اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز (دورۂ جرمنی ۲۰۱۷ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ چہارم)
ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب
حضورِانور کی محبت کی ایک مثال
ایک دن قبل ایک احمدی نے مسجد میں حضورِانور سے مصافحہ کی درخواست کی تھی ۔ تاہم اُس وقت حضورِانور نے فرمایا کہ اگر حضور نے ان کی درخواست قبول فرما لی تو دوسرے لوگ بھی آگے آنا چاہیں گے۔ چنانچہ اس شام مسجد خوب بھری ہوئی تھی۔حضورِانور نے اُسی احمدی کو ایک صف میں بیٹھے ہوئے دیکھا اور خود آگے بلایا۔ اس دوست کا نام بشیر احمد تھا۔ جب وہ حضورِانور سے مصافحہ کےلیے آگے بڑھے تو اُن کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
بعد ازاں میری موصوف سے ملاقات ہوئی۔ بشیر احمد نے مجھے ان لمحات کے بارے میں بتایا جب حضورِانور نے انہیں اپنے پاس بلایا۔ انہوں نے بتایا کہ گذشتہ رات خاکسار نے مسجد میں حضورِانور سے درخواست کی تھی کہ کیا مجھے مصافحہ کی سعادت مل سکتی ہے؟ لیکن حضورِانور نے فرمایا کہ بارہ سال سے چھوٹے بچے آگے آ جائیں۔ اگرچہ حضورِانور نے مجھے اس وقت اجازت مرحمت نہ فرمائی پھر بھی میں اس لمحہ کو نہایت بابرکت خیال کرتا ہوں کیونکہ مجھے حضورِانور سے گفتگو کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ دراصل میں نے آپ کی خدمت میں ایک خط لکھا تھا کہ میں دنیا کا خوش قسمت ترین انسان ہوں کیونکہ میرے خلیفہ نے میرے ساتھ مخاطب ہوئے ہیں۔
بشیراحمد نے مزید بتایا کہ جب میں آج رات کو مسجد میں داخل ہوا تو مَیں استغفار کرتا رہا اور درود پڑھتا رہا اور اپنی نظریں نیچے رکھیں کیونکہ میں کوئی ایسی چیز نہیں کرنا چاہتا تھا جو اطاعت کے دائرہ سے باہر ہو۔ تاہم حضورِانور نے ازراہِ شفقت از خود مجھے شرفِ مصافحہ بخشا اور اپنے پاس بلایا اور اس موقع پر میری یہ دلی خواہش پوری ہوئی۔ میں جذبات سے کبھی ایسا مغلوب نہیں ہوا جیسا کہ اس موقع پر ہوا اور مَیں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے ایسی محبت کبھی نہیں دیکھی جیسی آج اپنے خلیفہ میں دیکھی ہے۔ میں بےحد کمزور انسان ہوں، پھر بھی حضورِانور نے میری خطاؤں سے درگزر فرمایا اور یہاں جرمنی کے ہزاروں احمدیوں میں سے آپ نے مجھے یاد رکھا۔
موصوف نے مجھے اس مخالفت کے بارے میں بتا تے ہوئے کہا جس کا سامنا ان کی فیملی کو پاکستان میں ہوا کہ 2008ء میں کوٹری سندھ جہاں ہم رہتے ہیں حالات بہت مشکل تھے اور ہمیں محض احمدی ہونے کی بنا پر بے حد مخالفت کا سامنا تھا۔ مثال کے طور پر میرے بھائی کو گرفتار کیا گیا اور اذیتیں دی گئیں اور اس برے طریقے سے مارا پیٹا گیا کہ وہ اپنے قدموں پر کھڑا بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ اس موقع پر میں نے دل سے دعا کی کہ اے میرے اللہ! جو قربانیاں ہماری فیملی نے دی ہیں اس کے بدلے میں ہماری فیملی کے کسی فرد کو خلیفہ وقت سے ملنے کی توفیق عطا فرما۔ آج میں گواہ ہوں کہ اللہ سمیع و بصیرہے اور ہماری دعاؤں کو قبول فرماتا ہے۔
موصوف نےاس بات کا اظہار کیا کہ حضورِانور کے دورے کے دوران وہ زیادہ سے زیادہ وقت مسجد میں گزارنا چاہتے تھے اور آپ نے رضاکارانہ طور پر دفاتر اور بیت الخلا کی صفائی کا کام اپنے ذمہ لیا تھا۔ بشیر احمد نے بتایا کہ جب میری صفائی کی ڈیوٹی ختم ہوتی ہے تو میں بسااوقات نماز سے تین یا چار گھنٹے قبل سیدھا مسجد چلا جاتا ہوں تاکہ میں مسجد کی پہلی صف میں بیٹھ سکوں اور حضورِانور کی قربت میں نماز ادا کر سکوں۔
اپنی آنکھوں سے آنسو پونچتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ میری صرف یہی دعا ہے کہ میں کبھی خلیفہ وقت کے لیے کوئی تکلیف یا پریشانی کا باعث نہ بنوں اور مَیں قسم کھاتا ہوں کہ میری زندگی کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ مَیں خلافت کی خدمت کر سکوں اور اس بابرکت جماعت کی خدمت کر سکوں۔ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ میں اور میرے بچے ہمیشہ نظامِ خلافت کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار رہیں گے۔
احمدیوں کے جذبات
اگلے روز 20؍اپریل 2017ء کو حضورِانور نے فیملی ملاقاتیں فرمائیں۔ حضورِانور سے ملاقات کرنے والے احباب و خواتین میں امۃ الکافی صاحبہ بھی شامل تھیں۔اپنی زندگی میں پہلی بار حضورِانور کو ملنے پر وہ بے انتہا جذباتی تھیں۔ ہماری گفتگو کے دوران وہ مستقل خود کو جذبات سے مغلوب ہونے کی وجہ سے سنبھالتی رہیں۔ رواں ہونے والے آنسوؤں کے ساتھ امۃ الکافی صاحبہ نے بتایا کہ مَیں قبل ازیں کبھی خلیفۃ المسیح سے نہیں ملی اور اب مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے یہ کوئی خواب تھا۔ ہمارے خلیفہ کس قدر محبت کرنے والے، خوبصورت،شفیق اور خیال رکھنے والے ہیں۔ ہماری کوئی حیثیت ہی نہیں ہے پھر بھی آپ ہمیں اپنا وقت عطا فرماتے ہیں اور ہمارے ساتھ گفتگو فرماتے ہیں اور ہمارے مسائل کو سن کر ہمارے لیے دعا کرتے ہیں۔
ایک اَور دوست جن کو حضورِانور سے ملاقات کی سعادت ملی وہ عطاءالمنان صاحب (عمر37؍سال)تھے، جنہیں حضورِانور کے باڈی گارڈ کی حیثیت سے خدمت کی توفیق ملی تھی جب حضورربوہ میں ناظر اعلیٰ تھے۔ حضورِانور کے منصب ِخلافت پر متمکن ہونے سے قبل کی یاداشتوں کا ذکر کرتے ہوئے موصوف نے بتایا کہ جب مجھے حضورِانور کی خدمت کا موقع ملا اور آپ کو ربوہ میں دیکھا تو ایک نمایاں پہلو آپ کی عاجزی تھا۔ بسا اوقات میں نے دیکھا کہ حضورِانور کو مہمان ِخصوصی کے طور پر جماعتی پروگرام میں مدعو کیا جاتا لیکن آپ دوسروں کو بولنے کا موقع دیتےاور خود صرف ایک منٹ کے لیے کچھ فرماتے۔ ایک اَور خصوصیت جو میں نے حضورِانور میں دیکھی وہ یہ تھی کہ آپ ہمیشہ ہمارا خیال رکھتے اور ہماری ضروریات کے بارے میں فکر مند رہتے۔ ایک مرتبہ آپ نے مجھے میرے گھر کے باہر روشنی کا انتظام کرنے کی ہدایت فرمائی کیونکہ آپ کو میری سیکیورٹی کا خیال تھا۔
میری ملاقات ایک احمدی دوست وسیم شاہ سے بھی ہوئی جو ساٹھ سال کی عمر میں پہلی بار خلیفۃ المسیح سے ملاقات کی سعادت پا رہے تھے۔ چھ دہائیوں تک ایسی خوش قسمتی کا انتظار کرنے کے بعد آپ مکمل طور پر جذبات سے مغلوب تھے۔ آپ نے اشکبار آنکھوں سےبتایا کہ میں نے ساری زندگی اس نورانی چہرے کو دیکھنے کا انتظار کیا ہے اور بالآخر میری زندگی بھر کی تشنگی کو سیرابی میسر آئی ہے۔ حضورِانور کے چہرے اور آواز میں جو شفقت ہے وہ مَیں نے زندگی میں کبھی پہلے محسوس نہیں کی۔
اپنے بچپن کی یاداشتیں بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جب میں چھوٹا بچہ تھا تو میری دادی جان ساگ تیار کیا کرتی تھیں اور ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے بزرگوں کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے بھجواتی تھیں۔ واپسی پر وہ ہمیں گھر لے جانے کے لیے کچھ پھل وغیرہ تحفۃً دیتے تھے لیکن ان کا حقیقی تحفہ ہمارے حق میں ان کی دعائیں تھیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ان بزرگوں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ آج مجھے خلیفہ وقت کو ملنے کی سعادت ملی ہے۔
ایک مقامی احمدی کے گھر کا دورہ
اس شام حضورِانور نے ایک احمدی غفور ڈو گر کے گھر کا دورہ فرمایا۔ غفور ڈوگر نے جو مسجدبیت السبوح سے چند منٹ کے فاصلے پر رہتے ہیں، کئی سالوں سے حضورانور کی خدمت میں اپنے گھر تشریف لانے کی درخواست کر رکھی تھی اور حضورِانور نے فرمایا تھا کہ حضور آئندہ کسی موقع پر ان کے گھر تشریف لائیں گے۔جب حضورِانور اُن کے ہاں تشریف لے گئے تو غفور ڈوگر کی فیملی کے درجنوں افراد اور رشتہ دار حضورِانور کو خوش آمدید کہنے کے لیے گھر کے باہر کھڑے تھے۔ یوں وہاں پہنچنے پر حضورِانور نے تبسم کرتے ہوئے فرمایا کہ کیایہاں کوئی جلسہ ہو رہا ہے؟
بعد ازاں حضورِانور نے غفور صاحب کے گھر میں آدھا گھنٹہ قیام فرمایا۔ یہ ایک مثال تھی کہ کس طرح خلیفہ وقت ہمیشہ اپنے الفاظ کو پورا فرماتے ہیں۔
حضورِانور کی محبت کی مثال
حضورِ انو اس دورے کے دوران جامعہ احمدیہ جرمنی بھی تشریف لے گئے۔ جامعہ احمدیہ میں منعقد ہونے والی تقریب کے بعد حضورِانور از راہِ شفقت احاطہ جامعہ میں رہنے والے بعض اساتذہ کے گھروں میں تشریف لے گئے۔بعد ازاں حضورِانور نے مجھے ان اساتذہ کے گھروں میں تشریف لانےکی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ آخری مرتبہ جب میں نے 2015ء میں جامعہ احمدیہ (جرمنی) کا دورہ کیا تھا تو اساتذہ میں سے ایک نے مجھے لکھا کہ انہوں نے اپنی فیملی کو بتایا تھا کہ ممکن ہے کہ مَیں ان کے گھر کا دورہ کروں۔اس لیے انہیں اس حوالے سے تیار رہنا ہو گا۔ تاہم مصروفیات کی وجہ سے میں ایسا نہ کر سکا۔ اس استاد نے لکھا کہ اِس پر ان کے بچے بہت اداس اور جذباتی ہوگئے تو میں نے ان کو جواباً تحریر کیا کہ میں اگلی مرتبہ اُن کے گھر آؤں گا۔میں نے اٹھارہ ماہ ان بچوں کا بوجھ اپنے دل میں اٹھایا ہے اور یوں اس مرتبہ جب میں وہاں گیا تو ان کے گھر بھی گیا۔ یہ دیکھنے پر جامعہ میں رہائش پذیر دیگر اساتذہ نے بھی مجھے اپنے اپنے گھر آنے کی دعوت دی تو میں اُن کے گھر بھی چلا گیا۔
یہ ایک اَور مثال ہے کہ کس طرح خلیفہ وقت ہر ایک احمدی سے محبت کا سلوک فرماتے ہیں جہاں حضورِانور نے چھوٹے احمدی بچوں سے وعدہ پورا کرنے کا بوجھ اپنے دل میں محسوس فرمایا جو حضورِانور کے اپنے گھر نہ آسکنے کی وجہ سے اداس تھے۔
بعد ازاں حضورِانور نے جامعہ احمدیہ کی میزبانی میں ظہرانے میں شمولیت فرمائی۔ کھانے کے دوران حضورِانور نے جامعہ کے ایک استاد کو دیکھا جو کچھ میٹر دُور بیٹھے تھے۔ حضورِانور نے انہیں اپنے قریب بلاکر ان سے اُن کی اہلیہ کی صحت کے بارے میں دریافت فرمایا جو کچھ عرصے سے بیمار تھیں۔ایسے واقعات میرے لیے حیرت کا موجب نہیں ہوتے جہاں حضورِانور انفرادی طور پر احمدیوں کے ذاتی مسائل اور پریشانیوں کو یاد رکھتے ہیں اگرچہ آپ کو ہر ہفتے ہزاروں خطوط موصول ہوتے ہیں۔
ظہرانے اور نماز کی ادائیگی کے بعد حضورِانور اپنی گاڑی کی طرف واپس تشریف لے گئے۔ اس موقع پر جامعہ احمدیہ جرمنی کے جملہ طلبہ اور اساتذہ کرام ایک لمبی قطار میں کھڑے تھے۔ حضورِانور نے ازراہِ شفقت ہر ایک کو فردا ًفرداً ملاقات کا شرف بخشا۔ جس کے بعد حضور مسجدبیت السبوح کے لیے روانہ ہو گئے۔
ایک اتفاقی بھول
اس شام حضورِانور کی موجودگی میں مسجد بیت السبوح جرمنی میں نکاحوں کی تقریب کا انعقاد ہوا۔ یہ اعلانات ِنکاح جرمنی کے مشنری انچارج مکرم حیدر علی ظفر صاحب نے کیے۔ مکرم مشنری انچارج صاحب کو نکاحوں کی ایک لمبی فہرست سے جلدی سے گزرنا تھا، تاہم ایک موقع پر ایسا معلوم ہوا کہ وہ کچھ زیادہ ہی جلدی میں تھے۔ میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ انہوں نے ایک اعلان ِنکاح مکمل کیا اور اگلے نکاح کا اعلان شروع کر دیا اور اس دوران ایک اہم بات بھول گئےجس کاحضورِانور نے نوٹس لیا اور فرمایا کہ امام صاحب! آپ لڑکے سے ایجاب و قبول کرنا بھول گئے ہیں۔
حضورِانور کے اس تبصرے سے ہر کوئی خوب محظوظ ہوا۔یہ جاننے پر کہ مشنری انچارج صاحب اتفاقی طور پر لڑکے سے ایجاب و قبول کرنا بھول گئے تھےحضورِانور نے تبسم کرتے ہوئے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ امام صاحب نے خود ہی اس کے ایجاب و قبول کا فیصلہ کر لیا ہے۔
(مترجم:’ابو سلطان‘ معاونت:مظفرہ ثروت)