہ منورہ سے تقریباً چھیانوے میل دور ہے اور یہ جزیرہ نمائےعرب میں پناہ گزین یہود کا اتنا بڑا مرکز تھا کہ اس میں مسلح جنگجوؤں کی تعداد دس ہزار تھی۔ علاوہ ازیں وہاں یہود کے بہت سے قلعے بھی تھے اور یہ علاقہ زرعی دولت سے مالا مال تھا۔ جزیرہ نمائے عرب کے تمام یہود بنونضیر کی سیادت اور قیادت کے قائل تھے کیونکہ یہ اپنے آپ کو حضرت ہارون علیہ السلام کی نسل قرار دیتے تھے۔ اس کے علاوہ مالدار ہونے کے ساتھ ساتھ بنونضیر کے یہ لوگ بہت زیادہ شاطر ذہنیت کے مالک تھے۔ چنانچہ جب بنونضیر کے یہود خیبر چلے گئے تو وہاں یہود کی طاقت و قوت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ ان میں بنونضیر کے اکابر حُیَی بن اخطب، سلَّام بن ابی حُقَیق اور کِنَانہ بن ربیع جیسے لوگ تھے۔ خیبر کے یہود جنگی صلاحیت و مہارت میں ممتاز اور فائق تھے۔ جنگی لحاظ سے خیبر کے لوگ بڑے ماہر تھے لیکن بنونضیر کے یہود جنگ کی نسبت سیاسی بصیرت میں آگے تھے۔ سیاسی لحاظ سے بنونضیر والے بہت ہوشیار تھے۔ خیبر میں قدم رکھتے ہی انہوں نے یعنی بنونضیر کے لوگوں نے بڑی سہولت کے ساتھ اپنے آپ کو سیادت و قیادت کے منصب پر فائز کر لیا اور اس کے نتیجہ میں خیبر مسلمانوں کے لیے بڑا جنگی محاذ بن گیا۔
(سیرت انسائیکلوپیڈیاجلد 7صفحہ57-58 دار السلام ریاض 1435ھ)
بنونضیر کے یہود کے ساتھ انصار کے بیٹوں کے جانے کے بارے میں بیان
ہوا ہے کہ بنونضیر میں سے کچھ لوگ مدینہ سے نکل کر شام کے علاقے أذرِعَات کی طرف چلے گئے۔ ان یہود میں کچھ انصاری مسلمانوں کے بیٹے بھی تھے جن کی وجہ یہ تھی کہ اگر کسی انصاری عورت کی اولاد زندہ نہیں رہتی تھی تو اسلام لانے سے پہلے ان میں یہ دستور تھا کہ وہ عورت یہ منت مان لیا کرتی تھی کہ اگر اس کا بیٹا زندہ رہا تو وہ اس کو یہودی بنا دے گی۔ چنانچہ ایسے کئی لوگ تھے جو انصار کے بیٹے تھے مگر وہ یہودی بنا دیے گئے تھے۔ جب بنونضیر کے لوگ جلا وطن ہونے لگے تو ان لڑکوں کے باپوں نے کہا کہ ہم اپنے بچوں کو ان کے ساتھ نہیں جانے دیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے یہ وحی نازل فرمائی۔ سیرت الحلبیہ میں یہ لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ لَآ إِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ(البقرہ: 257) کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔
(سیرت حلبیہ جلد 2صفحہ 362دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2008ء)
حضرت مرزا بشیرا حمد صاحبؓ نے بھی اس بارے میں لکھا ہے کہ’’بنونضیر بڑے ٹھاٹھ اور شان وشوکت سے اپنا سارا ساز وسامان حتی کہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے مکانوں کو مسمار کر کے ان کے دروازے اور چوکھٹیں اور لکڑی تک اکھیڑ کراپنے ساتھ لے گئے۔ اورلکھا ہے کہ یہ لوگ مدینہ سے اس جشن اوردھوم دھام کے ساتھ گاتے بجاتے ہوئے نکلے کہ جیسے ایک بارات نکلتی ہے۔ البتہ ان کا سامانِ حرب اورجائیداد غیر منقولہ یعنی باغات وغیرہ مسلمانوں کے ہاتھ آئے اور چونکہ یہ مال بغیر کسی عملی جنگ کے ملا تھا اس لئے شریعت اسلامی کی رو سے اس کی تقسیم کااختیار خالصۃً رسول اللہؐ کے ہاتھ میں تھا اور آپؐ نے یہ اموال زیادہ تر اُن غریب مہاجرین میں تقسیم فرما دئے جن کے گزارہ جات کا بوجھ ابھی تک اس ابتدائی سلسلہ مواخات کے ماتحت انصار کی جائیدادوں پر تھا اوراس طرح بالواسطہ انصار بھی اس مالِ غنیمت کے حصہ دار بن گئے۔
جب بنونضیر محمد بن مَسْلَمہ صحابی کی نگرانی میں مدینہ سے کوچ کر رہے تھے تو بعض انصار نے ان لوگوں کو ان کے ساتھ جانے سے روکنا چاہا جو درحقیقت انصار کی اولاد سے تھے مگر ان کے منت ماننے کے نتیجہ میں یہودی ہو چکے تھے اور بنونضیر ان کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے لیکن چونکہ انصار کایہ مطالبہ اسلامی حکم لَآ إِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ۔ یعنی (دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہ ہونا چاہئے) کے خلاف تھا، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے خلاف اور یہود کے حق میں فیصلہ کیا اور فرمایا کہ جو شخص بھی یہودی ہے اور جانا چاہتا ہے ہم اسے نہیں روک سکتے۔ البتہ بنونضیر میں سے دو آدمی خود اپنی خوشی سے مسلمان ہو کر مدینہ میں ٹھہر گئے۔‘‘ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔
’’ایک روایت آتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کے متعلق یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ شام کی طرف چلے جائیں۔ یعنی عرب میں نہ ٹھہریں لیکن باوجود اس کے ان کے بعض سردار مثلاً سَلَّام بن ابی الحُقَیق اورکِنَانہ بن ربیع اورحُیَی بن اخطب وغیرہ اورایک حصہ عوام کابھی حجاز کے شمال میں یہودیوں کی مشہور بستی خیبر میں جا کر مقیم ہو گیا اور خیبر والوں نے ان کی بڑی آؤ بھگت کی …یہ لوگ بالآخر مسلمانوں کے خلاف خطرناک فتنہ انگیزی اوراشتعال جنگ کا باعث بنے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 527-528)
بنونضیر سے حاصل ہونے والا مال
مالِ فَے
کہلاتا ہے۔ اس کی تقسیم کس طرح ہوئی۔ اس بارے میں لکھا ہے کہ قبیلہ بنونضیر کے کوچ کرنے کے بعد ان کا اسلحہ، باغات، زمینیں اور مکانات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قبضہ میں لے لیے۔ ہتھیاروں میں پچاس خَود، پچاسی زرہیں اور تین سو چالیس تلواریں تھیں۔ یہ مسلمانوں کو ملنے والا پہلا مالِ فَے تھا۔ مالِ فَے وہ ہوتا ہے جو کفار سے جنگ کے بغیر حاصل ہو جائے۔ اس مال میں سے مالِ غنیمت کی طرح خمس نہیں نکالا جاتا بلکہ سارے کا سارا مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار میں ہوتا تھا تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں چاہیں اسے صرف فرمائیں۔ بنونضیر سے لڑائی کی نوبت ہی نہیں آئی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کا رعب و دبدبہ ان کے دلوں پر طاری کر دیا تھا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ان کے مال کا وارث بنا دیا۔ یہ مالِ فَے تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تمام سازو سامان کو مسلمانوں میں تقسیم کر دیا تا کہ وہ اسے نیکی کے کاموں میں خرچ کریں۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ وَمَآ أَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَآ أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهٗ عَلٰى مَنْ يَّشَآءُ وَاللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ (الحشر: 7) اور اللہ نے ان کے اموال میں سے اپنے رسول کو جو بطور غنیمت عطا کیا تو اس پر تم نے نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ۔ لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کر دیتا ہے۔ یعنی کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ اور اللہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔
(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد7صفحہ189-190 بزم اقبال لاہور 2022ء)
انصار کے عجیب قابلِ رشک محبت اور ایثار کے اظہار کا نمونہ
بھی ہمیں یہاں ملتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالِ فَے تقسیم کرتے وقت حضرت ثابت بن قیس بن شَمَّاسْ سے فرمایا کہ میرے سامنے اپنی قوم کو اکٹھا کرو۔ انہوں نے دریافت کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! خزرج؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمام انصار کو بلاؤ۔ تو انہوں نے آپؐ کے لیے اَوس اور خزرج کو بلالیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمد و ثنا کے بعد انصار کے مہاجرین سے حسن سلوک کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا یعنی جو حسن سلوک انصار نے مہاجرین کے ساتھ کیا تھا اس کا تذکرہ کیا اور انصار کو فرمایا کہ اگر تم چاہو تو بنونضیر سے حاصل شدہ مالِ فَے تمہارے اور مہاجرین کے درمیان تقسیم کر دیا جائے۔ اس صورت میں مہاجرین تمہارے گھروں پر قابض اور مالوں کے مالک رہیں گے۔ اور اگر تمہاری مرضی ہو تو میں مالِ فَے مہاجرین میں تقسیم کردوں۔ اس صورت میں وہ تمہارے دیے ہوئے گھروں سے نکل جائیں گے۔ یعنی اب جو جائیدادیں آپس میں تقسیم کی ہوئی تھیں اور جو فائدہ انصار سے مہاجرین اٹھا رہے تھے وہ ختم ہو جائے گا کیونکہ ان کے اپنے پاس جائیداد ہو جائے گی۔ اس پر حضرت سعد بن عُبَادةؓ اور حضرت سعد بن مُعَاذؓ نے عرض کیا کہ ہمارے اموال ان کے پاس رہنے دیجئے اور بنونضیر کے تمام اموال بھی ہمارے مہاجر بھائیوں میں تقسیم کر دیں۔ جو ہم نے دیا ہوا ہے وہ بھی ان کے پاس رہے اور بنونضیر کا جو مال ہے، فَے کا مال وہ بھی ان میں دے دیں۔ یہ سنا جب تو مہاجرین کی ہر طرف سےصدائیں آنے لگیں کہ رَضِيْنَا وَسَلَّمْنَا يَا رَسُولَ اللّٰهؐ۔ یعنی اے اللہ کے رسول! ہم اس پر خوش ہیں اور ہم نے اسے تسلیم کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ایثار و قربانی کے جذبے کو دیکھ کر انتہائی خوش ہوئے اور فرمایا: اَللّٰهُمَّ ارْحَمِ الْأَنْصَارَ وَأَبْنَاءَ الْأَنْصَارِ۔ اے اللہ! انصار اور ان کی اولادوں پر رحم فرما۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثر اموال مہاجرین کی جماعت میں تقسیم فرما دیے۔ انصار میں سے صرف دو تنگدست صحابہؓ کو اس مال سے نوازا گیا اور وہ حضرت سَہْلِ بن حُنَیف اور حضرت اَبُودُجَانہ تھے۔ ابن عُیَیْنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے زہری کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کے اموال میں سے حضرت سَہْلِ بن حُنَیف اور حضرت اَبُودُجَانہ کے علاوہ انصار میں سے کسی کو حصہ نہیں دیا کیونکہ یہ دونوں تنگدست تھے اس لیے ان کو حصہ دیا گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سَعد بن مُعَاذ کو بن ابی الحقیق کی تلوار عطا کی۔ اس تلوار کی بڑی شہرت تھی۔
(سبل الھدٰی والرشاد جلد 4 صفحہ325 دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان 1993ء)
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3صفحہ 247 دار احیاء التراث العربی بیروت)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقیہ سامان غرباء میں تقسیم کر دیا اور کچھ اپنے لیے رکھا جو ازواجِ مطہرات کے اخراجات کے لیے تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہی بنونضیر کے باغات سے حاصل ہونے والے غلے میں سے سال بھر کا خرچ اپنی ازواج کو دے دیتے تھے۔ اپنی بیویوں کو ان کا جو سال کا خرچہ تھا وہ دیتے اور باقی جو بچ جاتا تھا اسے جہاد کی تیاری کے لیے صرف کرتے تھے۔ غریبوں اور ناداروں کی اعانت بھی اسی مال سے کی جاتی تھی۔ بنونضیر کے سات باغات تھے جن پر آزاد کردہ غلام حضرت ابورافع کو مقرر کیا گیا تھا۔ یعنی وہ ان کے مینیجر تھے۔ ان باغات کے نام یہ تھے۔ مِیثَبْ، صَافِیہ، دَلَال، حُسنٰی، بُرْقَہ، اَعْوَافْ اور مَشْرَبَہاُمِّ ابراہیم۔
(دائرہ معارف ِسیرت محمد رسول اللہﷺ جلد7صفحہ191 بزم اقبال لاہور 2022ء)
بہرحال یہاں غزوۂ بنونضیر کا ذکر ختم ہوا ہے۔ آئندہ انشاء اللہ دوسرے غزوات کا ذکر ہوگا۔
پاکستان کے احمدیوں کے لیے دعائیں جاری رکھیں
وہاں کے حالات کی بہتری کے لیے دعائیں کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ وہاں کی عمومی امن و امان کی حالت کو بھی بہتر کرے اور احمدیوں کو اپنی حفاظت میں رکھے۔
دنیا میں مسلمانوں کی عمومی حالت کے لیے بھی دعا کریں۔
یہ لوگ بھی زمانے کے امام کو مان کر اپنا وقار دوبارہ حاصل کر سکیں۔
دنیا میں جنگ کی جو عمومی صورتحال بن رہی ہے اس کے لیے بھی دعا کریں۔
جس طرف دنیا جا رہی ہے یہ جنگ تو لگتا ہے اب ضرور ہونی ہے لیکن
اللہ تعالیٰ ہر احمدی اور ہر معصوم کو اس کے شر سے محفوظ رکھے۔
٭…٭…٭
الفضل انٹرنیشنل ۱۹؍ جولائی ۲۰۲۴ء