یہ جلسہ ہمارا یہ دن برکتوں کے
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جب کسی جگہ خداتعالیٰ اور اُس کے نبیٔ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بابرکت ذکر کی محفل کا انعقاد ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس محفل کو اپنے پروں تلے ڈھانپ لیتے ہیں۔ اور اس محفل میں شامل ہونے والے تمام لوگ اللہ کی برکتوں سے حصّہ پاتے ہیں یہاں تک کہ اس میں اتفاقاً شامل ہونے والا بھی برکت سے فیض پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے جماعت احمدیہ کو ایسی پاکیزہ اور بابرکت مجالس کے انعقاد کی توفیق ملتی رہتی ہے۔ اس میں سے ایک مجلس جلسہ سالانہ کی ہے جو کہ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت اور جماعت کی روز فزاں ترقی کا ثبوت ہے۔
1891ء میں خدا تعالیٰ کے اذن سے اس بابرکت جلسہ کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رکھی۔ قادیان کی گمنام بستی میں منعقد ہونے والے اس ایک روزہ جلسے میں شامل ہونے والے مخلصین کی تعداد 75؍تھی۔ سال بہ سال ترقی کرتے ہوئے آج اس میں شامل ہونے والے عشاق کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا بھر کی قومیں اپنے اپنے علاقہ میں جلسہ کی برکات سے فیض یاب ہو رہی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کہ مطابق ہر قوم بِلا امتیاز رنگ ونسل اس چشمہ سے سیراب ہو رہی ہیں۔چنانچہ جہاں ان جلسوں کا انعقاد ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی طرف متوجہ کرتا ہے وہاں بحیثیت فرد جماعت ہمیں اپنے جائزے لینے کی بھی ضرورت ہے کہ کیا ہم اس جلسہ کے انعقاد سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو اغراض اور اعلیٰ مقاصد تھے ان سے بھر پور فائدہ اُ ٹھا رہے ہیں یا نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فر ماتے ہیں کہ ’’اس جلسہ سے مدعا اور اصل مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلی جھک جائیں اور ان کے اندر خداتعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زُہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیزگاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور اِنکسار اور تواضع اور راستبازی ان میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں۔‘‘(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد۶صفحہ۳۹۴)
آج کل جلسہ کی آ مد آ مد ہے اکثر ملکوں میں جلسہ ہائے سالانہ ہو چکے ہیں یا ایک دو ہفتوں میں منعقد کیے جانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور تما م تر انتظامات ہو رہے ہیں۔ جلسہ سالانہ کی مقررہ تاریخوں کو مدّنظر رکھتے ہوئے شعبہ جات کی میٹنگز شروع ہو جاتی ہیں۔ پیس کانفرنس اور اجتماعات اور سب سے بڑھ کر ہمارا سالانہ جلسہ بہت اہمیت رکھتا ہے اس کے اغراض اور مقاصد حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور تمام خلفاء نے بکثرت بتا دیے ہیں ہر جلسہ کے موقع پر بھی دہرائے جاتے ہیں۔
خواتین کو اس طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت امیر المومنین اید ہ اللہ تعالیٰ فر ماتے ہیں کہ’’سب سے پہلی بات تو یہ یاد رکھیں کہ آپ اپنی دینی ، علمی اور روحانی ترقی کے لئے جلسے پر آ ئی ہیں۔ اور یہی مقصد لے کر یہاں آپ بیٹھی ہیں اور بیٹھنا چاہئے۔ اس لیے یہاں جلسے کے پروگراموں کو پوری توجہ سے سُنیں۔ یہ نہ ہو کہ ٹولیاں بنا کر بیٹھی گپیں مارتی رہیں۔ اپنے کپڑوں اور زیوروں کا ذکر کر رہی ہوں۔ وہی ذکر زیادہ چلتا رہے۔ سال میں تین سو پیسنٹھ دن ہو تے ہیں۔ اگر دین سیکھنے کی خاطر اجتماع اور جلسے کے دن ملا کر کل پانچ دن یا چھ دن بھی آپ دین سیکھنے کے لئے نہیں دے سکتیں، اپنے آ پ کو دنیا کے کاموں سے کلیۃً علیحدہ نہیں کر سکتیں تو اپنے روحانی معیار اُونچے کرنے کی کوشش کرنے والی کس طرح کہلا سکتی ہیں۔ اور جب آپ لوگ پوری توجہ سے جلسے کے پروگرام نہیں سُنیں گے تو لا شعوری طور پر بچوں پر بھی اس کا اثر پڑ رہا ہوگا کہ جلسہ بھی ایک طرح کا میلہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس سوچ کو بڑی سختی سے ردّ فر مایا ہے۔‘‘( الفضل انٹرنیشنل 2؍دسمبر 2016ء لجنہ اماءاللہ جرمنی سے خطاب صفحہ 4)
کتنی اچھی اور پیاری باتیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء بار بار ہمیں بتاتے ہیں اور دہراتے چلے جاتے ہیں تو ہمیں اس کو غور سے سُن کر پڑھ کر اور سمجھ کر عمل کرنا چاہیے۔ اس جلسہ کو جس کے لیے ہم سال بھر انتظار کرتے ہیں کہ حضور کےعظیم الشان علمی اور روحانی خطاب سُنیں گے اپنے دور دراز سے آنے والے عزیز و اقارب کو ملیں گے بعض کو کئی کئی سالوں کے بعد ملیں گے جو بے انتہا خرچ کر کے یہاں لندن جلسہ پر آئیں گے کیونکہ جہاں خلیفۂ وقت ہوتا ہے وہی عالمگیر جلسہ کہلاتا ہے۔اور مہمانوں کے آنے والوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے ماشاء اللہ۔ اور اب جب کہ ہم ہر سال اس موقع پہ عالمی بیعت کے روحانی نظارہ سے بھی ایک تجدید عہد کرتے ہیں جو ہمارے ایمان کو تقویت دیتا ہے اور ایک ایمان افروز نظارہ ہوتا ہے کس طرح قطار در قطار تمام احباب لائنوں میں بیٹھے کئی زبانوں میں اپنی اپنی آواز میں الفاظ دہراتے ہیں۔ یہ نظار ہ روحانی نظارہ ہوتا ہے کہ صرف دیکھنے اور اس میں شامل ہونے سے ہی دل کو جو تقویت اور ایمان میں جو تازگی آتی ہے وہی جانتا ہے جو اس میں شامل ہوتا ہے۔گویا ایک نئی حیات ایمانی پا کر نکلتا ہے اس لیے میں با اصرار سب قارئین سے کہوں گی کہ آپ اس آنے والے جلسہ میں ضرور شامل ہو ں۔ چند دنوں کی تکلیف اوراخراجات برداشت کر لیں اور اس کے بدلہ میں آپ کو ایک نئی روحانی زندگی مل جائے تو کیا ہرج ہے آ ئندہ سال آپ کا پھر دل چاہے گا ہم جلسہ سالانہ پر جائیں اور وہی روحانی مائدہ حاصل کریں۔ آپ کے بچے بھی آپ کو کہیں گے اُ می ابو ہم کسی اَور holidayکا مطالبہ نہیں کریں گے ہمیں صرف جلسہ پر لے جائیں۔
اب میں کچھ آپ کو اپنی زندگی کے جلسے جو دیکھے اور سُنےہیں اُن کا آنکھوں دیکھا حال جہاں تک مجھے یاد ہے اپنی یادداشت کو واپس لا کر آپ سب کے ساتھ شیئر کرنا چاہتی ہوں۔
تبدیلیاں تو ہر انسان کی زندگی میں ہوتی رہتی ہیں یقیناً آپ کی زندگی میں بھی ضرور خوبصورت تبدیلیاں آئی ہوں گی جیسے کہ میری زندگی میں آئی ہیں۔ ربوہ کے جلسہ سالانہ سے شروع کرتی ہوں جب کہ میں خود بھی چھوٹی سی بچی تھی ہم کچے مکانوں میں رہتے تھے۔ سال کے شروع ہوتے ہی ہمیں اپنے رشتہ داروں کا جو ربوہ سے باہر کے شہروں میں آبادتھے جلسے پر آنے کا انتظار شروع ہو جاتا تھا۔ دسمبر کی 28۔27۔26 تاریخ جلسہ کے لیے مقرر ہوتی تھی جو کہ شدید سردیوں کا موسم ہوتا اور سردی اپنے جوبن پر ہوتی۔ سکولوں میں بھی چھٹیاں ہوجاتی تھیں۔ مہمانوں کی آمد ایک ہفتہ قبل سے شروع ہو جاتی اور ایک ہفتہ بعد تک مہمان داری رہتی تھی۔ ہماری اُ می جان مہمانوں کی خاطر اپنے گھر کو مہمان خانہ کی شکل میں بدلنے کے لیے تیاری شروع کر دیتیں۔ کمروں کی صفائی سفیدی پینٹ۔کرسیوں کو صاف کیا جاتا گھر میں جہاں مرمت کی ضرورت ہوتی وہ کروائی جاتی یا خود بھی کر لیتیں۔ بستروں کی چادریں اور کھڑکیوں کے پردے دھوبی کو دیے جاتے خود بھی محنت کرتیں اور اپنے ہاتھوں سے دھوتیں۔سردی کے بچاؤ کے لیے رضائیاں تیار کی جاتیں۔ وہ زمانہ ہیٹروں کا نہیں تھا اس لیے اپنے ہاتھ سے مٹی کی چھوٹی چھوٹی انگیٹھیاں بنا کر تیار رکھتیں۔کوئلوں کی بوری منگوالیتیں تا کہ مہمانوں کو سردی سے بچایا جا سکے۔ وہ زمانہ گیزر ز کا بھی نہیں تھا اس لیے اُ می جان علی الصبح اُٹھ کرسب سے پہلے لوہے کی انگیٹھی جو تھوڑی بڑی تھی اُس کو جلاکر بڑا دیگچہ پانی کا بھر کر گرم ہونے کے لیے لگا کر مہمانوں کے وضو اور سہولت کے لیے انتظام کر دیتیں۔ ہم بچوں کی ڈیوٹیاں تھیں کہ جب جب دیگچے میں پانی کم ہو ہم اُس کو بھرتے رہیں۔ سچ پوچھیں تو ہمیں یہ کام کرنا اتنا اچھا لگتا تھا اور سکون ملتا تھا جس کو بیان نہیں کر سکتی۔ ساتھ ہی ناشتے اور چائے کے لیے بھی دیگچہ چولہے پر چڑھا ہوتا تھا۔ چائے نکالنے کے لیے ایک مگ ڈھکن پر رکھا ہوتا تھا ہر مہمان خود ہی اپنے مگ بھر لیتا اور ٹوکرے سے جتناجس کا جی چاہتا رس لے کر پیچھے ہٹ جاتا۔اس طرح ہمارا گھر والے بڑی تنظیم کے ساتھ مہمان نوازی نبھاتے ہوئے خوشی خوشی جلسہ پر جانے کے لیے اپنے اپنے بیجیز لگا کر اوپر موٹی سی چادر لے کر ڈیوٹی دینے چل پڑتے تھے۔
اُس وقت اوور کوٹ کا زمانہ نہیں تھا۔ ڈیوٹی دینے کا اتنا شوق ہوتا تھا کہ کبھی کبھار تو ناشتہ کرنا بھی بھول جاتے تھے لیکن یہ بہت ضروری ہوتا کہ جانے سے پہلے اپنی اُ می جان کو بتا کر جاتی کہ میں جلسہ پر جا رہی ہوں۔ کبھی کبھی اُمی جان پوچھ بھی لیتیں کہ جلدی کیوں جا رہی ہو گھر میں میری کچھ مدد کر کے جائیں تو میں معذرت کرتی اور کہتی کہ میری آپا آچھی امۃ اللہ خورشید صاحبہ مدیرہ مصباح نے کہا ہےکہ جلدی آ کر دفتر سے مصباح لے کر جانا اور پانی کی ڈیوٹی کرتے وقت تم تھیلا دوسرے کندھے پر ڈال کر مصباح بھی فروخت کرتی جانا اور شام کو مجھے حساب دے دیا کرنا۔ تھیلے سے ایک مصباح ہاتھ میں پکڑے رکھتی اور ساتھ مہمانوں کو پانی پلانے کی ڈیوٹی بھی دیتی اور اس ڈیوٹی دینے میں کتنا مزا آتا تھا۔ پانی پلانے کے لیے ایک ہاتھ میں در میانے سائز کی بالٹی سٹینڈ سے بھر کر لانا اُس کے اندر آب خورہ ( جو مٹی کا بنا ہوا گملا نما گلاس ) جو ہر ڈیوٹی دینے والے کو دیا جاتا تھا۔ ایک ہی گلاس کو بالٹی سے بھر کر یعنی ڈبو کر پانی پلاتے تھے۔
اب آپ آج کل کی ترقی یافتہ ڈیوٹیوں کے سسٹم کے مطابق کتابوں اور رسالوں کے لیے بُک شاپ پر جائیں اور جو بھی اپنی پسند کی ضرورت کی کتاب چاہیے آپ لے سکتے ہیں۔ ہے نا کمال کی سہولت اور پھر پانی کی سہولت دیکھیے کہ بوتلوں میں پانی اُ ٹھایئے اور Disposable گلاس لیجیے۔ اب ہمارے جلسوں میں ننّھی مُنی پیاری پیاری بچیاں آپ کے پاس آ کر پانی پلاتی ہیں تو اپنا گزرا سادہ سہانا بچپن یاد آ جاتا ہے۔ کیا خو بصورت زمانہ تھا۔ سب کارکنان کو دل سے دعا دیتی ہوں اسی طرح خاموش کروانے والی بہنوں کے ہاتھوںمیں پوسٹر دیکھ کر بہنیں خود ہی خاموش ہو جاتی ہیں اور تسبیح کرنے لگ جاتی ہیں۔
پھر ربوہ کی یادوں کی طرف آتی ہوں جلسہ کے دنوں میں ہمارے گھر کے تمام کمرے خالی کر دیے جاتے اور اُن میں کسیر( سوکھی گاس) منگوا کر ڈال دی جاتی وہ ایسے سمجھ لیں جیسے موٹے موٹے گدیلے بن جاتے اُن پر چادریں بچھا کر کوئلوں سے سلگتی ہوئی انگیٹھیاں لے کر رات کو سب مل کر بیٹھتے اور خوب گپ شپ ہوتی ساتھ میں ہماری اُمی جان کا مہمانداری کے لیے منگوایا ہوا ڈرائی فروٹ میوہ، بادام ،اخروٹ ،مونگ پھلی یہ سب مل کر ہم کھاتے یہ سب ہماری خوشیوں کو دُوبالا کردیا کرتے۔
ہمارے گھر میں ہمیں یہ سمجھایا جاتا تھا کہ جلسے کے تمام پروگرام تقاریر پوری توجہ سے سننی ہیں اس لیے ہم وقت پر صبح سویرے اُٹھ کر جب کہ میں آخر میں رات کو سب کو گرم قہوہ یا چائے کافی پِلا کر کچن وغیرہ کا دروازہ بند کرکے فرش پر معمولی گدیلا بچھا کر کشن رکھ کر سوتی تھی۔ چونکہ کچن میں چولہا جو لکڑیوں سے جلتا تھا اس لیے ہمارا کچن کافی رات تک گرم رہتا تھا جس سے بہت مزے کی نیند آتی تھی۔علیٰ الصبح اذان کی آواز جو مسجد مبارک میں لاؤڈ سپیکر پرہوتی ہمیں بیدار کرتی۔ میں کچن کو دوبارہ سے گرم پانی مہیا کرنے کے لیے تیار کرتی تھی۔ یہاں میں یہ بتاتی چلوں کہ چونکہ اپنی اُ می جان کی بڑی بیٹی ہونے کے ناطے اُن کا دایاں بازو بن کر بھاگم بھاگ کام کیا کرتی تھی اس لیے سب مجھے پیار بھی بہت کرتے تھے اور خیال بھی رکھتے تھے۔
صبح ہی جلدی جلدی تیار ہو کر جلسے کی ڈیوٹیوں کے لیے نکلتے۔کار یا تانگہ تو اُن دنوں ہوتے نہیں تھے پیدل ہی جاتے۔ راستہ بھر بھائیوں کو دیکھتے کہ لنگر سے بالٹیوں میں گرما گرم دُھواں نکلتا ہوا سالن دوسرے ہاتھ میں دستر خوان میں لپٹی ہوئی تازہ بتازہ روٹیاں ہوتیں یہ نظارے ہمیشہ یادوں میں رہتے ہیں۔ صبح کو اکثر لوگ گھر سے کھانا کھا کر ہی جلسہ گاہ پہنچتے تھے۔ لیکن ہمارے اُ وپر والدین کی طرف سے یہ ذمہ داری بھی تھی کہ ڈیوٹیوں کے ساتھ ساتھ توجہ سے تقاریر بھی سُننی ضروری ہیں کیونکہ کسی وقت بھی ہماری اُمی جان یا ابا جان ہمارا امتحان لے سکتے ہیں کہ آج کیا تقریر ہوئی تھی۔ کچھ باتیں یاد رہتیں اور کچھ نہ بھی رہتیں لیڈیز کی تقاریر بہت غور سے سُنی جاتیں جن میں سے کچھ آج بھی یاد ہیں۔ مثلاً حضرت مہر آپا جان ، چھوٹی آپا اُم متین صاحبہ۔ خالہ نصیرہ نزہت صاحبہ وغیرہ کی تقاریر بہت لطف اندوز ہوتیں۔ ماشاء اللہ بڑا معیاری اور خوبصورت اندازہوا کرتا تھا۔
یہ تو میرے بچپن کے زمانے کے جلسوں کی یادیں ہیں جو ہم نے ربوہ میں دیکھے اور اُن سے فیض پایا۔ الحمد للہ۔
جو اب ہمارے جلسے ہیں وہ بھی کسی لحاظ سے کم نہیں بلکہ روز بروز خدا تعالیٰ کے فضل سے برکتوں اور رحمتوں سے بھر پور ہیں جن سے ہم بہت کچھ سیکھ پاتے ہیں جن کا انتظارسال بھر رہتا ہے۔ اب تو 75 افراد کی تعداد سے بڑھ کر ہزار وںتک پہنچ گئی ہے اور مزید جو دورانِ جلسہ بیعتوں کا عالمی ماحول دیکھنے کو ملتا ہے یہ بھی ہماری روح کو زندہ وتابندہ کر دیتا ہے ہم بہت خوش قسمت ہیں۔ الحمد للہ۔
ربوہ میں ایک جلسہ پر جب میری آچھی آپا مرحومہ مدیرہ مصباح تھیں اُن کی مستورات کے جلسہ میں تقریر تھی جو بہت پسند کی گئی جب کہ میں اُس وقت ڈیوٹی پر تھی تقریرختم کرنے پر جب وہ سٹیج سے نیچے اُ تریں تو میں نے بھاگ کر اُ نہیں اپنے گلے لگا کر مبارک باد دی تو وہ بہت خوش ہوئیں ساتھ ہی مجھے کہا جائیں اپنی ڈیوٹی دیں گھر آ کر پھر جتنا جی چاہیے ملنا۔
اسی طرح جب حضرت ابا جان( مولانا ابو العطاء جالندھری مرحوم) کی تقریر ہوتی تھی تو مہمانوں سمیت ہم سب مل کر گھر واپس آ کر اباجان کو مبارک باد دیتے اور چائے پیتے اور اباجان دعا کرواتے۔ مجھے اپنی پیاری یادوں میں یہ بھی اچھی طرح سے یاد ہے جب کہ بھرے جلسہ سالانہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے حضرت اباجان مولانا شمس صاحبؓ اور مولانا عبد الرحمنٰ خادم صاحب کو خالدِ احمدیت کے خطاب سے نوازا۔ تو چونکہ میں اتنی سمجھ نہیں رکھتی تھی نہیں جانتی تھی کہ اتنی بڑی خوشی کی کیا بات ہو سکتی ہے لیکن جب میں گھر آئی تو کیا دیکھتی ہوں میری بڑی بہن آچھی آپا اباجان کے گلے لگی ہوئی ہیں رو رہی ہیں اور بار بار اُن کو مبارک باد دیتی جا رہی ہیں اس پر پھر مجھے سمجھ آئی کہ یہ کتنی بڑی اور مبارک بات ہوئی ہے۔ الحمد للہ ثم الحمد للہ۔
میری شادی جامعہ نصرت میں تھوڑا عرصہ پڑھنے کے بعد ہی ہو گئی تھی۔ اور میں شادی کے فوراً بعد ایسٹ افریقہ چلی گئی اور جاتے ہوئے وہی اپنے بچپن کی ساری یادیں بھی ساتھ ہی لے گئی۔ میرے شوہر کی سر کاری ملازمت تھی اور جب بھی اُ نہیں رُخصت ملتی ہم ربوہ ضرور جاتے کبھی تو جلسہ دیکھ پاتے اور کبھی ویسے ہی واپس آ نا پڑتا یعنی ہمارا بھی وہی حال ہوگیا تھا جیسے لندن سے باہرمختلف ممالک میں رہنے والوں کا حال ہے۔ سال بھر چھٹی جمع کرتے ہیں اپنی پونجی بچا بچا کر جمع کرتے ہیں اور تیاری کر کے چند دنوں کے لیے یہاں اپنے اپنے ٹینٹ لگا کر یا ہوٹل بُک کروا کر یا کچھ لوگ اپنے عزیزوں کو پہلے سے اطلاع کر دیتے ہیں کہ ہم آپ کے پاس ٹھہریں گے۔ اور میزبان بھی بہت مہربان ہوتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ جگہ جگہ ہوٹل بُک نہیں بلکہ ریزرو کروا لیے جاتے ہیں جو حدیقۃ المہدی کے قریب قریب ہوں اور نسبتاً کم قیمت پر مل سکیں یہ سب وقت سے بہت پہلے کروانا پڑتا ہے۔
ہماری جماعت کی طرف سے بھی انتظامات کیے جاتے ہیں۔ مسجد بیت الفتوح کے ارد گرد رہائش اختیار کرنے والوں کے لیے جماعت کوچز کا بہت بہترین انتظام کرتی ہے۔ ہمارے خدام اور اطفال جو ڈیوٹیوں پر ہوتے ہیں ۔آپ کو ویلکم کرتے ہیں سیٹوں پر بٹھاتے ہیں پیاری پیاری نظمیں اور ترانے لگا کر دعاؤں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے قطار در قطار بسیں حدیقۃ المہدی بر وقت پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ خیال رکھا جاتا ہے کہ راستہ بھر آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو بچے تو اکثر سو کر سفر طے کر لیتے ہیں۔اسی طرح واپسی پر ہمارے چاک وچوبند خدام کھانے کے پیک کنٹینر لوگوں کو دیتے ہیں بچوں کو چاکلیٹ اور سویٹ وغیر ہ سے خوش کرتے ہیں۔ یہ سب بہت ہی مزے دار اور جذبوں سے بھر پور سفر ہوتا ہےجس کی مٹھاس ہمیشہ قائم رہتی ہے۔
ہمارے جلسوں کا ماحول اپنے ساتھ بہت برکتیں رکھتا ہے۔ سب پیار اور محبت اور خوشیاں لے کر گھروں کو لوٹتے ہیں۔ اُن کو گھر جیسی سہولت اور آرام نہ بھی مل رہا ہو پھر بھی خوش ہوتے ہیں کہ آپ نے مہمان نوازی کا حق ادا کر دیا۔ ہم بھی اپنے مہمانوں سے بہت خوش ہوتے ہیں کہ سال بھر انتظار کے بعد ملاقات ہوتی ہے اور مہمانوں کے ساتھ گزارا ہوا وقت ہمیشہ یاد رہتا ہے۔
ہمیں ہمارے جلسہ کے لیے بہت کوشش کر کے دعائیں کرتے ہوئے اپنے مہمانوں کی سہولت کے لیے کماحقہ کو شش کرنی چاہیے صفائی کو سب سے مقدم رکھ کر منظم طریقے سے تمام کارکنان کی عزت اور فر مانبرداری سے اپنی اپنی مقررہ ڈیویٹیوں کو ادا کرنا چاہیے۔ پیارے آقا کے لیے خاص طور پر دعا کریں کہ اللہ تعالی صحت مند رکھے اور جلسہ کی تقاریر ، ملاقاتیں اور پیغامات پوری ہمت اور سہولت سے نبھانے کی توفیق عطا فر مائے کوئی تکلیف یا کارکنان سے اور افردِ جماعت سے کوئی شکایت نہ ہو۔ تعاون کریں اور پیار محبت سے مسکراتے چہروں سے ہمت سے اللہ تعالیٰ سب کو ڈیوٹیاں نبھانے کی توفیق دے اور ہمیشہ کی طرح جلسہ بہت ہی کامیاب و بابرکت ہو۔ آ مین۔
اِس تحریر کو اس شعر پر دعاؤں کا تحفہ دیتے ہوئے ختم کرتی ہوں۔
یہ جلسہ ہمارا یہ دن برکتوں کے
خدا کی عنایات اور شفقتوں اور برکتوں کے
آ مین اللھم آ مین
آپ جلسہ پر ضرور تشریف لائیں اور جلسہ کی رونق بھی بڑھائیں اور اس بابرکت جلسہ سے مستفید بھی ہوں پیارے آقا کی زیارت بھی کریں۔ یاد رہے کہ دعائیں ہر لمحہ کرتے رہیں اور درود شریف پڑھنا بھی نہ بھولیں۔
آ ئیں اور روحانیت اور برکتوں سے جھولیاں بھر بھر کر لوٹیں۔
٭…٭…٭