حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

جلسے کا ایک بہت بڑا مقصد تعلق باللہ پیدا کرنا ہے

جلسہ سالانہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کو لے کر آیا اور اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل اور برکات بانٹتا ہوا چلا گیا۔ کئی لوگوں نے خطوط میں اور زبانی بھی اظہار کیا کہ ایک عجیب روحانی کیفیت تھی جوہم اپنے اندر محسوس کرتے رہے۔ خدا کرے کہ یہ روحانی کیفیت عارضی نہ ہو بلکہ ہمیشہ رہنے والی اور دائمی ہو۔ ہم ہمیشہ اس کوشش میں رہیں کہ اللہ تعالیٰ کے جن فضلوں کو ہم نے سمیٹا ہے ان کو اپنی زندگی پر لاگو بھی کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں ان پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرتے رہیں۔ مقررین کی باتیں ان مقررین کی طرح نہ ہوں جن کے جوشیلے خطابات کا صرف وقتی اثر تو ہوتا ہے لیکن مجلس سے اٹھتے ہی وہ اثر زائل ہو جاتا ہے۔ یہی دنیا اور اس کے دھندوں میں انسان کھویا جاتا ہے۔ ترقی کرنے والی اور انقلاب پیدا کرنے کا دعویٰ کرنے والی قوموں کے یہ طریق نہیں ہوا کرتے۔ وہ جب ایک کام کرنے کا عزم لے کر اٹھتی ہیں تو پھر اس کو انتہا تک پہنچانے کی بھی کوشش کرتی ہیں۔(خطبہ جمعہ فرمودہ۶؍اگست ۲۰۰۴ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۰؍اگست۲۰۰۴ء)

جلسے کا ایک بہت بڑا مقصد تعلق باللہ پیدا کرنا ہے۔ اس لئے جلسے میں شامل ہونے والوں کے لئے یہ بھی ضروری ہے، کارکنان بھی اور مہمان بھی ہمیشہ یاد رکھیں کہ اس تعلق کو پیدا کرنے کے لئے اپنی نمازوں اور نوافل کی طرف بہت توجہ دیں، دعاؤں کی طرف بہت توجہ دیں کہ انہی میں ہمارے مسائل کا حل ہے۔ صحابہؓ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس بارے میں کیا نمونے ہوتے تھے، کس طرح ذوق و شوق سے وہ نمازیں ادا کیا کرتے تھے اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ حضرت عطا محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولدنتھے خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے کی یہ ایک برکت تھی کہ باوجودیکہ میں بچہ تھا لیکن نمازمیں کھڑے ہوتے ہی رقت طاری ہو جاتی اور آنسو بندنہ ہوتے تھے کہ سلام پِھر جاتا اور نماز ختم ہو جاتی۔ غرض اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی اللہ، جری اللہ فی حلل الانبیاء کی زیارت کا موقع بخشا۔ یہ ایک فضل عظیم ہے جو اس نے مجھ پر کیا۔ ورنہ میں نے اپنے نانا جان کو ترستے اور روتے سُنا تھا کہ نہ معلوم کہ مہدی علیہ السلام کا زمانہ کب آئے گا؟ اس نے ہم پر فضل کیا، ہمیں اُس کی زیارت کا شرف بخشا۔ الحمدللہ رب العالمین۔ اور حضورکے ہزاروں نشان دیکھے جس سے حضور کی نبوت ثابت ہوتی ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ حضور اللہ تعالیٰ کے نبی تھے۔ (رجسٹرروایات صحابہ جلدنمبر5صفحہ167غیر مطبوعہ)

پس ہم وہ لوگ ہیں جن کو گو آپؑ کی زیارت کا شرف تو حاصل نہیں ہوا لیکن آپ کے دعاوی پر ایمان لانے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی۔ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو پورا کرنے والے بنے۔ پس اپنی نمازوں اور نوافل میں بھی ہمیں خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوتے ہوئے اِن دنوں میں نمازوں اور نوافل میں سوزوگداز پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مسیح موعود کو ماننے والا بنایا، اس کی توفیق عطا فرمائی اور پھر آج کل کا دور جو ہے جس میں مخالفینِ احمدیت اپنی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں، انفرادی اور اجتماعی دعائیں اور خدا تعالیٰ سے تعلق ہی ہے جو اِن کا توڑ ہے اور اس طرف آج کل بہت زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۲؍جولائی ۲۰۱۱ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۲؍اگست ۲۰۱۱ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button